جمہوری عمل اور اقتصادی استحکام لازم وملزوم
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہولناک اضافے کے باعث عوام شدید مالی مشکلات کا شکارہوگئے ہیں۔
NEW DEHLI:
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بنیادی شرح سود50 بیسز پوائنٹ کم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
جس کے بعد پالیسی ڈسکائونٹ ریٹ 10.50فیصد سے کم ہوکر10فیصد کی سطح پرآگیا ہے۔شرح سود کم کرنے کا فیصلہ اسٹیٹ بینک کے مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز نے جمعے کوکراچی میں گورنراسٹیٹ بینک یاسین انورکی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں کیا۔جس کا اطلاق 8اکتوبر 2012سے کیا جائے گا۔اسٹیٹ بینک کے مانیٹری پالیسی بیان کے مطابق مہنگائی میں کمی کاسلسلہ مئی 2012سے جاری ہے جس کے نتیجے میں ستمبر میں گرانی 8.8فیصد کی سطح پر آگئی ہے جس سے مالی سال 2012-13کے لیے 9.5فیصد کی گرانی کا ہدف حاصل ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے،گرانی میں کمی کے اثرات غذائی اشیا کے بعد غیرغذائی اشیا کی قیمتوں میں کمی سے بھی ظاہر ہورہے ہیں۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ترقیاتی منصوبے بروقت مکمل کیے جائیں، ان منصوبوں کی تکمیل سے عوام کی زندگیوں میں قابل دید تبدیلی آئے گی ، اراکین پارلیمنٹ ترقیاتی منصوبوں کی خود مانیٹرنگ کریں ۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے وفاقی وزراء اور ممبران پارلیمنٹ سے الگ الگ ملاقات کے دوران کیا ، مخدوم شہاب الدین سے ملاقات میں وزیراعظم نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں حکومت کی طرف سے شروع ترقیاتی منصوبے ترجیحی بنیادوں پر مکمل ہوںگے ، اسی طرح کراچی کے میگا پروجیکٹوں کی بر وقت تکمیل کی بھی خصوصی ہدایات جاری کی گئیں۔اسٹیٹ بینک کی نئی مانیٹرنگ پالیسی اعلان پر صنعتکار وتاجر برادری کا رد عمل مثبت اور ملا جلا ہے ، یوں بھی مانیٹرنگ پالیسی کے تناظر میں ملکی معیشت کے مکمل روبہ زوال کا تاثر نہیں ملتا تاہم مہنگائی میں کمی کا تسلسل برقرار رہے گا تبھی عوام کو ثمرات مل سکیں گے ۔
پالیسی اعلان میں کہا گیا کہ قرضوں کے بے محابہ حصول اور توانائی کے شعبے کے پورے انتظامی ڈھانچے میں اصلاح کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔یہ صائب مشورہ ہے۔ مہنگائی ، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ اور توانائی کے کثیر جہتی اور اعصاب شکن بحران نے در حقیقت قومی معیشت کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے ، میڈیا میں کرپشن کی اطلاعات کا سیلاب تھمنے میں نہیں آرہا جب کہ سپریم کورٹ نے قانون کی حکمرانی پر حملوں سے قوم کو خبردار کیا ہے ۔ ملکی سیاست میں بحرانی کیفیت معاشی صورتحال سے الگ تھلگ نہیں ہے، مالیاتی ، انتظامی اور سماجی بہتری کی طرف پیش رفت اور حکومتی محکموں اور اہم اداروں میں رابطے کے فقدان اور سیاسی محاذ آرائی کا خاتمہ نہیں ہوا تواصلاحات کے لیے حکومت کے پاس جو تھوڑا سا وقت بچا ہے وہ ضایع ہوجائیگا ۔
ضرورت معاشی اہداف کے جلد حصول کی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہولناک اضافے کے باعث عوام شدید مالی مشکلات کا شکارہوگئے ہیں۔ مہنگائی میں کمی کا عندیہ اگرچہ خوش آیند ہے لیکن عوام کی قوت خرید میں بھی اضافہ ہونا چاہیے،جس کے لیے روزگار کے مواقع اور ملک میں صنعتی اور اقتصادی ترقی کو غربت کے خاتمے سے مشروط کیے بغیر معاشی اہداف کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔ ارباب اختیار بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کو بار بارخوشخبریوں کا لالی پاپ نہ بنائیں بلکہ بجلی کی فراہمی کے نظام کو مستحکم کرنے اور بجلی گھروں کو ملنے والی سبسڈیز کے تشویش ناک پہلوئوں پر توجہ دیں ۔اس ضمن میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کے ای ایس سی کے خلاف سنگین شکایات کا جائزہ لینا ناگزیر ہے۔
جس میں حکومتی اداروں میں کرپشن کی روک تھام اور انتظامی و مالیاتی شفافیت کو یقینی بنانے کے مشن پر مامور ایک عالمی تحقیقاتی ادارے نے سپریم کورٹ سے سو موٹو ایکشن لینے کی درخواست کی ہے،کے ای ایس سی نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے الزامات کو رد کیا ہے۔ادھر آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کی طرف سے بجلی پردی جانیوالی بے تحاشہ سبسڈی پر شدید تحفظات کااظہارکیاہے اور کہاہے کہ اگرحکومت پا کستان نے بجلی سبسڈی کو نہ روکاتواسے شدید مالی بحران کا سامنا کرنا پڑ یگا۔پاکستان کی طرف سے آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال 2012-13 کی پہلی سہہ ماہی(جولائی تا ستمبر)کے دوران99 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے۔
جب کہ 2011-12 کے دوران20 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی تھی اس لحاظ سے گذشتہ مالی سال کے مقابلہ میں رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران79 ارب روپے کی زائد سبسڈی دی گئی۔آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ حکومت پا کستان بجلی کی مد میں دی جانیوالی سبسڈی کو کم کرے اور اسے صرف مستحق لوگوں تک محدود کیاجا ئے۔ سوال یہ ہے کہ ارباب اختیار اور اقتصادی مشیر اس حقیقت سے صرف نظر کیوں کرتے ہیں کہ غربت کی شرح بڑھ رہی ہے،40 فی صد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔کشکول توڑنے کے سارے دعوے بھلا دیے گئے۔
مہنگائی میں کمی ہورہی ہے تو متوسط اور نچلے طبقے کی زندگیوں پر اس کے پڑتے ہوئے مثبت اثرات نظر بھی آنے چاہییں۔ بتایا جاتا ہے کہ ملکی اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت ایک ٹریلین روپے سے زائد مالیت کے نوٹ چھاپ چُکی ہے جس سے افراط زربھی ڈبل ڈیجٹ ہونے کا خطرہ ہے۔اس لیے ملکی معیشت کو نوٹ چھاپ کر اور بینکوں سے اربوں روپے کے قرضے لے کر مستحکم کرنے کے بجائے ٹھوس عوام دوست اقتصادی پالیسیوں پر عمل کیا جائے ۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں دو روز تک سی این جی سٹیشنز کی بندش سے عوام کا برا حال ہورہا ہے، یہ صورتحال اذیت ناک ہے جس میں اقتصادی بزر جمہروں کی غلط اقتصادی ترجیحات کی عکاسی ہوتی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق پائیداراقتصادی نموبحال کرنے کے لیے توانائی کے شعبے کے پورے انتظامی ڈھانچے کی اصلاح ناگزیر ہے، بینکاری نظام سے حکومت کے اضافی قرضوں کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے جامع مالیاتی اصلاحات میں مزید تاخیر نہ کی جائے، کم ہوتی ہوئی گرانی کے ساتھ نجی کاروباری اداروں کو قرضوں کی کمزور نمو کا سامنا ہے جس کے لیے شیڈول بینکوں کو اپنا کردار بہتر بنانا ہوگا، مانیٹری پالیسی کے مطابق اسٹیٹ بینک سے قرض گیری پر مسلسل نظر رکھنے اور جدولی بینکوں سے اضافی قرض گیری کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے جامع مالیاتی اصلاحات میں مزید تاخیر نہیں کی جانی چاہیے۔
گرانی میں حالیہ کمی کے ساتھ مالی سال 13ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران اسٹیٹ بینک سے 412 ارب روپے کے مالیاتی قرض کی واپسی سے قوزی گرانی مزید کم ہوسکتی ہے جس کے گرانی کی توقعات پر مفید اثرات ہوں گے۔ درحقیقت مالی سال 13ء کے پہلے دو ماہ کے دوران اس میں 884 ملین ڈالر کی فاضل رقم آئی۔ اس کا بنیادی سبب ترسیلات میں شاندار نمو ہے، مانیٹری پالیسی میں کہا گیا کہ اسٹیٹ بینک کو قرضوں کی واپسی جدولی بینکوں سے خاصے قرض کے ذریعے ممکن ہوئی تھی۔ اس مد میں یکم جولائی تا 21 ستمبر مالی سال 13ء کے دوران 437 ارب روپے کا قرضہ لیا گیا ۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود10فیصد کیے جانے کے فیصلے کے بعد بنیادی شرح سودگزشتہ پانچ سال کی کم ترین سطح پرآگئی ہے ملکی تاریخ میں سب سے مہنگے قرضے1996جب کہ سب سے سستے قرضے2007 میں جاری کیے گئے۔تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف شرح سود کم کرکے صنعتوں کومتحرک اورمعیشت کوبحال نہیں کیاجاسکتا۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود10فیصدکیے جانے پر صنعتی و تجارتی حلقوں نے پالیسی میں نرمی کا خیرمقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ ڈسکائونٹ ریٹ آیندہ نظرثانی پر سنگل ڈیجٹ کی سطح پرہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ نئے معاشی اور عصری حقائق کے باعث کسی بھی ملک کی اقتصادیات کو وہاں کے جمہوری عمل کے پہیے کی حیثیت حاصل ہے ، عوام کی خوشحالی کا معاملہ مستحکم معاشی نظام سے جڑا ہوا ہے۔حکومت اپنی جمہوری میعاد کی تکمیل کے سنگ میل عبور کرچکی ہے اسے اب اقتصادی سطح پر بھی عوام کو الیکشن سے پہلے فوری ریلیف مہیا کرنے کا مصمم ارادہ کرنا چاہیے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بنیادی شرح سود50 بیسز پوائنٹ کم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
جس کے بعد پالیسی ڈسکائونٹ ریٹ 10.50فیصد سے کم ہوکر10فیصد کی سطح پرآگیا ہے۔شرح سود کم کرنے کا فیصلہ اسٹیٹ بینک کے مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز نے جمعے کوکراچی میں گورنراسٹیٹ بینک یاسین انورکی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں کیا۔جس کا اطلاق 8اکتوبر 2012سے کیا جائے گا۔اسٹیٹ بینک کے مانیٹری پالیسی بیان کے مطابق مہنگائی میں کمی کاسلسلہ مئی 2012سے جاری ہے جس کے نتیجے میں ستمبر میں گرانی 8.8فیصد کی سطح پر آگئی ہے جس سے مالی سال 2012-13کے لیے 9.5فیصد کی گرانی کا ہدف حاصل ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے،گرانی میں کمی کے اثرات غذائی اشیا کے بعد غیرغذائی اشیا کی قیمتوں میں کمی سے بھی ظاہر ہورہے ہیں۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ترقیاتی منصوبے بروقت مکمل کیے جائیں، ان منصوبوں کی تکمیل سے عوام کی زندگیوں میں قابل دید تبدیلی آئے گی ، اراکین پارلیمنٹ ترقیاتی منصوبوں کی خود مانیٹرنگ کریں ۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے وفاقی وزراء اور ممبران پارلیمنٹ سے الگ الگ ملاقات کے دوران کیا ، مخدوم شہاب الدین سے ملاقات میں وزیراعظم نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں حکومت کی طرف سے شروع ترقیاتی منصوبے ترجیحی بنیادوں پر مکمل ہوںگے ، اسی طرح کراچی کے میگا پروجیکٹوں کی بر وقت تکمیل کی بھی خصوصی ہدایات جاری کی گئیں۔اسٹیٹ بینک کی نئی مانیٹرنگ پالیسی اعلان پر صنعتکار وتاجر برادری کا رد عمل مثبت اور ملا جلا ہے ، یوں بھی مانیٹرنگ پالیسی کے تناظر میں ملکی معیشت کے مکمل روبہ زوال کا تاثر نہیں ملتا تاہم مہنگائی میں کمی کا تسلسل برقرار رہے گا تبھی عوام کو ثمرات مل سکیں گے ۔
پالیسی اعلان میں کہا گیا کہ قرضوں کے بے محابہ حصول اور توانائی کے شعبے کے پورے انتظامی ڈھانچے میں اصلاح کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔یہ صائب مشورہ ہے۔ مہنگائی ، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ اور توانائی کے کثیر جہتی اور اعصاب شکن بحران نے در حقیقت قومی معیشت کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے ، میڈیا میں کرپشن کی اطلاعات کا سیلاب تھمنے میں نہیں آرہا جب کہ سپریم کورٹ نے قانون کی حکمرانی پر حملوں سے قوم کو خبردار کیا ہے ۔ ملکی سیاست میں بحرانی کیفیت معاشی صورتحال سے الگ تھلگ نہیں ہے، مالیاتی ، انتظامی اور سماجی بہتری کی طرف پیش رفت اور حکومتی محکموں اور اہم اداروں میں رابطے کے فقدان اور سیاسی محاذ آرائی کا خاتمہ نہیں ہوا تواصلاحات کے لیے حکومت کے پاس جو تھوڑا سا وقت بچا ہے وہ ضایع ہوجائیگا ۔
ضرورت معاشی اہداف کے جلد حصول کی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہولناک اضافے کے باعث عوام شدید مالی مشکلات کا شکارہوگئے ہیں۔ مہنگائی میں کمی کا عندیہ اگرچہ خوش آیند ہے لیکن عوام کی قوت خرید میں بھی اضافہ ہونا چاہیے،جس کے لیے روزگار کے مواقع اور ملک میں صنعتی اور اقتصادی ترقی کو غربت کے خاتمے سے مشروط کیے بغیر معاشی اہداف کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔ ارباب اختیار بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کو بار بارخوشخبریوں کا لالی پاپ نہ بنائیں بلکہ بجلی کی فراہمی کے نظام کو مستحکم کرنے اور بجلی گھروں کو ملنے والی سبسڈیز کے تشویش ناک پہلوئوں پر توجہ دیں ۔اس ضمن میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کے ای ایس سی کے خلاف سنگین شکایات کا جائزہ لینا ناگزیر ہے۔
جس میں حکومتی اداروں میں کرپشن کی روک تھام اور انتظامی و مالیاتی شفافیت کو یقینی بنانے کے مشن پر مامور ایک عالمی تحقیقاتی ادارے نے سپریم کورٹ سے سو موٹو ایکشن لینے کی درخواست کی ہے،کے ای ایس سی نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے الزامات کو رد کیا ہے۔ادھر آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کی طرف سے بجلی پردی جانیوالی بے تحاشہ سبسڈی پر شدید تحفظات کااظہارکیاہے اور کہاہے کہ اگرحکومت پا کستان نے بجلی سبسڈی کو نہ روکاتواسے شدید مالی بحران کا سامنا کرنا پڑ یگا۔پاکستان کی طرف سے آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال 2012-13 کی پہلی سہہ ماہی(جولائی تا ستمبر)کے دوران99 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے۔
جب کہ 2011-12 کے دوران20 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی تھی اس لحاظ سے گذشتہ مالی سال کے مقابلہ میں رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران79 ارب روپے کی زائد سبسڈی دی گئی۔آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ حکومت پا کستان بجلی کی مد میں دی جانیوالی سبسڈی کو کم کرے اور اسے صرف مستحق لوگوں تک محدود کیاجا ئے۔ سوال یہ ہے کہ ارباب اختیار اور اقتصادی مشیر اس حقیقت سے صرف نظر کیوں کرتے ہیں کہ غربت کی شرح بڑھ رہی ہے،40 فی صد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔کشکول توڑنے کے سارے دعوے بھلا دیے گئے۔
مہنگائی میں کمی ہورہی ہے تو متوسط اور نچلے طبقے کی زندگیوں پر اس کے پڑتے ہوئے مثبت اثرات نظر بھی آنے چاہییں۔ بتایا جاتا ہے کہ ملکی اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت ایک ٹریلین روپے سے زائد مالیت کے نوٹ چھاپ چُکی ہے جس سے افراط زربھی ڈبل ڈیجٹ ہونے کا خطرہ ہے۔اس لیے ملکی معیشت کو نوٹ چھاپ کر اور بینکوں سے اربوں روپے کے قرضے لے کر مستحکم کرنے کے بجائے ٹھوس عوام دوست اقتصادی پالیسیوں پر عمل کیا جائے ۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں دو روز تک سی این جی سٹیشنز کی بندش سے عوام کا برا حال ہورہا ہے، یہ صورتحال اذیت ناک ہے جس میں اقتصادی بزر جمہروں کی غلط اقتصادی ترجیحات کی عکاسی ہوتی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق پائیداراقتصادی نموبحال کرنے کے لیے توانائی کے شعبے کے پورے انتظامی ڈھانچے کی اصلاح ناگزیر ہے، بینکاری نظام سے حکومت کے اضافی قرضوں کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے جامع مالیاتی اصلاحات میں مزید تاخیر نہ کی جائے، کم ہوتی ہوئی گرانی کے ساتھ نجی کاروباری اداروں کو قرضوں کی کمزور نمو کا سامنا ہے جس کے لیے شیڈول بینکوں کو اپنا کردار بہتر بنانا ہوگا، مانیٹری پالیسی کے مطابق اسٹیٹ بینک سے قرض گیری پر مسلسل نظر رکھنے اور جدولی بینکوں سے اضافی قرض گیری کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے جامع مالیاتی اصلاحات میں مزید تاخیر نہیں کی جانی چاہیے۔
گرانی میں حالیہ کمی کے ساتھ مالی سال 13ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران اسٹیٹ بینک سے 412 ارب روپے کے مالیاتی قرض کی واپسی سے قوزی گرانی مزید کم ہوسکتی ہے جس کے گرانی کی توقعات پر مفید اثرات ہوں گے۔ درحقیقت مالی سال 13ء کے پہلے دو ماہ کے دوران اس میں 884 ملین ڈالر کی فاضل رقم آئی۔ اس کا بنیادی سبب ترسیلات میں شاندار نمو ہے، مانیٹری پالیسی میں کہا گیا کہ اسٹیٹ بینک کو قرضوں کی واپسی جدولی بینکوں سے خاصے قرض کے ذریعے ممکن ہوئی تھی۔ اس مد میں یکم جولائی تا 21 ستمبر مالی سال 13ء کے دوران 437 ارب روپے کا قرضہ لیا گیا ۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود10فیصد کیے جانے کے فیصلے کے بعد بنیادی شرح سودگزشتہ پانچ سال کی کم ترین سطح پرآگئی ہے ملکی تاریخ میں سب سے مہنگے قرضے1996جب کہ سب سے سستے قرضے2007 میں جاری کیے گئے۔تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف شرح سود کم کرکے صنعتوں کومتحرک اورمعیشت کوبحال نہیں کیاجاسکتا۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود10فیصدکیے جانے پر صنعتی و تجارتی حلقوں نے پالیسی میں نرمی کا خیرمقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ ڈسکائونٹ ریٹ آیندہ نظرثانی پر سنگل ڈیجٹ کی سطح پرہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ نئے معاشی اور عصری حقائق کے باعث کسی بھی ملک کی اقتصادیات کو وہاں کے جمہوری عمل کے پہیے کی حیثیت حاصل ہے ، عوام کی خوشحالی کا معاملہ مستحکم معاشی نظام سے جڑا ہوا ہے۔حکومت اپنی جمہوری میعاد کی تکمیل کے سنگ میل عبور کرچکی ہے اسے اب اقتصادی سطح پر بھی عوام کو الیکشن سے پہلے فوری ریلیف مہیا کرنے کا مصمم ارادہ کرنا چاہیے۔