خط سے متعلق معاملات بڑی حد تک حل ہوگئے سپریم کورٹ حکومت کو مزید 5دن کی مہلت

حکومت نے خط کامسودہ پیش کردیا،تیسرا پیراگراف ٹھیک کیاجائے،حل سے چند انچ دورہیں، اس لیے مہلت دی جاتی ہے

اعتراضات سے پاک مسودے کی یقین دہانی نہیںکرا رہا، مشاورت کیلیے مہلت مانگ رہا ہوں، دونوں طرف لچک کا مظاہرہ ہونا چاہیے، فاروق نائیک۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے این آر او عملدرآمد کیس میں سوئس حکام کو لکھے جانے والے خط پر اعتراض کرتے ہوئے حکومت کوایک بار پھر5 روزکی مہلت دے دی ہے۔

عدالت نے کہا ہے کہ خط سے متعلق معاملات کو بڑی حد تک حل کر لیاگیاہے، حتمی حل سے چند انچ دورہیں، اس لیے مہلت دی جاتی ہے، وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک جمعے کوجسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں5 رکنی بینچ کے سامنے پیش ہوئے اور خط کا نیا مسودہ عدالت میں پیش کردیا جسے پڑھنے کے بعد عدالت نے کہا کہ مسودے کے پہلے دونوں پیراگراف ٹھیک ہیں تاہم تیسرے پیراگراف میں جوکچھ لکھا گیاہے وہ پہلے دونوں پیرا گراف کی نفی کر رہاہے، اس لیے تیسرے پیرا گراف کودرست کیاجائے۔

جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا کہ ایک طویل سفر طے کر کے یہاں پہنچے ہیں، فاروق نائیک نے کہاکہ عدالت سے استدعاہے کہ مجھے کچھ دیرکیلیے چیمبر میں سناجائے، جسٹس کھوسہ نے کہاکہ مقدمے کی کارروائی کھلی عدالت میں ہورہی ہے، اس سے درست پیغام نہیںجاتا۔ پہلے توعدالت نے اجازت نہیں دی اور کہاکہ ہم معاملے میں شفافیت چاہتے ہیں، اس لیے سماعت کھلی عدالت میں ہی ہونی چاہیے تاہم فاروق نائیک نے درخواست کی کہ یہ حکومت سے متعلق حساس معاملہ ہے، اس لیے15منٹ چیمبر میں سن لیا جائے، جسٹس آصف کھوسہ کا کہناتھا کہ معاملات حساس ہیں، کھلی بات کرنے سے کچھ خراب بھی ہوسکتاہے۔

انھوں نے ریمارکس دیے کہ عدالتی وقار برقرار رہے گا اور وفاق کے تحفظات دور ہو جائیںگے جس کے بعد ججوں نے وزیر قانون فاروق نائیک کوچیمبر میں بلا لیا جہاں وسیم سجاد بھی ان کے ساتھ گئے۔ کچھ دیرکے بعد یہ دونوں وکلاچیمبر سے اٹارنی جنرل آفس میں چلے گئے جہاں ان کے درمیان آدھا گھنٹہ میٹنگ ہوئی جس کے بعد دونوں جج چیمبرمیں چلے گئے۔ بعد ازاں سماعت دوبارہ شروع ہوئی جہاں فاروق نائیک نے کہاکہ عدالت کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات دورکرنے کے حوالے سے انھیں وزیر اعظم سے مشاورت کرنا ہوگی کیونکہ حتمی فیصلہ انھوں نے کرناہے، اس لیے کچھ مہلت دی جائے۔


عدالت نے آرڈرلکھوایا کہ وزیر قانون کو ان کی اس یقین دہانی پر مہلت دی جاتی ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر تمام اعتراضات سے پاک مسودہ پیش کر دیںگے تاہم فاروق نائیک نے کہاکہ وہ یقین دہانی نہیںکرا رہے بلکہ وزیراعظم سے مشاورت کیلیے مہلت مانگ رہے ہیں، اس پر عدالت نے آرڈر لکھوایاکہ وزیر قانون کو خط کے مسودے کے بارے میں وزیراعظم سے مشاورت کیلیے10 اکتوبر تک کی مہلت دی جاتی ہے اور سماعت ملتوی کر دی۔ بی بی سی کے مطابق وفاقی وزیر قانون نے سپریم کورٹ میں یہ دوٹوک موقف دینے سے معذوری ظاہر کی کہ صدر زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے کیلیے سوئس حکام کو لکھا جانے والا خط این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے سے مطابقت رکھے گا۔ آئی این پی نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے خط کے مسودے پر نظرثانی کیلیے10 اکتوبر تک کی مہلت دے دی تاہم قراردیا ہے کہ خط سے متعلق معاملات کو کافی حد تک حل کر لیا گیا ہے۔

بعدازاں میڈیا سے گفتگو میں فاروق نائیک نے کہا کہ حکومت خط کے معاملے پر لچک کامظاہرہ کر رہی ہے، چاہتے ہیں معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو۔حکومت کی سوچ ہے نظام چلتارہے۔ وقت آ گیاہے ملک کیلیے ہر چیز سے بالاتر ہوکر اٹھ کھڑے ہوں۔ انھوں نے کہا کہ ترمیم شدہ مسودے کے حوالے سے عدالت کو اعتراض تھا کہ اس کا تیسرا پیرا گراف عدالتی فیصلے کے پیرا 178سے مطابقت نہیں رکھتا۔ عدالت کے کچھ تحفظات تھے اور کچھ ہمارے تحفظات تھے۔ این این آئی کے مطابق فاروق نائیک نے کہا کہ حکومت کی طرف سے سوئس حکام کو لکھے جانے والے خط کے مجوزہ متن پر جج صاحبان کو کچھ تحفظات ہیں تاہم وہ ان تحفظات پر اس لیے روشنی نہیں ڈالنا چاہتے کیونکہ وہ خوش اسلوبی سے مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔

خط کے متن کا حتمی فیصلہ ہوناباقی ہے۔جو بھی فیصلہ کریں گے وہ جمہوریت اور اداروں کو مدنظر رکھ کر کریں گے، جمہوریت کو پٹڑی سے نہیں اترنے دیں گے۔ انھوں نے کہاکہ عدالت کوکوئی یقین دہانی نہیں کرائی۔ دونوں طرف سے لچک کا مظاہرہ ہونا چاہیے۔ توہین عدالت کیس کا جمہوریت سے تعلق ہے۔ جمہوریت کو لانے کیلیے ہماری قائد نے اپنا خون دیا اور صدر زرداری بارہ سال قید میں رہے۔ آن لائن کے مطابق وزیرقانون نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل248کی شق نمبر2 کے تحت آصف زرداری جب تک صدر ہیں انھیں استثنٰی حاصل ہے اور وہ کسی بھی فوجداری مقدمے میں پیش نہیں ہوسکتے۔

کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا تعلق ملک کی سالمیت اور خود مختاری سے ہوتاہے اور انھیں کھلی عدالت میں نہیں پیش کیا جا سکتا، اس لیے ہم نے عدالت سے درخواست کی کہ ہمیں چیمبر میں سناجائے جس کو عدالت نے منظور کیا، دونوں طرف سے لچک کا مظاہرہ کیا گیا، ان کاکہنا تھا کہ میں نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسئلہ خوش اسلوبی کے ساتھ حل ہونا چاہیے۔
Load Next Story