خواتین کے حقوق کا ایجنڈا
خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دیے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے مگر پاکستان میں بدترین صنفی امتیاز ہے۔
خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دیے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے مگر پاکستان میں بدترین صنفی امتیاز ہے۔ خواتین کی آزادی کی جدوجہد کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ صنعتی انقلاب کے بعد صنفی امتیاز کے خاتمے کے تصور کو تقویت ملی۔ امریکا اور یورپ کے سوشلسٹوں نے سب سے پہلے خواتین کی آزادی کی جدوجہد کو منظم کیا۔
سوشلسٹ پارٹی آف امریکا نے 28 فروری 1909ء کو خواتین کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا۔ 1908ء میں جرمن خواتین کی انجمن کی طویل ہڑتال کی یاد میں سوشلسٹ انٹرنیشنل نے ڈنمارک میں ہونے والی تیسری کانفرنس میں یہ دن منانے کا فیصلہ ہوا۔ 19 مارچ 1911ء میں آسٹریلیا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں لاکھوں افراد نے جلوس نکال کر خواتین کی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ 1913ء میں روس میں خواتین نے فروری کے آخری ہفتے کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔
1914ء میں جرمنی میں اس دن کو خواتین کے ووٹ کے حق سے منسوب کیا گیا۔ جرمنی کی خواتین کو 1918ء میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہوا۔ 7 مارچ 1914ء کو لندن کے ٹرافلگر اسکوائر میں خواتین کے عالمی دن سے یکجہتی کے حوالے سے ایک بڑا اجتماع ہوا۔ روس کے شہر سینٹ پیٹرس برگ میں 8 مارچ 1917ء کو خواتین نے پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے کے لیے مظاہرہ کیا۔ یہ خواتین ہتھیاروں کے بجائے روٹی کی مطالبہ کر رہی تھیں۔
جب 1917ء میں روس میں سوشلسٹ انقلاب آیا اور سوویت یونین قائم ہوئی تو سوویت یونین کے بانی ولاڈیمر لینن نے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دیا، سوویت یونین کے آئین میں تحریر کیا گیا کہ خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہونگے۔ سوویت آئین دنیا کا پہلا آئین تھا جس میں خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق کی ضمانت دی گئی۔ سوویت یونین کی یورپ اور امریکا نے بھی پیروی کی۔
بانیٔ پاکستان محمد علی جناح نے خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دلوانے کی جدوجہد کی حمایت کی۔ اس کے باوجود اب تک پاکستان کا شمار بدترین صنفی امتیاز والے ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر گزشتہ سال 4 سو سے زائد خواتین قتل ہوئیں، ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی سینیٹر صغریٰ امام کی کوششوں سے غیرت کے نام پر قتل کو Non Compoundable جرم قرار دیا گیا ۔ یہ بل اب حتمی منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش ہو گا۔ سینیٹ اس سے قبل گھریلو تشدد کے بل کے مسودے کو مسترد کر چکی ہے۔
حالانکہ سندھ اسمبلی نے یہ قانون منظور کر لیا تھا، یوں ملک کے تین صوبوں میں خواتین پر شوہروں، والدین، بھائیوں اور قریبی رشتے داروں کے تشدد پر سزا دینے کا کوئی قانون نہیں ہے۔ پاکستان کی خواتین کے دیگر اسلامی ممالک کے مقابلے میں حالات زیادہ بہتر ہیں مگر خواتین کے عالمی دن یعنی 8 مارچ کے تناظر میں خواتین کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو خواتین پسماندگی، غربت، ناخواندگی، جنسی تعصب اور عدم برابری کا شکار ہیں۔
تعلیم کے شعبے کا جائزہ لیا جائے تو خواتین بہت پیچھے نظر آتی ہیں۔ خواندگی کے بارے میں ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ لڑکیوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ تقریباً 50 فیصد لڑکیاں پانچویں جماعت تک اسکول چھوڑ دیتی ہیں۔ اسی طرح زچہ اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ خواتین، خاص طور پر دیہی علاقے کی خواتین کے مسائل بے تحاشا ہیں۔ انھیں غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔
عمومی طور پر شادی کے معاملے میں ان کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی، جائیداد میں حق کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں متنازعہ قوانین کے نفاذ کے ذریعے خواتین کی حیثیت کو مزید کم کیا گیا۔ پاکستانی خواتین نے ان قوانین کی تبدیلی کے لیے طویل جدوجہد کی۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں خواتین کی فعال تنظیم ویمن ایکشن کمیشن کے تحت لاہور میں مظاہرے پر پولیس نے بدترین تشدد کیا۔ اس تشدد کا نشانہ شاعرِ انقلاب حبیب جالبؔ بھی بنے جنھیں پولیس والوں نے سر پر ڈنڈے مار کر زخمی کیا۔
پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو ان قوانین میں تبدیلی کے لیے تیار تھیں مگر اپنے دو ادوار میں انھیں اسٹیبلشمنٹ نے اس کی مہلت نہ دی۔ میاں نواز شریف کے دور میں بھی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو سکی۔ جنرل پرویز مشرف کا دورِ اقتدار انتہاپسندی اور دہشت گردی کے عروج کا دور تھا مگر ان کے دور میں حدود آرڈیننس میں ترمیم کا عمل شروع ہوا۔ 2001ء میں جنرل پرویز مشرف کے دستخط سے ترمیم شدہ قانون نافذ ہوا۔
اس قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی ملک کی مختلف جیلوں میں بند 1300 خواتین کو رہائی ملی، خواتین کے تحفظ بل 2006ء میں مجرمانہ حملے کی تحقیقات کے لیے ڈی این اے DNA ٹیسٹ اور دیگر سائنسی طریقے استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت 2008ء میں قائم ہوئی۔ ہرچند کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اب آصف علی زرداری حکومت کی باگ ڈور سنبھال چکے تھے مگر پیپلز پارٹی نے اپنی روایت کے مطابق خواتین کے لیے کئی قوانین نافذ کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے منشور پر عملدرآمد کرتے ہوئے 29 جنوری 2010ء کو Protection Against Harassment of Women at Workplace نافذ کیا۔ کام کرنے والی خواتین کے تحفظ کے لیے یہ انتہائی مؤثر قانون تھا۔ اس قانون کے تحت سرکاری محکموں، تجارتی و صنعتی اداروں وغیرہ میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے معاملات کی تحقیقات کے لیے کمیٹیاں قائم کرنے اور جرم ثابت ہونے پر مجرمان کو مختلف نوعیت کی سزائیں دینے کا اختیار ہے۔
پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں جو کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی کا قانون نافذ ہوا اس قانون کے تحت 16 سال سے کم عمر کی بچیوں کی شادی کو قانونی طور پر جرم قرار دیا گیا۔ یوں ونی کی رسم کو فوجداری قانون کے دائرے میں شامل کر کے جرم قرار دیدیا گیا۔ اسی طرح خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات کے تدارک کے لیے بھی قانون سازی کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی خواتین کو جائیداد میں حصہ دلانے کے لیے بھی قانون بنایا گیا۔
پیپلز پارٹی کے اس دور میں خواتین پر گھریلو تشدد کو روکنے کے لیے وفاق کی سطح پر قانون بنانے کی کوشش کی گئی مگر سینیٹ میں موجود رجعت پسند قوتوں نے یہ قانون منظور نہیں ہونے دیا۔ پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں خواتین کی حیثیت کے کمیشن کی تنظیمِ نو کی گئی۔ یہ کمیشن خواتین کی حیثیت کے بارے میں سالانہ اپنی رپورٹ شایع کرتا ہے۔ اس رپورٹ پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی ضروری ہے مگر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ابھی تک کمیشن کی رپورٹ زیرِ بحث نہیں آ سکی۔
پاکستان میں خواتین کو مردوں کے مساوی حیثیت دلانے کے لیے گزشتہ 14 برسوں میں قابلِ قدر قانون سازی ہوئی ہے مگر قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی بناء پر خواتین کی مجموعی حیثیت میں کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ اگرچہ مسلح افواج، خفیہ عسکری اور سول ایجنسیوں، سرکاری اور نجی داروں میں خواتین کی تعداد بڑھی ہے مگر دیہی خواتین اور شہروں میں گھروں میں مقید خواتین کے حالاتِ کار بہتر نہیں ہیں جس کی بناء پر غربت کی شرح میں کوئی کمی نہیں ہو پائی۔
غربت کی شرح میں کمی کا انحصار خواندگی کی شرح میں اضافے، صحت کی بین الاقوامی معیار کی سہولتوں کی فراہمی، روزگار کی یکساں سہولتوں، پسند کے مطابق شادی اور طلاق کا حق اور سیاسی اور معاشی میدان میں ترقی کے یکساں مواقعے کی دستیابی ضروری ہے۔ مگر یہ اس وقت ہی ممکن ہے کہ جب پاکستانی خواتین کے بارے میں حکمرانوں کا بیانیہ تبدیل ہو۔ اس بیانیہ کی تبدیلی ہی 8 مارچ کا ایجنڈا ہونا چاہیے۔
سوشلسٹ پارٹی آف امریکا نے 28 فروری 1909ء کو خواتین کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا۔ 1908ء میں جرمن خواتین کی انجمن کی طویل ہڑتال کی یاد میں سوشلسٹ انٹرنیشنل نے ڈنمارک میں ہونے والی تیسری کانفرنس میں یہ دن منانے کا فیصلہ ہوا۔ 19 مارچ 1911ء میں آسٹریلیا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں لاکھوں افراد نے جلوس نکال کر خواتین کی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ 1913ء میں روس میں خواتین نے فروری کے آخری ہفتے کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔
1914ء میں جرمنی میں اس دن کو خواتین کے ووٹ کے حق سے منسوب کیا گیا۔ جرمنی کی خواتین کو 1918ء میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہوا۔ 7 مارچ 1914ء کو لندن کے ٹرافلگر اسکوائر میں خواتین کے عالمی دن سے یکجہتی کے حوالے سے ایک بڑا اجتماع ہوا۔ روس کے شہر سینٹ پیٹرس برگ میں 8 مارچ 1917ء کو خواتین نے پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے کے لیے مظاہرہ کیا۔ یہ خواتین ہتھیاروں کے بجائے روٹی کی مطالبہ کر رہی تھیں۔
جب 1917ء میں روس میں سوشلسٹ انقلاب آیا اور سوویت یونین قائم ہوئی تو سوویت یونین کے بانی ولاڈیمر لینن نے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دیا، سوویت یونین کے آئین میں تحریر کیا گیا کہ خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہونگے۔ سوویت آئین دنیا کا پہلا آئین تھا جس میں خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق کی ضمانت دی گئی۔ سوویت یونین کی یورپ اور امریکا نے بھی پیروی کی۔
بانیٔ پاکستان محمد علی جناح نے خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دلوانے کی جدوجہد کی حمایت کی۔ اس کے باوجود اب تک پاکستان کا شمار بدترین صنفی امتیاز والے ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر گزشتہ سال 4 سو سے زائد خواتین قتل ہوئیں، ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی سینیٹر صغریٰ امام کی کوششوں سے غیرت کے نام پر قتل کو Non Compoundable جرم قرار دیا گیا ۔ یہ بل اب حتمی منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش ہو گا۔ سینیٹ اس سے قبل گھریلو تشدد کے بل کے مسودے کو مسترد کر چکی ہے۔
حالانکہ سندھ اسمبلی نے یہ قانون منظور کر لیا تھا، یوں ملک کے تین صوبوں میں خواتین پر شوہروں، والدین، بھائیوں اور قریبی رشتے داروں کے تشدد پر سزا دینے کا کوئی قانون نہیں ہے۔ پاکستان کی خواتین کے دیگر اسلامی ممالک کے مقابلے میں حالات زیادہ بہتر ہیں مگر خواتین کے عالمی دن یعنی 8 مارچ کے تناظر میں خواتین کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو خواتین پسماندگی، غربت، ناخواندگی، جنسی تعصب اور عدم برابری کا شکار ہیں۔
تعلیم کے شعبے کا جائزہ لیا جائے تو خواتین بہت پیچھے نظر آتی ہیں۔ خواندگی کے بارے میں ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ لڑکیوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ تقریباً 50 فیصد لڑکیاں پانچویں جماعت تک اسکول چھوڑ دیتی ہیں۔ اسی طرح زچہ اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ خواتین، خاص طور پر دیہی علاقے کی خواتین کے مسائل بے تحاشا ہیں۔ انھیں غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔
عمومی طور پر شادی کے معاملے میں ان کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی، جائیداد میں حق کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں متنازعہ قوانین کے نفاذ کے ذریعے خواتین کی حیثیت کو مزید کم کیا گیا۔ پاکستانی خواتین نے ان قوانین کی تبدیلی کے لیے طویل جدوجہد کی۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں خواتین کی فعال تنظیم ویمن ایکشن کمیشن کے تحت لاہور میں مظاہرے پر پولیس نے بدترین تشدد کیا۔ اس تشدد کا نشانہ شاعرِ انقلاب حبیب جالبؔ بھی بنے جنھیں پولیس والوں نے سر پر ڈنڈے مار کر زخمی کیا۔
پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو ان قوانین میں تبدیلی کے لیے تیار تھیں مگر اپنے دو ادوار میں انھیں اسٹیبلشمنٹ نے اس کی مہلت نہ دی۔ میاں نواز شریف کے دور میں بھی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو سکی۔ جنرل پرویز مشرف کا دورِ اقتدار انتہاپسندی اور دہشت گردی کے عروج کا دور تھا مگر ان کے دور میں حدود آرڈیننس میں ترمیم کا عمل شروع ہوا۔ 2001ء میں جنرل پرویز مشرف کے دستخط سے ترمیم شدہ قانون نافذ ہوا۔
اس قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی ملک کی مختلف جیلوں میں بند 1300 خواتین کو رہائی ملی، خواتین کے تحفظ بل 2006ء میں مجرمانہ حملے کی تحقیقات کے لیے ڈی این اے DNA ٹیسٹ اور دیگر سائنسی طریقے استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت 2008ء میں قائم ہوئی۔ ہرچند کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اب آصف علی زرداری حکومت کی باگ ڈور سنبھال چکے تھے مگر پیپلز پارٹی نے اپنی روایت کے مطابق خواتین کے لیے کئی قوانین نافذ کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے منشور پر عملدرآمد کرتے ہوئے 29 جنوری 2010ء کو Protection Against Harassment of Women at Workplace نافذ کیا۔ کام کرنے والی خواتین کے تحفظ کے لیے یہ انتہائی مؤثر قانون تھا۔ اس قانون کے تحت سرکاری محکموں، تجارتی و صنعتی اداروں وغیرہ میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے معاملات کی تحقیقات کے لیے کمیٹیاں قائم کرنے اور جرم ثابت ہونے پر مجرمان کو مختلف نوعیت کی سزائیں دینے کا اختیار ہے۔
پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں جو کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی کا قانون نافذ ہوا اس قانون کے تحت 16 سال سے کم عمر کی بچیوں کی شادی کو قانونی طور پر جرم قرار دیا گیا۔ یوں ونی کی رسم کو فوجداری قانون کے دائرے میں شامل کر کے جرم قرار دیدیا گیا۔ اسی طرح خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات کے تدارک کے لیے بھی قانون سازی کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی خواتین کو جائیداد میں حصہ دلانے کے لیے بھی قانون بنایا گیا۔
پیپلز پارٹی کے اس دور میں خواتین پر گھریلو تشدد کو روکنے کے لیے وفاق کی سطح پر قانون بنانے کی کوشش کی گئی مگر سینیٹ میں موجود رجعت پسند قوتوں نے یہ قانون منظور نہیں ہونے دیا۔ پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں خواتین کی حیثیت کے کمیشن کی تنظیمِ نو کی گئی۔ یہ کمیشن خواتین کی حیثیت کے بارے میں سالانہ اپنی رپورٹ شایع کرتا ہے۔ اس رپورٹ پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی ضروری ہے مگر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ابھی تک کمیشن کی رپورٹ زیرِ بحث نہیں آ سکی۔
پاکستان میں خواتین کو مردوں کے مساوی حیثیت دلانے کے لیے گزشتہ 14 برسوں میں قابلِ قدر قانون سازی ہوئی ہے مگر قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی بناء پر خواتین کی مجموعی حیثیت میں کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ اگرچہ مسلح افواج، خفیہ عسکری اور سول ایجنسیوں، سرکاری اور نجی داروں میں خواتین کی تعداد بڑھی ہے مگر دیہی خواتین اور شہروں میں گھروں میں مقید خواتین کے حالاتِ کار بہتر نہیں ہیں جس کی بناء پر غربت کی شرح میں کوئی کمی نہیں ہو پائی۔
غربت کی شرح میں کمی کا انحصار خواندگی کی شرح میں اضافے، صحت کی بین الاقوامی معیار کی سہولتوں کی فراہمی، روزگار کی یکساں سہولتوں، پسند کے مطابق شادی اور طلاق کا حق اور سیاسی اور معاشی میدان میں ترقی کے یکساں مواقعے کی دستیابی ضروری ہے۔ مگر یہ اس وقت ہی ممکن ہے کہ جب پاکستانی خواتین کے بارے میں حکمرانوں کا بیانیہ تبدیل ہو۔ اس بیانیہ کی تبدیلی ہی 8 مارچ کا ایجنڈا ہونا چاہیے۔