یہ ہم ہماری کرپشن اور قائد کا پاکستان
ہم قائد اعظم کے بنائے ہوئے ملک میں افسوس کہ ان کے کردار کی ایک ہلکی سی جھلک بھی نہیں دکھا سکتے۔
دو تین دن پہلے کی خبر ہے کہ ایک اونچے مرتبے کے دفتر نے 'نیب' سے کہا کہ وہ اپنے زیر تفتیش مقدموں سے اسے آگاہ کرے لیکن 'نیب' نے معذرت کر دی اور کہا کہ اس کے پاس بہت اونچے مقام و مرتبہ کے لوگوں کے مقدمات ہیں جو ان کی بدعنوانی سے متعلق ہیں وہ انھیں افشاں نہیں کر سکتی۔ خبرنگار نے اس ضمن میں از خود چند لوگوں کے نام بھی درج کر دیے جو وزیراعظم بھی رہے ہیں۔ ان کے بارے میں پہلے بھی خبریں آتی رہی ہیں کہ ان پر بدعنوانی اور کرپشن کے کئی مقدمے زیر تفتیش ہیں۔
ہوا یہ کہ گزشتہ دنوں ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں کی لوٹ سیل جاری رہی اور کئی بدنام زمانہ حضرات بھی ملک کی انتظامیہ کے سربراہ مقرر کر دیے گئے۔ انھیں معلوم تھا کہ ان پر یہ خصوصی مہربانی کی گئی ہے اور اس کی وجوہات کا بھی ان کو علم تھا چنانچہ انھوں نے اپنے اختیارات کی لوٹ سیل بھی لگا دی اور بچے سقے والی اس حکومت میں چمڑے کے سکے تک بنا کر چلا دیے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ جس کسی کی کرپشن سامنے آتی ہے تو وہ عموماً کروڑوں سے بڑھ کر اربوں میں ہوتی ہے۔
ہمارے جیسے عوام حیران اور پریشان ہوتے ہیں کہ کیا ہم واقعی اتنے رئیس ہیں کہ ہماری رشوتیں بھی دنیا کے دولت مند ملکوں کی دولت والی ہیں دوسری طرف عوام جب اپنی حالت زار دیکھتے ہیں تو مزید حیران ہوتے ہیں کہ ان اربوں روپوں میں سے ان تک چند سو بھی نہیں پہنچتے۔ اپنی مثال دوں تو عمر بھر نوکری کی اور اخباروں میں اونچے عہدوں پر کام کیا لیکن ہمیشہ تنخواہ اور اخراجات کا عدم توازن پریشان کرتا رہا۔ اگر کوئی ایک مہینہ تنخواہ اور اخراجات کی جنگ کے بغیر گزر جاتا تو خوشی سے وزن بڑھ جاتا ورنہ ہر ماہ کے آخر میں تنخواہ اور اخراجات میں تفاوت سے پہلے سے زیادہ اسمارٹ ہو جاتے۔
اس میں قصور حالات کا نہیں میری اپنی نالائقی کا ہے کہ اب تک کرائے کے مکان میں قیام پذیر ہوں اور اس مشہور ضرب المثل کے دھوکے میں رہتا ہوں کہ بے وقوف لوگ مکان بناتے ہیں اور عقلمند ان میں رہتے ہیں۔ میں اپنی اس عقلمندی پر ناز کرتا رہتا ہوں اور کالم نویسی کا الٹا اپنے آپ پر رعب ڈالتا رہتا ہوں۔ زندگی کے یہ فریب نہ ہوتے تو غالب کی طرح ہم بھی انھی فریب اور دھوکوں میں عمر گزار دیتے جو واقعتاً ایسے ہی گزر رہی ہے۔ ہم تو خوش کن اتفاقات سے بھی محروم ہیں خواہ وہ معمولی سے بھی کیوں نہ ہوں۔ ایسی کئی تاریخی مثالیں دے کر آپ کو پریشان کرنا نہیں چاہتا بس یہی سمجھیں کہ زندگی تمام حلقہ دام خیال ہے۔
ہم اکثر پاکستانی اپنی نیک پاک زندگیوں کے حلقہ ہائے دام خیال میں گرفتار زندہ چلے آ رہے ہیں جب کہ ترقی کرتے کرتے رشوت اور کرپشن اربوں تک پہنچ گئی ہے۔ ہم وطن عزیز کی اس رشوتی خوشحالی کی خوش خبریاں ہی سنتے رہتے ہیں اور انھیں پر زندہ ہیں اور ان وعدوں پر جو ہمارے سیاستدان ہر الیکشن کے موقع پر ووٹروں سے کیا کرتے ہیں۔ کئی خطوط موصول ہوتے ہیں اور یاد دہانیاں کرائی جاتی ہیں کہ فلاں حکمران نے یہ وعدہ کیا تھا جو اب تک وفا نہیں کیا گیا۔
عام لوگوں کے ساتھ اکا دکا وعدوں کا تو ذکر ہی کیا جو وعدے گروہوں اور کسی طبقے سے کیے جاتے ہیں جو ان کو یاد رہتے ہیں وہ بھی پورے نہیں ہوتے۔ جب آپ کسی کے جلوس اور مظاہرے کا ذکر سنتے ہیں یا ٹی وی پر دیکھتے ہیں تو یہ دراصل کسی سرکاری وعدے کی یاد دہانی ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ جھوٹ نہیں ہوتی۔ ایک آدھ دن پہلے لاہور میں اندھوں کا جلوس تھا جو سرکاری وعدے کے مطابق نوکری کی تلاش میں تھے اس سے قبل اندھوں کے ایک جلوس پر پولیس اپنا زور بازو بھی آزما چکی ہے لیکن مزید وعدے کر کے اور زیادہ پکے وعدے کر کے جلوس کو ٹال دیا جاتا ہے۔
جب میں کبھی کسی حکمران کے بیرون ملک کسی دورے کی خبر پاتا ہوں اور پھر اس کے اخراجات کا پتہ چلتا ہے تو دو باتوں پر تعجب ہوتا ہے ایک تو اس حکمران کی سنگدلی پر جو اس ملک کی سرکاری دولت کو اڑا دیتا ہے دوسرے کسی ایسے وعدے پر جو اس دورے کے اخراجات سے پورا ہو سکتا تھا۔ اس اندھیر نگری میں 'نیب' کی جرات پر تعجب ہوتا ہے جس نے اعلیٰ ترین حکم کا جواب معذرت میں دیا ہے اور کہا ہے کہ اپنے زیر تفتیش مقدمات کے اظہار سے ان کا کام متاثر ہو گا اور وہ اطمینان کے ساتھ اپنا فرض ادا نہیں کرسکیں گے۔
سخت تعجب اور حیرت ہے کہ ملک میں کوئی ایسا ادارہ بھی موجود ہے زندہ ہے اور فرض شناس ہے جو اپنے کام کو جاری رکھنے پر مصر ہے اور کسی بھی حکم کو ٹال سکتا ہے جب کہ اس حکم کو جاری کرنے والا ان کی نوکری کو بھی ختم کر سکتا ہے۔ نیب کی اس جرات کا اجر ہم عوام نہیں دے سکتے۔ ہم صرف خوشی کا اظہار کر سکتے ہیں اور اس ادارے کو دعا دے سکتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جس منصب سے نیب کو یہ حکم جاری ہوا تھا اس نے اس حکم کی تعمیل پر اصرار نہیں کیا۔ بدگمانی کریں تو اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انکار کرنے والے ادارے نے ایسے کسی عزم کا اظہار کیا ہو جس عزم کو توڑا نہیں جا سکتا تھا اور بہتر یہی تھا کہ ان گستاخوں سے عزت بچا لی جائے۔
کرپشن اب اس عروج پر پہنچ چکی ہے کہ ہر جگہ اس کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا اور کرپشن کی کئی صورتیں ہیں۔ غلط سوچ بھی کرپشن ہے اور غلط حکمرانی بھی کرپشن میں شمار کی جا سکتی ہے۔ عوام کے کسی گروہ یا فرد کے ساتھ وعدہ خلافی بھی کرپشن ہے اور کسی دفتر کسی کام میں سستی بھی کرپشن ہے، غرض کرپشن کی ہزار قسمیں ہیں اور کسی غلط کام کا کس کو علم اور احساس نہیں ہے۔
صرف یہ بات عرض کرتا ہوں کہ کرپشن اوپر سے شروع ہوتی ہے اور بقول مادر ملت مچھلی سر سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے یعنی وہ مادر ملت جو کسی سرکاری کھانے میں تین مہمانوں کے لیے چار سیب دیکھ کر برہم ہوجاتی تھیں اور جن کا بھائی قومی خزانے کی حفاظت میں حد سے بڑھ جاتا تھا۔ قائداعظم کی زندگی دیکھ کر ان پر کسی گزرے زمانے کے فرد کا گمان ہوتا ہے ہم اس کے بنائے ہوئے ملک میں افسوس کہ اس کے کردار کی ایک ہلکی سی جھلک بھی نہیں دکھا سکتے۔
ایک بیمار شخص جو دشمنوں سے اپنی بیماری چھپا کر پاکستان بنا گیا لیکن اس کی یہ بیماری اس کے ملک کے دارالحکومت کراچی کی سڑکوں پر اسے خراب انجن والی ایمبولینس میں اذیت دیتی رہی۔ ائر مارشل اصغر خان جو اس وقت اتفاق سے اس سڑک پر سے گزر رہے تھے اس صورت حال کا آنکھوں دیکھا درد ناک حال بیان کرتے ہیں مگر ہم آج کے پاکستانیوں کو کچھ یاد نہیں کہ ہمارے اس ملک اور ہماری اس پناہ گاہ کو کس نے بنایا تھا۔ ہمیں اس کے ملک میں صرف کرپشن یاد ہے۔ اللہ کرے یہ ملک کسی اور 'سقوط ڈھاکا' سے محفوظ رہے۔
ہوا یہ کہ گزشتہ دنوں ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں کی لوٹ سیل جاری رہی اور کئی بدنام زمانہ حضرات بھی ملک کی انتظامیہ کے سربراہ مقرر کر دیے گئے۔ انھیں معلوم تھا کہ ان پر یہ خصوصی مہربانی کی گئی ہے اور اس کی وجوہات کا بھی ان کو علم تھا چنانچہ انھوں نے اپنے اختیارات کی لوٹ سیل بھی لگا دی اور بچے سقے والی اس حکومت میں چمڑے کے سکے تک بنا کر چلا دیے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ جس کسی کی کرپشن سامنے آتی ہے تو وہ عموماً کروڑوں سے بڑھ کر اربوں میں ہوتی ہے۔
ہمارے جیسے عوام حیران اور پریشان ہوتے ہیں کہ کیا ہم واقعی اتنے رئیس ہیں کہ ہماری رشوتیں بھی دنیا کے دولت مند ملکوں کی دولت والی ہیں دوسری طرف عوام جب اپنی حالت زار دیکھتے ہیں تو مزید حیران ہوتے ہیں کہ ان اربوں روپوں میں سے ان تک چند سو بھی نہیں پہنچتے۔ اپنی مثال دوں تو عمر بھر نوکری کی اور اخباروں میں اونچے عہدوں پر کام کیا لیکن ہمیشہ تنخواہ اور اخراجات کا عدم توازن پریشان کرتا رہا۔ اگر کوئی ایک مہینہ تنخواہ اور اخراجات کی جنگ کے بغیر گزر جاتا تو خوشی سے وزن بڑھ جاتا ورنہ ہر ماہ کے آخر میں تنخواہ اور اخراجات میں تفاوت سے پہلے سے زیادہ اسمارٹ ہو جاتے۔
اس میں قصور حالات کا نہیں میری اپنی نالائقی کا ہے کہ اب تک کرائے کے مکان میں قیام پذیر ہوں اور اس مشہور ضرب المثل کے دھوکے میں رہتا ہوں کہ بے وقوف لوگ مکان بناتے ہیں اور عقلمند ان میں رہتے ہیں۔ میں اپنی اس عقلمندی پر ناز کرتا رہتا ہوں اور کالم نویسی کا الٹا اپنے آپ پر رعب ڈالتا رہتا ہوں۔ زندگی کے یہ فریب نہ ہوتے تو غالب کی طرح ہم بھی انھی فریب اور دھوکوں میں عمر گزار دیتے جو واقعتاً ایسے ہی گزر رہی ہے۔ ہم تو خوش کن اتفاقات سے بھی محروم ہیں خواہ وہ معمولی سے بھی کیوں نہ ہوں۔ ایسی کئی تاریخی مثالیں دے کر آپ کو پریشان کرنا نہیں چاہتا بس یہی سمجھیں کہ زندگی تمام حلقہ دام خیال ہے۔
ہم اکثر پاکستانی اپنی نیک پاک زندگیوں کے حلقہ ہائے دام خیال میں گرفتار زندہ چلے آ رہے ہیں جب کہ ترقی کرتے کرتے رشوت اور کرپشن اربوں تک پہنچ گئی ہے۔ ہم وطن عزیز کی اس رشوتی خوشحالی کی خوش خبریاں ہی سنتے رہتے ہیں اور انھیں پر زندہ ہیں اور ان وعدوں پر جو ہمارے سیاستدان ہر الیکشن کے موقع پر ووٹروں سے کیا کرتے ہیں۔ کئی خطوط موصول ہوتے ہیں اور یاد دہانیاں کرائی جاتی ہیں کہ فلاں حکمران نے یہ وعدہ کیا تھا جو اب تک وفا نہیں کیا گیا۔
عام لوگوں کے ساتھ اکا دکا وعدوں کا تو ذکر ہی کیا جو وعدے گروہوں اور کسی طبقے سے کیے جاتے ہیں جو ان کو یاد رہتے ہیں وہ بھی پورے نہیں ہوتے۔ جب آپ کسی کے جلوس اور مظاہرے کا ذکر سنتے ہیں یا ٹی وی پر دیکھتے ہیں تو یہ دراصل کسی سرکاری وعدے کی یاد دہانی ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ جھوٹ نہیں ہوتی۔ ایک آدھ دن پہلے لاہور میں اندھوں کا جلوس تھا جو سرکاری وعدے کے مطابق نوکری کی تلاش میں تھے اس سے قبل اندھوں کے ایک جلوس پر پولیس اپنا زور بازو بھی آزما چکی ہے لیکن مزید وعدے کر کے اور زیادہ پکے وعدے کر کے جلوس کو ٹال دیا جاتا ہے۔
جب میں کبھی کسی حکمران کے بیرون ملک کسی دورے کی خبر پاتا ہوں اور پھر اس کے اخراجات کا پتہ چلتا ہے تو دو باتوں پر تعجب ہوتا ہے ایک تو اس حکمران کی سنگدلی پر جو اس ملک کی سرکاری دولت کو اڑا دیتا ہے دوسرے کسی ایسے وعدے پر جو اس دورے کے اخراجات سے پورا ہو سکتا تھا۔ اس اندھیر نگری میں 'نیب' کی جرات پر تعجب ہوتا ہے جس نے اعلیٰ ترین حکم کا جواب معذرت میں دیا ہے اور کہا ہے کہ اپنے زیر تفتیش مقدمات کے اظہار سے ان کا کام متاثر ہو گا اور وہ اطمینان کے ساتھ اپنا فرض ادا نہیں کرسکیں گے۔
سخت تعجب اور حیرت ہے کہ ملک میں کوئی ایسا ادارہ بھی موجود ہے زندہ ہے اور فرض شناس ہے جو اپنے کام کو جاری رکھنے پر مصر ہے اور کسی بھی حکم کو ٹال سکتا ہے جب کہ اس حکم کو جاری کرنے والا ان کی نوکری کو بھی ختم کر سکتا ہے۔ نیب کی اس جرات کا اجر ہم عوام نہیں دے سکتے۔ ہم صرف خوشی کا اظہار کر سکتے ہیں اور اس ادارے کو دعا دے سکتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جس منصب سے نیب کو یہ حکم جاری ہوا تھا اس نے اس حکم کی تعمیل پر اصرار نہیں کیا۔ بدگمانی کریں تو اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انکار کرنے والے ادارے نے ایسے کسی عزم کا اظہار کیا ہو جس عزم کو توڑا نہیں جا سکتا تھا اور بہتر یہی تھا کہ ان گستاخوں سے عزت بچا لی جائے۔
کرپشن اب اس عروج پر پہنچ چکی ہے کہ ہر جگہ اس کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا اور کرپشن کی کئی صورتیں ہیں۔ غلط سوچ بھی کرپشن ہے اور غلط حکمرانی بھی کرپشن میں شمار کی جا سکتی ہے۔ عوام کے کسی گروہ یا فرد کے ساتھ وعدہ خلافی بھی کرپشن ہے اور کسی دفتر کسی کام میں سستی بھی کرپشن ہے، غرض کرپشن کی ہزار قسمیں ہیں اور کسی غلط کام کا کس کو علم اور احساس نہیں ہے۔
صرف یہ بات عرض کرتا ہوں کہ کرپشن اوپر سے شروع ہوتی ہے اور بقول مادر ملت مچھلی سر سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے یعنی وہ مادر ملت جو کسی سرکاری کھانے میں تین مہمانوں کے لیے چار سیب دیکھ کر برہم ہوجاتی تھیں اور جن کا بھائی قومی خزانے کی حفاظت میں حد سے بڑھ جاتا تھا۔ قائداعظم کی زندگی دیکھ کر ان پر کسی گزرے زمانے کے فرد کا گمان ہوتا ہے ہم اس کے بنائے ہوئے ملک میں افسوس کہ اس کے کردار کی ایک ہلکی سی جھلک بھی نہیں دکھا سکتے۔
ایک بیمار شخص جو دشمنوں سے اپنی بیماری چھپا کر پاکستان بنا گیا لیکن اس کی یہ بیماری اس کے ملک کے دارالحکومت کراچی کی سڑکوں پر اسے خراب انجن والی ایمبولینس میں اذیت دیتی رہی۔ ائر مارشل اصغر خان جو اس وقت اتفاق سے اس سڑک پر سے گزر رہے تھے اس صورت حال کا آنکھوں دیکھا درد ناک حال بیان کرتے ہیں مگر ہم آج کے پاکستانیوں کو کچھ یاد نہیں کہ ہمارے اس ملک اور ہماری اس پناہ گاہ کو کس نے بنایا تھا۔ ہمیں اس کے ملک میں صرف کرپشن یاد ہے۔ اللہ کرے یہ ملک کسی اور 'سقوط ڈھاکا' سے محفوظ رہے۔