سرکریک تنازعہ حکمرانوں کی بے حسی ماہی گیروں کی بے بسی

سرحدی تنازعے نے تمام معصوم آنکھوں میں سجے سپنوں کو سلاخوں کے پیچھے آخری سسکیاں لینے پر مجبور کردیا ہے۔

مچھلیوں کا شکار کرنے والے آخر کب تک ان سرحدی حدود کا شکار ہوتے رہیں گے۔ فوٹو: فائل

جھریوں زدہ چہرہ، لڑکھڑاتی زبان، لہو رنگ آنکھوں سے ٹپکتے آنسو اس بوڑھے کے درد دل کی عکاسی کررہے تھے، حاجی صدیق بارہ افراد پر مشتمل خاندان کا واحد کفیل ہے۔

یہ ان بدنصیب خاندانوں میں سے ایک ہے جس کے گھر کے پانچ افراد متنازعہ سرحدی حدود پار کرنے کی پاداش میں بھارتی جیلوں میں اپنوں سے دور اپنی زندگی کے قیمتی پانچ سال ضائع کرچکے ہیں اور نہ جانے کتنے سال انہیں اپنے منتخب نمائندوں کی بے حسی کے باعث ان جیلوں میں گزارنے ہوں گے۔ کیا کیا نہیں سوچا ہوگا اس خاندان نے مستقبل کے حوالے سے، کہ وہ سب خوب محنت مزدوری کرکے اپنے دن بدلیں گے، گاؤں میں پکا گھر بنائیں گے، ایک موٹر سائیکل بھی لیں گے، شہر جائیں گے، شانو کی کسی اچھے گھر میں شادی کردیں گے، پر بھلا ہو اس سرحدی تنازعہ کا ، کہ جس نے تمام معصوم آنکھوں میں سجے سپنوں کو سلاخوں کے پیچھے آخری سسکیاں لینے پر مجبور کردیا ہے۔

بھوک سے بے حال تین سالہ شکیل احمد کو گود میں لیے سکینہ کے آنسو اور اور اس کے چہرے کا کرب کسی بھی حساس انسان کا دل چیرنے کے لیے کافی تھے۔ سکینہ کا شوہر اور بارہ سالہ بیٹا دوسال سے بھارت کی قید میں ہیں ۔ علی حسن تو باپ کا ہاتھ بٹانے اور اس کا سہارا بننے کے لیے مچھلیوں کے شکار پر گیا تھا ، مچھلیاں تو ہاتھ نہ آئیں پر وہ اور اس کا خاندان اس سانحے کا شکار ضرور ہوگیا۔



سکینہ اپنے چھے بچوں کے ساتھ بہت دکھی زندگی گزار رہی ہے، اس کے بچے کھانے کے لیے روتے ہیں، بلکتے ہیں پر ان کو کماکر کھلانے والا تو علاقہ غیر پار کرنے کی پاداش میں دشمن کی قید میں ہے۔ سکینہ کا کہنا ہے،''انڈیا کے لیے دعاکروں گی اگر وہ ہمارے بندے چھوڑ دے۔'' یہ وہ خواہش ہے جو چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ یہ معصوم دیہاتی لوگ جاسوس نہیں ہوسکتے، ان پر تو ان کی زندگی بے حس حکم رانوں کی بدولت ویسے ہی تنگ ہے اوپر سے یہ قیامت، خدا رحم کرے۔

پاکستان فشر فوک فورم اور پاکستان کونسل آف میڈیا ویمن کے اشتراک سے میڈیا نمائندگان کے لیے منعقدہ آتھرکی گوٹھ، کیٹی بندر کے ایک روزہ ٹرپ پر راقم کا جانا ہوا، اور یہ احوال بھی وہیں کا ہے جہاں سکینہ اور صدیق جیسی بیشتر کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ ان معصوم دیہاتیوں کی غربت بھری زندگیاں ایک فوٹوگرافر کے لیے اچھی تصویر تو ہوسکتی ہے، ایک صحافی کے لیے اچھی اسٹوری بھی، لیکن ایک حساس دل رکھنے والے انسان کے لیے اور خود ان کے لیے وہ زندگی دکھ، درد اور غم کے سوا کچھ بھی نہیں۔



پاک بھارت سرحد کی ساحلی پٹی پر بسنے والے ان غریبوں کا بنیادی پیشہ ماہی گیری ہے لیکن پیٹ کی بھوک ان کے اپنوں کو نگل جاتی ہے۔ ماہی گیر مچھلیاں پکڑنے نکلتے ہیں لیکن سرکریک کی نشان دہی نہ ہونے کے باعث بھارتی حدود میں داخل ہوجاتے ہیں، جہاں انہیں سرحدی خلاف ورزی کے جرم میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ ابھی بھی محض صرف اسی گاؤں کے 45 ماہی گیر بھارت کی قید میں ہیں، جن کے خاندان آسمان کی طرف منہ اٹھائے التجائیں کررہے ہیں، کبھی غصے میں بددعائیں نکل رہی ہیں تو کبھی میڈیا والوں کو مسیحا سمجھ کر ان کے توسط سے انڈیا سے ایک معاہدہ کرنا چاہ رہے ہیں، ''تم ہمارے بندے چھوڑ دو ہم تمہیں دعا دیں گے۔''

اس وقت 248 پاکستانی ماہی گیر بھارتی جیلوں میں جب کہ 350 بھارتی ماہی گیر پاکستان میں پابند سلاسل ہیں، جب کہ پاکستان نے پچھلے ہفتے جذبہ خیرسگالی کے تحت 172 ماہی گیر ملیر جیل سے رہا کیے ہیں۔ دونوں ممالک میں ماہی گیروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں ہر سطح پر اپنی آواز بلند کررہی ہیں لیکن قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث بدقسمت ماہی گیروں کی قسمت اب بھی خستہ حالی کا شکار ہے۔



پاکستان فشرفوک فورم کے چیئرپرسن محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ یو این کنوینشن کے آرٹیکل 73 میں درج ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ماہی گیری کے دوران نہ تو کسی ماہی گیر کو گرفتار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے سزا دی جاسکتی ہے۔ اس کنوینشن پر دونوں ممالک کے دستخط بھی موجود ہیں، لیکن محض کاغذی کارروائی کی حد تک، حقیقت میں اس کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔

پہلے ماہی گیروں کو ان کی رہائی کے بعد کشتیاں واپس کردی جاتی تھیں لیکن پچھلے چھے سات سال سے ان غریب ماہی گیروں کی کشتیاں بھی ضبط کرلی جاتی ہیں، اور انہیں مزید معاشی مسائل کے بوجھ تلے دبا دیا جاتا ہے جس کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب تک سب سے زیادہ ماہی گیر پاکستان نے رہا کیے ہیں اور ہمیشہ پاکستان ہی نے پہل کی ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ اگر ایک ملک کچھ ماہی گیر رہا کرتا تھا تو بدلے میں دوسرے ملک سے اپنے قیدی ماہی گیروں کی رہائی کا تقاضا بھی کرتا تھا اور ہونا بھی چاہیے، لیکن حکومتی عدم دل چسپی کے باعث اس مسئلے کو نظر انداز کیا جارہا ہے ورنہ اسے مستقل بنیادوں پر حل کیا جاسکتا ہے۔




ساحلی پٹی پر بسنے والے غریب ماہی گیروں کو بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی پر ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں کے عوام ہمیشہ سے نظرانداز کیے جارہے ہیں، ان علاقوں سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے محض ووٹ لینے آتے ہیں، انہیں وہاں کے لوگوں یا ان کے مسائل میں کوئی دل چسپی نہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر لوگوں کو تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات ملنے لگیں تو پھر وہ غلامی کی زنجیروں سے آزادی کے لیے کوششیں نہ کرنے لگیں۔

پاکستان فشرفوک کے میڈیا ترجمان کمال شاہ کا کہنا ہے کہ متنازعہ سمندری حدود کی نشان دہی نہ ہونے کی بنا پر بے گناہ ماہی گیر پکڑے جاتے ہیں، اصولاً انہیں تنبیہ کرکے رہا کردینا چاہیے، لیکن دونوں اطراف کی حکومتیں ان کے ساتھ بہت زیادتی کرتی ہیں اور انہیں سالوں جیل میں رکھا جاتا ہے۔ ان کے پیچھے ان کے گھر کی خواتین اکیلی رہ جاتی ہیں، کمانے والا کوئی نہ ہو تو پھر بھوک، افلاس، بیماری اور بدحالی ان کے گھروں میں ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ پاکستان سے تو پھر بھی انڈین ماہی گیروں کی رہائی کا سلسلہ جاری رہتا ہے، لیکن انڈیا سے پاکستانی ماہی گیروں کی رہائی کم کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک خاندان کے کچھ افراد پانچ سال سے قید ہیں، جب کہ ایک خاندان کے سترہ سال سے۔ ان کے گھروالوں کی آنکھیں اپنے پیاروں کی جدائی میں روتے روتے سوکھ چکی ہیں، لیکن ان کی رہائی ابھی تک عمل میں نہیں لائی گئی۔



سوسالہ مائی آفی اپنے خاندان کو یکجا دیکھنے کی خواہش میں بوڑھی ہوچکی ہے، اس کے خاندان کے پانچ افراد 20 سال سے قید تھے، جس میں سے آچار، صدیق اور میاں وساؤ کو تو دو سال پہلے رہا کردیا گیا، لیکن حنیف اور حسین بیونو سے رہائی کے ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ طلب کیا گیا۔ بھوک اور بدحالی کا شکار خاندان دولاکھ روپے کہاں سے لاتا، لہٰذا انہیں مزید دو سال قید کی سزا سنادی گئی۔ اور اب دونوں کو 22 سال بھی پورے ہوچکے ہیں، لیکن پھر بھی وہ انڈین جیلوں میں اپنی رہائی کے منتظر ہیں۔

مائی بھاگی، ایک اور بدقسمت خاندان اور وہی دکھ بھری کہانی۔ مائی بھاگی کے تین افراد 17 سال سے انڈین جیل میں قید ہیں، جب کہ چوتھا فرد نواز 14 سال کی قید کاٹ کر جیل ہی میں فوت ہوگیا، غریب آزاد ہوا میں آخری سانس بھی نہ لے سکا۔ آج تین سال اس کی موت کو ہوچکے ہیں اور 17 سال باقی افراد کو قید ہوئے ، لیکن مائی بھاگی کو کون آس دلائے کہ ایک تو چلاگیا پر وہ تین زندہ سلامت لوٹ آئیں گے۔



یوں تو ان غریب ماہی گیروں کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے، لیکن ان کا بنیادی مسئلہ بھارت میں قید ان کے اپنوں کا ہے، ان کی خواتین کا کہنا ہے کہ وہ بجلی، گیس اور دیگر سہولیات کے بغیر تو رہ سکتی ہیں لیکن اپنے پیاروں کے بغیر نہیں۔ لہٰذا حکومت ان کے بیٹوں اور شوہروں کی رہائی میں ان کی مدد کرے۔ المیہ یہ ہے کہ حریف کہلانے والے ممالک کے سربراہان کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو میں کرکٹ پر تو بات چیت ہوسکتی ہے لیکن قیدوبند کی اذیتیں برداشت کرتے غریب ماہی گیروں کا مسئلہ شاید اس قابل ہی نہیں کہ اسے اعلیٰ سطح پر ہائی لائٹ کیا جاسکے۔

دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر افراد جن کا معاشی ذریعہ ہی صرف ماہی گیری ہے۔ اس بے جا تنازعے کے سبب بری طرح پس رہے ہیں۔ حکم راں طبقہ انہیں پوچھتا ہے تو محض اس وقت جب انہیں اقتدار میں آنے کے لیے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ غریب لوگوں کے ووٹوں پر عیش وعشرت کی زندگیاں بسر کرنے والے کسی نمائندے کو ایک ہسپتال بنانے تک کی توفیق نہیں ہوئی۔ اگر گاؤں میں کوئی ایمرجینسی ہوجائے تو پہلے تو ٹوٹکوں سے علاج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور معاملہ اگر بہت زیادہ پیچیدہ ہوجائے تو پھر کشتیوں کے ذریعے سمندر پار کرکے قریبی شہروں میں لے جایا جاتا ہے اور یہ قریبی شہر بھی کافی دور ہوتے ہیں، جہاں تک پہنچتے پہنچتے اکثر مریضوں کو اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔



تعلیم کی یہ صورت حال ہے کہ پورے گاؤں میں چار دیواری پر مشتمل خستہ حالی کا شکار ہوتی واحد گورنمنٹ اسکول کی عمارت، جس کو اساتذہ ہی میسر نہیں، یہ نہایت افسوس کا مقام ہے۔ یہ اسکول 2004 میں قائم ہوا اور بمشکل چار سال چلنے کے بعد 2008 سے غیرفعال ہے۔ واحد استاد انٹر پاس غلام علی نے بتایا کہ حکومت سے اسے کوئی تنخواہ نہیں ملتی، پہلے کوئی این جی او تنخواہ دیتی تھی جو کہ دوہزار روپے تھی، اور اب گاؤں والے مل کر اتنا دے دیتے ہیں جس سے اس کا گزارہ ہوجاتا ہے۔ زمین پر دریاں بچھاکر پرائمری تک جو تعلیم دی جاتی ہے اس میں بھی طلباء کی تعداد بڑھنے کی بجائے گھٹ رہی ہے۔

فاطمہ علی محمد، گاؤں کی واحد لڑکی جو کہ ساتویں جماعت تک پہنچ پائی اور پھر وہاں کے قانون کے مطابق اس کی کم عمری میں ہی شادی کردی گئی۔ آنکھوں میں ذہانت کی چمک، پر بات کرنے سے کتراتی اور شرماتی فاطمہ کا کہنا تھا کہ میری خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں اور گاؤں والوں کی مدد کروں پر وسائل نہ ہونے کی بنا پر اس خواب کو پورا نہ کرسکی۔

جس طرح وہ لوگ حسرت ویاس کی تصویر بنے اور کچھ دل چسپی سے کسی ٹرپ پر گئے۔ شہریوں کے بیش قیمت موبائل فون، لباس، رہن سہن کو دیکھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کہ ہم خلائی مخلوق ہیں یا پھر وہ خلائی مخلوق ہیں، جو کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی اپنے حکم رانوں کی کرم فرمائی سے ایسی زندگی گزار رہے ہیں جس میں نہ بجلی ہے نہ گیس، نہ انفرا اسٹرکچر، نہ تعلیم ، نہ طبی بنیادی سہولیات ، نہ ہی مواصلاتی نظام پھر بھی اس عوام کے بھولپن اور محبت کا یہ عالم ہے کہ بانس سے بنی جھونپڑیوں اور گھاس پھونس سے بنی چھتوں پر بھی سندھ دھرتی کے ''والی وارثوں'' اور ان کے بچوں کی تصاویر چسپاں ہیں، مجھے اندازہ ہوا ... ان گھاس پھونس سے بنی جھونپڑیوں سے زیادہ ان تصاویر کا کاغذ مہنگا تھا۔

پاک بھارت سرحد کی ساحلی پٹی پر بسنے والے ان غریبوں کا بنیادی پیشہ ماہی گیری ہے لیکن پیٹ کی بھوک ان کے اپنوں کو نگل جاتی ہے۔ ماہی گیر مچھلیاں پکڑنے نکلتے ہیں لیکن سرکریک کی نشان دہی نہ ہونے کے باعث بھارتی حدود میں داخل ہوجاتے ہیں، جہاں انہیں سرحدی خلاف ورزی کے جرم میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ ابھی بھی محض صرف اسی گاؤں کے 45 ماہی گیر بھارت کی قید میں ہیں، جن کے خاندان آسمان کی طرف منہ اٹھائے التجائیں کررہے ہیں۔
Load Next Story