شیخ ایاز نغمگی کا شاعر
ایازؔ نے اپنی مشہور انقلابی نظم ’’باغی‘‘ 1944میں سندھی سنگت کے پہلے جلسے میں پڑھی
ملک میں فوجی حکم رانی کا دور دورہ تھا۔ ترقی پسند اور بے باک ونڈرقلم کاروں پر جبر کا دباؤ مسلسل بڑھتا جارہاتھا۔ ایسے میں بڑے بڑے ادباء اور شعراء کے قلم کی سیاہی ایوبی جبر کے سامنے خشک ہورہی تھی اور ان میں سے بیشتر نے رائٹرزگلڈ اور ہر حلقۂ ارباب ذوق کو اپنی پناہ گاہ بنالیا تھا۔
ایسے میں ایوان حکم رانی سے جو آواز ٹکرائی وہ سندھ دھرتی کے شیخ ایازؔ کی تھی۔ اس نے نہ صرف حکم رانوں کو للکارا بل کہ اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہا:
میرے دیدہ ورو!
میرے دانش ورو!
پاؤں زخمی سہی ڈگماتے چلو
راہ میں سنگ وآہن کے ٹکراؤ سے
اپنی زنجیر کو جگمگاتے چلو
میری دیدہ ورو!
میرے دانش ورو!
اپنی تحریر سے
اپنی تقدیر کو
نقش کرتے چلو
میرے دیدہ ورو!
میرے وانش ورو!
میں سوچتی ہوں کہ شیخ ایاز سندھو دریا کی طرح رواں دواں کہیں تیزوتند اور کہیں انتہائی خراماں،سکوت کے سنگ سنگ نغمگی دل داری، دل سوزی، دل پسندیدی، کیف ونشاط بھی، فلسفہ ادراک بھی، آمر کو للکار بھی، مظلوم کی صدا بھی، ناامیدوں کی امید بھی،کس کس پہلو پر بات کرو اور کس کو چھوڑدوں،ایسی ہمہ جہت شخصیت کے فن پر قلم اٹھانا اور یادوں پر گفتگو کرنا ستارے پر کمند ڈالنے کے مترادف ہے۔
شیخ ایازؔ کو خود آگاہی پر بھی کمال تھا۔ اپنی شاعری کے بار ے میں ایک جگہ لکھا،''میں نے ہمیشہ چاہا کہ میری شاعری حقیقت کے متعلق ہو اور حقیقت کی زبان میں ہو، لیکن اس حقیقت پسندی کے باوجود میں خود کو ماضی کے ماضی اور مستقبل کے مستقبل کا شاعر سمجھتاہوں۔'' ایازؔ کے اس اعتراف کو میرے مربی، مانند ِپدر، پروفیسرآفاق صدیقیؔ کے ان سنہری لفظوں نے سنددی ہے،''ایازؔ کی شاعری میں نہ صرف اس کی زندگی کا مکمل عکس ہے، بل کہ ایک ایسا فلسفہ حیات بھی ہے جو تپتی ہوئی دھوپ میں سایہ دیوار کا کام بھی دیتا ہے اس کا یہ فلسفہ کائنات اور اس کے دل چسپ مظاہر کو بڑی خوش اسلوبی سے اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ وہ ایک ایسی حسین پگڈنڈی ہے جو عالم موجودات اور عالم امکانات کے درمیان خوش گوار ربط و ضبط قائم کرے اور رسم وراہ صرف مادیت ہی تک محدود نہیں بلک ہ روحانی سرور بھی بہم پہنچاتی ہے۔''
کسی بھی تخلیق کار کی ہمہ جہتی اس کے فن کو کلاسیک کے درجہ پر فائز کرتی ہے قادرالکلام ہونا الگ بات ہے اور گہرائی وگیرائی الگ وصف ہے۔ ایاز کی شعری نگارشات میں تخیل، فلک بوس ہے۔ سندھ کے دبستانِ شاعری پر ابتدا ہی سے فارسی/سرائیکی کے رنگ گہرے تھے، بعدازاں اردو نے بھی اپنی ہمہ رنگی جمائی، یہی وجہ ہے کہ سندھ کے بیشتر شعراء کی زو یا سہ لسانیش شاعر تھے اور ہیں ایازؔ بھی اس قبیلے سے باہر نہیں۔ ایازؔ کو اس بات پر کمال حاصل ہے کہ وہ قاری کی توجہ فکر اور جمالیات کے جس زاویے پر مرکوز کروانا چاہتا ہے کروالیتا ہے اس کے لیے وہ ایسی اصنافِ سخن
برتتا ہے جو اجنبی محسوس نہ ہوں۔ اس کی نظموں میں اختصار ،جامعیت اور احساس تفکر متوازن ہیں:
نہ غم دنیا کا ہے اس کو نہ دنیا سے کنارا ہے
نہ لینا ہے نہ دینا ہے نہ حیلہ ہے نہ چارا ہے
وہ ایک آزاد انساں ہے جو پابندی کاہے دشمن
نہ ہندو ہے نہ مسلم ہے وہ انساں نت نیارا ہے
یہ اشعار سن کر کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک نوآزمودہ کم سن شاعر کے ہوسکتے ہیں لیکن یقین جانیے یہ چودہ سالہ ایازؔ نے کہے تھے۔1938 میں کہی جانے والی اس غزل نما نظم کا عنوان ''مردِ خدا'' ہے، جو ''سدرشن'' شکارپور میں شائع ہوئی تھی۔
غزل میں بھی ایازؔ کی فکری گہرائی اور فنی وسعت اسی طرح دل گیر ہے جیسے نظم میں۔ ملاخط کیجیے:
حاصلِ عمرِِزار واپس آ،عشق ناکردہ کارواپس آ
کوچۂ یار کا سکوں صدحیف، اے دلِ بے قرارا واپس آ
شیخ ایازؔ اگرچہ سندھی شاعر کے روپ میں جانے پہنچانے جاتے ہیں، مگر ان کی اردو شاعری پر ناقدین کا متوجہ نہ ہونا خود ایک المیہ ہے۔ میں انتہائی عجز اور احتیاط کے ساتھ اس بات کو اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہوں کہ فرزندِزمین شیخ ایازؔ کی اردو شاعری پر جامعہ کراچی نے مجھے اعلیٰ سطحی تحقیقی کام پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ فرمان صاحبہ کی نگرانی میں تقویض کیا، جو اردو کے تحقیقی میدان میں اس سطح کا پہلا کام ہے۔ اس لیے مجھ پر لازم ہے کہ کچھ گفتگو ان کی اردو شاعری کے حوالے سے نذرِ قارئین کروں۔ آزادی سے قبل اردو شاعری ان کے مطالعہ میں ضرور تھی، لیکن ان کی کسی اردو تخلیق کا سراغ اس دور میں نہیں ملتا۔
1930 میں شیخ ایازؔ نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا، اس وقت یہ شہر سیاسی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ خاص کر طلبہ تحریک حشو کیورامانی کی رہبری میں اپنے جوبن پر تھی۔ جنگ عظیم دوم کا زمانہ تھا۔ شیخ ایازؔ طبقاتی نظام کے منفی خدوخال کو اپنے نظریات میں واضح کرچکے تھے۔ ایازؔ کتابی مطالعہ کا اسیر نہ تھا، بل کہ زندگی کے نشیب وفراز سے گزرنے کا عملی تجربہ رکھتا تھا اور اس نے ترقی پسندانہ نظریات کو انتہائی زیرگی سے اپنے علم وآگہی کی کسوٹی پر پرکھا تھا۔ ایازؔ نے اپنی مشہور انقلابی نظم ''باغی'' 1944میں سندھی سنگت کے پہلے جلسے میں پڑھی۔
ایازؔ کے اندر کا باکمال نظم گو شاعر اردو شاعری کا منفرد لہجہ ہے۔ اس کی انقلابی نظمیں پابند اور آزاد دونوں صنف میں شاہ کار ہیں۔ اس کے ساتھ ہی گیت، غزل اور نظم معریٰ کی ہیئتوں میں جو تجربات ایازؔ نے کیے، اس سے اُس کی فنی مہارت اور شعری نزاکتوں پر کامل گرفت ثابت ہے۔ سندھ دھرتی کی تہذیبی اور شعری روایت کا تسلسل ایازؔ کی اردو شاعری میں ''بیت'' ''وائی'' اور'' لوک گیت'' کی صورت میں اپنی اصل ہیت کے ساتھ موجود ہے۔
سندھ کے شعری روایات سے خمیری وابستگی اور بین الاقوامی ادب کے اکتساب نے اس کو ہند اور سندھ کا مشترکہ ادبی نمائندہ بنادیا۔ اس کا اظہار ایازؔ نے کچھ یوں کیا ہے:
لطیف،خسرو دودیب جلے
اِک جمنا ماں کے کنٹھے پر
اِک سندھو ماں کے صحرا میں
دونوں میں انوکھی پیت کی لو
دونوں میں انوکھے پھول کھلے
جولائی1954 میں سندھ ادبی سرکل سکھر کے روح رواں سندھی اردو ادب کی ہم آہنگی کے داعی پروفیسرآفاق صدیقی ؔنے اپنے تفصیلی دیباچے کے ساتھ ''بوئے گل نالہ دل'' مرتب کرکے شائع کی۔ یہ اردو شعری دنیا سے شیخ ایازؔ کا پہلا مکمل تعارف تھا۔ اس کے ساتھ ہی سندھ کے عظیم صوفی شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام ''شاہ جو رسالو'' کا منظوم اردو ترجمہ 1936 میں شیخ ایازؔ نے کرکے عاشقانِ اردو کے دل جیت لیے۔ اس کے بعد بالترتیب 1979میں معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض نے ''حلقہ مری زنجیر کا'' 1988 میں ''نیل کنٹھ اور نیم کے پتے'' اور 2007 میں تاج جویو نے ایازؔ کے تمام غیرمطبوعہ اور مطبوعہ کلام کو ''میری شاعری میری صلیب'' میں یکجا کرکے زیورطباعت سے آراستہ کیا۔
شیخ ایازؔ کا ادب میں اعلیٰ مرتبہ یوں بھی ہے کہ اس کی شاعری کا خمیر تاریخ کی زندہ روایتوں اور اٹل حقیقتوں سے اٹھاہے۔ وہ مزاحمت کرتا ہے تو غم گسار بھی ہے، قدامت سے الجھتا ہے تو جدید فلسفۂ حیات کا اعتبار بھی ہے۔ جدت طرازی کے جنون میں شعور سے بیگانہ بھی نہیں کہ لمحہ موجود کا انکار کرے۔ ایازؔ کی شاعری میں ''چاہت'' حُسن اور جوبن پانی کے بلبلے نہیں بل کہ ٹھوس اور دائمی حقیقت ہیں جو دل کو راحت اور سکون بخشتے ہیں۔سندھی، اردو کے اس عظیم ترقی پسند ذولسانی شاعر کے لیے یہ بلاتردد کہا جاسکتا ہے کہ سندھو دریا جب تک رواں دواں ہے اس کی ہر لہر سے شیخ ایازؔ کی نغمگی چہار سو پھیلتی رہے گی۔
ایسے میں ایوان حکم رانی سے جو آواز ٹکرائی وہ سندھ دھرتی کے شیخ ایازؔ کی تھی۔ اس نے نہ صرف حکم رانوں کو للکارا بل کہ اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہا:
میرے دیدہ ورو!
میرے دانش ورو!
پاؤں زخمی سہی ڈگماتے چلو
راہ میں سنگ وآہن کے ٹکراؤ سے
اپنی زنجیر کو جگمگاتے چلو
میری دیدہ ورو!
میرے دانش ورو!
اپنی تحریر سے
اپنی تقدیر کو
نقش کرتے چلو
میرے دیدہ ورو!
میرے وانش ورو!
میں سوچتی ہوں کہ شیخ ایاز سندھو دریا کی طرح رواں دواں کہیں تیزوتند اور کہیں انتہائی خراماں،سکوت کے سنگ سنگ نغمگی دل داری، دل سوزی، دل پسندیدی، کیف ونشاط بھی، فلسفہ ادراک بھی، آمر کو للکار بھی، مظلوم کی صدا بھی، ناامیدوں کی امید بھی،کس کس پہلو پر بات کرو اور کس کو چھوڑدوں،ایسی ہمہ جہت شخصیت کے فن پر قلم اٹھانا اور یادوں پر گفتگو کرنا ستارے پر کمند ڈالنے کے مترادف ہے۔
شیخ ایازؔ کو خود آگاہی پر بھی کمال تھا۔ اپنی شاعری کے بار ے میں ایک جگہ لکھا،''میں نے ہمیشہ چاہا کہ میری شاعری حقیقت کے متعلق ہو اور حقیقت کی زبان میں ہو، لیکن اس حقیقت پسندی کے باوجود میں خود کو ماضی کے ماضی اور مستقبل کے مستقبل کا شاعر سمجھتاہوں۔'' ایازؔ کے اس اعتراف کو میرے مربی، مانند ِپدر، پروفیسرآفاق صدیقیؔ کے ان سنہری لفظوں نے سنددی ہے،''ایازؔ کی شاعری میں نہ صرف اس کی زندگی کا مکمل عکس ہے، بل کہ ایک ایسا فلسفہ حیات بھی ہے جو تپتی ہوئی دھوپ میں سایہ دیوار کا کام بھی دیتا ہے اس کا یہ فلسفہ کائنات اور اس کے دل چسپ مظاہر کو بڑی خوش اسلوبی سے اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ وہ ایک ایسی حسین پگڈنڈی ہے جو عالم موجودات اور عالم امکانات کے درمیان خوش گوار ربط و ضبط قائم کرے اور رسم وراہ صرف مادیت ہی تک محدود نہیں بلک ہ روحانی سرور بھی بہم پہنچاتی ہے۔''
کسی بھی تخلیق کار کی ہمہ جہتی اس کے فن کو کلاسیک کے درجہ پر فائز کرتی ہے قادرالکلام ہونا الگ بات ہے اور گہرائی وگیرائی الگ وصف ہے۔ ایاز کی شعری نگارشات میں تخیل، فلک بوس ہے۔ سندھ کے دبستانِ شاعری پر ابتدا ہی سے فارسی/سرائیکی کے رنگ گہرے تھے، بعدازاں اردو نے بھی اپنی ہمہ رنگی جمائی، یہی وجہ ہے کہ سندھ کے بیشتر شعراء کی زو یا سہ لسانیش شاعر تھے اور ہیں ایازؔ بھی اس قبیلے سے باہر نہیں۔ ایازؔ کو اس بات پر کمال حاصل ہے کہ وہ قاری کی توجہ فکر اور جمالیات کے جس زاویے پر مرکوز کروانا چاہتا ہے کروالیتا ہے اس کے لیے وہ ایسی اصنافِ سخن
برتتا ہے جو اجنبی محسوس نہ ہوں۔ اس کی نظموں میں اختصار ،جامعیت اور احساس تفکر متوازن ہیں:
نہ غم دنیا کا ہے اس کو نہ دنیا سے کنارا ہے
نہ لینا ہے نہ دینا ہے نہ حیلہ ہے نہ چارا ہے
وہ ایک آزاد انساں ہے جو پابندی کاہے دشمن
نہ ہندو ہے نہ مسلم ہے وہ انساں نت نیارا ہے
یہ اشعار سن کر کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک نوآزمودہ کم سن شاعر کے ہوسکتے ہیں لیکن یقین جانیے یہ چودہ سالہ ایازؔ نے کہے تھے۔1938 میں کہی جانے والی اس غزل نما نظم کا عنوان ''مردِ خدا'' ہے، جو ''سدرشن'' شکارپور میں شائع ہوئی تھی۔
غزل میں بھی ایازؔ کی فکری گہرائی اور فنی وسعت اسی طرح دل گیر ہے جیسے نظم میں۔ ملاخط کیجیے:
حاصلِ عمرِِزار واپس آ،عشق ناکردہ کارواپس آ
کوچۂ یار کا سکوں صدحیف، اے دلِ بے قرارا واپس آ
شیخ ایازؔ اگرچہ سندھی شاعر کے روپ میں جانے پہنچانے جاتے ہیں، مگر ان کی اردو شاعری پر ناقدین کا متوجہ نہ ہونا خود ایک المیہ ہے۔ میں انتہائی عجز اور احتیاط کے ساتھ اس بات کو اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہوں کہ فرزندِزمین شیخ ایازؔ کی اردو شاعری پر جامعہ کراچی نے مجھے اعلیٰ سطحی تحقیقی کام پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ فرمان صاحبہ کی نگرانی میں تقویض کیا، جو اردو کے تحقیقی میدان میں اس سطح کا پہلا کام ہے۔ اس لیے مجھ پر لازم ہے کہ کچھ گفتگو ان کی اردو شاعری کے حوالے سے نذرِ قارئین کروں۔ آزادی سے قبل اردو شاعری ان کے مطالعہ میں ضرور تھی، لیکن ان کی کسی اردو تخلیق کا سراغ اس دور میں نہیں ملتا۔
1930 میں شیخ ایازؔ نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا، اس وقت یہ شہر سیاسی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ خاص کر طلبہ تحریک حشو کیورامانی کی رہبری میں اپنے جوبن پر تھی۔ جنگ عظیم دوم کا زمانہ تھا۔ شیخ ایازؔ طبقاتی نظام کے منفی خدوخال کو اپنے نظریات میں واضح کرچکے تھے۔ ایازؔ کتابی مطالعہ کا اسیر نہ تھا، بل کہ زندگی کے نشیب وفراز سے گزرنے کا عملی تجربہ رکھتا تھا اور اس نے ترقی پسندانہ نظریات کو انتہائی زیرگی سے اپنے علم وآگہی کی کسوٹی پر پرکھا تھا۔ ایازؔ نے اپنی مشہور انقلابی نظم ''باغی'' 1944میں سندھی سنگت کے پہلے جلسے میں پڑھی۔
ایازؔ کے اندر کا باکمال نظم گو شاعر اردو شاعری کا منفرد لہجہ ہے۔ اس کی انقلابی نظمیں پابند اور آزاد دونوں صنف میں شاہ کار ہیں۔ اس کے ساتھ ہی گیت، غزل اور نظم معریٰ کی ہیئتوں میں جو تجربات ایازؔ نے کیے، اس سے اُس کی فنی مہارت اور شعری نزاکتوں پر کامل گرفت ثابت ہے۔ سندھ دھرتی کی تہذیبی اور شعری روایت کا تسلسل ایازؔ کی اردو شاعری میں ''بیت'' ''وائی'' اور'' لوک گیت'' کی صورت میں اپنی اصل ہیت کے ساتھ موجود ہے۔
سندھ کے شعری روایات سے خمیری وابستگی اور بین الاقوامی ادب کے اکتساب نے اس کو ہند اور سندھ کا مشترکہ ادبی نمائندہ بنادیا۔ اس کا اظہار ایازؔ نے کچھ یوں کیا ہے:
لطیف،خسرو دودیب جلے
اِک جمنا ماں کے کنٹھے پر
اِک سندھو ماں کے صحرا میں
دونوں میں انوکھی پیت کی لو
دونوں میں انوکھے پھول کھلے
جولائی1954 میں سندھ ادبی سرکل سکھر کے روح رواں سندھی اردو ادب کی ہم آہنگی کے داعی پروفیسرآفاق صدیقی ؔنے اپنے تفصیلی دیباچے کے ساتھ ''بوئے گل نالہ دل'' مرتب کرکے شائع کی۔ یہ اردو شعری دنیا سے شیخ ایازؔ کا پہلا مکمل تعارف تھا۔ اس کے ساتھ ہی سندھ کے عظیم صوفی شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام ''شاہ جو رسالو'' کا منظوم اردو ترجمہ 1936 میں شیخ ایازؔ نے کرکے عاشقانِ اردو کے دل جیت لیے۔ اس کے بعد بالترتیب 1979میں معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض نے ''حلقہ مری زنجیر کا'' 1988 میں ''نیل کنٹھ اور نیم کے پتے'' اور 2007 میں تاج جویو نے ایازؔ کے تمام غیرمطبوعہ اور مطبوعہ کلام کو ''میری شاعری میری صلیب'' میں یکجا کرکے زیورطباعت سے آراستہ کیا۔
شیخ ایازؔ کا ادب میں اعلیٰ مرتبہ یوں بھی ہے کہ اس کی شاعری کا خمیر تاریخ کی زندہ روایتوں اور اٹل حقیقتوں سے اٹھاہے۔ وہ مزاحمت کرتا ہے تو غم گسار بھی ہے، قدامت سے الجھتا ہے تو جدید فلسفۂ حیات کا اعتبار بھی ہے۔ جدت طرازی کے جنون میں شعور سے بیگانہ بھی نہیں کہ لمحہ موجود کا انکار کرے۔ ایازؔ کی شاعری میں ''چاہت'' حُسن اور جوبن پانی کے بلبلے نہیں بل کہ ٹھوس اور دائمی حقیقت ہیں جو دل کو راحت اور سکون بخشتے ہیں۔سندھی، اردو کے اس عظیم ترقی پسند ذولسانی شاعر کے لیے یہ بلاتردد کہا جاسکتا ہے کہ سندھو دریا جب تک رواں دواں ہے اس کی ہر لہر سے شیخ ایازؔ کی نغمگی چہار سو پھیلتی رہے گی۔