پولیوکا شکار حلیماں نے معذوری کوطاقت بنالیا
ایک سال کی عمرمیں موذی مرض میں مبتلاہونے والی بچی نے مشکلات کے باوجودتعلیم حاصل کی
تھرپارکر میں سائیں کی سرکارکی جانب سے سب اچھا ہے کی رپورٹ کے باوجودوہاں بھوک، غربت، خشک سالی، قحط اورغذائی قلت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اموات جاری ہیں، ادارے تباہ اورافسران خوش حال ہیں جس پر ایکسپریس کی بھرپور نظرہے تاہم تھرپارکر میں ایسے باہمت افرادکی بھی کمی نہیں جن سے ملاجائے توان سے پیار ہوجاتا ہے۔
مٹھی سے 140 کلومیٹر دورتحصیل چھاچھروکے گوٹھ کمرہاڑ کی25سالہ حلیماں بھیل کاشمار تھرکے ایسے ہی باسیوں میں ہوتاہے۔ ان کی خدمات سن کرلوگ بے ساختہ انھیں سلام کرتے ہیں۔ حلیماں ایک سال کی عمرمیں پولیوکا شکار ہوئی تھیں۔ جہاں حلیماں کاگھر ہے وہاں 25سال پہلے روڈتھا نہ آج ہے۔ ہرطرف ریت ہی ریت ہے چنانچہ سرکاری ٹیمیں اس علاقے کارخ نہیں کرتیں۔ گھرکا گزر بسر مویشوں کوپالنے اور خریدوفروخت پرہوتا ہے۔ حلیماں کے 6 بھائی، 5بہنیں ہیں جو محنت مزدوری کرکے اپنااور اپنے بچوں کے پیٹ پالتے ہیں۔
حلیماں پولیوکی وجہ سے اپنے دونوں پیروں سے محروم ہوگئی تھی جس کی وجہ سے وہ لیٹ لیٹ کراپنا سفرکرتی۔ پڑھائی میں اس کی لگن دیکھ کرگھر والے اسے گدھے پربٹھا کربھائیوں کے ساتھ گاؤں سے 3کلومیٹر دورواقع مڈل اسکول میں پڑھنے بھیجتے۔ میڑک اس نے حیدرآباد سے کیا اورپھر ان ڈاکٹرز کے برعکس جوتھرپارکر کے ڈومیسائل پرکم مارکس حاصل کرنے کے باوجودکوٹے پر میڈیکل کالجزمیں داخلہ لیتے اورپھر وہیں کے کوٹے پرمحکمہ صحت میں نوکریاں حاصل کرکے کراچی یاحیدرآباد منتقل ہوجاتے ہیں، حلیماں نے واپس اپنے گاؤں آکر ایک درخت کے نیچے اسکول شروع کیا۔ بھائیوں نے درخت کے نیچے جھونپڑا بنادیا جوتیز ہواؤں نے گرا دیا۔ گاؤں والوں نے ذرافاصلے پربنے مہمان خانے کوحیلماں کے حوالے کردیا جہاں وہ اب30 بچیوں اور 40لڑکوں کواپنی مددآپ کے تحت مفت پڑھارہی ہے۔ حلیماں کی کوئی تنخواہ ہے نہ انکریمنٹ۔ اسے خوشی اس بات کی ہے کہ علاقے میں تعلیم کے چراغ جل اٹھے ہیں۔
یہ اسکول سائیں کی سرکارکے کھاتے میںنہیں ہے شایداسی لیے چل رہاہے۔ تھرپارکراور سندھ کے دیگراضلاع پرنظر ڈالی جائے توہزاروں سرکاری اسکول بندپڑے ہیں جہاں باضابطہ طورپر ٹیچرز بھی ہیں، سامان بھی ہے لیکن بچے نہیں۔ اسکول بندہے اورعملہ گھربیٹھے تنخواہ لے رہاہے۔ حلیماں کہتی ہے کہ آج تک کوئی بھی اس کی مددکو نہیں آیا۔ ایکسپریس اخبارواحد میڈیاہے جواس تک پہنچا ہے۔
شایدایکسپریس کے ذریعے حکومت، اس کے گاؤںمیں اسکول کی عمارت بنوادے تاکہ وہ اپنامشن بہترطریقے سے انجام دے سکے۔ حلیماں کی وطن سے محبت کااندازہ اس بات سے لگایاجا سکتاہے کہ پورے علاقے میں اس کے اسکول پر دور سے ہی سبزہلالی پرچم لہراتادیکھ کرخوشی ہوتی ہے۔ حلیماں کے والداور گاؤں والوں کاکہنا ہے کہ غربت کی وجہ سے وہ اسپیشل ٹیچرحلیماں کے مشن میں خاطرخواہ مددنہیں کرسکتے، حکومت اگرآگے بڑھے توعلاقے کے بچوں کامستقبل بہتر ہوسکتا ہے۔
مٹھی سے 140 کلومیٹر دورتحصیل چھاچھروکے گوٹھ کمرہاڑ کی25سالہ حلیماں بھیل کاشمار تھرکے ایسے ہی باسیوں میں ہوتاہے۔ ان کی خدمات سن کرلوگ بے ساختہ انھیں سلام کرتے ہیں۔ حلیماں ایک سال کی عمرمیں پولیوکا شکار ہوئی تھیں۔ جہاں حلیماں کاگھر ہے وہاں 25سال پہلے روڈتھا نہ آج ہے۔ ہرطرف ریت ہی ریت ہے چنانچہ سرکاری ٹیمیں اس علاقے کارخ نہیں کرتیں۔ گھرکا گزر بسر مویشوں کوپالنے اور خریدوفروخت پرہوتا ہے۔ حلیماں کے 6 بھائی، 5بہنیں ہیں جو محنت مزدوری کرکے اپنااور اپنے بچوں کے پیٹ پالتے ہیں۔
حلیماں پولیوکی وجہ سے اپنے دونوں پیروں سے محروم ہوگئی تھی جس کی وجہ سے وہ لیٹ لیٹ کراپنا سفرکرتی۔ پڑھائی میں اس کی لگن دیکھ کرگھر والے اسے گدھے پربٹھا کربھائیوں کے ساتھ گاؤں سے 3کلومیٹر دورواقع مڈل اسکول میں پڑھنے بھیجتے۔ میڑک اس نے حیدرآباد سے کیا اورپھر ان ڈاکٹرز کے برعکس جوتھرپارکر کے ڈومیسائل پرکم مارکس حاصل کرنے کے باوجودکوٹے پر میڈیکل کالجزمیں داخلہ لیتے اورپھر وہیں کے کوٹے پرمحکمہ صحت میں نوکریاں حاصل کرکے کراچی یاحیدرآباد منتقل ہوجاتے ہیں، حلیماں نے واپس اپنے گاؤں آکر ایک درخت کے نیچے اسکول شروع کیا۔ بھائیوں نے درخت کے نیچے جھونپڑا بنادیا جوتیز ہواؤں نے گرا دیا۔ گاؤں والوں نے ذرافاصلے پربنے مہمان خانے کوحیلماں کے حوالے کردیا جہاں وہ اب30 بچیوں اور 40لڑکوں کواپنی مددآپ کے تحت مفت پڑھارہی ہے۔ حلیماں کی کوئی تنخواہ ہے نہ انکریمنٹ۔ اسے خوشی اس بات کی ہے کہ علاقے میں تعلیم کے چراغ جل اٹھے ہیں۔
یہ اسکول سائیں کی سرکارکے کھاتے میںنہیں ہے شایداسی لیے چل رہاہے۔ تھرپارکراور سندھ کے دیگراضلاع پرنظر ڈالی جائے توہزاروں سرکاری اسکول بندپڑے ہیں جہاں باضابطہ طورپر ٹیچرز بھی ہیں، سامان بھی ہے لیکن بچے نہیں۔ اسکول بندہے اورعملہ گھربیٹھے تنخواہ لے رہاہے۔ حلیماں کہتی ہے کہ آج تک کوئی بھی اس کی مددکو نہیں آیا۔ ایکسپریس اخبارواحد میڈیاہے جواس تک پہنچا ہے۔
شایدایکسپریس کے ذریعے حکومت، اس کے گاؤںمیں اسکول کی عمارت بنوادے تاکہ وہ اپنامشن بہترطریقے سے انجام دے سکے۔ حلیماں کی وطن سے محبت کااندازہ اس بات سے لگایاجا سکتاہے کہ پورے علاقے میں اس کے اسکول پر دور سے ہی سبزہلالی پرچم لہراتادیکھ کرخوشی ہوتی ہے۔ حلیماں کے والداور گاؤں والوں کاکہنا ہے کہ غربت کی وجہ سے وہ اسپیشل ٹیچرحلیماں کے مشن میں خاطرخواہ مددنہیں کرسکتے، حکومت اگرآگے بڑھے توعلاقے کے بچوں کامستقبل بہتر ہوسکتا ہے۔