کامریڈ امام علی نازش کی یاد میں
اس قربانی کے پس پردہ ان کی وہ انتھک جد وجہد تھی جو انھوں نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود جاری رکھی۔
ISLAMABAD:
نہ تو وہ کوئی درویش تھا نہ سادھو یا سنیاسی اور نہ ہی وہ کوئی دنیا تیاگی تھا ان تمام باتوں کے باوجود جب وہ اوجھا سینی ٹوریم کراچی میں زیر علاج تھے تو مسلم لیگی رہنما مشاہد حسین سید جوکہ اس وقت یعنی میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں وزیر اطلاعات تھے ،ان کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لاتے ہیں۔
دوران گفتگو مشاہد حسین سید پیشکش کرتے ہیں کہ اگر آپ پسند فرمائیں تو حکومتی اخراجات پر آپ کا علاج کسی اچھے یا نجی اسپتال سے کروانے کا انتظام کیے دیتے ہیں۔ جس پر مشاہد حسین سید کو وہ صاحب جواب دیتے ہیں کہ آپ میری مزاج پرسی کو تشریف لائے اور میرا علاج حکومتی اخراجات پر کروانے کی پیشکش کی اس کے لیے بصد احترام شکریہ مگر میرے نظریات مجھے اس امر کی اجازت نہیں دیتے کہ میں بغرض علاج مسلم لیگی حکومت کے اخراجات قبول کرلوں۔
البتہ اگر آپ اس سینی ٹوریم کی دیواریں پختہ کروادیں تو اس سینی ٹوریم کے مریضوں کا بھلا ہوجائے گا۔ آپ کا تجسس ختم کرتے ہوئے اس مریض کا نام بھی بتادیتے ہیں۔ یہ ہیں کامریڈ امام علی نازش عرف مولانا جوکہ 14 اگست 1923 کو متحدہ بھارت کے صوبہ UP کے ضلع مراد آباد کے مشہور قصبے امروہہ میں پیدا ہوئے۔ امام علی نازش نے جس خانوادے میں آنکھ کھولی اس خانوادے کی ایک روایت تھی کہ اس خانوادے کا ہرمرد، فقہ جعفریہ سے تعلق کے باعث شیعہ امام یا ذاکر بننا پسند کرتا تھا، اسی لیے امام علی نازش کا خاندان سادات امروہہ کے نام سے دور دور تک شہرت رکھتا تھا۔
یہی سبب تھا کہ ان کو مقامی مدرسے میں داخل کروا دیا گیا تاکہ وہ عالم دین بن سکیں جب کہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ مروجہ ثانوی تعلیم کے حصول کے لیے میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لے لیا۔کالج کی تعلیم کے دوران امام علی نازش 1936 میں قائم ہونے والی انجمن ترقی پسند مصنفین کے حلقہ اثر میں آچکے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب جنگ عظیم دوئم پوری دنیا کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھی۔
جب کہ 1940 یا اس کے بعد کے زمانے میں ایک جملہ اکثر لوگوں کی سماعتوں سے ٹکراتا کہ جو نوجوان 18 یا 20 برس کی عمر تک کمیونزم سے متاثر نہیں ہوتا اس نوجوان کا دماغی چیک اپ (CHECKUP) ضروری ہے۔ 1948 میں امام علی نازش کی شادی ان کی قریبی رشتے دار لڑکی سے ہوگئی جب کہ ایک قلیل مدت کے لیے وہ مسلم لیگ میں بھی رہے۔
1948 ہی میں امام علی نازش نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا مگر اب مسئلہ یہ درپیش تھا کہ ان کی بیگم پاکستان آنے پر آمادہ نہ تھیں اور وہ پاکستان آنے کا اٹل فیصلہ کرچکے تھے۔ چنانچہ وہ پاکستان آگئے اور کراچی میں بودوباش اختیارکرلی اور حصول تعلیم کے لیے کوشاں ہوگئے ،گریجویشن کی سند حاصل کی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے بھی منسلک ہوچکے تھے۔
ایک شیدی کوچوان کی معرفت سے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور طلبا تنظیموں کے ساتھ ساتھ منگھوپیر کے مزدوروں کی نظریاتی تربیت بھی شروع کردی۔ اس سلسلے میں عزیز سلام بخاری کا ساتھ بھی امام علی نازش کو حاصل تھا۔
جب کہ 1954 میں جب کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی عائد کردی گئی تو تمام صف اول کی قیادت کو پابند سلاسل کردیا جب کہ امام علی نازش کو 8 دسمبر 2014 دیہانت کرنے والے آنجہانی سوبھوگیان چندانی بھی گرفتاری سے خود کو محفوظ نہ رکھ پائے اور ان دونوں رہنماؤں کو اسیری کے تین برس گزارنے پڑے۔
1957 میں رہائی کے بعد مشرقی پاکستان کے رہنماؤں کی مشاورت سے زیر زمین کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان قائم کی جب کہ مشرقی پاکستان میں کامریڈ مونی سنگھ کی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی آف مشرقی پاکستان قائم ہوچکی تھی جب کہ کسان رہنما عزیز اعزاز نظیر، محمد یامین، کامریڈ مولابخش، شمیم واسطی ودیگر نامور مزدور رہنما شانے سے شانہ ملائے پارٹی امور چلانے کے لیے سرگرم ہوچکے تھے مگر اس حقیقت سے انحراف ممکن ہی نہیں کہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان امام علی نازش کے گرد طویل عرصے تک گھومتی رہی جب کہ 1963 میں ترقی پسند طبقہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تو امام علی نازش اپنے رفیقوں سمیت پارٹی کا تشخص مارکسزم قائم رکھنے میں بھی کامیاب رہتے تھے اور NAP ولی گروپ کا ساتھ دیا اور ایوبی آمریت کے خلاف جد وجہد جاری رکھی۔
عام خیال یہ ہے کہ 1960 میں حسن ناصر کی شہادت کے بعد پارٹی کی مرکزی ذمے داریاں اپنے ہاتھ میں لے لی تھیں جب کہ 27 برس بعد جب 1975 میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی دوسری کانگریس حیدرآباد میں منعقد ہوئی تو امام علی نازش کو پارٹی کا جنرل سیکریٹری بنایاگیا جب کہ تیسری کانگریس 1989 منعقدہ کراچی میں ان کو ایک بار پھر جنرل سیکریٹری کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان چن لیا گیا اور اسی برس کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کو اوپن (OPEN) کر دیا گیا اور جب اپریل 1995 میں میجر اسحاق گروپ مزدور کسان پارٹی کمیونسٹ پارٹی میں ضم ہوئی تو امام علی نازش کو پارٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا مگر اس وقت تک وہ مسلسل جد وجہد کے باعث اپنی قربانی دے چکے تھے۔
اس قربانی کے پس پردہ ان کی وہ انتھک جد وجہد تھی جو انھوں نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود جاری رکھی۔ پارٹی کے لیے ان کو اس وقت بھی اپنی سیاسی سرگرمیاں زیر زمین رہ کر جاری رکھنا پڑیں۔ جس دور کو بہترین عوامی جمہوری دور کہا جاتا ہے یعنی 20 دسمبر 1971 تا 5 جولائی 1977 اس دور میں بھی یعنی 1972-73 جب پارٹی کارکنوں کی تربیت کے لیے پارٹی ترجمان رسالہ 'سرخ پرچم' جاری کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ سرخ پرچم کسی بھی پریس میں چھپ نہیں سکتا تھا۔
چنانچہ باہمت امام علی نازش نے ہمت نہ ہاری اور یہ پرچم سائیکلواسٹال ایک گھریلو قسم کی مشین کے ذریعے چھپتا رہا جب کہ ایک زمانے میں سرخ پرچم فوٹو اسٹیٹ کاپی کرواکر بھی کارکنوں تک اس کی ترسیل ہر صورت میں جاری رکھی۔ جب کہ آمر ضیا الحق کے دور حکومت میں ترقی پسند لٹریچرز کا رکھنا ایک سنگین جرم تھا۔ جس کی کم سے کم سزا دس برس قید تھی اور زیادہ سے زیادہ سزائے موت جیسے کے نذیر عباسی کو دی گئی جب کہ 1981 میں نذیر عباسی کی یاد میں ایک رسالہ علم و عمل جاری کیا مگر فوٹو اسٹیٹ پر نکلنے والے اس رسالے کی دو کاپیاں ہی چھپ سکیں جب کہ انگریزی میں کامریڈ نکالا یہ سہ ماہی جریدہ تھا اس کی بھی صرف دو کاپیاں نکالی جاسکیں۔
یہ بھی فوٹو اسٹیٹ پر چھپا تھا جب کہ روپوشی کے دوران امام علی نازش روس کے شہر ماسکو چیکو سلواکیہ کے شہر پراگ بھارت مشرقی جرمنی وغیرہ میں بھی رہے جب کہ ایک بار یورپ سے واپسی پر کامریڈ ڈاکٹر نجیب اﷲ کے دور حکومت میں افغانستان میں کامریڈ نجیب اﷲ کے گھر میں قیام کیا،کامریڈ نجیب اﷲ سے امام علی نازش سے ذاتی تعلق اس حد تک تھا کہ ان کی بیگم کو امام علی نازش نے بیٹی بنالیا۔
جب کہ کامریڈ نجیب اﷲ نے ذاتی گھڑی ان کو تحفے میں دی جوکہ اوجھا سینی ٹوریم میں جب امام علی نازش زیر علاج تھے تو کسی نے چرالی۔ بہر کیف TBجیسے جان لیوا مرض میں مبتلا ہوکر 6 جولائی 1996 کو وہ اوجھا سینی ٹوریم میں داخل ہوگئے جہاں وہ 6 مارچ 1999 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
عزم و ہمت کے پیکر امام علی نازش نے ساری عمر اپنے نظریات پر قربان کرکے یہ ثابت کردیا کہ انقلاب کے لیے زندگی کا ایک حصہ نہیں بلکہ پوری زندگی درکار ہوتی ہے وفات کے وقت امام علی نازش کی عمر 75 برس 6ماہ 20یوم تھی۔ آج 6 مارچ 2015 کو ان کی 16 ویں برسی پر اس عزم کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کہ غربت جہالت، جبر، ظلم، عدم مساوات کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی۔
نہ تو وہ کوئی درویش تھا نہ سادھو یا سنیاسی اور نہ ہی وہ کوئی دنیا تیاگی تھا ان تمام باتوں کے باوجود جب وہ اوجھا سینی ٹوریم کراچی میں زیر علاج تھے تو مسلم لیگی رہنما مشاہد حسین سید جوکہ اس وقت یعنی میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں وزیر اطلاعات تھے ،ان کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لاتے ہیں۔
دوران گفتگو مشاہد حسین سید پیشکش کرتے ہیں کہ اگر آپ پسند فرمائیں تو حکومتی اخراجات پر آپ کا علاج کسی اچھے یا نجی اسپتال سے کروانے کا انتظام کیے دیتے ہیں۔ جس پر مشاہد حسین سید کو وہ صاحب جواب دیتے ہیں کہ آپ میری مزاج پرسی کو تشریف لائے اور میرا علاج حکومتی اخراجات پر کروانے کی پیشکش کی اس کے لیے بصد احترام شکریہ مگر میرے نظریات مجھے اس امر کی اجازت نہیں دیتے کہ میں بغرض علاج مسلم لیگی حکومت کے اخراجات قبول کرلوں۔
البتہ اگر آپ اس سینی ٹوریم کی دیواریں پختہ کروادیں تو اس سینی ٹوریم کے مریضوں کا بھلا ہوجائے گا۔ آپ کا تجسس ختم کرتے ہوئے اس مریض کا نام بھی بتادیتے ہیں۔ یہ ہیں کامریڈ امام علی نازش عرف مولانا جوکہ 14 اگست 1923 کو متحدہ بھارت کے صوبہ UP کے ضلع مراد آباد کے مشہور قصبے امروہہ میں پیدا ہوئے۔ امام علی نازش نے جس خانوادے میں آنکھ کھولی اس خانوادے کی ایک روایت تھی کہ اس خانوادے کا ہرمرد، فقہ جعفریہ سے تعلق کے باعث شیعہ امام یا ذاکر بننا پسند کرتا تھا، اسی لیے امام علی نازش کا خاندان سادات امروہہ کے نام سے دور دور تک شہرت رکھتا تھا۔
یہی سبب تھا کہ ان کو مقامی مدرسے میں داخل کروا دیا گیا تاکہ وہ عالم دین بن سکیں جب کہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ مروجہ ثانوی تعلیم کے حصول کے لیے میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لے لیا۔کالج کی تعلیم کے دوران امام علی نازش 1936 میں قائم ہونے والی انجمن ترقی پسند مصنفین کے حلقہ اثر میں آچکے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب جنگ عظیم دوئم پوری دنیا کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھی۔
جب کہ 1940 یا اس کے بعد کے زمانے میں ایک جملہ اکثر لوگوں کی سماعتوں سے ٹکراتا کہ جو نوجوان 18 یا 20 برس کی عمر تک کمیونزم سے متاثر نہیں ہوتا اس نوجوان کا دماغی چیک اپ (CHECKUP) ضروری ہے۔ 1948 میں امام علی نازش کی شادی ان کی قریبی رشتے دار لڑکی سے ہوگئی جب کہ ایک قلیل مدت کے لیے وہ مسلم لیگ میں بھی رہے۔
1948 ہی میں امام علی نازش نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا مگر اب مسئلہ یہ درپیش تھا کہ ان کی بیگم پاکستان آنے پر آمادہ نہ تھیں اور وہ پاکستان آنے کا اٹل فیصلہ کرچکے تھے۔ چنانچہ وہ پاکستان آگئے اور کراچی میں بودوباش اختیارکرلی اور حصول تعلیم کے لیے کوشاں ہوگئے ،گریجویشن کی سند حاصل کی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے بھی منسلک ہوچکے تھے۔
ایک شیدی کوچوان کی معرفت سے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور طلبا تنظیموں کے ساتھ ساتھ منگھوپیر کے مزدوروں کی نظریاتی تربیت بھی شروع کردی۔ اس سلسلے میں عزیز سلام بخاری کا ساتھ بھی امام علی نازش کو حاصل تھا۔
جب کہ 1954 میں جب کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی عائد کردی گئی تو تمام صف اول کی قیادت کو پابند سلاسل کردیا جب کہ امام علی نازش کو 8 دسمبر 2014 دیہانت کرنے والے آنجہانی سوبھوگیان چندانی بھی گرفتاری سے خود کو محفوظ نہ رکھ پائے اور ان دونوں رہنماؤں کو اسیری کے تین برس گزارنے پڑے۔
1957 میں رہائی کے بعد مشرقی پاکستان کے رہنماؤں کی مشاورت سے زیر زمین کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان قائم کی جب کہ مشرقی پاکستان میں کامریڈ مونی سنگھ کی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی آف مشرقی پاکستان قائم ہوچکی تھی جب کہ کسان رہنما عزیز اعزاز نظیر، محمد یامین، کامریڈ مولابخش، شمیم واسطی ودیگر نامور مزدور رہنما شانے سے شانہ ملائے پارٹی امور چلانے کے لیے سرگرم ہوچکے تھے مگر اس حقیقت سے انحراف ممکن ہی نہیں کہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان امام علی نازش کے گرد طویل عرصے تک گھومتی رہی جب کہ 1963 میں ترقی پسند طبقہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تو امام علی نازش اپنے رفیقوں سمیت پارٹی کا تشخص مارکسزم قائم رکھنے میں بھی کامیاب رہتے تھے اور NAP ولی گروپ کا ساتھ دیا اور ایوبی آمریت کے خلاف جد وجہد جاری رکھی۔
عام خیال یہ ہے کہ 1960 میں حسن ناصر کی شہادت کے بعد پارٹی کی مرکزی ذمے داریاں اپنے ہاتھ میں لے لی تھیں جب کہ 27 برس بعد جب 1975 میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی دوسری کانگریس حیدرآباد میں منعقد ہوئی تو امام علی نازش کو پارٹی کا جنرل سیکریٹری بنایاگیا جب کہ تیسری کانگریس 1989 منعقدہ کراچی میں ان کو ایک بار پھر جنرل سیکریٹری کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان چن لیا گیا اور اسی برس کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کو اوپن (OPEN) کر دیا گیا اور جب اپریل 1995 میں میجر اسحاق گروپ مزدور کسان پارٹی کمیونسٹ پارٹی میں ضم ہوئی تو امام علی نازش کو پارٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا مگر اس وقت تک وہ مسلسل جد وجہد کے باعث اپنی قربانی دے چکے تھے۔
اس قربانی کے پس پردہ ان کی وہ انتھک جد وجہد تھی جو انھوں نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود جاری رکھی۔ پارٹی کے لیے ان کو اس وقت بھی اپنی سیاسی سرگرمیاں زیر زمین رہ کر جاری رکھنا پڑیں۔ جس دور کو بہترین عوامی جمہوری دور کہا جاتا ہے یعنی 20 دسمبر 1971 تا 5 جولائی 1977 اس دور میں بھی یعنی 1972-73 جب پارٹی کارکنوں کی تربیت کے لیے پارٹی ترجمان رسالہ 'سرخ پرچم' جاری کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ سرخ پرچم کسی بھی پریس میں چھپ نہیں سکتا تھا۔
چنانچہ باہمت امام علی نازش نے ہمت نہ ہاری اور یہ پرچم سائیکلواسٹال ایک گھریلو قسم کی مشین کے ذریعے چھپتا رہا جب کہ ایک زمانے میں سرخ پرچم فوٹو اسٹیٹ کاپی کرواکر بھی کارکنوں تک اس کی ترسیل ہر صورت میں جاری رکھی۔ جب کہ آمر ضیا الحق کے دور حکومت میں ترقی پسند لٹریچرز کا رکھنا ایک سنگین جرم تھا۔ جس کی کم سے کم سزا دس برس قید تھی اور زیادہ سے زیادہ سزائے موت جیسے کے نذیر عباسی کو دی گئی جب کہ 1981 میں نذیر عباسی کی یاد میں ایک رسالہ علم و عمل جاری کیا مگر فوٹو اسٹیٹ پر نکلنے والے اس رسالے کی دو کاپیاں ہی چھپ سکیں جب کہ انگریزی میں کامریڈ نکالا یہ سہ ماہی جریدہ تھا اس کی بھی صرف دو کاپیاں نکالی جاسکیں۔
یہ بھی فوٹو اسٹیٹ پر چھپا تھا جب کہ روپوشی کے دوران امام علی نازش روس کے شہر ماسکو چیکو سلواکیہ کے شہر پراگ بھارت مشرقی جرمنی وغیرہ میں بھی رہے جب کہ ایک بار یورپ سے واپسی پر کامریڈ ڈاکٹر نجیب اﷲ کے دور حکومت میں افغانستان میں کامریڈ نجیب اﷲ کے گھر میں قیام کیا،کامریڈ نجیب اﷲ سے امام علی نازش سے ذاتی تعلق اس حد تک تھا کہ ان کی بیگم کو امام علی نازش نے بیٹی بنالیا۔
جب کہ کامریڈ نجیب اﷲ نے ذاتی گھڑی ان کو تحفے میں دی جوکہ اوجھا سینی ٹوریم میں جب امام علی نازش زیر علاج تھے تو کسی نے چرالی۔ بہر کیف TBجیسے جان لیوا مرض میں مبتلا ہوکر 6 جولائی 1996 کو وہ اوجھا سینی ٹوریم میں داخل ہوگئے جہاں وہ 6 مارچ 1999 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
عزم و ہمت کے پیکر امام علی نازش نے ساری عمر اپنے نظریات پر قربان کرکے یہ ثابت کردیا کہ انقلاب کے لیے زندگی کا ایک حصہ نہیں بلکہ پوری زندگی درکار ہوتی ہے وفات کے وقت امام علی نازش کی عمر 75 برس 6ماہ 20یوم تھی۔ آج 6 مارچ 2015 کو ان کی 16 ویں برسی پر اس عزم کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کہ غربت جہالت، جبر، ظلم، عدم مساوات کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی۔