جھرنا‘ میری دوست

ملک میں پارسائی سے مالا مال ایک اور مارشل لاء آچکا ہے۔

طارق محمود میاں

میں آج چودہ برس کی ایک بنگالی لڑکی کا تذکرہ کیوں کرنے لگا ہوں۔

اس کی وجہ دو نامور افراد کی موت ہے۔ راجائوں کے راجہ، تری دیو رائے اورناقابلِ یقین افسانہ نگار ہاجرہ مسرور۔ ایک پر عبدالقادر حسن اور پھر دونوں پر زاہدہ حنا صاحبہ نے کالم لکھے۔ایک تو یہ تحریریں ہی بہت پراثر تھیں اور دوسرے ان میں میرے مشرقی پاکستان کا بھی حوالہ آگیا۔ بس پھر کیا تھا۔ دل موم ہوا اور آنکھوں میں کہر اتر آئی۔ ایک طویل سفر کے بعد یہ دھند چھٹی تو میں دھیرے دھیرے اس دیس میں اترا، جہاں ہم نے اس عمر کے سب سے سہانے خواب بھسم کردیے۔

پندرہ برس کی عمر میں، میں لاہور کے ایف سی کالج پہنچا تو مجھے فرسٹ ایئرکے طلبا کے ہاسٹل ویلٹی ہال میں کمرہ الاٹ کیا گیا۔ مجھ سے ایک کمرہ چھوڑ کے ایک گورے چٹے بنگالی لڑکے کا کمرہ تھا۔ اس سے میری دوستی تو ہوئی لیکن بحث بھی بہت ہوتی جو اکثر تلخی کی حدیں چھونے لگتی۔ یہ بحث سیاسی نہیں تھی۔ وہ نذر الاسلام اور ٹیگور کی باتیں کرتا اور میں اقبال اور فیض کی۔ انھی دنوں ڈھاکا کے اخبار 'مارننگ نیوز' میں طلبا کے صفحے پر میرا کچھ شایع ہوا تو جواب میں مجھے کچھ خطوط موصول ہوئے۔ انھی میں جھرنا کا خط بھی شامل تھا۔

جھرنا چاکما۔ وہ رانگامتی کے ایک اسکول میں نویں جماعت کی طالبہ تھی۔ رانگامتی، چٹاگانگ ہل ٹریکٹس کا حصّہ۔ سرسبز پہاڑیاں، گھنے جنگل، سمندر اور دریا۔ دنیا کا یہ انتہائی خوبصورت حصّہ چاکما قبیلے کی آماج گاہ ہے۔ تری دیو یہیں کے راجہ تھے۔ چاکما لوگوں کی اکثریت بدھ مت سے تعلق رکھتی ہے لیکن جھرنا ہندو تھی۔ وہ خط لکھتی تو کبھی تین چار صفحے سے کم نہ ہوتا۔ اکثر ڈیبیٹس میں حصّہ لیتی تھی اور پوری تقریر لکھ بھیجتی۔ پھر مجھ سے الجھتی۔ تحریر میں ہل ٹریکٹس کی ساری ہریالی خوبصورتی اور تازگی جھلکتی۔ ولیم ورڈز ورتھ اس کا پسندیدہ شاعر تھا۔

میں شاعری کے معاملے میں اس وقت بھی پھکڑ تھا۔ جواب میں ایک بار جان کیٹس کے کچھ حوالے دیے اور نیند پر اس کی نظم کی آخری سطریں لکھیں تو ناراض ہوگئی۔ کہنے لگی، کیٹس تو مجھے کچھ کچھ لوفر قسم کا لگتا ہے۔ حالانکہ ان سطور میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ چلوخیر۔ لاہور کو وہ دوسرا پیرس سمجھتی تھی اور اس کا خیال تھا کہ مغربی پاکستان ایک انتہائی ترقی یافتہ صوبہ ہے۔ اس کی خواہش ہوتی کہ میں لاہور اور یہاں کے لوگوں کے بارے میں ایک ایک بات تفصیل سے لکھ بھیجوں۔

رابطے کا ذریعہ بس خط تھا۔ 25 پیسے کا لفافہ۔ ہوائی ڈاک کے ذریعے ایک خط جانے اور جواب آنے میں دو ہفتے لگتے۔ جب بھی موقع ملتا ہم ایک دوسرے کو تصویریں بھی بھیجتے۔ میں کالج کی تقریبات اور لاہور کے مناظر کی اور وہ چٹاگانگ کے لوگوں، اپنے اسکول اور خوبصورت پہاڑوں کی۔ اپنی سالگرہ پر وہ ہر سال مجھے اپنی تصویر بھیجتی۔ وہ فلم اسٹار شبنم سے مشابہہ تھی۔ کیسی دلچسپ بات تھی کہ دونوں کا اصلی نام جھرنا تھا۔ ان دنوں شبنم ہم دونوں کی پسندیدہ اداکارہ تھی۔ ہاجرہ مسرور کی کہانی پر مشرقی پاکستان میں ایک فلم 'آخری اسٹیشن' کے نام سے بنی تھی۔


یہ ایک مختلف قسم کی فلم تھی۔ اس میں شبنم سفاری سوٹ پہن کے آوارہ گردی کرتی ہے اور غلیل سے لوگوں کو تاک تاک کے نشانہ بناتی ہے۔ مکالمے اور مناظر کافی بولڈ تھے۔ میں نے کئی بار دیکھی لیکن جھرنا کو بالکل بھی پسند نہیں آئی۔ اس کا کہنا تھا کہ کہانی اچھی ہے لیکن جھوٹ ہے۔ مشرقی پاکستان میں ایسی لڑکیاں کب ہوتی ہیں۔

اپنے چاکما قبیلے اور رسوم و رواج کے بارے میں وہ پوری طرح آگاہ تھی اور ہر بات مجھ سے شیئر کرتی رہتی۔ ایک ایک بات تفصیل سے لکھنا اس کی عادت تھی۔ اور صورت حال یہ ہے کہ میں چٹاگانگ کے رانگا متی ہل ٹریکٹس کبھی نہیں گیا لیکن میں وہاں کے چپّے چپّے سے اور ہر دلکش موڑ سے آشنا ہوں۔

میں ایف سی کالج میں چار برس تک رہا۔ ہر سال ہاسٹل بدل جاتا اور میرا پتہ بھی۔ جھرنا کے خط آتے رہے۔ میٹرک کے بعد اس نے ڈھاکا کے ایڈن گرلز کالج میں داخلہ لے لیا اور ہاسٹل میں رہنے لگی۔ یہ سیاست سے آشنائی کا آغاز تھا۔ یحییٰ خان کا خون آشام دور اس نے وہیں بھگتا۔ تبھی اس نے اطلاع دی کہ وہ ایک بین الصوبائی مباحثے میں شرکت کے لیے لاہور آرہی ہے۔

دو ساتھی طالبات اور ایک ٹیچر ساتھ ہوں گی۔ دو روز کے لیے اسلام آباد بھی جائیں گی، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن پھر سب کچھ بدل گیا۔ ادھر سے ادھر آنے جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دینے کا ذکر ہوا اور مشرقی پاکستان خون میں نہلادیا گیا۔ المیوں اور تلخیوں سے بھرپور دور گزرا تو مجھے اس کا اگلا خط ملا۔ کئی برس کے بعد۔ جانے کن پتوں سے ہوتا ہواتا ہوا۔ اس پر لاتعداد مہریں لگی تھیں۔ اس میں اس نے بتایا کہ وہ کالج میں پڑھا رہی ہے اور مقابلے کے امتحان کی تیاری کررہی ہے۔ یہ اس کا سب سے مختصر خط تھا۔ اس میں اس نے طنزاً لکھا تھا کہ تم لوگوں نے ہمارے 'راجہ' پر قبضہ کیا ہوا ہے، اسے واپس کردو۔

ملک میں پارسائی سے مالا مال ایک اور مارشل لاء آچکا ہے۔ میں کراچی میں ہوں۔ یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہوں اور کاروبار جوائن کرچکا ہوں۔ پھر وہی ہوتا ہے کہ میری منکوحہ میری زندگی میں تشریف لے آتی ہیں اور ہم ایک مہینے کے لیے ہنی مون پر چلے جاتے ہیں۔ یہ واپس آنے کے بعد کا ذکر ہے کہ میں آفس سے آیا تو دروازے پر ویلکم کرنے کو کوئی مسکراہٹ، کوئی خوشبو نہ تھی۔ اپنے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ اہلیہ محترمہ دیوار کی طرف منہ کرکے لیٹی ہیں اور ہلکی ہلکی 'روں روں۔ ٹھوں ٹھوں' کی آوازیں آرہی ہیں۔

بریف کیس پھینکا اور جاکے ہلایا تو دیکھا کہ تکیہ بھیگا ہوا ہے اور آنکھیں گلابی ہورہی ہیں۔ میں نے پوچھا، ''کیا ہوا؟'' تو جواب میں اتنی ٹھنڈی آہ بھری کہ پورا کرۂ ارض سرد ہوگیا اور کراچی سے لے کر چٹاگانگ کے ساحل تک سارا سمندر جم کے برف بن گیا۔ پھر ہچکیوں کے بیچ میں یہ الفاظ سنائی دیے، ''بس سب کچھ ختم ہوگیا''... کیوں ختم ہوگیا؟ یہ جاننے کے لیے بہت تگ و دو کرنا پڑی۔ تب اس نے بیڈ کے نیچے سے ایک ڈبّا باہر سرکایا اور ایک نئی ہچکی لے کے منہ دوسری طرف کرلیا۔ میں نے ڈبّا کھولا تو جھرنا کے خطوط اور تصویروں سے بھرا ہوا تھا اور سب سے اوپر وہ خط کھلا پڑا تھا جس میں لکھا تھا کہ میں فلاں فلائٹ سے آرہی ہوں۔ اب اس کے بعد کیا ہونا تھا۔ میں خطوط کی تاریخیں دِکھا دِکھا کے بے گناہی کا یقین دِلا رہا تھا اور باری باری سب کچھ پھاڑ رہا تھا۔ آخری تصویر کے پھٹتے ہی مطلع صاف ہوگیا۔

ایک عرصہ بعد جب راجہ تری دیو رائے کی وفات کے حوالے سے چاکما قبائل کا ذکر ہوا تو میں نے ڈھاکا میں مقیم اپنے ایک دوست کو جھرنا کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کو کہا اور کہا کہ شاید کسی یونیورسٹی میں پروفیسر ہو یا سول سروس میں ہوگی۔ دو دن کے بعد اس کی ای میل آئی کہ اس نے جھرنا چاکما کو ڈھونڈ لیا ہے۔ وہ رانگامتی کی ایک مشہور سماجی ورکر ہے، گائے بھینس کا کاروبار کرتی ہے، گوبر گیس سے اپنا چولہا جلاتی ہے اور صرف مڈل پاس ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اس بدبخت نے جھرنا کو تلاش کیا ہے یا مجھے کنفیوژ کیا ہے۔
Load Next Story