میم اور صاحب

جس طرح ہم دیگر برائیوں میں خودکفیل ہیں، اسی طرح ’’بچہ غلامی‘‘ میں بھی ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔

جس طرح ہم دیگر برائیوں میں خودکفیل ہیں، اسی طرح ’’بچہ غلامی‘‘ میں بھی ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔ فوٹو یُسرا عسکری

آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ صاحبِ ثروت افراد جب بھی گھر سے باہر نکلتے ہیں، کسی شادی بیاہ کی تقریب ہو، ہوٹلنگ یا پھر شاپنگ کا معاملہ ہو، اُن کے ساتھ اُن کے گھریلوں ملازم چھوٹی عمر کے لڑکے اور لڑکیاں ضرور ہوتے ہیں۔ جن کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ ''میم اور صاحب'' کے بچوں کا خاص خیال رکھیں تاکہ اُنہیں اپنے بچے اٹھانے کی مشقت نہ کرنی پڑے اور وہ انتہائی اطمینان اور رومانوی ماحول میں فراغت کو انجوائے کرسکیں۔

اِس پورے وقت میں یہ ''غلام'' کچھ فاصلے پر ان افراد کے ساتھ گھومتے ہیں۔ میم اور صاحب کو کھانا کھاتے، شاپنگ کرتے حسرت بھری نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں کیونکہ اِن کے نصیب میں ہوٹلوں اورگھروں کا بچہ ہوا کھانا اور اترن ہی ہوتی ہے۔ اگرآپ کو توہین انسانیت کی بدترین شکل دیکھنی ہے تو بچہ غلامی کی شکل میں ہمارے معاشرے کے کھاتے پیتے متمول طبقوں کے گھروں میں کم عمر معصوم بچے او ر بچیوں کو کام کرتے دیکھیں۔ ان بچوں کی زندگی کی خوشی، غمی، سکھ اور آرام ''مالکان'' کی مرضی پر ہی منحصر ہوتا ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اچانک اس طرح کی بات کیوں کررہا ہوں؟ لگتا ہے آپ کو معلوم نہیں کہ حال ہی میں کراچی کے ایک ریستوران میں لی گئی تصویر نے انٹرنیٹ پر ہلچل مچادی، جس میں ایک خاندان مزے سے کھانا کھارہا ہے اور قریب ہی ان کی ملازمہ بچے کو گود میں اٹھائے گھڑی ہے۔ اس تصویر کے عام ہوتے ہی لوگوں نے خاندان کی افراد کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوا کہا کہ اُنہیں ملازمہ کو یوں کونے میں کھڑا کرنے کے بجائے کھانا کھلانا چاہئے تھا، صرف یہی نہیں بلکہ جو جتنا فرشتہ بن سکتا تھا بن رہا تھا لیکن میں حیران اور عقل دنگ ہے کہ کیا یہ واقعہ پہلی بار ہوا ہے؟ ارے بھائی یہ تو صرف ایک تصویر ہے، اگر ہم غور کریں تو ہمارے اردگرد اس طرح کے بے شمار واقعات بکھرے پڑے ہیں۔

''بچہ غلامی'' کی وہ شکل تو اور بھی زیادہ ہولناک ہے جس میں بچہ یا بچی مالکان کے گھر میں ہی سکونت رکھتے ہوں، ایسے بچے 24 گھنٹے کے غلام ہوتے ہیں جن کی انسانی حیثیت کا تعین بھی اُن کے مالکان ہی کرتے ہیں۔ اِن ننھے منے غلاموں کی نہ صبح راحت لے کر آتی ہے اور نہ رات کو خوش کن خواب ان کی آنکھوں میں اترتے ہیں۔ عجیب بے بسی، حسرت کی تصویر بنے یہ غلام اپنی ساری عمر ایک ہی گھر میں گزار دیتے۔ جن مالکان نے گھریلو ملازمین کو رہائش کی صورت میں سرونٹ کواٹر دیا ہوتا ہے، ان گھروں میں سارا خاندان ان کا ملازم ہوتا ہے۔

جس طرح ہم دیگر برائیوں میں خودکفیل ہیں، اِسی طرح ''بچہ غلامی'' میں بھی ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔ عوامی حلقوں میں گھریلو غلامی کے خلاف بات کرنے والوں کے اپنے گھروں می غریب بچے غلامی کی شکل میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ حقوق نام کی کسی بھی شہ سے اِن کا واسطہ نہیں ہوتا! میرا سوال ہے کہ کیا بچوں کے حقوق کے لے کام کرنے والی تنظیموں میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ وہ بچہ غلامی کے خلاف مہم چلائیں؟ میں خود بچوں اور خواتین کے حقوق کے لئے کام کرتا ہوں، اس لئے سب سے پہلے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں اُس گھر سے کچھ نہیں کھاؤں پیوں گا جس گھر میں''بچہ'' غلام ہوگا۔


پاکستان حاصل کرنے کا ایک بڑا اور واضع مقصد دوسروں کی غلامی سے نجات اور معاشی استحکام تھا۔ ایک ایسا ملک جس میں بسنے والا کوئی بھی فرد بھوکا اور بے گھر نہ رہے، ساری جدوجہد اسی آرزو کی تکمیل کے لئے تھی۔ آج 68 برس بعد بھی نہ ہی یہاں سے بھوک ختم ہوسکی اور نہ اپنے گھر بار چھوڑ کر آنے والوں کی اکثریت کو گھر نصیب ہوئے۔ جبکہ غلامی کی بدترین شکلیں ہماری ہی معاشرے میں موجود ہیں۔ گھریلو بچہ غلامی، فیکٹریوں میں بچوں کی غلامی، اینٹوں کے بھٹوں پر بدترین غلامی اب تو معمول کا حصہ بن چکا ہے۔عالمی سطح پر پاکستان غلامی کی بدترین شکل والے ممالک کی فہرست میں 167 نمبر پر ہے جہاں 20 لاکھ لوگ جبری غلای کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں سب سے زیادہ غلام بچے اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرتے ہیں۔ توہین انسانیت کی اِس بدترین صورت حال پر ملک کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں خاموش رہ کر ''اشرافی جمہور'' کی خدمت کررہی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ میں وہ دن سب سے زیادہ منحوس تھا جب کسی غلام نے اپنے آقا کو اتنا کما کردیا جو اُس سے زیادہ تھا جتنا اس کا آقا اُس کو مزدوری دیتا۔ اِس عمل سے ایک انسان دوسرے انسان کے لئے آمدنی کا ذریعہ بن گیا۔ یہیں سے نظام سرمایہ داری کی ابتداء ہوئی۔ وہ صنعتی دور نہیں تھا کہ غلاموں کے مالک اُن سے کچھ چیزیں بنواکر اپنے لیے آمدنی حاصل کرتے، وہ زرعی معیشت کا دور تھا، اس لئے وہ اپنے غلاموں سے زمین ہی کاشت کراسکتے تھے۔ اِس مقصد کے لئے طاقتور لوگوں نے زمین پر لکیریں کھینچ کر ''میری زمین اور تیری زمین'' کا انسانیت کش تصور وضع کیا۔ اس تصور سے ''خدا کی زمین'' خدا کے بندوں کے لئے عام نہ رہی اورانسانوں کی ملکیت بن گئی۔

قرآن نے اس انسانیت سوز تصور کی سختی سے نفی کی ہے اور زمین ''یعنی سرچشمہ رزق'' پر ذاتی ملکیت کو انسانیت کے خلاف سنگین جرم قرار دیتا ہے۔ قرآن نے جو اصول دیے، یعنی کہ زمین پر انفرادی ملکیت نہیں ہوسکتی، اُسے مملکت کی تحویل میں رہنا چاہیے تاکہ وہ اس کا انتظام اس طریقے سے کرے جس سے معاشرے کے تمام افراد کو سامان زیست مہیا ہوتا رہے، لیکن یہاں ریاست بھی اپنی وہ ذمہ داری پوری نہیں کررہی ، اِس لئے کمزور پاکستانی شہری یتیموں کی صورت زندگی گزار رے ہیں جن کا کوئی پرسان حال ہی نہیں۔

حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ملک میں مزدوروں کی تعداد تقریباً 6 کروڑ 30 لاکھ ہے اور ان میں سے بیشتر دیہی علاقوں میں کام کاج کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو ملازمین سے متعلق قانون سازی میں ایک بڑی رکاوٹ ملک میں جاگیردارانہ نظام بھی ہے جس میں دو وقت کھانے کے عوض پورے خاندان سے کام لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں گھریلو ملازمین کے مسائل میں طویل اوقاتِ کار، بدسلوکی، اجرت کی عدم ادائیگی اور کم عمر کے بچوں سے زبردستی کام کرانا جیسے مسائل شامل ہیں۔

ابھی حال ہی میں پاکستان میں پہلی بار ڈومیسٹک ورکر یونین رجسٹر ہوئی ہے، لیکن اِس کے باوجود پاکستان میں گھریلو ملازمین کے حوالے سے کوئی قانون نہیں ہے۔ نوشین عباس جو خود بھی ایک گھریلو ملازمہ ہے اورگھریلو ملازمین کیساتھ مالکان کے برتاؤ سے واقف بھی ہیں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گھریلو ملازمین کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں طویل اوقات کار، ملازمت کا عدم تحفظ، کم عمر بچوں سے جبراً مشقت لینا اور اُن کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات، جوعام طور پر شامل ہیں جو اکثر و بیشتر رپورٹ نہیں ہوتے۔ اِس لیے سول سوسائٹی کا حکومت سے مطالبہ بجا ہے کہ وہ گھریلو ملازمین کو بھی انسان سمجھتے ہوئے ان کے لئے قانون سازی کریں تاکہ اُن کے حقوق کا بھی تحفظ ممکن ہوسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story