پی ٹی آئی کی سیاست مخمصے کا شکار

کوئی بھی سمجھ دار سرمایہ کار اور بزنس مین یہاں آنے سے ہچکچاتا رہے گا۔

mnoorani08@gmail.com

پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے گزشتہ دنوں خیبر پختون خوا میں انویسٹمنٹ لانے کی غرض سے دبئی میں ایک روڈ شو کا افتتاح کیا جس کا مقصد وہاں کے سرمایہ کاروں کو صوبے خیبر پختون خوا میں پیسہ لگانے کی ترغیب دلانا تھا۔ اُن کے بقول صوبہ پختون خوا میں اب چونکہ اُن کی پارٹی کی حکومت ہے لہذا وہاں حالات بیرونی سرمایہ کاری کے لیے انتہائی سازگار ہیں۔ کرپشن اور امن و امان کے لحاظ سے یہ صوبہ دیگر صوبوں کی نسبت بہت بہتر ہے۔

ساتھ ہی ساتھ وہ ایک ہی سانس میں یہ بھی کہہ گئے کہ اِس سال نواز شریف حکومت کا دھڑن تختہ ہونے والا ہے اور 2015ء نئے الیکشن کا سال ہے۔ اب بھلا کون عقل مند اُن کی اِس دعوت پر یہاں سرمایہ کاری کے لیے آگے بڑھے گا جب کہ 2015 کو انھوں نے نئے الیکشن کا سال قرار دے دیا ہے۔ یہ کہہ کر اپنی اِس مہم کو خود انھوں نے ایک ہی نشست میں ضربِ کاری لگا کر ناکام بنا دیا ہے۔ اب جب تک نئے الیکشن نہیں ہو جاتے یہ طے نہیں ہو پائے گا کہ آنیوالے دنوں میں یہاں کس کی حکومت ہوتی ہے۔

کوئی بھی سمجھ دار سرمایہ کار اور بزنس مین یہاں آنے سے ہچکچاتا رہے گا۔ کسی بھی سرمایہ کا ری کے لیے امن و مان اور سیاسی استحکام اشد ضرور ی ہوا کرتا ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں ہمارے یہاں اب تک نایاب ہیں۔ ہمارے یہاں کا امن و امان تو عالمی قوتوں کے تحفظ کی خاطر دہشتگردی کی جنگ کی نذر ہو چکا ہے اور داخلی سیاسی استحکام تو خود عمران خان کے ہاتھوں گزشتہ سال چلائی جانیوالی تبدیلی کی تحریک کے ہاتھوں ناپید ہو چکا ہے۔

اب جا کے سانحہ پشاور کے بعد سیاسی حالات میں کچھ ٹہراؤ آیا ہے جس کا کریڈٹ یقینا اُس خفیہ شٹ اپ کال کو دیا جا سکتا ہے جس کی بعد ڈی چوک سے 126 دنوں سے قائم دھرنے کا خاتمہ ممکن ہو سکا۔ بصورتِ دیگر عمران خان نے تو جلاؤ گھیراؤ والا اپنا پلان سی شروع کر رکھا تھا اور اُس کے بعد وہ پلان ڈی کے تحت سارا ملک بند کر دینے کی باتیں کر رہے تھے۔ عمران خان کی پارٹی اب اُس عجیب مخمصے اور اچنبھے کا شکار ہو چکی ہے کہ جس کی بعد اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ کیا کریں۔

قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلیوں کو جعلی اور بوگس کہہ کر وہ اپنے استعفے تو جمع کر چکی ہے لیکن سینیٹ کے الیکشن میں وہ بھر پور شرکت بھی کرنا چاہتی ہے جب کہ انھیں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ سینیٹ میں پہنچنے والے ارکان اُنہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں جنھیں عمران خان پہلے ہی بوگس اور جعلی کہہ چکے ہیں۔

عمران خان کے خیال میں صرف ایک صوبے خیبر پختون خوا میں دھاندلی نہیں ہوئی لیکن اُن کے پاس اِس کا کوئی جواب نہیں ہے کہ خیبر پختون خوا سے منتخب ہونیوالے پی ٹی آئی کے ممبران ِقومی اسمبلی نے پھر اپنے استعفے کیوں جمع کروائے۔

ہمارے لیے یہ بات حیران کن بھی ہے کہ اپنے اِن استعفوں کی منظوری کے لیے وہ اب اتنی شدت سے مطالبہ نہیں کر رہے ہیں جتنی شدت سے وہ پہلے کیا کرتے تھے۔ حکومت نے بھی اُن کی اِس خوش آیند عدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اُن کے ارکان کے استعفے ابھی تک منظور نہیں کیے ہیں۔ اِس طرح اُن کے قومی اسمبلی میں جانے کا راستہ ہنوز کھلا رکھا گیا ہے۔ بہت ممکن ہے عمرا ن خان کو اپنی غلط اور غیر دانشمندانہ حکمتِ عملی کا احساس جلد یا بدیر ہو جائے اور وہ پھر سے پارلیمنٹ میں آ کے اپنا فعال کردار ادا کرنا شروع کر دیں۔

اِسے ہم عمران خان کی سیاسی عدم پختگی کہیں یا کسی تیسری قوت کے اشاروں پر کھیلا جانے والا خطرناک سیاسی کھیل جس کا مقصد پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور افراتفری پیدا کرنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ پارلیمنٹ کے اتحاد اور یکجہتی کے سبب یہ ناٹک اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے سے پہلے ہی اختتام پذیر ہو گیا۔ اور وہ عمران خان جو پہلے وزیرِ اعظم کے استعفیٰ کے کم کسی چیز پر راضی نہ تھے، رفتہ رفتہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے تک اور اب جوڈیشل کمیشن بنائے جانے تک رضامند دکھائی دینے لگے ہے۔


اُن کی زبان و لہجے میں بھی مثبت اور حیران کن تبدیلی دیکھی جانے لگی ہے۔ اور اب وہ آتش فشانی، شعلہ بیانی اور گھن گھرج بھی باقی نہ رہی جو دھرنے کے دنوں میں روزانہ کی بنیاد تلا طم اور ہیجان پیدا کرنے کا باعث بن رہی تھی۔ اب نہ وہ اعداد و شمار پیش کیے جا رہے ہیں اور نہ مبینہ دھاندلی کے غیر تصدیق شدہ شواہد اور ثبوت۔

لاہور کے حلقہ 122 کے تھیلوں سے نہ کوئی جن باہر آ سکا اور نہ کوئی مگر مچھ۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جانے کا تاثر بھی اب اپنی آب و تاب اور چمک و دمک کھو چکا ہے۔ جس الیکشن کمیشن پر وہ عدم اعتماد کا اظہار کرتے رہے وہ پہلے اُسی الیکشن کمیشن کے تحت ہونے والے تمام ضمنی الیکشنوں میں بھر پور حصہ لیتے رہے اور اب اُسی الیکشن کمیشن کے تحت سینیٹ کا الیکشن بھی لڑنے جا رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کی قیادت آج کل میڈیا کے اُن سوالوں کا جواب دینے سے قاصر ہے جس میں اُن سے اپنی ہی سابقہ پالیسیوں کے برعکس فیصلوں سے متعلق پوچھا جاتا ہے۔ ایسے سوالوں کا اُن کے پاس کوئی ٹھوس، واضح اور مدلل جواب ہرگز نہیں ہوتا۔ وہ اپنی سابقہ حکمتِ عملی کو بھی غلط اور غیر ذمے دارانہ کہنے سے ہچکچا رہے ہیں اور نئے فیصلوں کی ترجمانی کرتے ہوئے بھی تذبذب اور مخمصے کا شکار ہیں۔

اِسی پشیمانی سے بچنے کے لیے ہمارے بہت سے دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے انھیں گزشتہ برس مفید اور صائب مشورے بھی دیے کہ الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے اُس صوبے میں کارکردگی کے جوہر دکھائیں جہاں عوام نے انھیں بھرپور مینڈیٹ دیا ہے۔ لیکن اُس وقت انھوں نے طاقت کے سحر اور نشے میں ایسی کسی بات کو درخورِ اعتناء بھی نہ گردانہ بلکہ ایسے مشورے دینے والوں صحافیوں کو 'لفافہ صحافی' کے خطاب سے نوازا۔ اب یہی بات کئی ماہ ضایع کرنے کے بعد اُن کی عقل سلیمِ میں سما پائی ہے کہ صوبہ خیبر پختون خوا کو وہ ایک مثالی صوبہ بنا کر دکھائیں گے۔

جس کی ترقی و خوشحالی کے لیے وہ ایک روڈ میپ لے کر دبئی کے سرمایہ کاروں کے پاس پہنچ گئے ہیں۔ مگر یہاں بھی وہ اپنی پرانی عادت سے مجبور ہو کر پھر عدم پختگی کا ثبوت دے گئے اور سرمایہ کاروں کو سرمایہ لگانے سے پہلے ہی خبردار کر گئے کہ ملک کے حالات ابھی غیر یقینی کے دلدل سے باہر نہیں نکل پائے ہیں اور موجودہ حکومت صرف چند مہینوں کے مہمان ہے۔

اپنی کوششوں اور کاوشوں کو قبل از وقت ناکام اور سبوتاژ کرنے کی اِس کوشش کو ہم بصیرت سے عاری طرز عمل کے علاوہ اور کیا نام دے سکتے ہیں۔ عمران خان کو ابھی سیاست کے اسرار و رموز سے مکمل آشنائی کے لیے کچھ اور وقت گزارنا ہو گا۔ اقتدار کوئی پکا پکایا پھل نہیں ہوتا کہ یک دم سے آپ کی جھولی میں آ گرے۔ اِس کے لیے بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ وہ بہت ہی کم خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جنھیں راتوں رات کامیابی نصیب ہو جاتی ہے۔

جنوبی افریقہ کے نیلسن مینڈیلا اور ملائشیا کے مہاتیر محمد نے بھی اپنی زندگی کے کئی سہانے برس اِسی جدوجہد میں ضایع کیے تھے جب جا کے انھیں مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہونا ممکن ہو پایا تھا۔ جلد بازی اور بے صبری کبھی کبھی کامیابیوں کو ناکامیوں میں دوچار کر دیتی ہے۔

اقتدار و اختیار کا ملنا اگر آپ کی قسمت میں لکھا ہوا ہے تو کوئی بھی اُسے آپ سے چھین نہیں سکتا۔ بس اِس کے لیے ذرا شائستگی، برد باری اور فہم و فراست کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے اندر اِن خداداد صلاحیتوں کو پیدا ہونے دیں اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں، پھر دیکھیں آپ کے ارمانوں اور حسرتوں کو کس طرح سکون و قرار نصیب ہوتا ہے۔
Load Next Story