تعلیم تربیت
تربیت کے بغیر تعلیم، روبوٹ تو شاید پیدا کرسکتی ہو مگر آدمی کو انسان نہیں بنا سکتی۔
بعض معروف انگریزی الفاظ یا اصطلاحات کے اردو تراجم اگر غلط نہیں تو ادھورے اور نامکمل ضرور ہیں۔ مثال کے طور پر Education ہی کو لے لیجیے انگریزی نظام تعلیم میں اس کے معنی تعلیم و تربیت کے ہیں جب کہ ہمارے یہاں اس کا تعلق نصابی تعلیم اور اس سے حاصل کی جانے والی ڈگری یا سرٹیفکیٹ تک ہے اور بس۔ اب یہ اور بات ہے کہ ہمارے نظام تعلیم میں اس کا یہ مطلب بھی خبط ہوکر رہ گیا ہے کہ بارہ سال تک اردو اور انگریزی کو بطور لازمی مضمون پڑھنے اور اس میں ہر سال پاس قرار دیے جانے کے باوجود ہمارے بیشتر طالب علم ان دونوں یا دونوں میں سے کسی ایک زبان میں چار صحیح جملے لکھنے کے قابل نہیں ہو پاتے۔
یہ اپنی جگہ پر بہت اہم اور غور طلب بات ہے مگر فی الوقت میں اس سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے اصل مدعا کی طرف واپس آتا ہوں کہ تربیت کے بغیر تعلیم، روبوٹ تو شاید پیدا کرسکتی ہو مگر آدمی کو انسان بنانا اس کے بس کا کام نہیں۔ ہمارے اسکولوں میں معاشرتی آداب اگر پڑھائے جاتے ہیں تو صرف خانہ پری کی حد تک۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جب تک انھیں عملی طور پر سکھایا نہ جائے اور اسے بچوں کی فطرت میں داخل نہ کیا جائے یہ بچے کی شخصیت کا حصہ نہیں بنتے۔
آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ ہمارے یہاں بیشتر لوگ پیچھے آنے والوں کے لیے ایک دو پل دروازہ تھام کر اسے آہستہ سے اپنی جگہ پر واپس جانے دینے یا کسی اور کے اسے تھامنے کے بجائے زور سے اس طرح چھوڑتے ہیں کہ پیچھے آنے والے کے منہ پر لگتا یا لگ سکتا ہے۔
اسی طرح رستہ دینے یا رستہ دینے والے کو اشارے سے شکریہ کہنے کا رواج بھی ہمارے یہاں کم کم ہے۔ شادیوں یا دعوتوں میں بھی اپنی باری پر کھانا لینا ان پڑھوں سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اسی طرح گاڑیوں کو غلط طریقے سے پارک کرنا یا موبائل پر گفتگو کرنے کے دوران ڈرائیونگ کرنے والے حضرات اردگرد کی ساری ٹریفک کے ردھم کو درہم برہم کردیتے ہیں مگر ٹوکنے یا احساس دلانے پر بجائے شرمندہ ہونے کے لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔
ہوسکتا ہے اس سارے منظر نامے کی کچھ اور وجوہات بھی ہوں مگر میرے نزدیک اس کی بنیادی وجہ تربیت کی کمی ہے جس کی ذمے داری گھر اور اسکول دونوں پر یکساں لاگو ہوتی ہے۔ کسی ایک کی کمی سے تو کچھ نہ کچھ گزارا ہوجاتا ہے مگر جب یہ تالی دونوں ہاتھ سے بجنی شروع ہوجائے تو پھر پورے معاشرے کا کباڑہ ہوجاتا ہے۔
اٹھنے بیٹھنے، بات چیت کرنے، کھانے سے قبل ہاتھ دھونے، واش روم استعمال کرنے اور اپنے اردگرد کو صاف اور منظم رکھنا تعلیم سے زیادہ تربیت سے تعلق رکھتا ہے کہ جن بچوں کو گھر اور اسکول سے ان چیزوں کی تربیت حاصل ہو دیکھا گیا ہے کہ وہ زندگی بھر ہر حالت میں اس پر عمل کرتے ہیں اوراس کے لیے ان کو یاد بھی دلانا نہیں پڑتا کیونکہ یہ عادات ان کی شخصیت کا مستقل حصہ بن جاتی ہیں۔ سرکاری کالجوں اور پروفیشنل تعلیم سے متعلق اداروں میں بھی اب استاد اور شاگرد کے رشتے میں وہ گہرائی اور Owner ship دکھائی نہیں دیتی جو کہ کبھی ہوا کرتی تھی۔
سب سے زیادہ بربادی طرح طرح کے انگلش میڈیم اسکولوں اور ان میں پڑھنے والے نودولتیہ طبقے سے متعلق بچوں اور ان کے والدین کی وجہ سے ہوئی ہے کہ ان کے گٹھ جوڑ کا براہ راست منفی اثر اسی رشتے پر پڑا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ غیر شفاف انداز میں دولت تو خاندانی طور پر کچھ امیر لوگ بھی کماتے ہیں اور ان کی اپنی خرابیاں بھی ہیں مگر جب نچلے اور متوسط اور عمومی طور پر کم تعلیم (تربیت) یافتہ لوگ کسی نہ کسی طریقے سے یک دم امیر ہوجاتے ہیں۔
تو ان کی تازہ تازہ کمائی ہوئی دولت کا خمار ان چند اقدار کو بھی روند ڈالتا ہے جو اب تک کسی نہ کسی شکل میں موجود تھیں اور یوں وہ ہر چیز کو دولت کی قدر کے پیمانے سے ناپنا شروع کردیتے ہیں اور ان کے مزاج میں خلوص، عاجزی، محبت، احسان مندی اور شکر کے بجائے تکبر، خود پسندی، طبقاتی غرور اور اوچھے پن کا غلبہ ہوجاتا ہے اور یہی عناصر یہ تحفے اپنے بچوں کو ہمہ وقت منتقل کرتے چلے جاتے ہیں اور یوں والد کا درجہ رکھنے والا استاد ان کے لیے محض ایک تنخواہ دار کارندہ بن جاتا ہے۔
اس طرح کے لوگ اپنے بچوں کے ذہن میں یہ بات ہمہ وقت انڈیلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ دولت سے سب کچھ خریدا جاسکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان بچوں کی بنیادی تربیت ہی غلط بنیادوں پر ہوتی ہے اور یوں وہ اخلاق، رواداری، Courtesy، خوش دلی اور قربانی جیسی خوبصورت اور اشرف المخلوقاتی اقدار سے واقف ہی نہیں ہو پاتے۔ تربیت کی یہ کمی انھیں سنگدل، خود غرض اور ناشکرا بنا دیتی ہے اور وہ ایک ایسے جہل خرد کے شکار ہوجاتے ہیں جس کے بارے میں جگر نے کہا تھا
جہل خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں، بڑھ گئے سائے
علامہ صاحب کی ''ضرب کلیم'' پر نظر دوڑاتے ہوئے اچانک ''تربیت'' کے عنوان سے ایک مختصر نظم سامنے آگئی۔
اس میں بات وہی ہے جو آج کے اس کالم کا موضوع ہے لیکن انداز فلسفیانہ ہے اور مخاطب چونکہ آج سے قریباً ایک صدی قبل کا غلام ذہنیت کا حامل ہندی مسلمان ہے اس لیے اس میں عالمی صداقت بھی ہے اور مقامی حوالے بھی۔ اس میں اہل دانش اور اہل نظر کے مابین جس فرق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ تعلیم کا وہی فراموش کردہ حصہ ہے جسے تربیت کہا جاتا ہے۔
یہ اپنی جگہ پر بہت اہم اور غور طلب بات ہے مگر فی الوقت میں اس سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے اصل مدعا کی طرف واپس آتا ہوں کہ تربیت کے بغیر تعلیم، روبوٹ تو شاید پیدا کرسکتی ہو مگر آدمی کو انسان بنانا اس کے بس کا کام نہیں۔ ہمارے اسکولوں میں معاشرتی آداب اگر پڑھائے جاتے ہیں تو صرف خانہ پری کی حد تک۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جب تک انھیں عملی طور پر سکھایا نہ جائے اور اسے بچوں کی فطرت میں داخل نہ کیا جائے یہ بچے کی شخصیت کا حصہ نہیں بنتے۔
آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ ہمارے یہاں بیشتر لوگ پیچھے آنے والوں کے لیے ایک دو پل دروازہ تھام کر اسے آہستہ سے اپنی جگہ پر واپس جانے دینے یا کسی اور کے اسے تھامنے کے بجائے زور سے اس طرح چھوڑتے ہیں کہ پیچھے آنے والے کے منہ پر لگتا یا لگ سکتا ہے۔
اسی طرح رستہ دینے یا رستہ دینے والے کو اشارے سے شکریہ کہنے کا رواج بھی ہمارے یہاں کم کم ہے۔ شادیوں یا دعوتوں میں بھی اپنی باری پر کھانا لینا ان پڑھوں سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اسی طرح گاڑیوں کو غلط طریقے سے پارک کرنا یا موبائل پر گفتگو کرنے کے دوران ڈرائیونگ کرنے والے حضرات اردگرد کی ساری ٹریفک کے ردھم کو درہم برہم کردیتے ہیں مگر ٹوکنے یا احساس دلانے پر بجائے شرمندہ ہونے کے لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔
ہوسکتا ہے اس سارے منظر نامے کی کچھ اور وجوہات بھی ہوں مگر میرے نزدیک اس کی بنیادی وجہ تربیت کی کمی ہے جس کی ذمے داری گھر اور اسکول دونوں پر یکساں لاگو ہوتی ہے۔ کسی ایک کی کمی سے تو کچھ نہ کچھ گزارا ہوجاتا ہے مگر جب یہ تالی دونوں ہاتھ سے بجنی شروع ہوجائے تو پھر پورے معاشرے کا کباڑہ ہوجاتا ہے۔
اٹھنے بیٹھنے، بات چیت کرنے، کھانے سے قبل ہاتھ دھونے، واش روم استعمال کرنے اور اپنے اردگرد کو صاف اور منظم رکھنا تعلیم سے زیادہ تربیت سے تعلق رکھتا ہے کہ جن بچوں کو گھر اور اسکول سے ان چیزوں کی تربیت حاصل ہو دیکھا گیا ہے کہ وہ زندگی بھر ہر حالت میں اس پر عمل کرتے ہیں اوراس کے لیے ان کو یاد بھی دلانا نہیں پڑتا کیونکہ یہ عادات ان کی شخصیت کا مستقل حصہ بن جاتی ہیں۔ سرکاری کالجوں اور پروفیشنل تعلیم سے متعلق اداروں میں بھی اب استاد اور شاگرد کے رشتے میں وہ گہرائی اور Owner ship دکھائی نہیں دیتی جو کہ کبھی ہوا کرتی تھی۔
سب سے زیادہ بربادی طرح طرح کے انگلش میڈیم اسکولوں اور ان میں پڑھنے والے نودولتیہ طبقے سے متعلق بچوں اور ان کے والدین کی وجہ سے ہوئی ہے کہ ان کے گٹھ جوڑ کا براہ راست منفی اثر اسی رشتے پر پڑا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ غیر شفاف انداز میں دولت تو خاندانی طور پر کچھ امیر لوگ بھی کماتے ہیں اور ان کی اپنی خرابیاں بھی ہیں مگر جب نچلے اور متوسط اور عمومی طور پر کم تعلیم (تربیت) یافتہ لوگ کسی نہ کسی طریقے سے یک دم امیر ہوجاتے ہیں۔
تو ان کی تازہ تازہ کمائی ہوئی دولت کا خمار ان چند اقدار کو بھی روند ڈالتا ہے جو اب تک کسی نہ کسی شکل میں موجود تھیں اور یوں وہ ہر چیز کو دولت کی قدر کے پیمانے سے ناپنا شروع کردیتے ہیں اور ان کے مزاج میں خلوص، عاجزی، محبت، احسان مندی اور شکر کے بجائے تکبر، خود پسندی، طبقاتی غرور اور اوچھے پن کا غلبہ ہوجاتا ہے اور یہی عناصر یہ تحفے اپنے بچوں کو ہمہ وقت منتقل کرتے چلے جاتے ہیں اور یوں والد کا درجہ رکھنے والا استاد ان کے لیے محض ایک تنخواہ دار کارندہ بن جاتا ہے۔
اس طرح کے لوگ اپنے بچوں کے ذہن میں یہ بات ہمہ وقت انڈیلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ دولت سے سب کچھ خریدا جاسکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان بچوں کی بنیادی تربیت ہی غلط بنیادوں پر ہوتی ہے اور یوں وہ اخلاق، رواداری، Courtesy، خوش دلی اور قربانی جیسی خوبصورت اور اشرف المخلوقاتی اقدار سے واقف ہی نہیں ہو پاتے۔ تربیت کی یہ کمی انھیں سنگدل، خود غرض اور ناشکرا بنا دیتی ہے اور وہ ایک ایسے جہل خرد کے شکار ہوجاتے ہیں جس کے بارے میں جگر نے کہا تھا
جہل خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں، بڑھ گئے سائے
علامہ صاحب کی ''ضرب کلیم'' پر نظر دوڑاتے ہوئے اچانک ''تربیت'' کے عنوان سے ایک مختصر نظم سامنے آگئی۔
اس میں بات وہی ہے جو آج کے اس کالم کا موضوع ہے لیکن انداز فلسفیانہ ہے اور مخاطب چونکہ آج سے قریباً ایک صدی قبل کا غلام ذہنیت کا حامل ہندی مسلمان ہے اس لیے اس میں عالمی صداقت بھی ہے اور مقامی حوالے بھی۔ اس میں اہل دانش اور اہل نظر کے مابین جس فرق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ تعلیم کا وہی فراموش کردہ حصہ ہے جسے تربیت کہا جاتا ہے۔