بھارتی سیکریٹری خارجہ کی پاکستان آمد
اعلان گونج رہا ہے کہ نئے بھارتی سیکریٹری خارجہ سبرا مینیم جے شنکر، سات ماہ کے طویل تعطل کے بعد، 3 مارچ 2015ء کو پاکستان کے دورے پر آ رہے ہیں۔ ویلکم جناب۔ جی آیاں نُوں!!
تقریباً ڈھائی برس قبل بھارتی سیکریٹری خارجہ رانجن متھائی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ حکومتِ پاکستان اس وقت سیاسی طور پر عبوری دَور سے گزر رہی تھی کہ نئے عام انتخابات سر پر تھے۔ اس کے باوجود توقع ظاہر کی گئی تھی کہ فریقین کے بہت سے تحفظات اور خدشات کے علی الرغم پاک بھارت مذاکرات آگے بڑھتے رہیں گے۔ اگر یہ راستہ ہموار رہتا تو یقینا خارجہ سطح پر پاکستان اور بھارت کے درمیان اب تک تعلقات میں خاصا استحکام پیدا ہو چکا ہوتا۔ بدقسمتی سے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف کا نریندر مودی کی تقریبِ حلفِ وفاداری میں ذاتی طور پر شریک ہونے کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ پاکستان اپنے اس اہم ہمسائے سے تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتا ہے مگر بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا پرنالہ اپنی جگہ قائم رہا۔
انکاری حربے اور پاکستان دشمن ہتھکنڈے بھارت کی طرف سے جاری رہے۔ کوئی سات ماہ قبل اسلام آباد میں پاکستان اور بھارت کے سیکریٹری خارجہ باہم ملنے والے تھے۔ پاکستان کی طرف سے سیکریٹری خارجہ جناب اعزاز احمد چوہدری اور بھارت کی طرف سے محترمہ سجاتا سنگھ۔ پاکستان نے خوشی خوشی تمام مطلوبہ انتظامات و انصرامات بھی کر لیے تھے۔ اچانک اگست 2014ء کے آخری دنوں میں بھارتی حکومت نے سیکریٹری خارجہ سطح پر ہونے والے ان مذاکرات کو منسوخ کر دیا۔ نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے بہانہ بنایا گیا کہ دہلی میں متعین پاکستانی ہائی کمشنر نے مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند لیڈروں سے ملاقاتیں کیوں کی ہیں۔
پاکستان اس بہانے پر ششدر رہ گیا کہ اس سے پہلے بھی دہلی میں متعین پاکستانی ہائی کمشنرز کئی بار کشمیری حریت پسند لیڈروں سے ملاقاتیں کرتے رہے تھے لیکن بھارتی حکومت نے ایسی ناراضی کا اظہار کبھی نہ کیا تھا۔ اس لایعنی ردِ عمل کے پیش منظر میں پاکستان کا یہ فیصلہ بالکل بجا تھا کہ اب بھارت ہی مذاکرات کے ٹوٹے سلسلے کو بحال کرے گا۔ یہ پیغام بڑا واضح ہو کر بھارت سمیت عالمی قوتوں کو بھی پہنچ گیا تھا۔ چنانچہ پاکستان کے مستحکم تیور دیکھ کر نریندر مودی کی طرف سے کرکٹ کے عالمی ورلڈ کپ کے موقع پر نواز شریف کو فون آیا جس میں بھارتی سیکریٹری خارجہ کے پاکستان آنے کا پیغام بھی دیا گیا۔ وزیراعظم پاکستان نے بھارتی سیکریٹری خارجہ کے دورۂ پاکستان کی خبر کو خوش آمدید کہا۔
اب بھارتی سیکریٹری خارجہ سبرا مینیم جے شنکر 3 مارچ 2015ء کو اسلام آباد میں قدم رنجہ فرما رہے ہیں۔ وہ بھوٹان اور بنگلہ دیش سے ہوتے ہوئے پاکستان آ رہے ہیں۔ یہاں سے وہ افغانستان جائیں گے کہ یہ ملک بھی اب سارک ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ شنکر جی کے دورۂ پاکستان کے حوالے سے بھارت کے ذہن میں بہت سی کھچڑی پک رہی ہے۔ غالباً اسی لیے بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سید اکبرالدین کی طرف سے ان الفاظ میں اعلان کیا گیا ہے: ''ہم شملہ معاہدے کی روشنی میں پاکستان سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں جموں و کشمیر کے مسائل بھی شامل ہیں۔'' پاکستان شملہ معاہدے کی روشنی سے زیادہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ کشمیری قراردادوں کے تحت بھارت سے مسئلہ کشمیر کے بارے میں مذاکرات کا خواہاں ہے۔
''شملہ معاہدہ'' تو ایک بے روح اور بیکار سی شئے ہے۔ اس پر نہ پاکستان کی مہر ثبت ہے، نہ ہی بھارت کی۔ پاکستان اور بھارت دونوں جانتے ہیں کہ یہ ایک ''زبانی کلامی'' معاہدہ تھا۔ بھارت کے ذہن میں یہ خبث کلبلاتا رہتا ہے کہ شملہ معاہدے کی روشنی میں ایل او سی کو بین الاقوامی سرحد بنا لیا جائے لیکن پاکستان اور کشمیری ایسا ہر گز نہیں ہونے دیں گے کیونکہ شملہ معاہدے میں اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔ کسی نے شملہ معاہدے کی کھوکھلے پن اور اس میں پاکستان کے خلاف بھارتی بدنیتی کا نظارہ کرنا ہوتو اسے انکشاف خیز کتاب Beyond The Lines کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
اب تین مارچ کو بھارتی سیکریٹری خارجہ سبرا مینیم جے شنکر پاکستان تشریف لا رہے ہیں تو ان سے ممکنہ طور پر بہت سے دیرینہ مسائل پر گفتگو ہو گی۔ جے شنکر ان حالات میں اسلام آباد اتریں گے جب پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف یہ کہہ چکے ہیں: ''بلوچستان کے کچھ علیحدگی پسند رہنما بھارتی پاسپورٹ پر سفر کرتے ہیں۔ وہ بھارت جاتے ہیں اور بھارتیوں سے ہدایات لیتے ہیں۔ بھارت نے آپریشن ضربِ عضب کے شروع ہوتے ہی ورکنگ باؤنڈری اور ایل او سی پر دباؤ بڑھا دیا۔ وہ طالبان پر بالواسطہ اور بلا واسطہ دباؤ کم کرنے کے لیے پاکستان کی مشرقی سرحد پر پاکستان کو انگیج کر رہا ہے'' اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت نے گزشتہ کئی ماہ سے ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر جنگ ایسے حالات پیدا کر رکھے ہیں۔
27 فروری 2015ء کو بھی سیالکوٹ کے دورہ کے موقع پر جنرل راحیل شریف نے بھارت کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ افغانستان کے راستے بلوچستان میں بھی بھارتی شرارتیں حد سے تجاوز کر گئی ہیں اور افغانستان میں چھپے پاکستان کے ایک دشمن، دہشت گرد ملا فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں کو بھی بھارت کی طرف سے مالی اور اسلحی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ سولہ دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے ڈیڑھ سو بچوں کو جس شقاوت سے شہید کیا گیا، اس میں بھی کسی نہ کسی شکل میں نہیں بلکہ واضح طور پر بھارتی ہاتھ نظر آ رہا ہے۔
اکتیس دسمبر 2014ء کی رات بحرِ ہند میں ایک پُراسرار کشتی کو تباہ کر کے بھارت نے عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے جو بہیمانہ اور شرمناک ڈرامہ رچایا تھا، اس کا بھانڈا بھی بھارتی کوسٹ گارڈ کے ایک سینئر افسر کے ہاتھوں پھوٹ چکا ہے۔ بھارت نے گزشتہ ایام کے دوران اپنے ہاں پاکستان کے کبڈی اور ہاکی کے کھلاڑیوں کو دانستہ جس انداز میں بے توقیر اور بے حرمت کرنے کی کوشش کی، وہ شکوے اب بھی اپنی جگہ قائم ہیں۔ گویا میز پر لاتعداد اور سنگین مسائل کا ڈھیر لگا ہے جس کے ایک طرف اب جے شنکر کو بیٹھنا ہے اور دوسرے طرف اعزاز احمد چوہدری کو۔ اسی ڈھیر کے اندر سے مسائل کے حل کی سوئی تلاش کرنی ہے۔ جے شنکر کی معاونت ٹی سی رگھوان کریں گے جو اسلام آباد میں بھارت کے ہائی کمشنر ہیں اور اعزاز کی معاونت عبدالباسط کریں گے جو دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر متعین ہیں۔
کیا شنکر صاحب کی موجودگی میں کسی ایک بھی مسئلے کا کوئی ایک بھی ابتدائی حل نکالا جا سکے گا؟ اور خصوصاً مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سبرامینیم جے شنکر صاحب جذبہ اخلاص سے پاکستان آ رہے ہیں؟ پاکستان کے اہلِ دانش کا کہنا ہے کہ متکبر اور سازشی بھارت کی طرف سے ہماری قومی سلامتی کو جو خطرات درپیش ہیں، ان کی موجودگی میں بھارت سے مکالمہ کرتے ہوئے پاکستان کو ہر قدم احتیاط سے اٹھانا چاہیے۔ جو بنیادی تنازعات موجود ہیں، ان کو حق و انصاف کے مطابق طے کیا جائے اور محض طاقت و معیشت کے حجم کی بنیاد پر یا جزوی اور شخصی مفادات کو اولیت دے کر لیپا پوتی کے ذریعے حالات کو نارمل بنانے یا سمجھنے کی حماقت نہ کی جائے۔
پاکستان اور بھارت میں دوستانہ تعلقات دونوں ممالک کی ضرورت ہے لیکن یہ مقصد یکطرفہ طور پر حاصل نہیں ہو سکتا۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ جناب سبرامینیم جے شنکر سو بار پاکستان کے دورے پر تشریف لائیں لیکن ہمیں بھارت کو واضح الفاظ میں یہ پیغام بھی دینا چاہیے کہ دہلی میں کشمیری حریت پسند رہنماؤں سے کسی پاکستانی ہائی کمشنر کی ملاقات آیندہ پاک بھارت مذاکرات کی تعطلی کا باعث نہیں بنے گی۔ یہی موقف رکھنے کی وجہ سے تو دہلی میں بروئے کار پاکستانی ہائی کمیشن نے چند روز قبل مقبوضہ کشمیر کی سیاسی و مقتدر جماعت ''پی ڈی پی'' کے ترجمان نعیم اختر کو پاکستان کا ویزہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان اصولی طور پر یہ سمجھتا ہے کہ اہلِ مقبوضہ کشمیر کی ترجمانی ''پی ڈی پی'' نہیں بلکہ کشمیری حریت رہنما کرتے ہیں۔
بی جے پی اور پی ڈی پی کا سیاسی اتحاد مقبوضہ کشمیر میں نئے اقتدار کو جنم دینے کا باعث بنا ہے۔ پاک بھارت سیکریٹری خارجہ مذاکرات میں پاکستانی حکام کو اسے بھی پیشِ نگاہ رکھنا ہو گا۔ واضح رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے حال ہی میں یومِ یک جہتی کشمیر کے موقع پر آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ''مسئلہ کشمیر کو شامل کیے بغیر کوئی بھی مذاکراتی ایجنڈا مکمل نہیں سمجھا جا سکتا۔''
تقریباً ڈھائی برس قبل بھارتی سیکریٹری خارجہ رانجن متھائی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ حکومتِ پاکستان اس وقت سیاسی طور پر عبوری دَور سے گزر رہی تھی کہ نئے عام انتخابات سر پر تھے۔ اس کے باوجود توقع ظاہر کی گئی تھی کہ فریقین کے بہت سے تحفظات اور خدشات کے علی الرغم پاک بھارت مذاکرات آگے بڑھتے رہیں گے۔ اگر یہ راستہ ہموار رہتا تو یقینا خارجہ سطح پر پاکستان اور بھارت کے درمیان اب تک تعلقات میں خاصا استحکام پیدا ہو چکا ہوتا۔ بدقسمتی سے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف کا نریندر مودی کی تقریبِ حلفِ وفاداری میں ذاتی طور پر شریک ہونے کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ پاکستان اپنے اس اہم ہمسائے سے تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتا ہے مگر بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا پرنالہ اپنی جگہ قائم رہا۔
انکاری حربے اور پاکستان دشمن ہتھکنڈے بھارت کی طرف سے جاری رہے۔ کوئی سات ماہ قبل اسلام آباد میں پاکستان اور بھارت کے سیکریٹری خارجہ باہم ملنے والے تھے۔ پاکستان کی طرف سے سیکریٹری خارجہ جناب اعزاز احمد چوہدری اور بھارت کی طرف سے محترمہ سجاتا سنگھ۔ پاکستان نے خوشی خوشی تمام مطلوبہ انتظامات و انصرامات بھی کر لیے تھے۔ اچانک اگست 2014ء کے آخری دنوں میں بھارتی حکومت نے سیکریٹری خارجہ سطح پر ہونے والے ان مذاکرات کو منسوخ کر دیا۔ نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے بہانہ بنایا گیا کہ دہلی میں متعین پاکستانی ہائی کمشنر نے مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند لیڈروں سے ملاقاتیں کیوں کی ہیں۔
پاکستان اس بہانے پر ششدر رہ گیا کہ اس سے پہلے بھی دہلی میں متعین پاکستانی ہائی کمشنرز کئی بار کشمیری حریت پسند لیڈروں سے ملاقاتیں کرتے رہے تھے لیکن بھارتی حکومت نے ایسی ناراضی کا اظہار کبھی نہ کیا تھا۔ اس لایعنی ردِ عمل کے پیش منظر میں پاکستان کا یہ فیصلہ بالکل بجا تھا کہ اب بھارت ہی مذاکرات کے ٹوٹے سلسلے کو بحال کرے گا۔ یہ پیغام بڑا واضح ہو کر بھارت سمیت عالمی قوتوں کو بھی پہنچ گیا تھا۔ چنانچہ پاکستان کے مستحکم تیور دیکھ کر نریندر مودی کی طرف سے کرکٹ کے عالمی ورلڈ کپ کے موقع پر نواز شریف کو فون آیا جس میں بھارتی سیکریٹری خارجہ کے پاکستان آنے کا پیغام بھی دیا گیا۔ وزیراعظم پاکستان نے بھارتی سیکریٹری خارجہ کے دورۂ پاکستان کی خبر کو خوش آمدید کہا۔
اب بھارتی سیکریٹری خارجہ سبرا مینیم جے شنکر 3 مارچ 2015ء کو اسلام آباد میں قدم رنجہ فرما رہے ہیں۔ وہ بھوٹان اور بنگلہ دیش سے ہوتے ہوئے پاکستان آ رہے ہیں۔ یہاں سے وہ افغانستان جائیں گے کہ یہ ملک بھی اب سارک ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ شنکر جی کے دورۂ پاکستان کے حوالے سے بھارت کے ذہن میں بہت سی کھچڑی پک رہی ہے۔ غالباً اسی لیے بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سید اکبرالدین کی طرف سے ان الفاظ میں اعلان کیا گیا ہے: ''ہم شملہ معاہدے کی روشنی میں پاکستان سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں جموں و کشمیر کے مسائل بھی شامل ہیں۔'' پاکستان شملہ معاہدے کی روشنی سے زیادہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ کشمیری قراردادوں کے تحت بھارت سے مسئلہ کشمیر کے بارے میں مذاکرات کا خواہاں ہے۔
''شملہ معاہدہ'' تو ایک بے روح اور بیکار سی شئے ہے۔ اس پر نہ پاکستان کی مہر ثبت ہے، نہ ہی بھارت کی۔ پاکستان اور بھارت دونوں جانتے ہیں کہ یہ ایک ''زبانی کلامی'' معاہدہ تھا۔ بھارت کے ذہن میں یہ خبث کلبلاتا رہتا ہے کہ شملہ معاہدے کی روشنی میں ایل او سی کو بین الاقوامی سرحد بنا لیا جائے لیکن پاکستان اور کشمیری ایسا ہر گز نہیں ہونے دیں گے کیونکہ شملہ معاہدے میں اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔ کسی نے شملہ معاہدے کی کھوکھلے پن اور اس میں پاکستان کے خلاف بھارتی بدنیتی کا نظارہ کرنا ہوتو اسے انکشاف خیز کتاب Beyond The Lines کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
اب تین مارچ کو بھارتی سیکریٹری خارجہ سبرا مینیم جے شنکر پاکستان تشریف لا رہے ہیں تو ان سے ممکنہ طور پر بہت سے دیرینہ مسائل پر گفتگو ہو گی۔ جے شنکر ان حالات میں اسلام آباد اتریں گے جب پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف یہ کہہ چکے ہیں: ''بلوچستان کے کچھ علیحدگی پسند رہنما بھارتی پاسپورٹ پر سفر کرتے ہیں۔ وہ بھارت جاتے ہیں اور بھارتیوں سے ہدایات لیتے ہیں۔ بھارت نے آپریشن ضربِ عضب کے شروع ہوتے ہی ورکنگ باؤنڈری اور ایل او سی پر دباؤ بڑھا دیا۔ وہ طالبان پر بالواسطہ اور بلا واسطہ دباؤ کم کرنے کے لیے پاکستان کی مشرقی سرحد پر پاکستان کو انگیج کر رہا ہے'' اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت نے گزشتہ کئی ماہ سے ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر جنگ ایسے حالات پیدا کر رکھے ہیں۔
27 فروری 2015ء کو بھی سیالکوٹ کے دورہ کے موقع پر جنرل راحیل شریف نے بھارت کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ افغانستان کے راستے بلوچستان میں بھی بھارتی شرارتیں حد سے تجاوز کر گئی ہیں اور افغانستان میں چھپے پاکستان کے ایک دشمن، دہشت گرد ملا فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں کو بھی بھارت کی طرف سے مالی اور اسلحی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ سولہ دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے ڈیڑھ سو بچوں کو جس شقاوت سے شہید کیا گیا، اس میں بھی کسی نہ کسی شکل میں نہیں بلکہ واضح طور پر بھارتی ہاتھ نظر آ رہا ہے۔
اکتیس دسمبر 2014ء کی رات بحرِ ہند میں ایک پُراسرار کشتی کو تباہ کر کے بھارت نے عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے جو بہیمانہ اور شرمناک ڈرامہ رچایا تھا، اس کا بھانڈا بھی بھارتی کوسٹ گارڈ کے ایک سینئر افسر کے ہاتھوں پھوٹ چکا ہے۔ بھارت نے گزشتہ ایام کے دوران اپنے ہاں پاکستان کے کبڈی اور ہاکی کے کھلاڑیوں کو دانستہ جس انداز میں بے توقیر اور بے حرمت کرنے کی کوشش کی، وہ شکوے اب بھی اپنی جگہ قائم ہیں۔ گویا میز پر لاتعداد اور سنگین مسائل کا ڈھیر لگا ہے جس کے ایک طرف اب جے شنکر کو بیٹھنا ہے اور دوسرے طرف اعزاز احمد چوہدری کو۔ اسی ڈھیر کے اندر سے مسائل کے حل کی سوئی تلاش کرنی ہے۔ جے شنکر کی معاونت ٹی سی رگھوان کریں گے جو اسلام آباد میں بھارت کے ہائی کمشنر ہیں اور اعزاز کی معاونت عبدالباسط کریں گے جو دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر متعین ہیں۔
کیا شنکر صاحب کی موجودگی میں کسی ایک بھی مسئلے کا کوئی ایک بھی ابتدائی حل نکالا جا سکے گا؟ اور خصوصاً مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سبرامینیم جے شنکر صاحب جذبہ اخلاص سے پاکستان آ رہے ہیں؟ پاکستان کے اہلِ دانش کا کہنا ہے کہ متکبر اور سازشی بھارت کی طرف سے ہماری قومی سلامتی کو جو خطرات درپیش ہیں، ان کی موجودگی میں بھارت سے مکالمہ کرتے ہوئے پاکستان کو ہر قدم احتیاط سے اٹھانا چاہیے۔ جو بنیادی تنازعات موجود ہیں، ان کو حق و انصاف کے مطابق طے کیا جائے اور محض طاقت و معیشت کے حجم کی بنیاد پر یا جزوی اور شخصی مفادات کو اولیت دے کر لیپا پوتی کے ذریعے حالات کو نارمل بنانے یا سمجھنے کی حماقت نہ کی جائے۔
پاکستان اور بھارت میں دوستانہ تعلقات دونوں ممالک کی ضرورت ہے لیکن یہ مقصد یکطرفہ طور پر حاصل نہیں ہو سکتا۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ جناب سبرامینیم جے شنکر سو بار پاکستان کے دورے پر تشریف لائیں لیکن ہمیں بھارت کو واضح الفاظ میں یہ پیغام بھی دینا چاہیے کہ دہلی میں کشمیری حریت پسند رہنماؤں سے کسی پاکستانی ہائی کمشنر کی ملاقات آیندہ پاک بھارت مذاکرات کی تعطلی کا باعث نہیں بنے گی۔ یہی موقف رکھنے کی وجہ سے تو دہلی میں بروئے کار پاکستانی ہائی کمیشن نے چند روز قبل مقبوضہ کشمیر کی سیاسی و مقتدر جماعت ''پی ڈی پی'' کے ترجمان نعیم اختر کو پاکستان کا ویزہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان اصولی طور پر یہ سمجھتا ہے کہ اہلِ مقبوضہ کشمیر کی ترجمانی ''پی ڈی پی'' نہیں بلکہ کشمیری حریت رہنما کرتے ہیں۔
بی جے پی اور پی ڈی پی کا سیاسی اتحاد مقبوضہ کشمیر میں نئے اقتدار کو جنم دینے کا باعث بنا ہے۔ پاک بھارت سیکریٹری خارجہ مذاکرات میں پاکستانی حکام کو اسے بھی پیشِ نگاہ رکھنا ہو گا۔ واضح رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے حال ہی میں یومِ یک جہتی کشمیر کے موقع پر آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ''مسئلہ کشمیر کو شامل کیے بغیر کوئی بھی مذاکراتی ایجنڈا مکمل نہیں سمجھا جا سکتا۔''