سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ مگرالیکشن کمیشن خاموش
سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کا ہر طرف شور ہے لیکن الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان اور چیف الیکشن کمشنر سب خاموش ہیں.
SYDNEY:
5 مارچ کو سینٹ کی 52 نشستوں پر الیکشن ہو رہے ہیں جن کیلئے 131امیدوار میدان میں ہیں۔ مسلم لیگ(ن) نے وفاقی دارالحکومت میں ٹیکنو کریٹ کیلئے اقبال ظفر جھگڑا اور خواتین کی نشست پر ڈاکٹر راحیلہ مگسی کو ٹکٹ دیئے ہیں۔
چیئرمین سینٹ کیلئے مسلم لیگ(ن) کے متوقع امیدوارراجہ طفرالحق، وزیراطلاعات پرویز شید، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم ،چودھری تنویر ، مشاہداﷲ خان، نہال ہاشمی، سلیم ضیاء اور ڈاکٹر غوث نیازی پنجاب سے جنرل نشستوں پر مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ہیں۔ سابق صدر آصف زداری کے ایڈوائزر برائے پولیٹیکل اینڈ یوتھ افیئرز ندیم افضل چن جنرل نشست پر امیدوار ہیںاور وہ اپنی بھرپور انتخابی مہم چلارہے ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں حقیقی سیاسی کارکن ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ایک اہم سیاسی گھرانے سے ہے اور وہ اپنے خاندانی سیاسی مراسم کو استعمال کر رہے ہیں۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے درمیان مسائل بھی ندیم افضل کی نشست پر پیدا ہوئے ہیں۔آصف زرداری پنجاب میں سینٹ کی نشست پر ندیم افضل چن کو اکاموڈیٹ کرنا چاہتے تھے، اس کے بدلے میں وہ چیئرمین سینٹ کے عہدے پر ن لیگ کے ساتھ تعاون کیلئے تیار تھے جس کا مسلم لیگ(ن) نے مثبت جواب نہیں بھجوایا۔ خواجہ سعد رفیق نے سابق صدر آصف زرداری سے اسلام آباد میں ملاقات کی اور کہاکہ پیپلزپارٹی کے پاس پنجاب میں ندیم افضل چن کو سینٹر بنوانے کیلئے مطلوبہ تعداد نہیں ہے۔ اب سابق صدر شاید یہ ثابت کرنا چاہتے ہیںکہ ن لیگ کے پاس چیئرمین سینٹ کے عہدے کیلئے عددی اکثریت نہیں ہے۔
اس حوالے سے وزیراعظم نواز شریف کا رویہ کسی حد تک لچکدار تھاتاہم وزیراعلیٰ شہباز شریف نے پیپلزپارٹی کو پنجاب میں سینٹ کی نشست دینے کی مخالفت کی۔ سابق صدر کو مشورہ دیا گیا کہ وہ ندیم افضل چن کی سینیٹ نشست کیلئے شہباز شریف کو ایک فون کردیں مگر آصف زرداری نے شہباز شریف کو فون کرنے سے انکار کردیا۔ آصف زرداری سیاسی جوڑ توڑ کے بڑے ماہر سیاستدان ہیں اور ان کے جوڑ توڑ کے نتیجے میںحکومت کو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پر الیکشن میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ آصف زرداری سینٹ الیکشن میں اہم کردار کے طور پر میدان میں آگئے ہیں۔
اس وقت سینٹ کی ساری سیاست ان کے گرد گھوم رہی ہے اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمٰن سمیت تمام قومی سیاستدان ان کے ساتھ رابطے میں آئے ہیں۔ پیپلزپارٹی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں پر اپنی جیت کو یقینی بنانا چاہتی ہے جس کیلئے وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا سے 2 نشستیں حاصل کرنا چاہتی ہے جبکہ جے یو آئی خیبر پختونخوا سے دو نشستوں کا چانس لینا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو خطرہ ہے کہ کہیں ان کے کچھ ارکان اسمبلی سندھ سے تعلق رکھنے والے امیدواروں نہال ہاشمی ، سلیم ضیاء اور مشاہداﷲ خان کی بجائے ندیم افضل چن کو ووٹ نہ دے دیں۔
پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کے امیدواروں سے خطرہ محسوس کررہی ہے اس وجہ سے مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے قریب آئے اس میں سب سے دلچسپ یوٹرن پی ٹی آئی نے لیا اور پی ٹی آئی صرف سینٹ کی چار پانچ نشستوں کیلئے دھرنے کی جدوجہد کو نظر انداز کرکے اسمبلیوں میں واپس جانے کیلئے تیار ہوگئی ۔ خیبر پختونخوا سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی مولانا عطاء الرحمٰن ، وقار احمد خان، عمار احمد خان، لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی، نورعالم، خانزادہ خان، محسن عزیز، سید شبلی فراز امیدوار ہیں ۔ لیاقت ترکئی، نعمان وزیر، محسن عزیز اور ثمینہ عابد کو سینٹ ٹکٹ دینے پر پی ٹی آئی میں تحفظات ہیں۔
محسن عزیز اور نعمان وزیر صنعتکار ہیں اور انہوں نے دھرنے میں بھی فنڈز دیئے ہیں۔ ثمینہ عابد کو وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے ٹکٹ دلوایا ہے اور وہ صرف چھ ماہ پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہوئی ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں نیشنل پارٹی کے میر حاصل بزنجو اور جے یو آئی (ف) کے مولانا عبدالغفور حیدری ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے اسلم بولیدی، مسلم لیگ(ن) کے سردار محمد یعقوب ناصر، میر نعمت اﷲ زہری نمایاں امیدوار ہیں۔ سندھ میں ٹیکنو کریٹ پر سابق چیئرمین سینٹ فاروق ایچ نائیک اور بیرسٹر محمد علی سیف جبکہ خواتین کی نشستوں پر پیپلزپارٹی کی سسی پلیجو اور ایم کیو ایم کی نگہت مرزا بلا مقابلہ منتخب ہوگئے ہیں ۔ سندھ سے اسلام الدین شیخ ، رحمٰن ملک ، خوش بخت شجاعت، سلیم مانڈی والا بھی امیدوار ہیں ۔
حکومت نے سیاسی جماعتوں کے عدم تعاون کے باعث سینٹ الیکشن کے طریقہ کار میں ترمیم کا منصوبہ ملتوی کر دیا ہے۔ پیپلزپارٹی، جمعیت علماء اسلام (ف) اور عوامی نیشنل پارٹی نے 22 ویں آئینی ترمیم کو مسترد کردیا اور اس اقدام کی منظوری کو ناممکن قراردیا تھا۔ سینٹ الیکشن میں پیپلزپارٹی جے یو آئی اور اے این پی ایک ہی پلیٹ فارم پر ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حمایت کے بغیر اس آئینی ترمیم کی منظوری نہیں ہو سکتی تھی اور پیپلزپارٹی نے اس ترمیم کی حمایت کے بدلے سینٹ کی چیئرمین شپ کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ اس ترمیم سے پارٹی سربراہوں کا پارلیمانی پارٹی پر ہولڈ مزید بڑھ جائے گا۔ پارٹی سربراہان ہارس ٹریڈنگ کے نام پر تھوڑے بہت اختلاف کی گنجائش بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔
22 ویں آئینی ترمیم کے تحت شو آف ہینڈ کے ذریعے سینٹ الیکشن ملک و قوم کی خدمت نہیں ہے اور نہ ہی الیکشن میں دھاندلی ، غیر قانونی ہتھکنڈے یا خریدو فروخت کو روکنے کیلئے کوئی کوشش کی جا رہی ہے بلکہ اہل اقتدار آئین کے آرٹیکل 59 کی خلاف ورزی کو آئینی جواز فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ہاتھ کھڑے کروا کر اپنی جماعتوں کے ممبران کے ضمیروں پر پہرے دار بٹھانا چاہتے ہیں۔ اگر اراکین اسمبلی کو رسوں میں باندھ کر ہاتھ کھڑے کرانے ہیں تو سینٹ کیلئے کسی الیکشن کی ضرورت نہیں ہے۔ اسمبلیوں میں موجود اراکین کی جماعتی وابستگی کی بناء پر سینٹ کی سیٹیں تقسیم کردی جائیں جو 22 ویں آئینی ترمیم یا ہاتھ کھڑے کروانے کے عمل کا منطقی انجام ہے۔
یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ شو آف ہینڈز کے طریقہ کار کے مطابق چناؤکسی ایک سیٹ یا عہدے کیلئے ہوتا ہے اور سنگل ٹرانسفرا ایبل ووٹ کے طریقہ کار کے مطابق جس میں ووٹر اپنی ترجیحات مختلف امیدواروں کیلئے درج کرتا ہے اور ایک امیدوار کے کوٹہ سے زائد ووٹ ان ترجیحات کے مطابق اگلے امیدواروں کو منتقل ہوتے جاتے ہیں ۔ شو آف ہینڈز یا ہاتھ کھڑے کروانے سے ایسا ممکن نہیں ہوسکتا۔ انتخابی عمل سے واقفیت رکھنے والے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ حکمران سینٹ کیلئے متناسب نمائندگی کے واحد قابل انتقال ووٹ کے طریقہ کار کو ہی سرے سے ختم کرنا چاہتے ہیں اور شاید ایسا یوسی الیکشن میں بھی نہیں ہوتا جو پارلیمنٹ کے ایوان بالا کیلئے سوچا جا رہا ہے۔
ماہرین انتخابات کے مطابق سینٹ کیلئے الیکشن کے موجودہ طریقہ کار کو برقرار رکھتے ہوئے ہاتھ کھڑے کروانے کا طریقہ کار قابل عمل نہیں ہے کیونکہ ایک سے زائد نشستوں کیلئے الیکشن کرواتے ہوئے ہاتھ کھڑے کروانے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ جن سیاسی جماعتوں کے جتنے ممبر ہیں وہ اس جماعت کے امیدواروں کے حق میں ہاتھ کھڑے کردیں اور ان ہاتھوں کو گن کر امیدوار منتخب کروائے جائیں اور اگر ایسا ہی کرنا ہے تو ہاتھ گننے کی بجائے ارکان اسمبلی جو پہلے سے گنے ہوئے ہوتے ہیں ان کی بنیاد پر نشستیں تقسیم کرلی جائیں۔
اس سارے کھیل میں الیکشن کمیشن کہیں نظر نہیں آرہا حالانکہ منصفانہ اور آزادانہ الیکشن کرانے کے اختیارات اس کے پاس ہیں۔ سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کا ہر طرف شور ہے لیکن الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان اور چیف الیکشن کمشنر سب خاموش ہیں۔ یہ وہی چاروں ارکان ہیں جن پر عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگے اور قوم ان سے استعفے کا مطالبہ کرتی رہی لیکن یہ حضرات ٹس سے مس نہیں ہوئے اور قومی خزانے سے تنخواہیں اور مراعات لے کر مزے کر رہے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کو چاہیے کہ وہ ان ارکان کو عہدوں سے ہٹانے کے لیے ان کے خلاف ریفرنس بھجوائیں ۔
https://www.dailymotion.com/video/x2ir1x3_horse-trading-in-senate_news
5 مارچ کو سینٹ کی 52 نشستوں پر الیکشن ہو رہے ہیں جن کیلئے 131امیدوار میدان میں ہیں۔ مسلم لیگ(ن) نے وفاقی دارالحکومت میں ٹیکنو کریٹ کیلئے اقبال ظفر جھگڑا اور خواتین کی نشست پر ڈاکٹر راحیلہ مگسی کو ٹکٹ دیئے ہیں۔
چیئرمین سینٹ کیلئے مسلم لیگ(ن) کے متوقع امیدوارراجہ طفرالحق، وزیراطلاعات پرویز شید، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم ،چودھری تنویر ، مشاہداﷲ خان، نہال ہاشمی، سلیم ضیاء اور ڈاکٹر غوث نیازی پنجاب سے جنرل نشستوں پر مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ہیں۔ سابق صدر آصف زداری کے ایڈوائزر برائے پولیٹیکل اینڈ یوتھ افیئرز ندیم افضل چن جنرل نشست پر امیدوار ہیںاور وہ اپنی بھرپور انتخابی مہم چلارہے ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں حقیقی سیاسی کارکن ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ایک اہم سیاسی گھرانے سے ہے اور وہ اپنے خاندانی سیاسی مراسم کو استعمال کر رہے ہیں۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے درمیان مسائل بھی ندیم افضل کی نشست پر پیدا ہوئے ہیں۔آصف زرداری پنجاب میں سینٹ کی نشست پر ندیم افضل چن کو اکاموڈیٹ کرنا چاہتے تھے، اس کے بدلے میں وہ چیئرمین سینٹ کے عہدے پر ن لیگ کے ساتھ تعاون کیلئے تیار تھے جس کا مسلم لیگ(ن) نے مثبت جواب نہیں بھجوایا۔ خواجہ سعد رفیق نے سابق صدر آصف زرداری سے اسلام آباد میں ملاقات کی اور کہاکہ پیپلزپارٹی کے پاس پنجاب میں ندیم افضل چن کو سینٹر بنوانے کیلئے مطلوبہ تعداد نہیں ہے۔ اب سابق صدر شاید یہ ثابت کرنا چاہتے ہیںکہ ن لیگ کے پاس چیئرمین سینٹ کے عہدے کیلئے عددی اکثریت نہیں ہے۔
اس حوالے سے وزیراعظم نواز شریف کا رویہ کسی حد تک لچکدار تھاتاہم وزیراعلیٰ شہباز شریف نے پیپلزپارٹی کو پنجاب میں سینٹ کی نشست دینے کی مخالفت کی۔ سابق صدر کو مشورہ دیا گیا کہ وہ ندیم افضل چن کی سینیٹ نشست کیلئے شہباز شریف کو ایک فون کردیں مگر آصف زرداری نے شہباز شریف کو فون کرنے سے انکار کردیا۔ آصف زرداری سیاسی جوڑ توڑ کے بڑے ماہر سیاستدان ہیں اور ان کے جوڑ توڑ کے نتیجے میںحکومت کو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پر الیکشن میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ آصف زرداری سینٹ الیکشن میں اہم کردار کے طور پر میدان میں آگئے ہیں۔
اس وقت سینٹ کی ساری سیاست ان کے گرد گھوم رہی ہے اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمٰن سمیت تمام قومی سیاستدان ان کے ساتھ رابطے میں آئے ہیں۔ پیپلزپارٹی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں پر اپنی جیت کو یقینی بنانا چاہتی ہے جس کیلئے وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا سے 2 نشستیں حاصل کرنا چاہتی ہے جبکہ جے یو آئی خیبر پختونخوا سے دو نشستوں کا چانس لینا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو خطرہ ہے کہ کہیں ان کے کچھ ارکان اسمبلی سندھ سے تعلق رکھنے والے امیدواروں نہال ہاشمی ، سلیم ضیاء اور مشاہداﷲ خان کی بجائے ندیم افضل چن کو ووٹ نہ دے دیں۔
پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کے امیدواروں سے خطرہ محسوس کررہی ہے اس وجہ سے مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے قریب آئے اس میں سب سے دلچسپ یوٹرن پی ٹی آئی نے لیا اور پی ٹی آئی صرف سینٹ کی چار پانچ نشستوں کیلئے دھرنے کی جدوجہد کو نظر انداز کرکے اسمبلیوں میں واپس جانے کیلئے تیار ہوگئی ۔ خیبر پختونخوا سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی مولانا عطاء الرحمٰن ، وقار احمد خان، عمار احمد خان، لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی، نورعالم، خانزادہ خان، محسن عزیز، سید شبلی فراز امیدوار ہیں ۔ لیاقت ترکئی، نعمان وزیر، محسن عزیز اور ثمینہ عابد کو سینٹ ٹکٹ دینے پر پی ٹی آئی میں تحفظات ہیں۔
محسن عزیز اور نعمان وزیر صنعتکار ہیں اور انہوں نے دھرنے میں بھی فنڈز دیئے ہیں۔ ثمینہ عابد کو وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے ٹکٹ دلوایا ہے اور وہ صرف چھ ماہ پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہوئی ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں نیشنل پارٹی کے میر حاصل بزنجو اور جے یو آئی (ف) کے مولانا عبدالغفور حیدری ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے اسلم بولیدی، مسلم لیگ(ن) کے سردار محمد یعقوب ناصر، میر نعمت اﷲ زہری نمایاں امیدوار ہیں۔ سندھ میں ٹیکنو کریٹ پر سابق چیئرمین سینٹ فاروق ایچ نائیک اور بیرسٹر محمد علی سیف جبکہ خواتین کی نشستوں پر پیپلزپارٹی کی سسی پلیجو اور ایم کیو ایم کی نگہت مرزا بلا مقابلہ منتخب ہوگئے ہیں ۔ سندھ سے اسلام الدین شیخ ، رحمٰن ملک ، خوش بخت شجاعت، سلیم مانڈی والا بھی امیدوار ہیں ۔
حکومت نے سیاسی جماعتوں کے عدم تعاون کے باعث سینٹ الیکشن کے طریقہ کار میں ترمیم کا منصوبہ ملتوی کر دیا ہے۔ پیپلزپارٹی، جمعیت علماء اسلام (ف) اور عوامی نیشنل پارٹی نے 22 ویں آئینی ترمیم کو مسترد کردیا اور اس اقدام کی منظوری کو ناممکن قراردیا تھا۔ سینٹ الیکشن میں پیپلزپارٹی جے یو آئی اور اے این پی ایک ہی پلیٹ فارم پر ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حمایت کے بغیر اس آئینی ترمیم کی منظوری نہیں ہو سکتی تھی اور پیپلزپارٹی نے اس ترمیم کی حمایت کے بدلے سینٹ کی چیئرمین شپ کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ اس ترمیم سے پارٹی سربراہوں کا پارلیمانی پارٹی پر ہولڈ مزید بڑھ جائے گا۔ پارٹی سربراہان ہارس ٹریڈنگ کے نام پر تھوڑے بہت اختلاف کی گنجائش بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔
22 ویں آئینی ترمیم کے تحت شو آف ہینڈ کے ذریعے سینٹ الیکشن ملک و قوم کی خدمت نہیں ہے اور نہ ہی الیکشن میں دھاندلی ، غیر قانونی ہتھکنڈے یا خریدو فروخت کو روکنے کیلئے کوئی کوشش کی جا رہی ہے بلکہ اہل اقتدار آئین کے آرٹیکل 59 کی خلاف ورزی کو آئینی جواز فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ہاتھ کھڑے کروا کر اپنی جماعتوں کے ممبران کے ضمیروں پر پہرے دار بٹھانا چاہتے ہیں۔ اگر اراکین اسمبلی کو رسوں میں باندھ کر ہاتھ کھڑے کرانے ہیں تو سینٹ کیلئے کسی الیکشن کی ضرورت نہیں ہے۔ اسمبلیوں میں موجود اراکین کی جماعتی وابستگی کی بناء پر سینٹ کی سیٹیں تقسیم کردی جائیں جو 22 ویں آئینی ترمیم یا ہاتھ کھڑے کروانے کے عمل کا منطقی انجام ہے۔
یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ شو آف ہینڈز کے طریقہ کار کے مطابق چناؤکسی ایک سیٹ یا عہدے کیلئے ہوتا ہے اور سنگل ٹرانسفرا ایبل ووٹ کے طریقہ کار کے مطابق جس میں ووٹر اپنی ترجیحات مختلف امیدواروں کیلئے درج کرتا ہے اور ایک امیدوار کے کوٹہ سے زائد ووٹ ان ترجیحات کے مطابق اگلے امیدواروں کو منتقل ہوتے جاتے ہیں ۔ شو آف ہینڈز یا ہاتھ کھڑے کروانے سے ایسا ممکن نہیں ہوسکتا۔ انتخابی عمل سے واقفیت رکھنے والے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ حکمران سینٹ کیلئے متناسب نمائندگی کے واحد قابل انتقال ووٹ کے طریقہ کار کو ہی سرے سے ختم کرنا چاہتے ہیں اور شاید ایسا یوسی الیکشن میں بھی نہیں ہوتا جو پارلیمنٹ کے ایوان بالا کیلئے سوچا جا رہا ہے۔
ماہرین انتخابات کے مطابق سینٹ کیلئے الیکشن کے موجودہ طریقہ کار کو برقرار رکھتے ہوئے ہاتھ کھڑے کروانے کا طریقہ کار قابل عمل نہیں ہے کیونکہ ایک سے زائد نشستوں کیلئے الیکشن کرواتے ہوئے ہاتھ کھڑے کروانے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ جن سیاسی جماعتوں کے جتنے ممبر ہیں وہ اس جماعت کے امیدواروں کے حق میں ہاتھ کھڑے کردیں اور ان ہاتھوں کو گن کر امیدوار منتخب کروائے جائیں اور اگر ایسا ہی کرنا ہے تو ہاتھ گننے کی بجائے ارکان اسمبلی جو پہلے سے گنے ہوئے ہوتے ہیں ان کی بنیاد پر نشستیں تقسیم کرلی جائیں۔
اس سارے کھیل میں الیکشن کمیشن کہیں نظر نہیں آرہا حالانکہ منصفانہ اور آزادانہ الیکشن کرانے کے اختیارات اس کے پاس ہیں۔ سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کا ہر طرف شور ہے لیکن الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان اور چیف الیکشن کمشنر سب خاموش ہیں۔ یہ وہی چاروں ارکان ہیں جن پر عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگے اور قوم ان سے استعفے کا مطالبہ کرتی رہی لیکن یہ حضرات ٹس سے مس نہیں ہوئے اور قومی خزانے سے تنخواہیں اور مراعات لے کر مزے کر رہے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کو چاہیے کہ وہ ان ارکان کو عہدوں سے ہٹانے کے لیے ان کے خلاف ریفرنس بھجوائیں ۔
https://www.dailymotion.com/video/x2ir1x3_horse-trading-in-senate_news