عالمِ اسلام کے خلاف سازش
9/11 کے الم ناک سانحے کے بعد مغرب بالخصوص امریکا میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علاقائی و عالمی حالات کے تناظر میں پاکستان کا مقدمہ بڑے مدلل اور موثر انداز سے پیش کیا۔
انھوں نے واضح کیا کہ پاکستان نے عالمی امن کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دیں اور جانی و مالی نقصانات اٹھائے۔ اس کے باوجود ہمیں صحیح طریقے سے سمجھا نہیں گیا۔ صدر نے ڈرون حملوں کے منفی اثرات سے عالمی رہنمائوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری بہادر افواج اور عوام کی جانب سے دی جانے والی قربانیوں کی توہین ہے۔ انھوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اب ''ڈومور کی گردان بند کردی جائے۔''
صدر نے اپنے خطاب میں دیگر مسائل پر گفتگو کے علاوہ امت مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے نبی کریمؐ کی شان میں گستاخانہ فلم کی اشاعت پر اپنے گہرے دکھ کا اظہار کیا اور آقائے دو جہاں کی حرمت میں کی جانے والی اس ناپاک جسارت پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں پائے جانے والے شدید غم و غصّے اور ردعمل سے آگاہ کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اظہارِ رائے کی آزادی کو مجرمانہ شکل دیے جانے پر خاموش تماشائی کا کردار ادا نہ کریں کیونکہ اس قبیح حرکت نے عالمی امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
صدر زرداری نے بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے پاکستانی کردار کو اجاگر کرتے ہوئے مسلم امّہ کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے والی اسلام مخالف فلم کے درپردہ اس شیطانی منصوبے کو بھی بے نقاب کیا کہ جس کا مقصد اسلامی دنیا میں دانستہ تشدد، احتجاج اور اشتعال انگیزی کو ہوا دے کر امت مسلمہ کو اندرونی و بیرونی طور پر کمزور کرنا ہے۔ انھوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ گستاخانہ فلم دہشت گردی کی ایک نئی قسم ہے جس سے نمٹنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنی ہوگی کیونکہ فلم بنانے والوں کا مقصد عوام اور اقوام کو تقسیم کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا ہے۔
بلاشبہ صدر مملکت نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں پاکستان اور عالمِ اسلام کو درپیش چیلنجوں بالخصوص شانِ مصطفی میں گستاخانہ فلم کی اشاعت کے پس پردہ عوامل اور مذموم مقاصد کی واضح انداز میں نشان دہی کرکے عالمِ اسلام کے ایک مدبر لیڈر کا کردار ادا کیا ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما اور وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن لاکھ مرتبہ بھی گستاخانہ فلم سے اپنی ''سرکاری لاتعلقی'' کا اعلان کریں لیکن مسلم امّہ کو اس وقت تک مطمئن نہیں کیا جاسکتا کہ جب تک اسلام مخالف شرپسند عناصر کی توہین مذہب اور پیغمبرِ اسلام کی شان میں گستاخی کرنے جیسی گھنائونی حرکتوں کی مستقل روک تھام کے لیے موثر قانون نہ بنایا جائے۔
اسلام اور محمد عربیؐ کی شان میں ہر قسم کے گستاخانہ عمل کو قابل سزا جرم قرار دیا جائے۔ اس حوالے سے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقعے پر اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی جانب سے بھی ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس میں پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے توہینِ مذہب کے خلاف ایک قرارداد پیش کی جس میں گستاخانہ امریکی فلم کو عالمِ اسلام میں پرتشدد احتجاج اور مذہبی جذبات کو بھڑکانے کی گھنائونی حرکت قرار دیتے ہوئے دنیا بھر کے حکمرانوں سے مطالبہ کیا گیا کہ اس قسم کے شرانگیز واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور موثر قانون سازی کو بھی یقینی بنایا جائے۔ پاکستان کی جانب سے یہ قرارداد یقیناً ایک اہم اور مثبت پیش رفت ہے تاہم وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں پیش کرکے اس کو قانونی شکل دِلانے کے لیے بھی مسلم ممالک سنجیدگی کے ساتھ کوششیں کریں تاکہ گستاخانِ رسولؐ کے خلاف قانون بنایا جاسکے، ورنہ دنیا بھر میں پرتشدد مظاہرے معمول بنتے جائیں گے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ 9/11 کے الم ناک سانحے کے بعد مغرب بالخصوص امریکا میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔ امریکی ذرایع ابلاغ میں اسلام کو ایک انتہا پسند مذہب کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ نتیجتاً عام امریکیوں کے ذہن اسلام کے حوالے سے متنفر ہوتے جارہے ہیں اور وہ اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے کوئی مثبت بات، دلیل، موقف اور وضاحت کو سننے، سمجھنے اور ماننے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔
یہ ٹھیک ہے کہ بعض مواقعے پر صدر اوباما اور ان کے وزراء نے اسلام کے حوالے سے پھیلائے جانے والے شرانگیز اور منفی تاثر کو زائل کرنے کے لیے یہ موقف اختیار کیا کہ محض چند افراد کے ذاتی قول و فعل کی وجہ سے کسی مذہب کے بارے میں غلط تاثر قائم کرنا مناسب نہیں لیکن امریکی لوگ اسلام اور مسلمانوں سے اس قدر متعصب و متنفر نظر آتے ہیں کہ ہر منطقی بات کا الٹا مطلب نکالتے ہیں۔ 9/11 کو تباہ ہونیوالے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے قریب جب وہاں کے مقامی مسلمانوں نے مسجد تعمیر کرنا چاہی تو متعصب امریکیوں نے نفرتوں کا طوفان برپا کردیا جس پر امریکا کے صائب الرائے اور باشعور حلقے بھی امریکیوں کے منفی طرزِ عمل کی مذمت کرنے پر مجبور ہوگئے اور ٹائم میگزین نے اپنے ایک شمارے میں بحث کرتے ہوئے یہ دلچسپ سوال اٹھایا کہ کیا امریکا کو ''اسلام فوبیا'' ہوگیا ہے۔
سابق امریکن صدر بش جونیئر نے 9/11 کے حملے کے بعد ایک اسلامی مرکز کا دورہ کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے، تاہم بعد میں انھوں امریکیوں کی روایتی دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلم ممالک عراق و افغانستان پر جنگ مسلط کردی اور لاکھوں افراد پر آتش وآہن کی بارش نے دونوں ممالک کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے شعلوں نے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اب امریکی ڈرون طیارے ہر دوسرے تیسرے دن پاکستانی سرزمین پر حملے کرکے بے گناہ معصوم لوگوں کو شہید کررہے ہیں، نتیجتاً کراچی تا خیبر لوگوں میں شدید اشتعال پھیل رہا ہے اور امریکا مخالف جذبات میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور ردّعمل میں مذہبی انتہا پسند عناصر ملک بھر میں خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں لوگوں کو نشانہ بنارہے۔
بالخصوص پاکستان کے اہم صوبے بلوچستان کے حالات 1970 کے مشرقی پاکستان کا نقشہ پیش کررہے ہیں۔ اس پہ مستزادگستاخانہ فلم کے مسلمانوں اور عالم اسلام کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کے حالات کو دو آتشہ کردیا ہے۔ امن کے ضامن عالمی ادارے اقوام متحدہ کو بدلتے ہوئے حالات کی سنگینی کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور مسلمانوں کی نمایندہ تنظیم او آئی سی کا ہنگامی سربراہی اجلاس بلایا جانا چاہیے تاکہ عالم اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے لائحہ عمل طے کیا جاسکے۔
انھوں نے واضح کیا کہ پاکستان نے عالمی امن کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دیں اور جانی و مالی نقصانات اٹھائے۔ اس کے باوجود ہمیں صحیح طریقے سے سمجھا نہیں گیا۔ صدر نے ڈرون حملوں کے منفی اثرات سے عالمی رہنمائوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری بہادر افواج اور عوام کی جانب سے دی جانے والی قربانیوں کی توہین ہے۔ انھوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اب ''ڈومور کی گردان بند کردی جائے۔''
صدر نے اپنے خطاب میں دیگر مسائل پر گفتگو کے علاوہ امت مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے نبی کریمؐ کی شان میں گستاخانہ فلم کی اشاعت پر اپنے گہرے دکھ کا اظہار کیا اور آقائے دو جہاں کی حرمت میں کی جانے والی اس ناپاک جسارت پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں پائے جانے والے شدید غم و غصّے اور ردعمل سے آگاہ کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اظہارِ رائے کی آزادی کو مجرمانہ شکل دیے جانے پر خاموش تماشائی کا کردار ادا نہ کریں کیونکہ اس قبیح حرکت نے عالمی امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
صدر زرداری نے بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے پاکستانی کردار کو اجاگر کرتے ہوئے مسلم امّہ کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے والی اسلام مخالف فلم کے درپردہ اس شیطانی منصوبے کو بھی بے نقاب کیا کہ جس کا مقصد اسلامی دنیا میں دانستہ تشدد، احتجاج اور اشتعال انگیزی کو ہوا دے کر امت مسلمہ کو اندرونی و بیرونی طور پر کمزور کرنا ہے۔ انھوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ گستاخانہ فلم دہشت گردی کی ایک نئی قسم ہے جس سے نمٹنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنی ہوگی کیونکہ فلم بنانے والوں کا مقصد عوام اور اقوام کو تقسیم کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا ہے۔
بلاشبہ صدر مملکت نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں پاکستان اور عالمِ اسلام کو درپیش چیلنجوں بالخصوص شانِ مصطفی میں گستاخانہ فلم کی اشاعت کے پس پردہ عوامل اور مذموم مقاصد کی واضح انداز میں نشان دہی کرکے عالمِ اسلام کے ایک مدبر لیڈر کا کردار ادا کیا ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما اور وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن لاکھ مرتبہ بھی گستاخانہ فلم سے اپنی ''سرکاری لاتعلقی'' کا اعلان کریں لیکن مسلم امّہ کو اس وقت تک مطمئن نہیں کیا جاسکتا کہ جب تک اسلام مخالف شرپسند عناصر کی توہین مذہب اور پیغمبرِ اسلام کی شان میں گستاخی کرنے جیسی گھنائونی حرکتوں کی مستقل روک تھام کے لیے موثر قانون نہ بنایا جائے۔
اسلام اور محمد عربیؐ کی شان میں ہر قسم کے گستاخانہ عمل کو قابل سزا جرم قرار دیا جائے۔ اس حوالے سے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقعے پر اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی جانب سے بھی ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس میں پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے توہینِ مذہب کے خلاف ایک قرارداد پیش کی جس میں گستاخانہ امریکی فلم کو عالمِ اسلام میں پرتشدد احتجاج اور مذہبی جذبات کو بھڑکانے کی گھنائونی حرکت قرار دیتے ہوئے دنیا بھر کے حکمرانوں سے مطالبہ کیا گیا کہ اس قسم کے شرانگیز واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور موثر قانون سازی کو بھی یقینی بنایا جائے۔ پاکستان کی جانب سے یہ قرارداد یقیناً ایک اہم اور مثبت پیش رفت ہے تاہم وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں پیش کرکے اس کو قانونی شکل دِلانے کے لیے بھی مسلم ممالک سنجیدگی کے ساتھ کوششیں کریں تاکہ گستاخانِ رسولؐ کے خلاف قانون بنایا جاسکے، ورنہ دنیا بھر میں پرتشدد مظاہرے معمول بنتے جائیں گے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ 9/11 کے الم ناک سانحے کے بعد مغرب بالخصوص امریکا میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔ امریکی ذرایع ابلاغ میں اسلام کو ایک انتہا پسند مذہب کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ نتیجتاً عام امریکیوں کے ذہن اسلام کے حوالے سے متنفر ہوتے جارہے ہیں اور وہ اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے کوئی مثبت بات، دلیل، موقف اور وضاحت کو سننے، سمجھنے اور ماننے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔
یہ ٹھیک ہے کہ بعض مواقعے پر صدر اوباما اور ان کے وزراء نے اسلام کے حوالے سے پھیلائے جانے والے شرانگیز اور منفی تاثر کو زائل کرنے کے لیے یہ موقف اختیار کیا کہ محض چند افراد کے ذاتی قول و فعل کی وجہ سے کسی مذہب کے بارے میں غلط تاثر قائم کرنا مناسب نہیں لیکن امریکی لوگ اسلام اور مسلمانوں سے اس قدر متعصب و متنفر نظر آتے ہیں کہ ہر منطقی بات کا الٹا مطلب نکالتے ہیں۔ 9/11 کو تباہ ہونیوالے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے قریب جب وہاں کے مقامی مسلمانوں نے مسجد تعمیر کرنا چاہی تو متعصب امریکیوں نے نفرتوں کا طوفان برپا کردیا جس پر امریکا کے صائب الرائے اور باشعور حلقے بھی امریکیوں کے منفی طرزِ عمل کی مذمت کرنے پر مجبور ہوگئے اور ٹائم میگزین نے اپنے ایک شمارے میں بحث کرتے ہوئے یہ دلچسپ سوال اٹھایا کہ کیا امریکا کو ''اسلام فوبیا'' ہوگیا ہے۔
سابق امریکن صدر بش جونیئر نے 9/11 کے حملے کے بعد ایک اسلامی مرکز کا دورہ کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے، تاہم بعد میں انھوں امریکیوں کی روایتی دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلم ممالک عراق و افغانستان پر جنگ مسلط کردی اور لاکھوں افراد پر آتش وآہن کی بارش نے دونوں ممالک کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے شعلوں نے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اب امریکی ڈرون طیارے ہر دوسرے تیسرے دن پاکستانی سرزمین پر حملے کرکے بے گناہ معصوم لوگوں کو شہید کررہے ہیں، نتیجتاً کراچی تا خیبر لوگوں میں شدید اشتعال پھیل رہا ہے اور امریکا مخالف جذبات میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور ردّعمل میں مذہبی انتہا پسند عناصر ملک بھر میں خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں لوگوں کو نشانہ بنارہے۔
بالخصوص پاکستان کے اہم صوبے بلوچستان کے حالات 1970 کے مشرقی پاکستان کا نقشہ پیش کررہے ہیں۔ اس پہ مستزادگستاخانہ فلم کے مسلمانوں اور عالم اسلام کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کے حالات کو دو آتشہ کردیا ہے۔ امن کے ضامن عالمی ادارے اقوام متحدہ کو بدلتے ہوئے حالات کی سنگینی کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور مسلمانوں کی نمایندہ تنظیم او آئی سی کا ہنگامی سربراہی اجلاس بلایا جانا چاہیے تاکہ عالم اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے لائحہ عمل طے کیا جاسکے۔