روسی صدر پاکستان نہیں آئے لیکن …
امریکا کے خطے سے انخلا کے بعد افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں استحکام بھی پاکستان اور روس کے لیے...
گزشتہ چند ماہ میں خارجہ پالیسی کے محاذ پر بہت ساری مایوس کن خبریں آنے کے بعد بالآخر پاکستان کے لیے کچھ بہتری کی امیدیں بھی نظر آنے لگی ہیں اور اس کی وجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ، خطے کے حالات اور بین الاقوامی سیاست میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن پاکستان کے دورے پر آ جاتے اور برسوں پر محیط فاصلے جو گزشتہ چند برسوں میں بہر حال کم ہوئے ہیں۔ مزید کم ہو جاتے مگر پھر بھی حالات و واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان اور روس کے حالات میں بہتری دونوں ممالک کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہو گی۔ جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ مگر ان وجوہات سے پہلے روسی صدر کے پاکستان نہ آنے اور ان کی جگہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا پاکستان کا دورہ کرنے پر ذرا بات ہو جائے۔
روسی صدر کے پاکستان کا دورہ ملتوی کرنے پر بہت سی قیاس آرائیاں اور مفروضے قائم کیے گئے ہوں گے اور بہت سی باتوں میں دم بھی نظر آتا ہے۔ کہا گیا کہ روسی صدر پاکستان اس لیے نہیں آئے کیونکہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن میں اس وقت کہ جب کوئی بھی بین الاقوامی کمپنی ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے سرمایہ لگانے کو تیار نہیں تھی تو روس کی طرف سے یہ پیشکش کی گئی کہ وہ اس پائپ لائن میں سرمایہ لگانے کے لیے تیار ہے مگر پاکستان بغیر کوئی بڈنگ کرائے روس کی کمپنی سے یہ معاہدہ کر لے اور دوسری وجہ یہ بتائی گئی کہ روس اسٹیل مل کی توسیع میں دلچسپی رکھتا ہے اور اس پر پاکستان کی طرف سے لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے۔
اگر یہ بات سچ ہے تو سمجھ سے باہر ہے کہ ایسے وقت میں کہ جب کوئی بھی بین الاقوامی کمپنی پاکستان' ایران گیس پائپ لائن میں دلچسپی نہیں لے رہی تھی تو اس بات کا بھلا کیا سوال کہ بولی لگوا کر روسی کمپنی سے معاہدہ کیا جاتا۔ مزید یہ کہ اگر دوسری بین الاقوامی کمپنیاں دلچسپی لے بھی رہی ہوتیں تو بھی پاکستان میں ہمیشہ کون سے معاہدے باقاعدہ بولی کروا کرکیے جاتے ہیں۔ کیا ہم ماضی میں دوست ممالک کو خوش کرنے کے لیے حکومتی صوابدید پر معاہدہ نہیں کرتے رہے؟ اور اگر وجہ یہی تھی تو پھر ایسے پروجیکٹ میں کہ جہاں کوئی اور بین الاقوامی کمپنی دلچسپی ہی نہ لے رہی ہو پاکستان اور روس کے تعلقات میں بہتری کا ایک شاندار موقع کیوں ضایع کیا گیا؟ اور اسٹیل مل تو جناب پاکستان اور روس کے تعلقات میں بہتری کی پہلی مثال ہے۔
70ء کی دہائی میں سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان اور روس کے تعلقات کی بہتری کی جو کوششیں شروع کیں اسی کے نتیجے میں روس کی مدد سے پاکستان اسٹیل مل قائم کی گئی اور آج کے حالات میں کہ جب پاکستان میں اسٹیل کی پروڈکشن اس کی ضرورت سے بہت کم ہے اور اسٹیل کی درآمد کر کے بھاری زرمبادلہ ضایع کیا جاتا ہے، یہ بہتر ہوتا کہ پاکستانی حکومت تیزی سے ہر ممکن سہولت روس کو اس سلسلے میں فراہم کرتی۔
روسی صدر کے پاکستان نہ آنے کی ایک اور وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ روسی صدر کے دورے سے صرف ایک ہفتے پہلے یوم عشق رسول ﷺ پر جو کچھ اسلام آباد میں ہوا اس کے بعد روسی صدر کا دورہ سیکیورٹی خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملتوی کیا گیا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکی اور روسی صدور کے دوروں میں ان دونوں ممالک کی طرف سے انتہائی حساسیت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور ایسے وقت میں کہ جب یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہ ہو کہ حکومت پاکستان اپنی ہی طرف سے اعلان کردہ چھٹی کے دن پر اسلام آباد کے ریڈ زون میں بے بس نظر آ رہی ہو اور عالمی میڈیا پولیس کی بے بسی اور اس پر ہوتا پتھراؤ ساری دنیا کو دکھا رہا ہو تو روسیوں کے ذہن میں بھی خدشات نے جنم لیا ہو گا۔
تاہم ذرایع یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان اور روس کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں جب روسی صدر کے دورہ پاکستان کے التوا کی بات ہوئی تو مندرجہ بالا تمام مفروضوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ روسی صدر شیڈول کے سخت ہونے کی وجہ سے پاکستان کا دورہ نہ کر سکے۔ جناب اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو بھلا یہ کیسے ممکن ہوا کہ روسی صدر اس کے دو دن بعد تاجکستان چلے گئے۔ اگر شیڈول سخت تھا تو پاکستان کی جگہ تاجکستان کا دورہ ملتوی کیا جاتا۔ کیونکہ یہ کسی بھی روسی صدر کا پہلا پاکستانی دورہ تھا اور اس کے ملتوی ہونے سے انتہائی برا تاثر ملا۔ ایک اور مفروضہ یہ بھی ہے کہ روس اس بات میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے کہ شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن کو مزید متحرک اور فعال بنایا جائے۔
اسی لیے چار ملکی سمٹ جس میں پاکستان' افغانستان' تاجکستان اور روس شامل تھے، میں شرکت سے ولادیمیر پیوٹن نے گریز کیا اور وہ پاکستان کا دورہ کسی سمٹ کے تحت نہیں بلکہ اکیلے کرنا چاہیں گے کہ جس میں دونوں ممالک کے تعلقات کی بہتری پر بات ہو۔ تاہم اگر ایسا ہوتا تو کیا وجہ کہ روسی صدر نے صدر آصف علی زرداری کے نام اپنے دورے کی منسوخی کا جو خط بھیجا اس میں مستقبل میں اپنے دورے کا ذکر کرنے کی بجائے صدر پاکستان کو روس آنے کی دعوت دی۔ بہتر ہوتا کہ خود مستقبل میں پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کرتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر روسی صدر پاکستان کا دورہ کر لیتے تو دونوں ممالک کے درمیان ایک بڑا سنگ میل ثابت ہوتا مگر حالات و واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ماضی میں انتہائی سرد تعلقات رکھنے والے روس اور پاکستان بہت سے بین الاقوامی مسائل پر ایک ہی صفحے پر دکھائی دیتے ہیں اور مستقبل میںدونوں ممالک کے لیے ایک دوسرے کے قریب آنا ناگزیر ہے۔ آج دہشتگردی اور خطے کے حالات پر پاکستان اور روس کی سوچ میں زیادہ فرق نہیں۔ شام اور لیبیا کے مسئلے پر پاکستان نے امریکا کی ہاں میں ہاں ملانے کی بجائے بین الاقوامی فورمز پر ایک آزاد رائے دی اور پاکستان اور روس ان معاملات میں بھی ایک ہی رائے رکھتے نظر آئے۔ اقوام متحدہ میں سیکیورٹی کونسل کی سیٹ کے لیے روس نے پاکستان کی بھرپور حمایت کی۔
امریکا کے خطے سے انخلا کے بعد افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں استحکام بھی پاکستان اور روس کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ روسی وزیر خارجہ نے حالیہ دورۂ پاکستان میں ڈرون حملوں پر پاکستانی مؤقف کو سپورٹ کیا کہ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری پر حملہ ہیں۔ نومبر 2011ء میں جب شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن کے اجلاس میں پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پاکستان کو شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن کا مستقل ممبر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو ولادیمیر پیوٹن نے باقاعدہ طور پر پاکستان کو مستقل ممبر بنانے کے حق میں بیان دیا۔
آج پاکستان کی خواہش ہے کہ امریکا پر انحصار کم ہو اور خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کیے جائیں تو روس بھی اس بات کا خواہش مند ہے کہ اس خطے کے ممالک مل کر ایک یونٹ کی شکل میں بین الاقوامی مسائل پر پوزیشن لیں جس کی واضح مثال روس کی یہ کوشش ہے کہ شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن کے اثرورسوخ میں مزید اضافہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ روس نے ان تمام ممالک سے کہ جو سابقہ یو ایس ایس آر (سوویت یونین) کا حصہ تھے اپنے تعلقات بہتر کر لیے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایران' پاکستان گیس پائپ لائن ہو کہ جس کا امریکا شدید مخالف ہے یا پھر ترکمانستان' افغانستان' پاکستان' انڈیا گیس پائپ لائن کہ جس کو امریکا کی آشیر باد حاصل ہے۔
ان دونوں منصوبوں میں روس حکومتی کمپنی گیزپروم کے ذریعے سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تاکہ خطے کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے روس سرمایہ کاری کرے اور اس طرح اپنے اثرورسوخ میں مزید اضافہ کرے۔اگر روسی صدر پاکستان کا دورہ کر لیتے تو دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری میں تیزی کے لیے بہت بہتر ہوتا مگر مندرجہ بالا بیان کیے گئے عوامل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان اور روس کے تعلقات میں بہتری اور دونوں ممالک کی قربت میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان کی طرف سے بھی روس اور امریکا دونوں سے تعلقات استوار رکھنے کی کوششیں ایک خوش آیند عمل ہے۔ گزشتہ چند مہینوں میں امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں بھی برف پگھلتی نظر آئی ہے۔ جس کا تفصیلی ذکر انشاء اللہ بشرط زندگی اگلے کالم میں کروں گا۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن پاکستان کے دورے پر آ جاتے اور برسوں پر محیط فاصلے جو گزشتہ چند برسوں میں بہر حال کم ہوئے ہیں۔ مزید کم ہو جاتے مگر پھر بھی حالات و واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان اور روس کے حالات میں بہتری دونوں ممالک کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہو گی۔ جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ مگر ان وجوہات سے پہلے روسی صدر کے پاکستان نہ آنے اور ان کی جگہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا پاکستان کا دورہ کرنے پر ذرا بات ہو جائے۔
روسی صدر کے پاکستان کا دورہ ملتوی کرنے پر بہت سی قیاس آرائیاں اور مفروضے قائم کیے گئے ہوں گے اور بہت سی باتوں میں دم بھی نظر آتا ہے۔ کہا گیا کہ روسی صدر پاکستان اس لیے نہیں آئے کیونکہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن میں اس وقت کہ جب کوئی بھی بین الاقوامی کمپنی ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے سرمایہ لگانے کو تیار نہیں تھی تو روس کی طرف سے یہ پیشکش کی گئی کہ وہ اس پائپ لائن میں سرمایہ لگانے کے لیے تیار ہے مگر پاکستان بغیر کوئی بڈنگ کرائے روس کی کمپنی سے یہ معاہدہ کر لے اور دوسری وجہ یہ بتائی گئی کہ روس اسٹیل مل کی توسیع میں دلچسپی رکھتا ہے اور اس پر پاکستان کی طرف سے لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے۔
اگر یہ بات سچ ہے تو سمجھ سے باہر ہے کہ ایسے وقت میں کہ جب کوئی بھی بین الاقوامی کمپنی پاکستان' ایران گیس پائپ لائن میں دلچسپی نہیں لے رہی تھی تو اس بات کا بھلا کیا سوال کہ بولی لگوا کر روسی کمپنی سے معاہدہ کیا جاتا۔ مزید یہ کہ اگر دوسری بین الاقوامی کمپنیاں دلچسپی لے بھی رہی ہوتیں تو بھی پاکستان میں ہمیشہ کون سے معاہدے باقاعدہ بولی کروا کرکیے جاتے ہیں۔ کیا ہم ماضی میں دوست ممالک کو خوش کرنے کے لیے حکومتی صوابدید پر معاہدہ نہیں کرتے رہے؟ اور اگر وجہ یہی تھی تو پھر ایسے پروجیکٹ میں کہ جہاں کوئی اور بین الاقوامی کمپنی دلچسپی ہی نہ لے رہی ہو پاکستان اور روس کے تعلقات میں بہتری کا ایک شاندار موقع کیوں ضایع کیا گیا؟ اور اسٹیل مل تو جناب پاکستان اور روس کے تعلقات میں بہتری کی پہلی مثال ہے۔
70ء کی دہائی میں سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان اور روس کے تعلقات کی بہتری کی جو کوششیں شروع کیں اسی کے نتیجے میں روس کی مدد سے پاکستان اسٹیل مل قائم کی گئی اور آج کے حالات میں کہ جب پاکستان میں اسٹیل کی پروڈکشن اس کی ضرورت سے بہت کم ہے اور اسٹیل کی درآمد کر کے بھاری زرمبادلہ ضایع کیا جاتا ہے، یہ بہتر ہوتا کہ پاکستانی حکومت تیزی سے ہر ممکن سہولت روس کو اس سلسلے میں فراہم کرتی۔
روسی صدر کے پاکستان نہ آنے کی ایک اور وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ روسی صدر کے دورے سے صرف ایک ہفتے پہلے یوم عشق رسول ﷺ پر جو کچھ اسلام آباد میں ہوا اس کے بعد روسی صدر کا دورہ سیکیورٹی خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملتوی کیا گیا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکی اور روسی صدور کے دوروں میں ان دونوں ممالک کی طرف سے انتہائی حساسیت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور ایسے وقت میں کہ جب یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہ ہو کہ حکومت پاکستان اپنی ہی طرف سے اعلان کردہ چھٹی کے دن پر اسلام آباد کے ریڈ زون میں بے بس نظر آ رہی ہو اور عالمی میڈیا پولیس کی بے بسی اور اس پر ہوتا پتھراؤ ساری دنیا کو دکھا رہا ہو تو روسیوں کے ذہن میں بھی خدشات نے جنم لیا ہو گا۔
تاہم ذرایع یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان اور روس کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں جب روسی صدر کے دورہ پاکستان کے التوا کی بات ہوئی تو مندرجہ بالا تمام مفروضوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ روسی صدر شیڈول کے سخت ہونے کی وجہ سے پاکستان کا دورہ نہ کر سکے۔ جناب اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو بھلا یہ کیسے ممکن ہوا کہ روسی صدر اس کے دو دن بعد تاجکستان چلے گئے۔ اگر شیڈول سخت تھا تو پاکستان کی جگہ تاجکستان کا دورہ ملتوی کیا جاتا۔ کیونکہ یہ کسی بھی روسی صدر کا پہلا پاکستانی دورہ تھا اور اس کے ملتوی ہونے سے انتہائی برا تاثر ملا۔ ایک اور مفروضہ یہ بھی ہے کہ روس اس بات میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے کہ شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن کو مزید متحرک اور فعال بنایا جائے۔
اسی لیے چار ملکی سمٹ جس میں پاکستان' افغانستان' تاجکستان اور روس شامل تھے، میں شرکت سے ولادیمیر پیوٹن نے گریز کیا اور وہ پاکستان کا دورہ کسی سمٹ کے تحت نہیں بلکہ اکیلے کرنا چاہیں گے کہ جس میں دونوں ممالک کے تعلقات کی بہتری پر بات ہو۔ تاہم اگر ایسا ہوتا تو کیا وجہ کہ روسی صدر نے صدر آصف علی زرداری کے نام اپنے دورے کی منسوخی کا جو خط بھیجا اس میں مستقبل میں اپنے دورے کا ذکر کرنے کی بجائے صدر پاکستان کو روس آنے کی دعوت دی۔ بہتر ہوتا کہ خود مستقبل میں پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کرتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر روسی صدر پاکستان کا دورہ کر لیتے تو دونوں ممالک کے درمیان ایک بڑا سنگ میل ثابت ہوتا مگر حالات و واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ماضی میں انتہائی سرد تعلقات رکھنے والے روس اور پاکستان بہت سے بین الاقوامی مسائل پر ایک ہی صفحے پر دکھائی دیتے ہیں اور مستقبل میںدونوں ممالک کے لیے ایک دوسرے کے قریب آنا ناگزیر ہے۔ آج دہشتگردی اور خطے کے حالات پر پاکستان اور روس کی سوچ میں زیادہ فرق نہیں۔ شام اور لیبیا کے مسئلے پر پاکستان نے امریکا کی ہاں میں ہاں ملانے کی بجائے بین الاقوامی فورمز پر ایک آزاد رائے دی اور پاکستان اور روس ان معاملات میں بھی ایک ہی رائے رکھتے نظر آئے۔ اقوام متحدہ میں سیکیورٹی کونسل کی سیٹ کے لیے روس نے پاکستان کی بھرپور حمایت کی۔
امریکا کے خطے سے انخلا کے بعد افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں استحکام بھی پاکستان اور روس کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ روسی وزیر خارجہ نے حالیہ دورۂ پاکستان میں ڈرون حملوں پر پاکستانی مؤقف کو سپورٹ کیا کہ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری پر حملہ ہیں۔ نومبر 2011ء میں جب شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن کے اجلاس میں پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پاکستان کو شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن کا مستقل ممبر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو ولادیمیر پیوٹن نے باقاعدہ طور پر پاکستان کو مستقل ممبر بنانے کے حق میں بیان دیا۔
آج پاکستان کی خواہش ہے کہ امریکا پر انحصار کم ہو اور خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کیے جائیں تو روس بھی اس بات کا خواہش مند ہے کہ اس خطے کے ممالک مل کر ایک یونٹ کی شکل میں بین الاقوامی مسائل پر پوزیشن لیں جس کی واضح مثال روس کی یہ کوشش ہے کہ شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن کے اثرورسوخ میں مزید اضافہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ روس نے ان تمام ممالک سے کہ جو سابقہ یو ایس ایس آر (سوویت یونین) کا حصہ تھے اپنے تعلقات بہتر کر لیے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایران' پاکستان گیس پائپ لائن ہو کہ جس کا امریکا شدید مخالف ہے یا پھر ترکمانستان' افغانستان' پاکستان' انڈیا گیس پائپ لائن کہ جس کو امریکا کی آشیر باد حاصل ہے۔
ان دونوں منصوبوں میں روس حکومتی کمپنی گیزپروم کے ذریعے سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تاکہ خطے کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے روس سرمایہ کاری کرے اور اس طرح اپنے اثرورسوخ میں مزید اضافہ کرے۔اگر روسی صدر پاکستان کا دورہ کر لیتے تو دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری میں تیزی کے لیے بہت بہتر ہوتا مگر مندرجہ بالا بیان کیے گئے عوامل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان اور روس کے تعلقات میں بہتری اور دونوں ممالک کی قربت میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان کی طرف سے بھی روس اور امریکا دونوں سے تعلقات استوار رکھنے کی کوششیں ایک خوش آیند عمل ہے۔ گزشتہ چند مہینوں میں امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں بھی برف پگھلتی نظر آئی ہے۔ جس کا تفصیلی ذکر انشاء اللہ بشرط زندگی اگلے کالم میں کروں گا۔