میں اور وزیر اعلیٰ
ایک آدمی نے ایک بزرگ سے کہا کہ ’’میں سکون چاہتا ہوں‘‘ کیا کروں؟ انھوں نے فرمایا کہ جملے سے ’’میں‘‘ نکال دو۔
ایک آدمی نے ایک بزرگ سے کہا کہ ''میں سکون چاہتا ہوں'' کیا کروں؟ انھوں نے فرمایا کہ جملے سے ''میں'' نکال دو۔ یہ تمہاری انا کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آج کی زبان میں اسے وٹامن آئی کا شکار کہہ سکتے ہیں۔ مجھے، مجھ کو اور میرا جیسے الفاظ اپنی ذات کو نمایاں کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ انگریزی حروف تہجی I یعنی میں جیسا آدھا حرف پورے آدمی کوکھا جاتا ہے۔
بزرگ نے دوسری بات یہ کہی کہ جملے میں ''چاہتا ہوں'' کیا ہے؟ یہ تمہاری خود غرضی کی علامت ہے۔ اسے نکال دو تو تمہاری زندگی میں صرف اور صرف سکون رہ جائے گا۔ ایکسپریس سے سن دو ہزار ایک سے رشتہ قائم ہے۔ اس سے قبل بھی کوشش کی گئی کہ لفظ ''میں'' کم سے کم تو کیا بالکل ہی استعمال نہ ہو۔ پھر آج کالم میں یہ لفظ کیوں؟ اتنی خودپسندی کہ وزیر اعلیٰ کا نام آخر میں اور انگریزی کے نویں حرف کا ترجمہ پہلے۔
صوبے کا حاکم اعلیٰ ایک طرف تو دوسری جانب بے اختیارکالم نگار۔ ایک جانب بڑی سیاسی پارٹی کا رہنما تو دوسری طرف ایک عام سا انسان۔ ایک چیز مشترک ہے کہ چیف منسٹر قانون دان ہیں تو یہ تحریر لکھنے والا قانون کا طالب علم۔ اتنی سی بات پرصوبے کے وزیر اعلیٰ سے موازنہ۔ سورج کو چراغ دکھانے کی کوشش کیوں؟ صرف ایک بات کہ عام آدمی کو حاکم سے سوال کا حق ہے۔ صرف اس بات پر وزیر اعلیٰ کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ چیف منسٹر ہاؤس شہر کے ایک کونے میں ہے تو ہمارا گھر شہر کے بیچوں بیچ۔ بڑے وزیر کی کوٹھی کے گرد فائیو اسٹار ہوٹلز ہیں تو میرے مسکن کے قریب قائد اعظم کا مدفن ہے۔
حکمراں کی حویلی ضیا الدین روڈ پر ہے تو ہمارے گھر کے قریب آنے والی سڑک ایم اے جناح روڈ کہلاتی ہے۔ وہ حاکم اور ہم عوام۔ یہ سچ ہے کہ ان کی تنخواہ ہمارے ٹیکس سے ادا کی جاتی ہے تو وہ ہم سب کے خادم ہوئے۔ جب وہ خدمت گار ہیں اور ہم سب کے ووٹوں کی وجہ سے اس عہدے پر فائز ہیں تو ہماری بات سننا ان کا فرض ہے۔ کیا ہمارا یہ حق نہیں کہ ہم ان سے اس انداز میں مخاطب ہوجائیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو کہ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوجائیں تو ایک کالم کے عنوان ہی میں بندہ و حساب یکجا ہوجائیں تو کیا کہنے۔
قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ اگر وزیر اعلیٰ سے کوئی شکایت ہے تو مراسلہ لکھنا چاہیے تھا اخبار کے ایڈیٹر کے نام۔ جو بات سو دو سو الفاظ میں کہی جاسکتی ہو اس کے لیے ایک ہزار سے زیادہ الفاظ استعمال کرنے کی کیا منطق۔ وقت کو سب کچھ سمجھنے والے کچھ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمارے دو تین منٹ خرچ ہوچکے ہیں اور اب تک وزیر اعلیٰ سے فریاد ہی بیان نہیں ہوئی۔ واقعی مراسلہ یا مضمون لکھنا ہوتا تو اور بات تھی۔ اگر کراچی سے دور رہنے والوں کو مسئلہ سمجھانا ہو تو کیا کیا جائے؟ انھیں تحریر پڑھانے کے لیے یہ لازمی تھا۔ جب کوئی ٹی وی میزبان ''میں اور مولانا'' والا پروگرام کرسکتا ہے تو ایک قلم کار ایسے ملتے جلتے عنوان سے کالم کیوں نہیں لکھ سکتا۔
وزیر اعلیٰ اور قلمکار کے پیشوں کی یکسانیت اور دونوں کی رہائش گاہوں کی سڑکوں کے ناموں کے علاوہ اب تک کیا بات ہوئی ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ کراچی میں وزیر اعلیٰ ہاؤس کے آس پاس کے علاقے کو ریڈ زون قرار دیا گیا ہے۔ ان کے گھر کے قریب کی سڑکوں کو سرخ رو کیا گیا ہے پرندہ بھی پَر نہ مار سکے تو فریادیوں کا کیا کام؟ یہ فرق کیسا جب تمام لوگ قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ جب حکمرانوں کا کام اہم ہوسکتا ہے تو عوام کے کام کی کم اہمیت کیوں۔ کوئی ارب پتی اگر ایک دن میں کروڑوں کمانے کوٹھی سے نکلے تو اس کا نکلنا اہم ہے۔اسی طرح اگر کوئی غریب چند سو کمانے کو نکلتا ہے تو اس کا بھی جھونپڑے سے نکلنا اسی قدر اہم ہے۔
یہ ایسی بات ہے کہ اگر کسی امیر کا بیٹا پانچ لاکھ کے کھلونے سے کھیل کر جتنا خوش ہوتا ہے تو غریب کا بیٹا پانچ روپے کے کھلونے سے کھیل کر اتنا ہی خوش ہوتا ہے۔ جب خوشیاں برابر ہیں سرمایہ دار و مزدور کے بیٹے کی اور جب کام کی اہمیت برابر ہے ارب پتی و غریب کی تو وزیر باتدبیر اور عوام بے تدبیر کی رہائش گاہوں کو برابر کا مرتبہ کیوں نہ ملے۔ جب وزیر اعلیٰ کا گھر ریڈ زون قرار پائے تو عوام کے گھروں کو ہر ایک کی پہنچ میں دینے کا کیا جواز ہے؟ جب چیف منسٹر ہاؤس کے قریب کوئی فریادی نہیں جاسکتا تو میں کون سا بااختیار ہوں کہ ہر چاک گریباں میرے گھر کے قریب یعنی نمائش چورنگی پر دستک دینے کو آجائے۔
جہانگیر کا انصاف مشہور ہے کہ اس نے اپنے محل کے باہر زنجیر لگا رکھی تھی۔ عدل جہانگیری کا موقع جوانی میں شہزادہ سلیم کو اقتدار کی وجہ سے ملا۔ اکیسویں صدی کے حکمرانوں نے لوہے کی زنجیر تو اپنے گھروں کے قریب نہیں بنائی کہ کسی مظلوم کی داد رسی ہو۔ کمال یہ کردیا کہ انھوں نے لوہے کے کنٹینرکھڑے کردیے ہیں۔ شاہوں سے انصاف کی توقع نہ ہونے کے باوجود ہم اپنے دل کے کہنے پر ''عزم نو'' کے ذریعے زنجیر ہلا رہے ہیں۔ یہ جان کر کہ اب تو حکمرانوں کے گھر کے قریب پہنچنے پر پولیس کا سامنا ہوتا ہے۔ کیل کانٹوں سے لیس باوردی جوان مظاہرین سے نمٹنے کو تیار رہتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ ریڈ زون ہے۔ یہ ممنوعہ علاقہ ہے تو کہیں اور جا کر مظاہرہ کریں۔ کالم نگار کے گھرکے قریب آنے والوں سے مفاہمت اوروزیر اعلیٰ کے گھر پہنچنے والے فریادیوں سے مزاحمت۔ ایسا کیوں؟ اگر اس میں کوئی حکمت ہے تو کبھی اساتذہ و سرکاری ملازمین تو کبھی طلبا تو کبھی نرسیں اس حکمت کو نہ سمجھ سکے۔ وہ وزیر اعلیٰ کے گھر کو کوچہ جاناں سمجھ کر چل دیتے ہیں۔ پھر پولیس آنسو گیس برساتی ہے اور پانی کے تیز دھار والے فوارے چھوڑتی ہے۔ ڈنڈے برسا کر انھیں ریڈ زون سے باہر دھکیل دیتی ہے۔
دھینگا مشتی کے ان مظاہروں سے بچنے کے لیے اکثر فریادیوں نے میرے گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے۔ قائد اعظم کے مزار کے قریب نمائش چورنگی وہ راستہ ہے جہاں سے آدھا کراچی گزرتا ہے۔ صبح سے کام پر نکلے تھکے ہارے جب گھر پہنچتے ہیں تو ان کی زبان پر فریاد ہوتی ہے۔ مظاہرہ کرنے والے فریادیوں کی طرح ان کی آواز میں بھی درد ہوتا ہے۔ ایک گھنٹے کا سفر کبھی دوگنا تو کبھی تگنا ہوکر تگنی کا ناچ نچا دیتا ہے۔ یوں غم روزگار سے فارغ ہوکر غم جاناں کی جانب بڑھنے والا اردو کے بجائے انگریزی کے سفر سے گزرتا ہے۔
ہمارے گھر اور ہمارے شہر بلکہ ہمارا ملک ریڈ زون ہونا چاہیے۔ کہیں کسی فریادی کو پَر مارنے کی جرأت نہیں ہونی چاہیے۔کہیں کسی احتجاج کرنے والے کو گھر سے نکلنے کا یارا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تب ہوسکتا ہے جب ملک میں انصاف ہو۔ شکایت کو دور کرنے کے ادارے ہوں۔ دودھ و شہر کی نہریں بے شک نہ بہتی ہوں لیکن روکھی سوکھی میں سکون ہو۔ یہ تب ہوسکتا ہے جب ہم سب اور وزیر اعلیٰ و وزیر اعظم برابر ہوں۔ ایک زمانہ تھا جب ایران میں مظلوم ایک کام کیا کرتا تھا۔ جب وہ ظالم پر غالب نہ آسکتا تو کاغذی پیرہن میں باہر نکلتا۔ کیا پاکستان میں ہر فریادی ایسا لباس پہن کر حکمرانوں کے سامنے پیکر تصویر بن جائے؟ یقین جانیں یہ سب کچھ شوخی تحریر کے لیے نہیں بلکہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کو جگانے کے لیے ہے۔ میرے وزیر اعلیٰ کو۔
کیا میرے کچے مکان کی دیوار گر گئی ہے کہ لوگوں نے میرے گھر میں رستہ بنالیا ہے۔ ہر کوئی احتجاجی بینر لیے نمائش چورنگی پر آجاتا ہے۔ اول تو کوئی فریادی یوں سڑکوں پر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کسی پر ظلم ہوا ہے تو وہ حاکم کے گھر جائے۔ ریڈزون کی سرخروئی صرف چیف منسٹر ہاؤس سندھ کی قریبی سڑکوں تک ہی کیوں؟ گورنر ہاؤس اور پولوگراؤنڈ کی درمیانی سنسان سڑک کو ''ہائیڈ پارک'' بنا دینا چاہیے۔ اس طرح احتجاجی مظاہرین پریس کلب اور نمائش چورنگی سے ہٹ کر یہاں اپنی فریاد درج کروائیں۔
یوں وہ چیف منسٹر اور گورنر سے قریب ہوں گے۔ کراچی کے صحافیوں اور کیمرہ ٹیموں کو وزیر اعلیٰ کے ڈیرے سے قائد کے مسکن تک نہیں آنا پڑے گا۔ ان کا پریس کلب اور اخبارات و چینلز کے دفاتر بھی حکمرانوں کی حویلیوں کے قریب ہی ہیں۔ یوں کروڑوں نہیں تو لاکھوں ساکنان کراچی ہر ہفتے کے ایک دو احتجاجی مظاہروں سے سکون پائیں گے۔ اگر یہ نہ ہوا تو ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کرنے کا حق تو محفوظ ہے۔ بالواسطہ ہی سہی وزیر اعلیٰ سے سامنا ہوگا عدالت عالیہ میں۔ پھر آمنے سامنے ہوں گے ''میں اور وزیر اعلیٰ۔''
بزرگ نے دوسری بات یہ کہی کہ جملے میں ''چاہتا ہوں'' کیا ہے؟ یہ تمہاری خود غرضی کی علامت ہے۔ اسے نکال دو تو تمہاری زندگی میں صرف اور صرف سکون رہ جائے گا۔ ایکسپریس سے سن دو ہزار ایک سے رشتہ قائم ہے۔ اس سے قبل بھی کوشش کی گئی کہ لفظ ''میں'' کم سے کم تو کیا بالکل ہی استعمال نہ ہو۔ پھر آج کالم میں یہ لفظ کیوں؟ اتنی خودپسندی کہ وزیر اعلیٰ کا نام آخر میں اور انگریزی کے نویں حرف کا ترجمہ پہلے۔
صوبے کا حاکم اعلیٰ ایک طرف تو دوسری جانب بے اختیارکالم نگار۔ ایک جانب بڑی سیاسی پارٹی کا رہنما تو دوسری طرف ایک عام سا انسان۔ ایک چیز مشترک ہے کہ چیف منسٹر قانون دان ہیں تو یہ تحریر لکھنے والا قانون کا طالب علم۔ اتنی سی بات پرصوبے کے وزیر اعلیٰ سے موازنہ۔ سورج کو چراغ دکھانے کی کوشش کیوں؟ صرف ایک بات کہ عام آدمی کو حاکم سے سوال کا حق ہے۔ صرف اس بات پر وزیر اعلیٰ کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ چیف منسٹر ہاؤس شہر کے ایک کونے میں ہے تو ہمارا گھر شہر کے بیچوں بیچ۔ بڑے وزیر کی کوٹھی کے گرد فائیو اسٹار ہوٹلز ہیں تو میرے مسکن کے قریب قائد اعظم کا مدفن ہے۔
حکمراں کی حویلی ضیا الدین روڈ پر ہے تو ہمارے گھر کے قریب آنے والی سڑک ایم اے جناح روڈ کہلاتی ہے۔ وہ حاکم اور ہم عوام۔ یہ سچ ہے کہ ان کی تنخواہ ہمارے ٹیکس سے ادا کی جاتی ہے تو وہ ہم سب کے خادم ہوئے۔ جب وہ خدمت گار ہیں اور ہم سب کے ووٹوں کی وجہ سے اس عہدے پر فائز ہیں تو ہماری بات سننا ان کا فرض ہے۔ کیا ہمارا یہ حق نہیں کہ ہم ان سے اس انداز میں مخاطب ہوجائیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو کہ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوجائیں تو ایک کالم کے عنوان ہی میں بندہ و حساب یکجا ہوجائیں تو کیا کہنے۔
قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ اگر وزیر اعلیٰ سے کوئی شکایت ہے تو مراسلہ لکھنا چاہیے تھا اخبار کے ایڈیٹر کے نام۔ جو بات سو دو سو الفاظ میں کہی جاسکتی ہو اس کے لیے ایک ہزار سے زیادہ الفاظ استعمال کرنے کی کیا منطق۔ وقت کو سب کچھ سمجھنے والے کچھ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمارے دو تین منٹ خرچ ہوچکے ہیں اور اب تک وزیر اعلیٰ سے فریاد ہی بیان نہیں ہوئی۔ واقعی مراسلہ یا مضمون لکھنا ہوتا تو اور بات تھی۔ اگر کراچی سے دور رہنے والوں کو مسئلہ سمجھانا ہو تو کیا کیا جائے؟ انھیں تحریر پڑھانے کے لیے یہ لازمی تھا۔ جب کوئی ٹی وی میزبان ''میں اور مولانا'' والا پروگرام کرسکتا ہے تو ایک قلم کار ایسے ملتے جلتے عنوان سے کالم کیوں نہیں لکھ سکتا۔
وزیر اعلیٰ اور قلمکار کے پیشوں کی یکسانیت اور دونوں کی رہائش گاہوں کی سڑکوں کے ناموں کے علاوہ اب تک کیا بات ہوئی ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ کراچی میں وزیر اعلیٰ ہاؤس کے آس پاس کے علاقے کو ریڈ زون قرار دیا گیا ہے۔ ان کے گھر کے قریب کی سڑکوں کو سرخ رو کیا گیا ہے پرندہ بھی پَر نہ مار سکے تو فریادیوں کا کیا کام؟ یہ فرق کیسا جب تمام لوگ قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ جب حکمرانوں کا کام اہم ہوسکتا ہے تو عوام کے کام کی کم اہمیت کیوں۔ کوئی ارب پتی اگر ایک دن میں کروڑوں کمانے کوٹھی سے نکلے تو اس کا نکلنا اہم ہے۔اسی طرح اگر کوئی غریب چند سو کمانے کو نکلتا ہے تو اس کا بھی جھونپڑے سے نکلنا اسی قدر اہم ہے۔
یہ ایسی بات ہے کہ اگر کسی امیر کا بیٹا پانچ لاکھ کے کھلونے سے کھیل کر جتنا خوش ہوتا ہے تو غریب کا بیٹا پانچ روپے کے کھلونے سے کھیل کر اتنا ہی خوش ہوتا ہے۔ جب خوشیاں برابر ہیں سرمایہ دار و مزدور کے بیٹے کی اور جب کام کی اہمیت برابر ہے ارب پتی و غریب کی تو وزیر باتدبیر اور عوام بے تدبیر کی رہائش گاہوں کو برابر کا مرتبہ کیوں نہ ملے۔ جب وزیر اعلیٰ کا گھر ریڈ زون قرار پائے تو عوام کے گھروں کو ہر ایک کی پہنچ میں دینے کا کیا جواز ہے؟ جب چیف منسٹر ہاؤس کے قریب کوئی فریادی نہیں جاسکتا تو میں کون سا بااختیار ہوں کہ ہر چاک گریباں میرے گھر کے قریب یعنی نمائش چورنگی پر دستک دینے کو آجائے۔
جہانگیر کا انصاف مشہور ہے کہ اس نے اپنے محل کے باہر زنجیر لگا رکھی تھی۔ عدل جہانگیری کا موقع جوانی میں شہزادہ سلیم کو اقتدار کی وجہ سے ملا۔ اکیسویں صدی کے حکمرانوں نے لوہے کی زنجیر تو اپنے گھروں کے قریب نہیں بنائی کہ کسی مظلوم کی داد رسی ہو۔ کمال یہ کردیا کہ انھوں نے لوہے کے کنٹینرکھڑے کردیے ہیں۔ شاہوں سے انصاف کی توقع نہ ہونے کے باوجود ہم اپنے دل کے کہنے پر ''عزم نو'' کے ذریعے زنجیر ہلا رہے ہیں۔ یہ جان کر کہ اب تو حکمرانوں کے گھر کے قریب پہنچنے پر پولیس کا سامنا ہوتا ہے۔ کیل کانٹوں سے لیس باوردی جوان مظاہرین سے نمٹنے کو تیار رہتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ ریڈ زون ہے۔ یہ ممنوعہ علاقہ ہے تو کہیں اور جا کر مظاہرہ کریں۔ کالم نگار کے گھرکے قریب آنے والوں سے مفاہمت اوروزیر اعلیٰ کے گھر پہنچنے والے فریادیوں سے مزاحمت۔ ایسا کیوں؟ اگر اس میں کوئی حکمت ہے تو کبھی اساتذہ و سرکاری ملازمین تو کبھی طلبا تو کبھی نرسیں اس حکمت کو نہ سمجھ سکے۔ وہ وزیر اعلیٰ کے گھر کو کوچہ جاناں سمجھ کر چل دیتے ہیں۔ پھر پولیس آنسو گیس برساتی ہے اور پانی کے تیز دھار والے فوارے چھوڑتی ہے۔ ڈنڈے برسا کر انھیں ریڈ زون سے باہر دھکیل دیتی ہے۔
دھینگا مشتی کے ان مظاہروں سے بچنے کے لیے اکثر فریادیوں نے میرے گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے۔ قائد اعظم کے مزار کے قریب نمائش چورنگی وہ راستہ ہے جہاں سے آدھا کراچی گزرتا ہے۔ صبح سے کام پر نکلے تھکے ہارے جب گھر پہنچتے ہیں تو ان کی زبان پر فریاد ہوتی ہے۔ مظاہرہ کرنے والے فریادیوں کی طرح ان کی آواز میں بھی درد ہوتا ہے۔ ایک گھنٹے کا سفر کبھی دوگنا تو کبھی تگنا ہوکر تگنی کا ناچ نچا دیتا ہے۔ یوں غم روزگار سے فارغ ہوکر غم جاناں کی جانب بڑھنے والا اردو کے بجائے انگریزی کے سفر سے گزرتا ہے۔
ہمارے گھر اور ہمارے شہر بلکہ ہمارا ملک ریڈ زون ہونا چاہیے۔ کہیں کسی فریادی کو پَر مارنے کی جرأت نہیں ہونی چاہیے۔کہیں کسی احتجاج کرنے والے کو گھر سے نکلنے کا یارا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تب ہوسکتا ہے جب ملک میں انصاف ہو۔ شکایت کو دور کرنے کے ادارے ہوں۔ دودھ و شہر کی نہریں بے شک نہ بہتی ہوں لیکن روکھی سوکھی میں سکون ہو۔ یہ تب ہوسکتا ہے جب ہم سب اور وزیر اعلیٰ و وزیر اعظم برابر ہوں۔ ایک زمانہ تھا جب ایران میں مظلوم ایک کام کیا کرتا تھا۔ جب وہ ظالم پر غالب نہ آسکتا تو کاغذی پیرہن میں باہر نکلتا۔ کیا پاکستان میں ہر فریادی ایسا لباس پہن کر حکمرانوں کے سامنے پیکر تصویر بن جائے؟ یقین جانیں یہ سب کچھ شوخی تحریر کے لیے نہیں بلکہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کو جگانے کے لیے ہے۔ میرے وزیر اعلیٰ کو۔
کیا میرے کچے مکان کی دیوار گر گئی ہے کہ لوگوں نے میرے گھر میں رستہ بنالیا ہے۔ ہر کوئی احتجاجی بینر لیے نمائش چورنگی پر آجاتا ہے۔ اول تو کوئی فریادی یوں سڑکوں پر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کسی پر ظلم ہوا ہے تو وہ حاکم کے گھر جائے۔ ریڈزون کی سرخروئی صرف چیف منسٹر ہاؤس سندھ کی قریبی سڑکوں تک ہی کیوں؟ گورنر ہاؤس اور پولوگراؤنڈ کی درمیانی سنسان سڑک کو ''ہائیڈ پارک'' بنا دینا چاہیے۔ اس طرح احتجاجی مظاہرین پریس کلب اور نمائش چورنگی سے ہٹ کر یہاں اپنی فریاد درج کروائیں۔
یوں وہ چیف منسٹر اور گورنر سے قریب ہوں گے۔ کراچی کے صحافیوں اور کیمرہ ٹیموں کو وزیر اعلیٰ کے ڈیرے سے قائد کے مسکن تک نہیں آنا پڑے گا۔ ان کا پریس کلب اور اخبارات و چینلز کے دفاتر بھی حکمرانوں کی حویلیوں کے قریب ہی ہیں۔ یوں کروڑوں نہیں تو لاکھوں ساکنان کراچی ہر ہفتے کے ایک دو احتجاجی مظاہروں سے سکون پائیں گے۔ اگر یہ نہ ہوا تو ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کرنے کا حق تو محفوظ ہے۔ بالواسطہ ہی سہی وزیر اعلیٰ سے سامنا ہوگا عدالت عالیہ میں۔ پھر آمنے سامنے ہوں گے ''میں اور وزیر اعلیٰ۔''