پاکستان کرکٹ نصف صدی کا قصہ
کرکٹ کھیل سے بڑھ کر ایک سائنس بن چکا ہے۔
گو کہ عوامی ردعمل بہت مختلف ہے لیکن ناصر جمشید کو بلے بازی اور فیلڈنگ میں جدوجہد کرتے دیکھنا ہر اس شخص کے لیے تکلیف دہ امر ہونا چاہیے، جس نے انھیں 2013ء کے اوائل میں روایتی حریف بھارت کے خلاف دھواں دار سنچریاں بناتے دیکھا تھا۔
چنئی اور کولکتہ کے فاتح بلے باز کو مسلسل چار مقابلے میں واحد ہندسے کی نذر ہوتے دیکھنا کرکٹ کو سمجھنے اور اسے پسند کرنے والے کے لیے ایک خاصا پریشان کن منظر تھا، اس پر طرّہ اْن کی ناقص فیلڈنگ کہ جس نے میں کیچ بھی چھْوٹے اور کئی رنز بھی اضافی دیے گئے۔
اب ایسا لگتا ہے کہ جنوبی افریقہ کے خلاف اہم مقابلے میں ان کی جگہ برقرار نہیں رہے گی اور پاکستان بالآخر سرفراز احمد کو عالمی کپ میں پہلا مقابلہ کھلائے گا۔ فی الوقت تو یہ صرف اندازہ ہے، حقیقت تو مقابلے کے دن ہی معلوم ہو گی لیکن ناصر جمشید کو اس مضحکہ خیز مقام پر اور سرفراز احمد کو بوتلیں ڈھونے کا "فریضہ" انجام دیتے ہوئے دیکھنا قومی کرکٹ کے ایک تاریک پہلو کی عکاسی کر رہا ہے کہ آخر ہمارے ہاں ایک اوسط درجے کا کھلاڑی کیوں آگے نہیں بڑھ پاتا اور انتہائی باصلاحیت کھلاڑی بھی 'بہت بے آبرو ہوکر' نکالا جاتا ہے؟
اگر ہم بیرون ملک دیکھیں تو ہمیں کئی مثالیں نظر آتی ہیں۔ جنوبی افریقہ کے پاکستانی نژاد عمران طاہر، جس کھلاڑی کو پاکستان نے ملک کی نمایندگی کے قابل نہیں سمجھا وہ جنوبی افریقہ ہجرت کر جاتا ہے اور بعد میں دنیا کی نمبر ایک ٹیم کا مستقل رکن بن جاتا ہے۔ وہ گیندیں جو پاکستان میں تو شاید بے ضرر سی ہوتیں، اب اس قابل ہو گئی ہیں کہ جنوبی افریقہ کو سہارا دے رہی ہیں۔
پھر فی زمانہ دنیا کے بہترین بلے باز ہاشم آملہ کو دیکھیں۔ اپنے کیریئر کے ابتدائی مراحل میں ناکامی کے بعد یہ تک کہا گیا کہ ہاشم کی تکنیک بہت خراب ہے اور وہ زیادہ عرصے نہیں چل پائیں گے لیکن اب وہ تمام طرز کی کرکٹ کے بہترین بلے بازوں میں شمار ہوتے ہیں۔
پھر آسٹریلیا کا اوسط درجے کا آل راؤنڈ اسٹیون اسمتھ دنیا کی بہترین ٹیم کی قیادت تک پہنچ جاتا ہے، اسٹورٹ براڈ کا کیریئر چھ گیندوں پر چھ چھکے کھانے کے باوجود ختم نہیں ہوتا بلکہ وہ مزید بہتر باؤلر کی حیثیت سے اپنا مقام بناتا ہے، مچل جانسن بدترین کارکردگی کے مظاہروں کے بعد دنیا کا خطرناک ترین گیندباز بنتا ہے لیکن پاکستان میں عمر اکمل جیسا باصلاحیت بلے باز ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچھے کا سفر کر رہا ہے، ناصر جمشید بہترین آغاز کے بعد اب ناکامیوں کے گھیرے میں ہے اور یہ فہرست بہت طویل ہے، جسے چھیڑنا اس وقت مقصود نہیں۔
اگر نوجوانوں سے ہٹ کر دیکھیں تو سعید اجمل کے باؤلنگ ایکشن پر کئی سالوں سے اعتراض اٹھ رہے تھے، لیکن ہم نے اس وقت تک ان کے ایکشن کو نہیں جانچا، جب تک کہ ان پر پابندی عائد نہیں ہوئی جب کہ ویسٹ انڈیز کے اسپنر سنیل نرائن کا باؤلنگ ایک مرتبہ بھی بین الاقوامی کرکٹ میں رپورٹ نہیں ہوا لیکن وہ اس پر محنت کر رہے ہیں اور اسی وقت واپس آنا چاہتے ہیں جب وہ خود مطمئن ہوں۔
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے جدید کرکٹ کے تقاضوں کو اچھی طرح سمجھا ہی نہیں۔ یہ اب کھیل سے بڑھ کر ایک سائنس بن چکا ہے اور وہ بھی اْن کے لیے جو ہر وقت اپنے دماغ کو حاضر رکھیں۔ پھر کھلاڑیوں کو متحرک رکھنے اور انھیں بھرپور تحریک دینے کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں تو 18 کروڑ ناقدین ہیں، جن کا کام اپنی "ماہرانہ رائے" ٹھونسنا اور کھلاڑیوں کی ٹانگیں کھینچنے کے علاوہ کچھ نہیں۔
بہرحال، یہ ایک طویل داستان ہے، اہم عہدوں پر نااہل اور غائب دماغ افسران کی موجودگی کی، کھلاڑیوں میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے مسائل کو اچھی نہ سمجھ پانے کی اور سب سے بڑھ کر دقیانوسی طریقوں سے جدید کرکٹ میں فاتح بننے کی سعی لاحاصل کی اور یہ 'نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں'۔ دعا یہ ہے کہ یہ نصف صدی گزرنے کے بعد بھی ہم اسی لکیر کو نہ پیٹ رہے ہوں۔
www.cricnama.com
چنئی اور کولکتہ کے فاتح بلے باز کو مسلسل چار مقابلے میں واحد ہندسے کی نذر ہوتے دیکھنا کرکٹ کو سمجھنے اور اسے پسند کرنے والے کے لیے ایک خاصا پریشان کن منظر تھا، اس پر طرّہ اْن کی ناقص فیلڈنگ کہ جس نے میں کیچ بھی چھْوٹے اور کئی رنز بھی اضافی دیے گئے۔
اب ایسا لگتا ہے کہ جنوبی افریقہ کے خلاف اہم مقابلے میں ان کی جگہ برقرار نہیں رہے گی اور پاکستان بالآخر سرفراز احمد کو عالمی کپ میں پہلا مقابلہ کھلائے گا۔ فی الوقت تو یہ صرف اندازہ ہے، حقیقت تو مقابلے کے دن ہی معلوم ہو گی لیکن ناصر جمشید کو اس مضحکہ خیز مقام پر اور سرفراز احمد کو بوتلیں ڈھونے کا "فریضہ" انجام دیتے ہوئے دیکھنا قومی کرکٹ کے ایک تاریک پہلو کی عکاسی کر رہا ہے کہ آخر ہمارے ہاں ایک اوسط درجے کا کھلاڑی کیوں آگے نہیں بڑھ پاتا اور انتہائی باصلاحیت کھلاڑی بھی 'بہت بے آبرو ہوکر' نکالا جاتا ہے؟
اگر ہم بیرون ملک دیکھیں تو ہمیں کئی مثالیں نظر آتی ہیں۔ جنوبی افریقہ کے پاکستانی نژاد عمران طاہر، جس کھلاڑی کو پاکستان نے ملک کی نمایندگی کے قابل نہیں سمجھا وہ جنوبی افریقہ ہجرت کر جاتا ہے اور بعد میں دنیا کی نمبر ایک ٹیم کا مستقل رکن بن جاتا ہے۔ وہ گیندیں جو پاکستان میں تو شاید بے ضرر سی ہوتیں، اب اس قابل ہو گئی ہیں کہ جنوبی افریقہ کو سہارا دے رہی ہیں۔
پھر فی زمانہ دنیا کے بہترین بلے باز ہاشم آملہ کو دیکھیں۔ اپنے کیریئر کے ابتدائی مراحل میں ناکامی کے بعد یہ تک کہا گیا کہ ہاشم کی تکنیک بہت خراب ہے اور وہ زیادہ عرصے نہیں چل پائیں گے لیکن اب وہ تمام طرز کی کرکٹ کے بہترین بلے بازوں میں شمار ہوتے ہیں۔
پھر آسٹریلیا کا اوسط درجے کا آل راؤنڈ اسٹیون اسمتھ دنیا کی بہترین ٹیم کی قیادت تک پہنچ جاتا ہے، اسٹورٹ براڈ کا کیریئر چھ گیندوں پر چھ چھکے کھانے کے باوجود ختم نہیں ہوتا بلکہ وہ مزید بہتر باؤلر کی حیثیت سے اپنا مقام بناتا ہے، مچل جانسن بدترین کارکردگی کے مظاہروں کے بعد دنیا کا خطرناک ترین گیندباز بنتا ہے لیکن پاکستان میں عمر اکمل جیسا باصلاحیت بلے باز ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچھے کا سفر کر رہا ہے، ناصر جمشید بہترین آغاز کے بعد اب ناکامیوں کے گھیرے میں ہے اور یہ فہرست بہت طویل ہے، جسے چھیڑنا اس وقت مقصود نہیں۔
اگر نوجوانوں سے ہٹ کر دیکھیں تو سعید اجمل کے باؤلنگ ایکشن پر کئی سالوں سے اعتراض اٹھ رہے تھے، لیکن ہم نے اس وقت تک ان کے ایکشن کو نہیں جانچا، جب تک کہ ان پر پابندی عائد نہیں ہوئی جب کہ ویسٹ انڈیز کے اسپنر سنیل نرائن کا باؤلنگ ایک مرتبہ بھی بین الاقوامی کرکٹ میں رپورٹ نہیں ہوا لیکن وہ اس پر محنت کر رہے ہیں اور اسی وقت واپس آنا چاہتے ہیں جب وہ خود مطمئن ہوں۔
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے جدید کرکٹ کے تقاضوں کو اچھی طرح سمجھا ہی نہیں۔ یہ اب کھیل سے بڑھ کر ایک سائنس بن چکا ہے اور وہ بھی اْن کے لیے جو ہر وقت اپنے دماغ کو حاضر رکھیں۔ پھر کھلاڑیوں کو متحرک رکھنے اور انھیں بھرپور تحریک دینے کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں تو 18 کروڑ ناقدین ہیں، جن کا کام اپنی "ماہرانہ رائے" ٹھونسنا اور کھلاڑیوں کی ٹانگیں کھینچنے کے علاوہ کچھ نہیں۔
بہرحال، یہ ایک طویل داستان ہے، اہم عہدوں پر نااہل اور غائب دماغ افسران کی موجودگی کی، کھلاڑیوں میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے مسائل کو اچھی نہ سمجھ پانے کی اور سب سے بڑھ کر دقیانوسی طریقوں سے جدید کرکٹ میں فاتح بننے کی سعی لاحاصل کی اور یہ 'نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں'۔ دعا یہ ہے کہ یہ نصف صدی گزرنے کے بعد بھی ہم اسی لکیر کو نہ پیٹ رہے ہوں۔
www.cricnama.com