2015ء خلائی تحقیق کے نئے سنہرے دور کا آغاز

خلائی جہاز 2017ء میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے لیے باقاعدہ پروازیں شروع کردے گا۔

ارضی مدار میں طویل قیام کا مقصد خلابازوں کو مستقبل میں مریخ کی جانب بھیجنے جانے والے مشنز کے لیے تیار کرنا ہے۔ فوٹو: فائل

بیسویں صدی کے وسط میں امریکا اور سابق سوویت یونین کے درمیان خلائی دوڑ کا آغاز ہوا تھا۔

حریف ممالک کے درمیان خلا اور چاند کو تسخیر کرنے کی دوڑ سترہ برس ( 1955ء تا 1972ء ) جاری رہی تھی۔ یہ مسابقت مصنوعی سیاروں کی تخلیق؛ چاند، زہرہ، اور مریخ کی جانب تحقیقی خلائی جہازوں اور ارضی مدار میں خلابازوں کی روانگی کی بنیاد بنی اور پھر بالآخر تسخیر ماہتاب پرمنتج ہوئی۔ امریکا نے چاند پر اپنے خلانورد کام یابی سے اُتار کر خلائی دوڑ میں سوویت یونین کو شکست سے دوچار کیا۔ اُس دور میں خلائے بسیط کے اسرار جاننے کی سمت کلیدی پیش رفت ہوئی۔ اسی لیے وہ دور خلائی تحقیق کا سنہرا دور کہلاتا ہے۔

سائنس دانوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ 2015ء خلائی تحقیق کے دوسرے سنہری دور کا آغاز ثابت ہوسکتا ہے، کیوں کہ اس برس جہاں کئی اسپیس مشن اپنی تکمیل کو پہنچیں گے وہیں نئے مشن بھی روانہ کیے جائیں گے۔ ان میں نظام شمسی کے سابق رکن پلوٹو سے لے کر ایک بونے سیارے ( dwarf planet ) کی جانب خلائی جہاز کی روانگی شامل ہے۔ اس کے علاوہ خلائی تاریخ کا سب سے جسیم راکٹ بھی رواں برس ہی سطح ارض سے اڑان بھرے گا۔ ذیل کی سطور میں ان واقعات کا تذکرہ کیا جارہا ہے جن کی بنیاد پر سائنس داں خلائی تحقیق کے نئے سنہری دور کے آغاز کی نوید سنارہے ہیں۔



یورپی خلائی ایجنسی کے تحقیقی اسپیس کرافٹ کی روانگی:

2015ء میں پہلا اہم واقعہ یورپی خلائی ایجنسی کی ''انٹرمیڈیٹ ایکسپیریمینٹل وھیکل'' کی لانچ تھی۔ یہ خلائی جہاز 11 فروری کو فرانس کے گیانا اسپیس سینٹر سے ارضی مدار کی جانب روانہ کیا گیا۔ انٹرمیڈیٹ ایکسپیریمینٹل وھیکل کی تیاری پر پانچ سال کے دوران یورپی خلائی ایجنسی نے پندرہ کروڑ یورو خرچ کیے ہیں۔ یہ کوئی تحقیقی خلائی جہاز نہیں ہے بلکہ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ ایک آزمائشی اسپیس کرافٹ ہے، جس کا مقصد یورپی خلائی ایجنسی کو ایسے خلائی جہاز تخلیق کرنے میں مدد دینا ہے جو خلانوردوں کو بالکل عام مسافر طیاروں کی طرح، بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک لے جاسکیں اور واپس لاسکیں۔ اس کے علاوہ انٹرمیڈیٹ ایکسپیریمینٹل وھیکل کی آزمائشی پرواز سے حاصل کردہ ڈیٹا کی معاونت سے یورپی خلائی ایجنسی وہ تحقیقی اسپیس کرافٹ تیار کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے جو مریخ کا چکر لگا کر واپس لوٹ سکے۔

اس وقت تک جتنے بھی مشن مختلف سیاروں کی طرف روانہ کیے گئے ہیں، ان میں زمین پر لوٹ آنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ وہ صرف اپنی منزل پر پہنچ کر معلومات زمین پر ارسال کرسکتے ہیں۔ اسی طرح خلابازوں کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک لے جانے والے اسپیس کرافٹ یا اسپیس کیپسول راکٹ کے ذریعے ارضی مدار میں پہنچتے ہیں۔ یہ راکٹ تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلا اور دوسرا حصہ راکٹ سے علیحدہ ہوکر زمین پر گرجاتا ہے، جب کہ راکٹ ابھی زمین کی فضائی حدود ہی میں ہوتا ہے۔ تیسرا حصہ خلائی جہاز کو لے کر ارضی مدار میں داخل ہوجاتا ہے۔ وہاں خلائی جہاز اس سے علیحدہ ہوجاتا ہے۔ عام طور پر راکٹ کا تیسرا حصہ بھی کشش ثقل کی وجہ سے زمین پر آگرتا ہے۔ تاہم خلا سے سطح زمین تک کے سفر میں کرۂ ہوائی میں موجود ذرات سے رگڑ کھانے کے باعث راکٹ کے حصے جل کر تباہ ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس طرح ہر بار خلابازوں کو ارضی مدار میں پہنچانے کے لیے نیا راکٹ درکار ہوتا ہے، جس کی تیاری پر کثیر لاگت آتی ہے۔ اس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ عام مسافر طیاروں جیسے خلائی جہاز کی تخلیق انقلابی ثابت ہوگی۔



''ڈان '' 'بونے سیارے' کے مدار میں پہنچنے والا اوّلین خلائی جہاز:

مارچ کی چھے تاریخ کو خلائی جہاز ''ڈان'' Ceres نامی بونے سیارے ( dwarf planet) کے مدار میں داخل ہوگا۔ ماہرین فلکیات کو امید ہے کہ یہ 'داخلہ' اس کم جسامت کے حامل سیارے پر دکھائی دینے والے سفید نشان کا راز افشا کردے گا۔ یہ پہلا موقع ہوگا جب کوئی خلائی جہاز کسی بونے سیارے کی کشش ثقل کے زیراثر آئے گا۔ سیریس، سورج سے قریب ترین بونا سیارہ ہے جو مریخ اور مشتری کی درمیانی پٹی میں موجود ہے۔ ''ڈان''، سیریس ( Ceres ) کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس دوران بونے سیارے کی جو تصاویر زمین تک پہنچی ہیں، ان میں اس کی سطح پر ایک سفید نشان واضح ہورہا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ نشان کسی وسیع گڑھے میں جمع شدہ پانی بھی ہوسکتا ہے جس سے ٹکرا کر روشنی منعکس ہورہی ہو۔ آنے والے دنوں میں '' ڈان '' اپنی منزل کی واضح تر تصاویر ارسال کرے گا جس کے بعد اس سیارے کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوسکیں گی۔

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ایک سالہ قیام:

27مارچ کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی جانب دو خلاباز روانہ کیے جائیں گے۔ اسکاٹ کیلی کا تعلق امریکا اور میخائل کورنیکوف کا روس سے ہے۔ ارضی مدار میں خلانوردوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ خلاباز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر چند دن قیام کرتے ہیں اور پھر زمین پر لوٹ آتے ہیں۔ مگر اس مشن کی خاص بات یہ ہے کہ اسکاٹ کیلی اور میخائل کورنیکوف ایک برس تک عالمی خلائی اسٹیشن کے مکین رہیں گے۔ یہ پہلا موقع ہوگا جب خلانورد ارضی مدار میں محوگردش سب سے بڑے مصنوعی سیارے پر ایک سال گزاریں گے۔ ان کی واپسی مارچ 2016ء میں ہوگی۔



ارضی مدار میں طویل قیام کا مقصد خلابازوں کو مستقبل میں مریخ کی جانب بھیجنے جانے والے مشنز کے لیے تیار کرنا ہے۔ مشن کے دوران یہ دیکھا جائے گا کہ خلا میں طویل تر قیام کے خلانوردوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ماضی میں بھی اس نوع کے تجربات کیے گئے مگر ان تجربات کے دوران بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر خلابازوں کا قیام زیادہ سے زیادہ چھے ماہ تک رہا تھا۔ اس مشن کے دوران ماہرین خلا میں طویل قیام کے انسانی جسم کے مختلف نظاموں پر اثرات کا جائزہ لیں گے۔


کورنیکوف اور کیلی کا بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ایک سالہ قیام، خلا میں طویل ترین قیام نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے1994-95ء میں روسی خلانورد ولیری پولی کوف نے خلائی اسٹیشن ' میر' پر437 دن گزارے تھے۔

موجودہ مشن سے مستقبل میں مریخ کی جانب مشن کی روانگی ممکن بنانے کے لیے اہم ڈیٹا حاصل ہوگا۔

''میسنجر'' کی موت!:

سیارہ عطارد کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے امریکی خلائی ادارے، ناسا نے اسپیس کرافٹ ''میسنجر'' اگست 2004ء میں روانہ کیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب سورج سے قریب ترین سیارے کو کھوجنے کے لیے خلائی جہاز روانہ کیا گیا ہو۔ تحقیقی خلائی جہاز عطارد کے مدار میں سترہ مارچ 2011ء کو داخل ہوا تھا۔ چار برسوں کے دوران''میسنجر'' نے نظام شمسی کے پہلے سیارے کے بارے میں بے حد قیمتی معلومات فراہم کیں۔ دیگر چیزوں کے ساتھ ''میسنجر'' نے یہ بھی دریافت کیا کہ عطارد کے قطبین پر بڑی مقدار میں برف موجود ہے۔ ''میسنجر'' اپریل میں عطارد کی سرزمین سے ٹکرا کر تباہ ہوجائے گا۔ یوں خلائی تحقیق کا ایک شان دار باب اختتام کو پہنچے گا۔



ہبل دور بین کے 25 سال:

اپریل کی 25 تاریخ کو ہبل دوربین اپنی پچیسویں سال گرہ منائے گی۔ یہ بلاشبہ ایک اہم موقع ہوگا، بالخصوص اس تناظر میںکہ ابتدائی دنوں میں ہبل دوربین کو ناسا کی سب سے بڑی ناکامی قرار دیا گیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ 25 اپریل1990ء کو جب ہبل ارضی مدار میں پہنچی تو سائنس دانوں پر انکشاف ہوا کہ اس کے ابتدائی آئینے ( primary mirror ) کی ساخت ٹھیک نہیں تھی جس کی وجہ سے اس کی ارسال کردہ شبیہیں دُھندلی اور آڑی ترچھی تھیں۔ تاہم مرمت ہونے کے بعد ہبل بے انتہا کام یاب ثابت ہوئی۔ آج خلائے بسیط کے بارے میں دست یاب بیشتر معلومات اسی دوربین کی رہین منت ہیں۔ رُبع صدی کے دوران ہبل نے انسان کو اپنے نظام شمسی کے ساتھ ساتھ کائنات میں پھیلی کہکشاؤں میں جھانکنے کے قابل بنایا۔

سب سے بڑے راکٹ کی لانچنگ:

جون میں نجی اسپیس کمپنی ''اسپیس ایکس'' اپنا ''فیلکن ہیوی'' نامی راکٹ خلا میں روانہ کرے گی۔ 53000 کلوگرام وزن لے جانے کی صلاحیت کا حامل ''فیلکن ہیوی'' موجودہ کسی بھی راکٹ سے دگنا طاقت وَر ہوگا۔ اسپیس ایکس مریخ کو تسخیر کرنے کا عزم ظاہر کرچکی ہے۔ قوی امکان ہے کہ یہ راکٹ اس عزم کی تکمیل میں معاون ہوگا۔ فیلکن ہیوی کی اُڑان سے پہلے اسپیس ایکس اپنے تیارکردہ خلائی جہاز ''ڈریگن'' کی آزمائش کرے گی۔ توقع ہے کہ یہ خلائی جہاز 2017ء میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے لیے باقاعدہ پروازیں شروع کردے گا۔ '' ڈریگن'' خلانوردوں کی آمدورفت میں استعمال ہوگا۔



'' نیو ہورائزنز'' پلوٹو کے مدار میں!:

سائنس دانوں کے مطابق ممکنہ طور پر سال رواں کا سب سے یادگار دن 14 جولائی کا ہوگا جب ''نیوہورائزنز'' نو سالہ سفر کے بعد پلوٹو کے مدار میں داخل ہوگا۔ اس خلائی جہاز نے اپنے سفر کا آغاز جنوری 2006 ء میں کیا تھا۔ اس کی تیاری اور روانگی پر ناسا نے 70 کروڑ ڈالر خرچ کیے تھے۔ فی سیکنڈ آٹھ میل کی رفتار سے سفر کرنے والا نیوہورائزنز جب مشتری کے قریب پہنچا تو سوائے ایک کمپیوٹر کے اس کے تمام آلات بند کردیے گئے تھے۔

سائنس دانوں کے اس اقدام کا مقصد خلائی جہاز کی زندگی بڑھانا تھا۔ بعدازاں وقفے وقفے سے مزید تین بار خلائی جہاز کو ' سُلایا' گیا۔ آخری ' نیند' سے نیوہورائزنز چھے دسمبر 2014ء کو بیدار ہوا تھا۔ نیوہورائزنز کی لانچ کے وقت پلوٹو نظام شمسی کا رُکن تھا جسے بعد میں سولر سسٹم سے خارج کرکے ' بونے سیارے' کا درجہ دیا گیا تھا۔ ساڑھے نو سالہ سفر کے بعد نیو ہورائزنز پہلی بارپلوٹو کے قریب سے گزرے گا۔ یہ تاریخی لمحات ہوں گے جب کوئی خلائی جہاز نظام شمسی کے بعیدترین (سابق ) رکن کے مدار میں داخل ہوگا۔ ان لمحات میں خلائی جہاز پلوٹو کے بارے میں قیمتی معلومات زمین پر ارسال کرے گا۔

Load Next Story