قومی ٹیم ایک بار پھر ’اگر مگر‘ کا شکار
زمبابوے کے خلاف جیت نے عالمی کپ میں پاکستان کے امکانات میں ایک چنگاری تو پیدا کی ہے
زمبابوے کے خلاف جیت نے عالمی کپ میں پاکستان کے امکانات میں ایک چنگاری تو پیدا کی ہے لیکن اسے شعلہ بننے کے لیے ابھی وقت درکار ہے۔ بھارت اور ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شکست نے پاکستان کی پیشرفت کو نقصان تو بہت سخت پہنچایا، لیکن اس وقت بھی یہ خسارہ ناقابل تلافی نہیں ہے۔ پاکستان کے عالمی کپ میں آگے بڑھنے کے امکانات اب بھی دیگر ٹیموں جتنے ہی ہیں۔
اگر ہم قیاس کے گھوڑے دوڑائیں اور آیندہ کے ممکنہ نتائج کی بنیاد پر گروپ ' بی' کی چار سرفہرست ٹیموں کا فیصلہ کریں تو پاکستان کے لیے پہلا اور سیدھا سادہ سا نسخہ یہ ہے کہ اسے اپنے باقی تینوں مقابلے جیتنا ہوں گے، جی ہاں! جنوبی افریقہ سے بھی۔ اس طرح وہ مکمل طور پر اپنے بل بوتے پر کوارٹر فائنل میں پہنچ سکتا ہے۔ اس کے لیے پاکستان کو کل یعنی بدھ کو پہلے متحدہ عرب امارات کو ہرانا ہوگا، پھر سنیچر کو جنوبی افریقہ کو شکست دینا ہوگی اور پھر 15 مارچ کو عالمی کپ کے پہلے مرحلے کے آخری مقابلے میں آئرلینڈ کو زیر کرنا ہوگا۔
عرب امارات اور آئرلینڈ کو زیر کرنا سمجھ میں بھی آتا ہے لیکن جنوبی افریقہ کو چت کرنا پاکستان کے بس کی بات نہیں دکھائی دیتی۔ گزشتہ مقابلے میں جس طرح جنوبی افریقہ نے ویسٹ انڈیز کو بری طرح ہرایا ہے، اس کے بعد تو پاکستان کے کھلاڑیوں کے ذہنوں میں یہ بھی خدشات پیدا ہو رہے ہوں گے۔ 408 رنز بنانے کے بعد جنوبی افریقہ نے اس ویسٹ انڈیز کو 151 رنز پر ڈھیر کیا، جس نے پاکستان کے مقابلے میں 310 رنز بنائے تھے۔
دراصل پاکستان کے امکانات کو سب سے زیادہ ٹھیس ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شکست، بلکہ 150 رنز کے واضح فرق سے اٹھائی جانے والی ہزیمت نے پہنچائی ہے۔ اس وقت گروپ 'بی' میں سب سے کم نیٹ رن ریٹ پاکستان کا ہے اور جس کو بہتر بنانا بہت ضروری ہے کیونکہ 'خاکم بدہن' اگر پاکستان جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست کھا گیا تو اسے رن ریٹ کی بنیاد پر ہی کوارٹر فائنل میں جگہ مل سکتی ہے اور یہی اگلے مرحلے تک رسائی کا دوسرا نسخہ ہے۔
تصور کرتے ہیں کہ پاکستان متحدہ عرب امارات اور آئرلینڈ کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے لیکن جنوبی افریقہ سے ہار جاتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ امارات اور آئرلینڈ کو بڑے فرق سے شکست دے۔ ہوسکے تو 100 رنز سے یا پھر اس سے بھی زیادہ۔ پاکستان کے کھلاڑی اس کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور زمبابوے کے خلاف مقابلے میں انھوں نے ثابت بھی کیا ہے کہ وہ کسی بھی ہدف کا دفاع کرسکتے ہیں لیکن بلے بازوں کو باؤلرز کا ساتھ دینا ہوگا، اس کے بغیر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔
اب ذرا خیال کو تیسری سمت دوڑاتے ہیں کہ پاکستان امارات اور آئرلینڈ کے خلاف جیت تو گیا لیکن اتنے واضح فرق سے نہ ہرا سکا جب کہ جنوبی افریقہ سے تو شکست ہی کھا گیا۔ اس صورت میں پاکستان کو دیگر مقابلوں کے نتائج پر بہت زیادہ انحصار کرنا پڑے گا۔ اسے توقع رکھنا ہوگی کہ زمبابوے آئرلینڈ کو ہرائے گا، اور آئرلینڈ جنوبی افریقہ اور بھارت کے ہاتھوں بھی شکست کھائے۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ "اچھا اور پیارا سا" پڑوسی بھارت ویسٹ انڈیز کو بری طرح شکست دے۔ اسی صورت میں یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کسی نہ کسی طرح کوارٹر فائنل تک پہنچ جائے۔
اگر پاکستان گروپ 'بی' میں چوتھے نمبر پر آتا ہے تو اس کا مقابلہ ممکنہ طور پر نیوزی لینڈ سے ہوگا جو اس وقت گروپ 'اے' میں تمام مقابلے جیت چکا ہے لیکن اگر توقعات سے کہیں بڑھ کر کارکردگی دکھائی اور باقی تینوں مقابلے جیت لیے تو تیسرے نمبر پر بھی آ سکتا ہے، جہاں اس کا مقابلہ آسٹریلیا یا سری لنکا میں سے کسی ایک ٹیم کے ساتھ ممکن ہے۔ تو پاکستان کے کھلاڑی میدان عمل میں کارکردگی دکھانے کے لیے نکلیں اور قوم جائے نمازیں، تسبیحیں اور کیلکولیٹر سنبھال لے کہ ملک کی عالمی کپ کی مہم ایک اہم مرحلے میں داخل ہونے جا رہی ہے۔
اگر ہم قیاس کے گھوڑے دوڑائیں اور آیندہ کے ممکنہ نتائج کی بنیاد پر گروپ ' بی' کی چار سرفہرست ٹیموں کا فیصلہ کریں تو پاکستان کے لیے پہلا اور سیدھا سادہ سا نسخہ یہ ہے کہ اسے اپنے باقی تینوں مقابلے جیتنا ہوں گے، جی ہاں! جنوبی افریقہ سے بھی۔ اس طرح وہ مکمل طور پر اپنے بل بوتے پر کوارٹر فائنل میں پہنچ سکتا ہے۔ اس کے لیے پاکستان کو کل یعنی بدھ کو پہلے متحدہ عرب امارات کو ہرانا ہوگا، پھر سنیچر کو جنوبی افریقہ کو شکست دینا ہوگی اور پھر 15 مارچ کو عالمی کپ کے پہلے مرحلے کے آخری مقابلے میں آئرلینڈ کو زیر کرنا ہوگا۔
عرب امارات اور آئرلینڈ کو زیر کرنا سمجھ میں بھی آتا ہے لیکن جنوبی افریقہ کو چت کرنا پاکستان کے بس کی بات نہیں دکھائی دیتی۔ گزشتہ مقابلے میں جس طرح جنوبی افریقہ نے ویسٹ انڈیز کو بری طرح ہرایا ہے، اس کے بعد تو پاکستان کے کھلاڑیوں کے ذہنوں میں یہ بھی خدشات پیدا ہو رہے ہوں گے۔ 408 رنز بنانے کے بعد جنوبی افریقہ نے اس ویسٹ انڈیز کو 151 رنز پر ڈھیر کیا، جس نے پاکستان کے مقابلے میں 310 رنز بنائے تھے۔
دراصل پاکستان کے امکانات کو سب سے زیادہ ٹھیس ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شکست، بلکہ 150 رنز کے واضح فرق سے اٹھائی جانے والی ہزیمت نے پہنچائی ہے۔ اس وقت گروپ 'بی' میں سب سے کم نیٹ رن ریٹ پاکستان کا ہے اور جس کو بہتر بنانا بہت ضروری ہے کیونکہ 'خاکم بدہن' اگر پاکستان جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست کھا گیا تو اسے رن ریٹ کی بنیاد پر ہی کوارٹر فائنل میں جگہ مل سکتی ہے اور یہی اگلے مرحلے تک رسائی کا دوسرا نسخہ ہے۔
تصور کرتے ہیں کہ پاکستان متحدہ عرب امارات اور آئرلینڈ کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے لیکن جنوبی افریقہ سے ہار جاتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ امارات اور آئرلینڈ کو بڑے فرق سے شکست دے۔ ہوسکے تو 100 رنز سے یا پھر اس سے بھی زیادہ۔ پاکستان کے کھلاڑی اس کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور زمبابوے کے خلاف مقابلے میں انھوں نے ثابت بھی کیا ہے کہ وہ کسی بھی ہدف کا دفاع کرسکتے ہیں لیکن بلے بازوں کو باؤلرز کا ساتھ دینا ہوگا، اس کے بغیر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔
اب ذرا خیال کو تیسری سمت دوڑاتے ہیں کہ پاکستان امارات اور آئرلینڈ کے خلاف جیت تو گیا لیکن اتنے واضح فرق سے نہ ہرا سکا جب کہ جنوبی افریقہ سے تو شکست ہی کھا گیا۔ اس صورت میں پاکستان کو دیگر مقابلوں کے نتائج پر بہت زیادہ انحصار کرنا پڑے گا۔ اسے توقع رکھنا ہوگی کہ زمبابوے آئرلینڈ کو ہرائے گا، اور آئرلینڈ جنوبی افریقہ اور بھارت کے ہاتھوں بھی شکست کھائے۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ "اچھا اور پیارا سا" پڑوسی بھارت ویسٹ انڈیز کو بری طرح شکست دے۔ اسی صورت میں یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کسی نہ کسی طرح کوارٹر فائنل تک پہنچ جائے۔
اگر پاکستان گروپ 'بی' میں چوتھے نمبر پر آتا ہے تو اس کا مقابلہ ممکنہ طور پر نیوزی لینڈ سے ہوگا جو اس وقت گروپ 'اے' میں تمام مقابلے جیت چکا ہے لیکن اگر توقعات سے کہیں بڑھ کر کارکردگی دکھائی اور باقی تینوں مقابلے جیت لیے تو تیسرے نمبر پر بھی آ سکتا ہے، جہاں اس کا مقابلہ آسٹریلیا یا سری لنکا میں سے کسی ایک ٹیم کے ساتھ ممکن ہے۔ تو پاکستان کے کھلاڑی میدان عمل میں کارکردگی دکھانے کے لیے نکلیں اور قوم جائے نمازیں، تسبیحیں اور کیلکولیٹر سنبھال لے کہ ملک کی عالمی کپ کی مہم ایک اہم مرحلے میں داخل ہونے جا رہی ہے۔