کتاب میرا اوڑھنا بھی بچھونا بھی

نوجوان لڑکے لڑکیاں وہ شعر پسند کرتے ہیں جس کا گہرا تو کیا، کوئی سطحی مفہوم بھی نہیں ہوتا۔

کتابیں مہنگی ہونے کے رونے دھونے سے ہم چنداں اتفاق نہیں کرتے۔ قصہ اصل یہ ہے کہ اب بچپن سے ہی کتابوں کی عادت نہیں ڈالی جاتی۔ فوٹو: فائل

ہماری نگاہ مردِ مومن (جس کی تقدیریں بدلنے کی صلاحیت سے ہم بوجوہ کام نہیں لے سکے) کمزور ہوئی تو ڈاکٹر صاحب نے مشورہ دیا کہ ہفتہ دو ہفتہ کتابوں سے اس طرح پرہیز کرو جیسے لکھنئو کے شرفاء یہ کہہ کر پنجابیوں سے پرہیز کرتے تھے کہ یہ لوگ ہماری اردو خراب کرتے ہیں۔

یہ مشورہ سُن کر ہمارے پاوں تلے سے جوتی نکل گئی۔ ہم نے جلدی جلدی جوتی پہنی اور ڈاکٹر صاحب کے کمرے سے نکل آئے۔ دِل ہی دِل میں ڈاکٹر کو کوستے رہے کہ کم بخت نے یہ مشورہ کلاس چہارم میں دیا ہوتا تو ہم کہانی میں تھوڑا سا رنگ اور آنکھوں میں آنسو بھر کر سکول کے ٹنٹے سے ہی نجات حاصل کرلیتے۔ ہماری والدہ صاحبہ کو اللہ عمرِ طویل دے، جلالپور کی واحد ماں ہیں جنہوں نے کم سِنی میں ہی (اپنی نہیں ہماری کم سنی میں) ہمارے سامنے کھلونوں کی بجائے بچوں کے رسالوں، آنگلو بانگلو، عمروعیار اور ٹارزن کی کہانیوں کے ڈھیر لگا دیے۔

ستم ظریفی یہ کہ اس ڈھیر کا بیشتر حصہ ہماری ہی جیبیں ڈھیلی کرکے لیا گیا تھا۔ خیر اس کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہوا کہ سال بہ سال بجٹ کے نام پر اور دوسرے ضروری و غیر ضروری مواقع پر حکومت جو ہماری جیبیں خالی کرتی ہے تو بچپن کی کچھ یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ بہرحال ان کہانیوں اور رسالوں کے پڑھنے کا ایک اثر ہم پر یہ پڑا کہ ہم خود کو ضرورت سے زیادہ بڑا سمجھنے لگے اور اُن بچوں کو بڑی حقارت سے دیکھنے لگے جو ابھی تک کھلونوں سے کھیلتے تھے۔ کئی دفعہ تو یہ بھی نوبت آئی کہ کسی کو تین پہیوں والی سائیکل چلاتے دیکھا تو ہم نے ایک ہاتھ سے جانگیا سنبھالا، الٹے ہاتھ سے شرررر کرکے ناک صاف کی اور دل ہی دل میں بولے کہ ابھی بچہ ہے، دو کتابیں پڑھے گا تو سائیکل وائیکل سب بھول جائے گا۔

کتابوں کا یہ چسکا پھر تمام عمر ہمارے ساتھ رہا۔ تین روپے روزانہ پر کرائے کے ناول لیتے لیتے یہ نوبت بھی آئی کہ ایک دفعہ یونیورسٹی کے سمسٹر کی فیس سے کتابیں خرید لائے۔


ہمارے احباب میں سے اکثریت کتاب کی بجائے کباب اور شباب پر پیسے خرچ کرنا زیادہ مناسب سمجھتی ہے۔ ہمارے دوست راجہ لق دق کے بقول آج کل دوسرے درجے کی معیاری کتاب بھی پانچ چھ سو سے کم میں نہیں ملتی۔ عرض کیا کہ آپ کو خبر بھی ہے کہ دیوانِ غالب ڈیڑھ دو سوروپے میں باآسانی دستیاب ہے۔ اس سے سستا تو فی زمانہ ضمیر ہی ہے۔ راجہ صاحب استہزائیہ انداز میں بولے کہ حضور اب غالب کو پڑھے کون اور سمجھے کس کی بلا؟ یہ وصی شاہ کا زمانہ ہے۔ نئی نسل میں سے کتنوں نے افتخار عارف کا نام سنا ہے؟ نوجوان لڑکے لڑکیاں وہ شعر پسند کرتے ہیں جس کا گہرا تو کیا، کوئی سطحی مفہوم بھی نہیں ہوتا۔ ہم نے کھسیانا ہو کر کہا: ایسی شاعری کا فائدہ یہ ہے کہ اپنی مرضی کا مطلب نکالنے میں آسانی رہتی ہے۔

دوستو! عرض یہ ہے کہ کتابیں مہنگی ہونے کے رونے دھونے سے ہم چنداں اتفاق نہیں کرتے۔ قصہ اصل یہ ہے کہ اب بچپن سے ہی کتابوں کی عادت نہیں ڈالی جاتی۔ ورنہ کمپیوٹر اور سمارٹ فونز کے اس عہد میں انٹر نیٹ پر بیش بہا کتابیں مفت دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ بھی حکومت کی طرف سے نیشنل بُک فاونڈیشن کے شورومز پر نئی کتابیں آدھی سے بھی کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ کم عمری سے ہی شوق پیدا کردیا جائے تو راستے خود بخود نکل آتے ہیں۔ ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے۔ یونیورسٹی کی لائبریریوں میں یہ مناظر بہت دیکھنے کو ملے کہ شیلف میں کتابیں سوئی پڑی ہیں اور لائبریری میں بیٹھے طلباء و طالبات بیٹھے ایک دوسرے کو پڑھ رہے ہیں۔ بقول بشیر بدر ؎
وہ چہرہ کتابی رہا سامنے
بڑی خوبصورت پڑھائی ہوئی

اسکول و کالج کی لائبریریوں کی قلت پر بہت اشک فشانی ہوچکی۔ اگر ہم اپنے بچوں کے ہاتھ میں موبائل یا ٹی وی کا ریموٹ تھمانے کی بجائے کتاب پکڑا دیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ چلیں پانچ چھ سو کی کتاب رہنے دیں مگر تیس چالیس روپے کا رسالہ یا کہانی ہی خرید دیں۔ ایک دفعہ لت گئی تو زندگی سنور جائے گی۔ پھر کتابیں بھی مہنگی نہیں لگیں گی اور ان بچارے لکھاریوں کا بھی بھلا ہوگا جن کی عظمت کا احساس ہمارے نقادوں کو ان کے مرنے کے بعد ہوتا ہے۔ بقول شخصے؎
دو چار روز ہم اہلِ ہنر بھی خوش ہو لیں
اگر یہ لفظ ہماری حیات میں بِک جائیں

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story