کراچی امن کے ساتھ
ہماری تہذیب کا علم یہ جہاز دیس بہ دیس کے ساحلوں پر امن کی ثقافت لیے لنگر انداز ہو گا اور یہی اس گہما گہمی کا مقصد ہے۔
گو کہ کراچی کی رونقیں عرصہ ہوا کہ ماند پڑ گئیں مگر مختلف حلقے پھر بھی مسلسل رونقوں کو بحال کرنے میں سرگرداں ہیں۔ بعض نظم و نثر کی شکل میں، بعض سڑکوں پر پلے کارڈ لے کر، بعض رفتگاں کی یاد میں موم بتیاں روشن کر کے، بعض کچھ گزرے ہوئے لوگوں کی یاد میں نظمیں لکھ کر تو کچھ دلوں میں امن کی جوت جگا کے۔ یہ سب لوگ مسلسل اندھیروں کے خلاف سرگرداں ہیں اور مزاحمت کے ان گنت طریقوں نے لوگوں میں ہمت پیدا کر دی ہے اور اب چھوٹے بچے نو عمر لڑکے لڑکیاں نوجوانوں کی ٹولیاں رفتہ رفتہ اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔
ان میں الگ الگ لوگوں کا تو کام اپنی جگہ۔ مگر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے ممبران، عہدیداران خصوصاً احمد شاہ کی قیادت نے نہایت نامساعد حالات میں پروگرام جاری رکھا۔ گزشتہ ماہ کی باتیں ہیں کہ شہر بند تھا، مگر پھر بھی ڈاکٹر عالیہ امام کی کتاب کی رونمائی جاری رہی۔ کہتے ہیں کہ ہمت مرداں مدد خدا کی روایت پر عمل جاری ہے۔
اس طریقہ کار نے لوگوں میں ہمت پیدا کی اور اب اتنی جلدی اور آسانی سے پروگرام منسوخ نہیں ہوتے۔ جب کہ شہر میں شادیاں، ولیمے بھی منسوخ کر دیے جاتے ہیں حالانکہ عام طور پر عصر کے بعد شہر کھلنے لگتا ہے مگر فکری طور پر لوگ اپنی ہمت کھو چکے ہوتے ہیں مگر آرٹس کونسل آف پاکستان مزاحمت کی نہیں بلکہ امن کی علامت بن چکا ہے۔ نہ اس کو کسی کی مزاحمت سے تعلق ہے اور نہ مخالفت بلکہ یہ ادارہ نہ صرف کراچی کی بلکہ ملک گیر امن کی نئی روایت ڈالنے میں مصروف ہے۔ اور سال بہ سال ندرت اور تنوع میں اپنا مقام بناتا جا رہا ہے۔
اس سال یوتھ فیسٹیول کی تفصیل کے لیے جو کتابچہ ڈیزائن کیا گیا اور چھپائی کی گئی اس کے رنگ نہ صرف دیدہ زیب اور خوش رنگ ہیں بلکہ وہ امن سے مزین ہے جس سے آرٹس کونسل کے انتظامیہ کے ذوق اور نفاست کا اندازہ ہوتا ہے جو پیغام اس پمفلٹ سے ملتا ہے وہ امن کے لیے اتحاد کا اور نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں سے باخبر رکھنا یہ انسانی ذہن کا تقاضا ہے کہ وہ تسلسل، جستجو اور مقابلے میں مصروف رہتا ہے اور اسی طریقے سے سوسائٹی آگے بڑھتی ہے اس میں نمو مقابلے کی بدولت ہی قائم رہتی ہے یہ مقابلے راگ رنگ کی صورت ہوں، کھیل کود یا ارژنگ کی بدولت جو ثقافتوں کا آئینہ دار ہیں۔
آرٹس کونسل کراچی نے اپنا یہ امتیازی عمل برقرار رکھا ہے آپ کو یاد ہو گا پاکستان کے اسکولوں اور کالجوں میں سالانہ پروگرام ہوتے تھے اسکولوں میں اساتذہ یہ ثقافتی پروگرام کراتے تھے اور کالج و یونیورسٹیوں میں طلبا یونین کراتی تھیں جس میں انٹر کالجیٹ مقابلے وغیرہ ثقافتی پروگرام، اسپورٹس، مباحثے، مقابلہ نظم و نثر جو اسٹوڈنٹس یونین کے خاتمے کے بعد بند ہو گئے۔
اس کے علاوہ ایک اور عمل ہوا کرتا تھا وہ تھا طلبہ کی انجمن کہلاتی ہیں لہٰذا ایسی صورت حال میں آرٹس کونسل کی جانب سے میوزیکل پروگرام، ادبی، ثقافتی پروگراموں کا اجرا کوئی معمولی کام نہیں بلکہ آرٹس کونسل کراچی نے ماضی کے مقابلے میں کئی قدم بڑھ کے کام جاری رکھے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو بھی مقابلوں میں حصہ لینے اور انعامات میں شمولیت میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا ہے۔ بچپن سے تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لانا یقیناً اچھا قدم ہے اس طرح کراچی میں تخلیقی قوتوں کا فروغ ایک دیرپا اخلاقی اور امن کی علم بردار قوتوں کا اجتماع ثابت ہو گا۔
اس فیسٹیول کا محض بچوں سے ہی رابطہ نہیں بلکہ والدین، رشتے داروں اور ان کے دوستوں سے بھی ہے اس نے محض جمع کرانے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے اب ان کی چھانٹی ایک بڑا مرحلہ ہے اگر میں محدود پیمانے پر ان پروگراموں کو سامنے رکھوں تو میوزک کنسرٹ، تھیٹر ورک شاپ، مضامین ورک شاپ، فوٹوگرافی، تقریری مقابلہ، پینٹنگ ورکشاپ، تھیٹر کا آڈیشن مرحلے وار کام کاج ظاہر ہے خیال کئی لوگوں کے ہوتے ہیں ترتیب کس قدر مشکل ہے جو تسلسل سے مباحثے کے بعد ایک اور شکل لیتے ہیں۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں اس بار جنبش زیادہ ہے اور اگر پروگرام اسی طرح آگے بڑھتے رہے اور اذہان کے طوفان اٹھتے رہے ٹکراتے رہے تو مزید بہتری کی گنجائش نظر آتی رہے گی۔
گزشتہ کئی برسوں سے آرٹس کونسل پر بھی سیاست دانوں کا سایہ پڑ گیا ہے اس ادارے کے لوگ سادہ لوح دور بین اور اسپورٹس مین اسپرٹ سے سرشار تھے یہاں چالبازی اور مکاری کی کونپل کو پنپنے کا موقع نہ دیتے تھے مگر اب الیکشن ہارنے والے نتائج تسلیم نہیں کرتے ، برہم ہو جاتے ہیں۔ اگر مقدمے سے معاملات کو حل کرنے کی روایت یہاں پڑ گئی تو یہ چھوٹی سی علمی ادبی و ثقافتی سلطنت بھی پاش پاش ہو جائے گی۔ اس آنے والی مصیبت سے نمٹنے کے لیے آرٹس کونسل کے دستور میں ترمیم کی ضرورت ہے آرٹسٹ اور آرٹ لور میں کچھ فرق ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ آرٹ لور یعنی آرٹ کو پسند کرنے والا اس قدر قوی ہو جائے کہ وہ جس آرٹسٹ کو پسند کرتا ہو اسے اٹھا کر نابود کر دے۔
لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ چیمبر آف کامرس اور دیگر تاجر حضرات کو اس کا ممبر بننے سے روکنا تو بے سود اور نقصان کا باعث ہو گا مگر اس ادارے یعنی آرٹس کونسل کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کی پابندی ضرور ہونی چاہیے بالکل ایسے ہی کہ کوئی شاعر ادیب فنکار جیسے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کا چیئرمین نہ بن جائے اس مسئلے کو آرٹس کونسل کے ممبران کو نہایت اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ ورنہ یہاں بھی وہ ابواب رنجش وا ہوں گے جو معاشرے میں آسودگی کی داغ بیل چڑھانے کے قابل نہ رہیں گے ہاں اس میں کوئی حرج نہیں کہ تاجر برادری اپنے احباب کے ذریعے کوئی تغیر لانا چاہیں تو سر آنکھوں پر واضح رہے کہ تجارت تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔ دنیا نے گزشتہ دو دہائیوں میں مشینوں کے ذریعے جو سفر طے کیا ہے وہ علم و ادب کا مرہون منت ہے۔
آج جو ٹائم مشین کا تصور دنیا میں ہے وہ ایچ جی ویلز اور چارلس ڈیکن کے تصوراتی ناول کا نتیجہ ہے فکشن اور سائنس وقت رفتار اور فاصلے یہ سب ایک دوسرے سے منسلک ہیں مگر فکر اور سب زاویہ نگاہ کا تصور ہے جوں جوں ہم سورج کے گرد گھوم رہے ہیں اور ہم خود زمین کی گردش میں ہیں ہماری عمریں کم ہوتی جا رہی ہیں انسان اب ایک صدی بھی بمشکل جی پا رہا ہے اور اگر یہ انسان کشش ثقل کو توڑ کر کسی اور سیارے میں جا بیٹھنے میں کامیاب ہو گیا تو ممکن ہے کہ یہ بوڑھا بھی نہ ہو مرنا بھی اگر ہو تو کب اور کیسے ہو غرض علم اول ہے بقیہ تمام ایجادات علم کے بغیر ممکن نہیں ریموٹ سے گیٹ کا کھل جانا جو کبھی کھل جا سم سم کا تصوراتی طلسم تھا۔ آج ممکن ہے اور یہ لفٹ بھی یہی کچھ ہے اس قافلے کو آرٹس کونسل لے کر آگے بڑھ رہی ہے لہٰذا بقول میر انیس :
مری قدر کر اے زمین سخن تجھے بات میں آسماں کر دیا
لہٰذا نہ صرف علم و ہنر، فہم و سخن اور خیالات پیہم کی قدر کرنی چاہیے بلکہ ان اداروں کو جو علم و ادب علم کی جوت جگا رہے ہیں ان کا بھی خیال کرنے کی ضرورت ہے آرٹس کونسل کراچی جو ایک زمانے میں سالانہ چند پروگرام کرانے پر ہی اکتفا کرتا تھا آج ایک معتبر ادارہ بن گیا جہاں علم کی ہر شاخ کو تناور درخت کا درجہ دینے کے اسباب مہیا کیے جا رہے ہیں۔
اب جب کہ آرٹس کونسل کے ارکان کی اس قدر مدح سرائی کی جا رہی ہو تو گورنر سندھ عشرت العباد خان کی مدح کیوں نہ کی جائے جنھوں نے علم کی سرپرستی میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا۔ طبی اداروں سے لے کر ادبی اور فنی اداروں کو بلندی تک پہنچانے میں کوشاں رہتے ہیں۔
کیوں نہ ہوں آپ کے والد مرحوم فخر العباد خاں کا علمی اعتبار سے ایک معتبر نام ہے۔ جب شہر کراچی کے معتبر نام ساتھ ہوں اور عالم اردو میں آرٹس کونسل کے چاہنے والے ساتھ ہوں تو پھر اس ناؤ کو ایک بڑے جہاز میں تبدیل ہونا یقینی ہے اور وہ دن دور نہیں کہ ہماری تہذیب کا علم یہ جہاز دیس بہ دیس کے ساحلوں پر امن کی ثقافت لیے لنگر انداز ہو گا اور یہی اس گہما گہمی کا مقصد ہے۔
ان میں الگ الگ لوگوں کا تو کام اپنی جگہ۔ مگر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے ممبران، عہدیداران خصوصاً احمد شاہ کی قیادت نے نہایت نامساعد حالات میں پروگرام جاری رکھا۔ گزشتہ ماہ کی باتیں ہیں کہ شہر بند تھا، مگر پھر بھی ڈاکٹر عالیہ امام کی کتاب کی رونمائی جاری رہی۔ کہتے ہیں کہ ہمت مرداں مدد خدا کی روایت پر عمل جاری ہے۔
اس طریقہ کار نے لوگوں میں ہمت پیدا کی اور اب اتنی جلدی اور آسانی سے پروگرام منسوخ نہیں ہوتے۔ جب کہ شہر میں شادیاں، ولیمے بھی منسوخ کر دیے جاتے ہیں حالانکہ عام طور پر عصر کے بعد شہر کھلنے لگتا ہے مگر فکری طور پر لوگ اپنی ہمت کھو چکے ہوتے ہیں مگر آرٹس کونسل آف پاکستان مزاحمت کی نہیں بلکہ امن کی علامت بن چکا ہے۔ نہ اس کو کسی کی مزاحمت سے تعلق ہے اور نہ مخالفت بلکہ یہ ادارہ نہ صرف کراچی کی بلکہ ملک گیر امن کی نئی روایت ڈالنے میں مصروف ہے۔ اور سال بہ سال ندرت اور تنوع میں اپنا مقام بناتا جا رہا ہے۔
اس سال یوتھ فیسٹیول کی تفصیل کے لیے جو کتابچہ ڈیزائن کیا گیا اور چھپائی کی گئی اس کے رنگ نہ صرف دیدہ زیب اور خوش رنگ ہیں بلکہ وہ امن سے مزین ہے جس سے آرٹس کونسل کے انتظامیہ کے ذوق اور نفاست کا اندازہ ہوتا ہے جو پیغام اس پمفلٹ سے ملتا ہے وہ امن کے لیے اتحاد کا اور نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں سے باخبر رکھنا یہ انسانی ذہن کا تقاضا ہے کہ وہ تسلسل، جستجو اور مقابلے میں مصروف رہتا ہے اور اسی طریقے سے سوسائٹی آگے بڑھتی ہے اس میں نمو مقابلے کی بدولت ہی قائم رہتی ہے یہ مقابلے راگ رنگ کی صورت ہوں، کھیل کود یا ارژنگ کی بدولت جو ثقافتوں کا آئینہ دار ہیں۔
آرٹس کونسل کراچی نے اپنا یہ امتیازی عمل برقرار رکھا ہے آپ کو یاد ہو گا پاکستان کے اسکولوں اور کالجوں میں سالانہ پروگرام ہوتے تھے اسکولوں میں اساتذہ یہ ثقافتی پروگرام کراتے تھے اور کالج و یونیورسٹیوں میں طلبا یونین کراتی تھیں جس میں انٹر کالجیٹ مقابلے وغیرہ ثقافتی پروگرام، اسپورٹس، مباحثے، مقابلہ نظم و نثر جو اسٹوڈنٹس یونین کے خاتمے کے بعد بند ہو گئے۔
اس کے علاوہ ایک اور عمل ہوا کرتا تھا وہ تھا طلبہ کی انجمن کہلاتی ہیں لہٰذا ایسی صورت حال میں آرٹس کونسل کی جانب سے میوزیکل پروگرام، ادبی، ثقافتی پروگراموں کا اجرا کوئی معمولی کام نہیں بلکہ آرٹس کونسل کراچی نے ماضی کے مقابلے میں کئی قدم بڑھ کے کام جاری رکھے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو بھی مقابلوں میں حصہ لینے اور انعامات میں شمولیت میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا ہے۔ بچپن سے تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لانا یقیناً اچھا قدم ہے اس طرح کراچی میں تخلیقی قوتوں کا فروغ ایک دیرپا اخلاقی اور امن کی علم بردار قوتوں کا اجتماع ثابت ہو گا۔
اس فیسٹیول کا محض بچوں سے ہی رابطہ نہیں بلکہ والدین، رشتے داروں اور ان کے دوستوں سے بھی ہے اس نے محض جمع کرانے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے اب ان کی چھانٹی ایک بڑا مرحلہ ہے اگر میں محدود پیمانے پر ان پروگراموں کو سامنے رکھوں تو میوزک کنسرٹ، تھیٹر ورک شاپ، مضامین ورک شاپ، فوٹوگرافی، تقریری مقابلہ، پینٹنگ ورکشاپ، تھیٹر کا آڈیشن مرحلے وار کام کاج ظاہر ہے خیال کئی لوگوں کے ہوتے ہیں ترتیب کس قدر مشکل ہے جو تسلسل سے مباحثے کے بعد ایک اور شکل لیتے ہیں۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں اس بار جنبش زیادہ ہے اور اگر پروگرام اسی طرح آگے بڑھتے رہے اور اذہان کے طوفان اٹھتے رہے ٹکراتے رہے تو مزید بہتری کی گنجائش نظر آتی رہے گی۔
گزشتہ کئی برسوں سے آرٹس کونسل پر بھی سیاست دانوں کا سایہ پڑ گیا ہے اس ادارے کے لوگ سادہ لوح دور بین اور اسپورٹس مین اسپرٹ سے سرشار تھے یہاں چالبازی اور مکاری کی کونپل کو پنپنے کا موقع نہ دیتے تھے مگر اب الیکشن ہارنے والے نتائج تسلیم نہیں کرتے ، برہم ہو جاتے ہیں۔ اگر مقدمے سے معاملات کو حل کرنے کی روایت یہاں پڑ گئی تو یہ چھوٹی سی علمی ادبی و ثقافتی سلطنت بھی پاش پاش ہو جائے گی۔ اس آنے والی مصیبت سے نمٹنے کے لیے آرٹس کونسل کے دستور میں ترمیم کی ضرورت ہے آرٹسٹ اور آرٹ لور میں کچھ فرق ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ آرٹ لور یعنی آرٹ کو پسند کرنے والا اس قدر قوی ہو جائے کہ وہ جس آرٹسٹ کو پسند کرتا ہو اسے اٹھا کر نابود کر دے۔
لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ چیمبر آف کامرس اور دیگر تاجر حضرات کو اس کا ممبر بننے سے روکنا تو بے سود اور نقصان کا باعث ہو گا مگر اس ادارے یعنی آرٹس کونسل کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کی پابندی ضرور ہونی چاہیے بالکل ایسے ہی کہ کوئی شاعر ادیب فنکار جیسے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کا چیئرمین نہ بن جائے اس مسئلے کو آرٹس کونسل کے ممبران کو نہایت اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ ورنہ یہاں بھی وہ ابواب رنجش وا ہوں گے جو معاشرے میں آسودگی کی داغ بیل چڑھانے کے قابل نہ رہیں گے ہاں اس میں کوئی حرج نہیں کہ تاجر برادری اپنے احباب کے ذریعے کوئی تغیر لانا چاہیں تو سر آنکھوں پر واضح رہے کہ تجارت تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔ دنیا نے گزشتہ دو دہائیوں میں مشینوں کے ذریعے جو سفر طے کیا ہے وہ علم و ادب کا مرہون منت ہے۔
آج جو ٹائم مشین کا تصور دنیا میں ہے وہ ایچ جی ویلز اور چارلس ڈیکن کے تصوراتی ناول کا نتیجہ ہے فکشن اور سائنس وقت رفتار اور فاصلے یہ سب ایک دوسرے سے منسلک ہیں مگر فکر اور سب زاویہ نگاہ کا تصور ہے جوں جوں ہم سورج کے گرد گھوم رہے ہیں اور ہم خود زمین کی گردش میں ہیں ہماری عمریں کم ہوتی جا رہی ہیں انسان اب ایک صدی بھی بمشکل جی پا رہا ہے اور اگر یہ انسان کشش ثقل کو توڑ کر کسی اور سیارے میں جا بیٹھنے میں کامیاب ہو گیا تو ممکن ہے کہ یہ بوڑھا بھی نہ ہو مرنا بھی اگر ہو تو کب اور کیسے ہو غرض علم اول ہے بقیہ تمام ایجادات علم کے بغیر ممکن نہیں ریموٹ سے گیٹ کا کھل جانا جو کبھی کھل جا سم سم کا تصوراتی طلسم تھا۔ آج ممکن ہے اور یہ لفٹ بھی یہی کچھ ہے اس قافلے کو آرٹس کونسل لے کر آگے بڑھ رہی ہے لہٰذا بقول میر انیس :
مری قدر کر اے زمین سخن تجھے بات میں آسماں کر دیا
لہٰذا نہ صرف علم و ہنر، فہم و سخن اور خیالات پیہم کی قدر کرنی چاہیے بلکہ ان اداروں کو جو علم و ادب علم کی جوت جگا رہے ہیں ان کا بھی خیال کرنے کی ضرورت ہے آرٹس کونسل کراچی جو ایک زمانے میں سالانہ چند پروگرام کرانے پر ہی اکتفا کرتا تھا آج ایک معتبر ادارہ بن گیا جہاں علم کی ہر شاخ کو تناور درخت کا درجہ دینے کے اسباب مہیا کیے جا رہے ہیں۔
اب جب کہ آرٹس کونسل کے ارکان کی اس قدر مدح سرائی کی جا رہی ہو تو گورنر سندھ عشرت العباد خان کی مدح کیوں نہ کی جائے جنھوں نے علم کی سرپرستی میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا۔ طبی اداروں سے لے کر ادبی اور فنی اداروں کو بلندی تک پہنچانے میں کوشاں رہتے ہیں۔
کیوں نہ ہوں آپ کے والد مرحوم فخر العباد خاں کا علمی اعتبار سے ایک معتبر نام ہے۔ جب شہر کراچی کے معتبر نام ساتھ ہوں اور عالم اردو میں آرٹس کونسل کے چاہنے والے ساتھ ہوں تو پھر اس ناؤ کو ایک بڑے جہاز میں تبدیل ہونا یقینی ہے اور وہ دن دور نہیں کہ ہماری تہذیب کا علم یہ جہاز دیس بہ دیس کے ساحلوں پر امن کی ثقافت لیے لنگر انداز ہو گا اور یہی اس گہما گہمی کا مقصد ہے۔