مفتی صاحب کے سچ اور جھوٹ
نریندر مودی ایسا متعصب اورکینہ پرورحکمران پاکستان سےصلح و آشتی کی خاطر کیسےقدم اورہاتھ آگےبڑھاتا ہے۔
مَیں ان کا نام نہیں بتاؤں گا لیکن یہ بتا سکتا ہوں کہ وہ کشمیر کے ایک معروف اخبار نویس ہیں۔ ان سے کی گئی گفتگو ''آف دی ریکارڈ'' تھی، اس لیے نام لکھنا معیوب لگتا ہے۔ مجھے بتا رہے تھے کہ گزشتہ دنوں وہ چند دیگر صحافیوں کے ساتھ سری نگر گئے تو وہاں کے کئی مشہور، مؤثر اور مقتدر سیاستدانوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔
مقبوضہ کشمیر کی نمایاں ترین سیاسی جماعت پی ڈی پی، جس نے حالیہ ریاستی انتخابات میں سب سے زیادہ سیٹیں جیتی ہیں، کی مرکزی رہنما محترمہ محبوبہ مفتی سے بھی ان کی مفصل ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات محبوبہ صاحبہ، جو بھارتی قومی اسمبلی یعنی لوک سبھا کی رکن بھی ہیں، کی رہائشگاہ پر ہوئی۔ میرے صحافی دوست بتا رہے تھے: ''گفتگو جب اختتام کو پہنچنے لگی تو مَیں نے اپنے کیمرے سے محبوبہ مفتی کی چند تصاویر بنائیں۔ اس پر وہ بہت ناراض ہوئیں۔
کہنے لگیں کہ میرے ننگے سر کے ساتھ فوٹو نہیں بنانی چاہیے تھیں کہ اس انداز میں میری کبھی کوئی تصویر کہیں نہیں چھپی، اس لیے تم یہ تصویریں ضایع کر دو۔ چنانچہ مَیں نے ان کے سامنے وہ ساری تصاویر Delete کر دیں۔ اطمینان کر لینے کے بعد محبوبہ مفتی نے اپنا سر ریشمی اسکارف سے ڈھانپا اور پھر مجھے کہا: اب تم فوٹو بنا سکتے ہو۔۔۔ مَیں تو اس منافقت پر حیران رہ گیا۔'' میرے خیال میں اس عمل کو منافقت نہیں کہنا چاہیے۔
پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی سیاست میں جتنی بھی مسلمان خواتین نمایاں ہیں، یہ ان کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی کہ میڈیا میں شایع اور نشر ہونے والی ان کی تمام تصویریں حجاب، اسکارف، دوپٹے یا چادر میں ہوں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں یا اب محبوبہ مفتی، خالدہ ضیاء ہوں یا حسینہ واجد... سب ماڈرن خیالات اور جدید تعلیم رکھنے کے باوجود اپنے مروّجہ کلچر اور سماجی دباؤ سے لاپرواہی نہیں برت سکتیں۔ ہاں، سابق ترک وزیراعظم تانسو چیلر کا معاملہ دوسرا تھا۔
مذکورہ بالا محبوبہ مفتی صاحبہ کے والد مفتی محمد سعید ہیں۔ وہ بھارت کے وزیرداخلہ بھی رہے ہیں اور مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ بھی اور اب دوسری بار بھی بی جے پی کے ساتھ اتحاد کر کے وزیراعلیٰ بن گئے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ شیخ عبداللہ کی روح مفتی سعید میں حلول کر چکی ہے کہ اب وہ بھارت کے مخلص وفاداروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
ان کی سیاسی جماعت (پی ڈی پی) نے انتخابات میں 28 سیٹیں جیتیں۔ مفتی سعید بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی اور محبت کی فضا کو فروغ ملے لیکن ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ اگر بھارت فی الواقعہ پاکستان سے دوستی یاری کا متمنی ہے تو پھر آئے روز ایل او سی پر اس کی توپیں پاکستان کے خلاف آگ کیوں اگلتی رہتی ہیں؟ حیرت کی بات ہے کہ ادھر تیرہ فروری کو نریندر مودی نے وزیراعظم نواز شریف کو خیر سگالی کے جذبات سے مملو فون کیا اور ادھر ایل او سی پر بھارتی توپیں شعلے اگلنے لگیں جنہوں نے آزاد کشمیر کے ایک ساٹھ سالہ شہری محمد اسلم کی جان غصب کر لی۔
بھارت کے اس تازہ ظلم کے باوجود پاکستان نے بطور گُڈ وِل، بھارت کے 172 ماہی گیر قیدی عزت سے رہا کر دیے۔ اس اقدام سے اگلے روز ہی مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید کا ایک مفصل انٹرویو بھارت کے معروف انگریزی اخبار ''دی ہندو'' میں شایع ہوا۔ انٹرویو کرنے والے دونوں صحافیوں نے خصوصی طور پر ان سے پوچھا کہ نریندر مودی نے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو جو فون کیا، اس کے پاکستان، بھارت اور (مقبوضہ) کشمیر کے معاملات پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ مفتی سعید نے جواباً کہا: ''مودی جی کی طرف سے نواز شریف کو کیا جانے والا فون ایک بہت بڑا اور مثبت قدم ہے۔
یہ دوستی اور صلح کا پیام ہے۔ بھارت ایک پھیلتی اور ابھرتی ہوئی طاقت ہے، اس لیے اسے اپنے تمام ہمسایوں خصوصاً پاکستان سے ثمر آور تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ یہ بھارت کے لیے بہت ناگزیر بھی ہے اور اس کی فوری ضرورت بھی۔ نریندر مودی نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کی تقریب حلف برداری میں سارک ممالک کے سربراہوں، جن میں نواز شریف بھی شامل تھے۔
کو مدعو کر کے بہت اچھا فیصلہ کیا تھا لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ درمیان میں غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں۔'' بار بار اصرار کے باوجود مفتی سعید صاحب نے ان ''غلط فہمیوں'' کی عقدہ کشائی کی نہ ان کی وضاحت کرنے پر تیار ہوئے۔ وہ اگر ایسا کرتے تو یقینا پاکستان کے خلاف تازہ بھارتی جرائم کی پوتھی کھلتی وہ دہلی کی ہر صورت میں حمایت کر کے اقتدار میں رہنے کے متمنی ہیں۔
مفتی محمد سعید کے مذکورہ انٹرویو سے یہ خواہش اُبلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ان کی حکومت مستحکم ہوتے ہی مسئلہ کشمیر پر، پاکستان اور بھارت کے درمیان محبت و تعاون کا زمزم بہنا شروع ہوجائے گا۔ پاکستان میں بدامنی اور دہشت گردی کے سانحات کے حوالے سے مگر ہماری افواج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ کا پورے یقین کے ساتھ کہنا ہے کہ بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں جو خونریز سانحات جنم لے رہے ہیں۔
ان کی ڈوریں بھارت ہلا رہا ہے۔ یہ ایک زناٹے دار' غیر مبہم اعلان ہے جس میں بھارت کو انتباہ بھی کیا گیا ہے۔ تین مارچ 2015ء کو اسلام آباد میں پاک بھارت سیکریٹری خارجہ کے جو مذاکرات ہوئے ہیں، ان میں بھی پاکستان نے بھارت پر یہ واضح کیا ہے کہ وہ فاٹا اور بلوچستان میں مداخلت بند کرے۔ مفتی سعید مگر یہ کہتے ہیں کہ پاکستان چاہے تو (مقبوضہ کشمیر میں) امن ہو سکتا ہے۔ یہ ان کے ڈپلومیٹک بیان میں دراصل پاکستان کے خلاف تہمت ہے۔
انٹرویو میں مفتی سعید نے مثال دیتے ہوئے کہا ہے ''جب مَیں پہلی بار کشمیر کا وزیراعلیٰ بنا، مشرف نے اپنی کمٹمنٹ نبھائی اور (مقبوضہ) کشمیر میں شدت پسندی رک گئی اور مسلح کارروائیوں کو بریک بھی لگی۔ اس لیے مَیں کہتا ہوں کہ نریندر مودی کو قیامِ امن کی خاطر پاکستان کو اپنے ساتھ انگیج رکھنا چاہیے۔ مجھے امید ہے داخلہ اور خارجہ محاذ پر مودی جی پاکستان سے رابطہ رکھیں گے۔''
ہمیں نہیں معلوم کہ نریندر مودی ایسا متعصب اور کینہ پرور حکمران پاکستان سے صلح و آشتی کی خاطر کیسے قدم اور ہاتھ آگے بڑھاتا ہے لیکن مفتی سعید کی زبانی یہ تاریخی سچ بہرحال پہلی بار سامنے آیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف پاکستان کے وہ حکمران تھے جنہوں نے برصغیر میں قیامِ امن کی خاطر اپنے وعدے وفا کیے اور کسی کے ساتھ اس حوالے سے اگر کوئی کمٹمنٹ کی تھی تو اسے صدقِ دل سے نبھایا بھی۔ افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ پاکستان کو زک پہنچانے کے لیے بھارتی سازشوں اور دہشتگردی کی وارداتوں میں کوئی واضح کمی نہیں آ سکی۔
کشمیر کے اس معروف سیاستدان، جو اب دوبارہ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بھی بن چکا ہے، نے اگر مشرف کے حوالے سے ایک سچ بولا ہے تو ساتھ ہی ایک دروغ گوئی کا مرتکب بھی ہوا ہے۔ ''فرمایا'' ہے کہ کشمیر کی اپنی ایک خاص شناخت ہے اور اسی شناخت کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کشمیر واحد ریاست تھی جس نے مسلمان اکثریت رکھنے کے باوجود بغیر کسی جبر و اکراہ کے، اپنی مرضی سے بھارت میں شمولیت اختیار کی تھی۔
مقبوضہ کشمیر کے مفتی خاندان کے اس نامور فرد پر افسوس ہے جس نے محض اقتدار میں رہنے کے لیے برصغیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ بولا ہے۔
اس دانستہ کذب گوئی پر مفتی محمد سعید کا دل کانپا ہے نہ انھیں کوئی قلق ہوا۔ وہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو بھی فراموش کر گئے اور ان لاتعداد کشمیری شہدا کی طرف سے بھی آنکھیں بند کر لیں جو کشمیر پر بھارتی قبضے کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور اب بھی روزانہ قربانیاں دے رہے ہیں۔
وہ آزادی پسند کشمیریوں اور ان کے حریت پسند لیڈروں کو ساتھ لے کر چلنے کا بین السطور عندیہ تو دے رہے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ جھوٹ بھی بولتے جا رہے ہیں کہ ریاستِ کشمیر کے اکثریتی مسلمان باسیوں نے اپنی مرضی سے بھارتی غلامی کا جُوا گلے میں ڈالا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان گردن ڈالنے اور غلامی کا خُو گر ہو جائے تو اسے یوں بے حجاب ہو کر جھوٹ بولنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔
مقبوضہ کشمیر کی نمایاں ترین سیاسی جماعت پی ڈی پی، جس نے حالیہ ریاستی انتخابات میں سب سے زیادہ سیٹیں جیتی ہیں، کی مرکزی رہنما محترمہ محبوبہ مفتی سے بھی ان کی مفصل ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات محبوبہ صاحبہ، جو بھارتی قومی اسمبلی یعنی لوک سبھا کی رکن بھی ہیں، کی رہائشگاہ پر ہوئی۔ میرے صحافی دوست بتا رہے تھے: ''گفتگو جب اختتام کو پہنچنے لگی تو مَیں نے اپنے کیمرے سے محبوبہ مفتی کی چند تصاویر بنائیں۔ اس پر وہ بہت ناراض ہوئیں۔
کہنے لگیں کہ میرے ننگے سر کے ساتھ فوٹو نہیں بنانی چاہیے تھیں کہ اس انداز میں میری کبھی کوئی تصویر کہیں نہیں چھپی، اس لیے تم یہ تصویریں ضایع کر دو۔ چنانچہ مَیں نے ان کے سامنے وہ ساری تصاویر Delete کر دیں۔ اطمینان کر لینے کے بعد محبوبہ مفتی نے اپنا سر ریشمی اسکارف سے ڈھانپا اور پھر مجھے کہا: اب تم فوٹو بنا سکتے ہو۔۔۔ مَیں تو اس منافقت پر حیران رہ گیا۔'' میرے خیال میں اس عمل کو منافقت نہیں کہنا چاہیے۔
پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی سیاست میں جتنی بھی مسلمان خواتین نمایاں ہیں، یہ ان کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی کہ میڈیا میں شایع اور نشر ہونے والی ان کی تمام تصویریں حجاب، اسکارف، دوپٹے یا چادر میں ہوں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں یا اب محبوبہ مفتی، خالدہ ضیاء ہوں یا حسینہ واجد... سب ماڈرن خیالات اور جدید تعلیم رکھنے کے باوجود اپنے مروّجہ کلچر اور سماجی دباؤ سے لاپرواہی نہیں برت سکتیں۔ ہاں، سابق ترک وزیراعظم تانسو چیلر کا معاملہ دوسرا تھا۔
مذکورہ بالا محبوبہ مفتی صاحبہ کے والد مفتی محمد سعید ہیں۔ وہ بھارت کے وزیرداخلہ بھی رہے ہیں اور مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ بھی اور اب دوسری بار بھی بی جے پی کے ساتھ اتحاد کر کے وزیراعلیٰ بن گئے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ شیخ عبداللہ کی روح مفتی سعید میں حلول کر چکی ہے کہ اب وہ بھارت کے مخلص وفاداروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
ان کی سیاسی جماعت (پی ڈی پی) نے انتخابات میں 28 سیٹیں جیتیں۔ مفتی سعید بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی اور محبت کی فضا کو فروغ ملے لیکن ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ اگر بھارت فی الواقعہ پاکستان سے دوستی یاری کا متمنی ہے تو پھر آئے روز ایل او سی پر اس کی توپیں پاکستان کے خلاف آگ کیوں اگلتی رہتی ہیں؟ حیرت کی بات ہے کہ ادھر تیرہ فروری کو نریندر مودی نے وزیراعظم نواز شریف کو خیر سگالی کے جذبات سے مملو فون کیا اور ادھر ایل او سی پر بھارتی توپیں شعلے اگلنے لگیں جنہوں نے آزاد کشمیر کے ایک ساٹھ سالہ شہری محمد اسلم کی جان غصب کر لی۔
بھارت کے اس تازہ ظلم کے باوجود پاکستان نے بطور گُڈ وِل، بھارت کے 172 ماہی گیر قیدی عزت سے رہا کر دیے۔ اس اقدام سے اگلے روز ہی مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید کا ایک مفصل انٹرویو بھارت کے معروف انگریزی اخبار ''دی ہندو'' میں شایع ہوا۔ انٹرویو کرنے والے دونوں صحافیوں نے خصوصی طور پر ان سے پوچھا کہ نریندر مودی نے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو جو فون کیا، اس کے پاکستان، بھارت اور (مقبوضہ) کشمیر کے معاملات پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ مفتی سعید نے جواباً کہا: ''مودی جی کی طرف سے نواز شریف کو کیا جانے والا فون ایک بہت بڑا اور مثبت قدم ہے۔
یہ دوستی اور صلح کا پیام ہے۔ بھارت ایک پھیلتی اور ابھرتی ہوئی طاقت ہے، اس لیے اسے اپنے تمام ہمسایوں خصوصاً پاکستان سے ثمر آور تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ یہ بھارت کے لیے بہت ناگزیر بھی ہے اور اس کی فوری ضرورت بھی۔ نریندر مودی نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کی تقریب حلف برداری میں سارک ممالک کے سربراہوں، جن میں نواز شریف بھی شامل تھے۔
کو مدعو کر کے بہت اچھا فیصلہ کیا تھا لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ درمیان میں غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں۔'' بار بار اصرار کے باوجود مفتی سعید صاحب نے ان ''غلط فہمیوں'' کی عقدہ کشائی کی نہ ان کی وضاحت کرنے پر تیار ہوئے۔ وہ اگر ایسا کرتے تو یقینا پاکستان کے خلاف تازہ بھارتی جرائم کی پوتھی کھلتی وہ دہلی کی ہر صورت میں حمایت کر کے اقتدار میں رہنے کے متمنی ہیں۔
مفتی محمد سعید کے مذکورہ انٹرویو سے یہ خواہش اُبلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ان کی حکومت مستحکم ہوتے ہی مسئلہ کشمیر پر، پاکستان اور بھارت کے درمیان محبت و تعاون کا زمزم بہنا شروع ہوجائے گا۔ پاکستان میں بدامنی اور دہشت گردی کے سانحات کے حوالے سے مگر ہماری افواج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ کا پورے یقین کے ساتھ کہنا ہے کہ بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں جو خونریز سانحات جنم لے رہے ہیں۔
ان کی ڈوریں بھارت ہلا رہا ہے۔ یہ ایک زناٹے دار' غیر مبہم اعلان ہے جس میں بھارت کو انتباہ بھی کیا گیا ہے۔ تین مارچ 2015ء کو اسلام آباد میں پاک بھارت سیکریٹری خارجہ کے جو مذاکرات ہوئے ہیں، ان میں بھی پاکستان نے بھارت پر یہ واضح کیا ہے کہ وہ فاٹا اور بلوچستان میں مداخلت بند کرے۔ مفتی سعید مگر یہ کہتے ہیں کہ پاکستان چاہے تو (مقبوضہ کشمیر میں) امن ہو سکتا ہے۔ یہ ان کے ڈپلومیٹک بیان میں دراصل پاکستان کے خلاف تہمت ہے۔
انٹرویو میں مفتی سعید نے مثال دیتے ہوئے کہا ہے ''جب مَیں پہلی بار کشمیر کا وزیراعلیٰ بنا، مشرف نے اپنی کمٹمنٹ نبھائی اور (مقبوضہ) کشمیر میں شدت پسندی رک گئی اور مسلح کارروائیوں کو بریک بھی لگی۔ اس لیے مَیں کہتا ہوں کہ نریندر مودی کو قیامِ امن کی خاطر پاکستان کو اپنے ساتھ انگیج رکھنا چاہیے۔ مجھے امید ہے داخلہ اور خارجہ محاذ پر مودی جی پاکستان سے رابطہ رکھیں گے۔''
ہمیں نہیں معلوم کہ نریندر مودی ایسا متعصب اور کینہ پرور حکمران پاکستان سے صلح و آشتی کی خاطر کیسے قدم اور ہاتھ آگے بڑھاتا ہے لیکن مفتی سعید کی زبانی یہ تاریخی سچ بہرحال پہلی بار سامنے آیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف پاکستان کے وہ حکمران تھے جنہوں نے برصغیر میں قیامِ امن کی خاطر اپنے وعدے وفا کیے اور کسی کے ساتھ اس حوالے سے اگر کوئی کمٹمنٹ کی تھی تو اسے صدقِ دل سے نبھایا بھی۔ افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ پاکستان کو زک پہنچانے کے لیے بھارتی سازشوں اور دہشتگردی کی وارداتوں میں کوئی واضح کمی نہیں آ سکی۔
کشمیر کے اس معروف سیاستدان، جو اب دوبارہ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بھی بن چکا ہے، نے اگر مشرف کے حوالے سے ایک سچ بولا ہے تو ساتھ ہی ایک دروغ گوئی کا مرتکب بھی ہوا ہے۔ ''فرمایا'' ہے کہ کشمیر کی اپنی ایک خاص شناخت ہے اور اسی شناخت کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کشمیر واحد ریاست تھی جس نے مسلمان اکثریت رکھنے کے باوجود بغیر کسی جبر و اکراہ کے، اپنی مرضی سے بھارت میں شمولیت اختیار کی تھی۔
مقبوضہ کشمیر کے مفتی خاندان کے اس نامور فرد پر افسوس ہے جس نے محض اقتدار میں رہنے کے لیے برصغیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ بولا ہے۔
اس دانستہ کذب گوئی پر مفتی محمد سعید کا دل کانپا ہے نہ انھیں کوئی قلق ہوا۔ وہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو بھی فراموش کر گئے اور ان لاتعداد کشمیری شہدا کی طرف سے بھی آنکھیں بند کر لیں جو کشمیر پر بھارتی قبضے کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور اب بھی روزانہ قربانیاں دے رہے ہیں۔
وہ آزادی پسند کشمیریوں اور ان کے حریت پسند لیڈروں کو ساتھ لے کر چلنے کا بین السطور عندیہ تو دے رہے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ جھوٹ بھی بولتے جا رہے ہیں کہ ریاستِ کشمیر کے اکثریتی مسلمان باسیوں نے اپنی مرضی سے بھارتی غلامی کا جُوا گلے میں ڈالا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان گردن ڈالنے اور غلامی کا خُو گر ہو جائے تو اسے یوں بے حجاب ہو کر جھوٹ بولنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔