صحافی قوم کو اکیلا نہ چھوڑیں

غیر جانبدار کوئی بھی نہیں ہوتا لیکن کسی کی تائید کے لیے مضبوط دلیل اور وجہ ضروری ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

میں کوئی خبر پڑھوں نہ پڑھوں' کالم ضرور پڑھتا ہوں لیکن یہ کچھ پہلے کی بات ہے۔

اب تو کالم اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ ان کے عنوان دیکھتا ہوں اور پسند کے موضوع کے مطابق پڑھ بھی لیتا ہوں لیکن میرا کسی کالم کو پڑھنا نہ پڑھنا کوئی خبر نہیں ہے۔ میں کوئی ایسی شخصیت بھی نہیں ہوں کہ اس کی پسند و ناپسند کی کوئی اہمیت ہو۔ میں صرف اپنے ساتھیوں سے ایک گلہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ایسے کسی احساس کمتری میں کیوں مبتلا ہو گئے ہیں کہ در مدح خود سے شروع ہوتے ہیں اور اس پر کالم ختم کرتے ہیں۔ ہمارے بزرگ دانشور جن کا کہا ایک دنیا پڑھتی تھی اور پھر سنبھال کر رکھ لیتی تھی، انھوں نے ایک بار کہا کہ میں نے اب اپنے لیے 'میں' کہنا بند کر دیا ہے کیونکہ اس سے اپنی بڑائی کی جھلک ملتی ہے۔

میں اب 'میں' کی جگہ 'ہم' لکھتا ہوں۔ اس ہم میں عمومیت آ جاتی ہے اور 'میں' کے برعکس تاثر ملتا ہے۔ یہ تھے جناب فیض احمد فیض جن کے شعروں مصرعوں سے ہم لوگ کالم سجاتے ہیں اور جو 'میں' لکھنے کے شاید سب سے زیادہ مستحق تھے۔ ہم نے جس زمانے میں لکھنے کی کوشش شروع کی اس دور میں اپنے قلم سے اپنا ذکر بدتمیزی سمجھا جاتا تھا' ایک گھٹیا حرکت۔ آپ میں اگر کوئی کمال ہے تو اس کا اعتراف دوسروں کو کرنا چاہیے نہ کہ خود آپ کو مگر افسوس کہ آج ہر روز نہیں تو دوسرے تیسرے روز کالموں میں اپنی مدح و ثنا کو دیکھتا ہوں، تعجب کہ کالم نگار بڑی بے تکلفی کے ساتھ اپنی تعریف کرتا ہے۔

ان دنوں ایک اور لعنت بھی لاحق ہو گئی ہے اور وہ ہے بعض کالم نویسوں کی لیڈروں سے ذاتی وابستگی اور ان کی جا و بے جا تعریف و توصیف۔ ایک کارکن صحافی ہونے کی وجہ سے کون ہے جو کسی کا ملازم نہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر کوئی اپنے اخبار کے مالک کی تعریف میں جُتا رہے اور حقِِ نمک ادا کرتا رہے۔ اسی طرح اگر آپ کسی لیڈر کے نظریات اور پالیسیوں سے اتفاق کریں تو ضرور اس کا اظہار کریں اور تعریف بھی لیکن اس نظریاتی وابستگی کو ذاتی وابستگی تو نہ بنائیں ورنہ آپ جانبدار کہلائیں گے۔

سیاسی وڈیروں کی طرح جہاں سب لوگ ڈیرہ دار چوہدری کی تعریف میں لگے رہتے ہیں اور میں نہیں سمجھتا اور نہیں جانتا کہ کوئی بھی اخباری مالک کسی شخصیت کی تعریف کو اپنے عملے کے لیے لازم قرار دیتا ہے مگر میرے بعض دوست اپنے پندار کے بُت کدے کیوں اس طرح ویران کرتے رہتے ہیں جیسے شاید ان لوگوں کا کوئی پندار ہوتا ہی نہیں جس کے ویران ہونے کا انھیں خطرہ ہو۔


کون لکھنے والا ہے جس کا کوئی آئیڈیل نہ ہو اور ہم مسلمان تو ایک نظریاتی دین کو ماننے والے ہیں اور ایک سو فیصد نظریاتی ملک کے شہری ہیں لیکن وقت کے غلام اور مفادات کے نوکر سیاستدانوں میں سے کسی کے ساتھ علانیہ وابستگی باعزت نہیں ہے۔ کسی دانشور لکھنے والے کا وقار اس میں ہے کہ وہ سیاستدانوں کی رہنمائی کرے۔ ان کی اچھائیاں اگر دکھائی دیں تو ان کو آگے بیان کرے اور برائیوں کی مذمت کرے۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں اور یوں سمجھ لیں کہ عوامی پسند و ناپسند کی کسی رائے شماری کی بنیاد پر عرض کرتا ہوں کہ قارئین لکھنے والے کی جانبداری کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔

غیر جانبدار کوئی بھی نہیں ہوتا لیکن کسی کی تائید کے لیے مضبوط دلیل اور وجہ ضروری ہے۔ مثلاً اگر کبھی جماعتوں کا موازنہ کرنے کی نوبت آتی ہے تو موجودہ جماعتوں میں، میں جماعت اسلامی کو ایک باقاعدہ سیاسی جماعت مانتا ہوں جس میں موروثیت کا نام و نشان نہیں، کرپشن کا داغ نہیں اور جماعت کے اندر مکمل جمہوریت ہے، دوسری کوئی ایسی جماعت ہے تو مہربانی فرما کر میری غلط فہمی دور کر دی جائے لیکن میں جماعت کے بارے میں بھی محتاط رہتا ہوں۔ اس کے دو سرکردہ لیڈروں سے بڑی ہی فاش سیاسی غلطیاں ہوئی ہیں۔

اگر وہ ان پر مصر ہوتے تو میں جماعت کو بھی ایک عام سی جماعت سمجھتا لیکن جماعت اپنے لیڈروں کی ان غلطیوں پر نادم ہے اور سچی ندامت بہت بڑی معافی ہے لیکن میری' آپ کی' ہم سب کی بدقسمتی کہ ملک کے اندر ہمیں کوئی ایسا لیڈر دکھائی نہیں دیتا جو خالص اور غیر مشکوک پاکستانی ہو۔ یہ ایک الگ بحث یوں ہے کہ اس پر گفتگو ہونی چاہیے لیکن فی الوقت میں اپنے ساتھیوں' بھائیوں اور برادری سے عرض کرتا ہوں کہ وہ خدا کے لیے ان لیڈروں اور ان کی روزمرہ کی سیاست سے تو بلند ہو جائیں، کل الیکشن میں یہ قوم اگر کوئی غلط فیصلہ کرے گی تو اس کی ذمے داری میڈیا پر بھی ہو گی جس نے قوم کو صحیح صورت حال اور لیڈروں کے ظاہر و باطن سے آگاہ نہیں کیا۔

اس سے پہلے ایک موقع ایسا آ چکا ہے جب 1970ء کے الیکشن میں قوم نے توازن برقرار نہ رکھا اور ملک کو اپنے ووٹوں سے دو حصوں میں بانٹ دیا۔ شیخ مجیب اور بھٹو نے یہ ملک آپس میں بانٹ لیا لیکن صحافیوں نے قوم کو اس سازش یا اس غلطی سے خبردار نہ کیا۔ ایک سیاسی لیڈر نوابزادہ نصراﷲ خان کا بعد از جنگ یہ کہنا کہ قوم نے غلط فیصلہ دیا ہے، بے سود تھا کیونکہ فیصلہ تو ہو چکا تھا جس پر ہم آج تک آنسو بہا رہے ہیں۔ آج بھی قومی حالات کچھ ایسے خوشگوار نہیں ہیں اور صحافیوں کا فرض ہے کہ وہ قوم کو صحیح راستہ دکھانے کی کوشش کریں۔ تب تو رونے کے لیے ملک کا ایک حصہ باقی تھا، اب ہم کس کندھے پر سر رکھ کر روئیں گے۔

میں اپنے ساتھیوں سے ہی کچھ عرض کر سکتا ہوں اور اگر ان کی ناراضگی ہو تو اس کو برداشت کر سکتا ہوں' معافی مانگ سکتا ہوں کہ یہ گھر کی بات ہے لیکن اب سوال ملک کا ہے، اس کے مستقبل کا ہے، خدا کے لیے وہ بات بیان کریں جو آپ جانتے ہیں جو آ پ کے دل میں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کے موقع پر پنجاب کے صحافیوں کی تعداد کوئی دو اڑھائی سو تھی۔ یونین کی رکنیت اتنی ہی تھی' پرانے دفتر میں جو پریس کلب بھی تھا، ہم سب اداس بیٹھے تھے کہ کسی نے کہا، یار اگر ہم یک طرفہ جذبات میں نہ بہہ جاتے تو شاید یہ سانحہ رُک جاتا۔ سب خاموش رہے اور یہ وقت مجھے آج تک یاد ہے۔ ہمارے جو سینئر وہاں موجود تھے، وہ پتھر بن کر چپ رہے۔ سب گنہ گار تھے اور اپنے ضمیر کی عدالت میں حاضر تھے۔ روتی بلکتی قوم ہمارے خلاف مدعی تھی تو حضرات عرض یہ کہ خود ستائی کے مرض سے نجات پائیں، باہر نکل کر قوم کی رہنمائی کریں، اس کی اچھائیوں کی ستائش کریں، ہماری قوم بہت اچھی ہے، معصوم ہے مگر صحیح پاکستانی قیادت سے محروم۔
Load Next Story