ملینیئم ڈویلپمنٹ گولزاورصنفی تفاوت کا شکار پاکستانی خواتین
مردوں کی نسبت کم اجرت ملنےکا حاصل بھوک، تعلیم سے دوری، بیماری اورموت پر منتج ہوتا ہے۔
''با اختیار خواتین۔۔۔۔۔با اختیار انسانیت'' تصور کی دہلیزسے حقیقت کا روپ دھارتا یہ سفر 1995 کو بیجنگ ڈیکلریشن کی صورت میں دنیا کی 189 حکومتوں نے شروع کیا اور آج2015 ء جیسے جیسے اپنے اختتام کی جانب رواں دواں ہے خواتین کے حقوق کے اس تاریخی ایجنڈے پر عملدرآمد کا جائزہ اقوامِ متحدہ کے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کی صورت میں اپنی منزل کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔
صنفی مساوات کے اس سفر میں دنیا نے کافی منزلیں طے کر لی ہیں اور بہت سی منازل حصول کے قریب تر ہیں جبکہ قابلِ ذکر مزید سفر کا تقاضا کر رہی ہیں۔ خواتین کے حقوق کی جدو جہد کا ماضی، حال اور مستقبل اس بار 8 مارچ کو دنیا بھر میں منائے جانے والے خواتین کے عالمی دن کی اہمیت کو دو چند کر رہا ہے۔کیونکہ ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز 2015 ء کے دوران آنے والا یہ خواتین کا آخری عالمی دن ہے اور اگلے سال یہ دن انشاء اللہ پوسٹ 2015 ء ڈویلپمنٹ ایجنڈا کے نئے سفر کی ابتداء کے ساتھ جلوہ افروز ہو گا۔ یوں اِمسال خواتین کا عالمی دن اُس تمام جدوجہد کو سلام پیش کرنے کا دن ہے جو خواتین کے حقوق کے حوالے سے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کے اہداف کے حصول کے سلسلے میں دنیا بھر نے کی اور کر رہی ہے۔
ان آٹھ ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز پر مشتمل جدوجہد کو مانپنے کے لئے 21 ٹارگٹ اور60 اشاریئے مقرر کئے گئے ہیں۔ ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کا تیسرا اور پانچواں گول اگرچہ براہ راست خواتین سے متعلق ہے لیکن اس کے باقی تمام گولز بھی دنیا کی تقریباً آدھی تعداد پر مشتمل خواتین کی عددی حیثیت اور صنفی عدم مساوات کی وجہ سے بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ پہلا گول شدیدغربت اور بھوک کے خاتمے کے حوالے سے ہے۔ اس کا تعلق خواتین کی غربت اور بھوک کا شکار آبادی میں تخفیف سے بھی ہے۔کیونکہ تر قی پذیر ممالک میں80 فیصد خوراک خواتین پیدا کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود مردوں کی نسبت بھوک کا زیادہ شکار ہیں اور زمین کی ملکیت کے حق سے بھی محروم ہیں۔
اس کے علاوہ دنیا کے کئی ایک ممالک میں خواتین کو اُن کے کام کی اُجرت کا نہ ملنا یا پھر مردوں کی نسبت کم اُجرت ملنا اور وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ زیادہ غربت کا شکار ہیں جس کا حاصل بھوک، تعلیم سے دوری، بیماری اورموت پر منتج ہوتا ہے۔ اسی طرح سب کے لئے پرائمری تعلیم پر مبنی دوسرا ملینیئم ڈویلپمنٹ گول خواتین کے لئے اس لحاظ سے اہم ہے کہ خواتین کی تعلیم اُن کے روزگار، بہتر اُجرت، اچھی خوراک، اچھی صحت اور اپنے حقوق کے شعور سے جڑی ہوئی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کی تعلیم ، بہترصحت اور فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی شرکت کو تقویت مہیا کرتی ہے۔
ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کا تیسرا گول خواتین کو با اختیار کرنے اور صنفی مساوات کے فروغ کے حوالے سے ہے۔ جبکہ چوتھا گول بچوں کی شرح اموات میں کمی سے متعلق ہے جس کا براہ راست تعلق خواتین سے بحیثیت ماں اور بچی دونوں صورتوں میں ہے اور بچوں کی اموات کا براہ راست تعلق خواتین کی صحت ان کی فلاح وبہبود اور حق سے جڑا ہوا ہے۔ پانچواں گول خواتین کی تولیدی صحت کی بہتری کے حوالے سے ہے۔ جبکہ چھٹا گول ایچ آئی وی/ ایڈز ، ملیریا اور دیگر بیماریوں کی روک تھام کے بارے میں ہے۔کیونکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مردوں کی نسبت خواتین ایچ آئی وی سے متاثر ہونے کے زیادہ امکان کا شکار رہتی ہیں جس کے باعث یہ ملینیئم ڈویلپمنٹ گول بھی اُن کے لئے اہم ہے۔
اگلا ڈویلپمنٹ گول پائیدار ماحول کو یقینی بنانے کے حوالے سے ہے۔ دنیا میں خواتین کی اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی ہے جہاں اُن کی زندگی کا زیادہ تر دارومدارقدرتی وسائل پر ہوتا ہے۔ جبکہ پینے کے صاف پانی کی باآسانی عدم دستیابی کے باعث افریقی خواتین اور بچوں کو ہر سال 40 ارب گھنٹے پانی لانے کی مشقت پر خرچ کرنا پڑتے ہیںاور سینی ٹیشن کی سہولیات کی محرومی خواتین کے تقدس، حفاظت اورصحت کو متاثر کر تی ہے۔ یوں یہ گول بھی خواتین کے لئے اہم ہے۔ اور آخری ملینیئم ڈویلپمنٹ گول ترقی کے لئے عالمی پارٹنر شپ کی تشکیل کے حوالے سے ہے جس میں ترقی پذیر ممالک کو حاصل ہونے والی غیر ملکی ترقیاتی امداد خواتین کی محرومیوں کو دور کرنے اور اُن کے حقوق کے حوالے سے منصوبوں کے اجرا ء اور تکمیل کے لئے ضروری ہے۔
دنیا بھر میں ان ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کی انفرادی ملکی سطح پر صورتحال کہیں بہتر ہے تو کہیں حوصلہ افزاء اور کہیںابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں کہ مصداق ۔ پاکستان ان 8 ملینیئم ڈیولپمنٹ گولز کے حوالے سے 16 اہداف اور 41 اشاریوںکی منظوری دے چکا ہے جن کی روشنی میں ایم ڈی جیزکے آٹھ مقاصد پر ہونے والی پیشرفت کی پیمائش کی جاتی ہے۔ ان میں سے 33 انڈیکیٹرز کے حوالے سے دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی 9 انڈیکیٹرز میں اہداف کے حصول کے لئے پیش رفت درست سمت میں جاری ہے۔ جبکہ 24 اشاریوں پر اس کی پیش رفت صحیح ٹریک پر نہیں۔ اگر ہم ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کا ملکی سطح پر فرداً فرداً جائزہ لیں ۔ تو شدید غربت اور بھوک میں کمی کے گول کے قومی طور پر متعین کردہ تین اشاریوں میں سے صرف ایک پر ہماری رفتار درست ہے جبکہ باقی دو اشاریوں میں ہم آف ٹریک ہیں۔
اسی طرح سب کے لئے پرائمری تعلیم کے تینوں اشاریوں میں ہم درست رفتار سے آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔ جبکہ خواتین کو با اختیار بنانے اور صنفی مساوات کے فروغ کے گول کے لئے ملکی سطح پر پانچ اشاریوں کا تعین کیا گیا۔ ان میں سے پہلا پرائمری سطح کے اسکولوں میں بچوں اور بچیوں کے داخلہ کی شرح میں موجود فرق کو ختم کرنا، دوسرا سیکنڈری سطح کے داخلوں میں بھی اس فرق کو ختم کرنا،تیسرا نوجوان لڑکیوں کی شرح خواندگی کو نوجوان لڑکوں کی شرح خواندگی کے برابر لانا یعنی اس فرق کو بھی دور کرنا، چوتھا زراعت کے علاوہ دیگر اُجرتی شعبوں میں خواتین کے تناسب کو بڑھانا اور پانچواں قومی اسمبلی میں خواتین کی نشستوںکے تناسب کا حصول۔ اس حوالے سے پہلے چار انڈیکیٹرز کے لئے اہداف کا تعین کیا گیا۔ لیکن ان چاروں انڈیکیٹرز کے حوالے سے ہم آف ٹریک ہیں۔
بچوں کی اموات میں کمی کے ڈویلپمنٹ گول نمبر 4 کے چھ اشاریوں میں سے ایک کو حاصل کر لیا گیا ہے۔ جبکہ باقی ماندہ پانچ میں ہم حسب روایت آف ٹریک ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولزکا پانچواں گول خواتین کی تولیدی صحت کے بارے میں ہے جس کے لئے ملکی سطح پر زچگی کے دوران خواتین کی اموات میں کمی، تربیت یافتہ طبی عملے سے زچگی کے کیسز کرانے کی شرح میں اضافہ، خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوںکے استعمال کی شرح میں اضافہ، فی شادی شدہ خاتون بچوں کی اوسط تعداد میں کمی اور حاملہ خواتین کا دورانِ حمل کم از کم ایک بار چیک اپ کی شرح میں اضافہ جیسے انڈیکیٹرز شامل ہیں۔
ان پانچ اشاریوں میں سے صرف ایک کی جانب ہمارا سفر درست سمت میں جاری ہے جبکہ باقی ماندہ چار پر ہم آف ٹریک ہیں۔ ایچ آئی وی/ ایڈز، ملیریا اور دیگر بیماریوں کے خلاف جنگ کے چھٹے گول میں پانچ انڈیکیٹرزمیں سے ایک کو حاصل کر لیا گیا ہے۔ ایک پر ہم ٹریک پر ہیں جبکہ دیگر تین پر ہم ابھی آف ٹریک ہیں۔ ساتواں گول اس حوالے سے قابلِ ذکر ہے کہ اس کے بیشتر انڈیکیٹرز پر ہمارا سفر درست سمت میں جاری ہے۔ دیر پا ماحول کو یقینی بنانے کے اس ہدف کے لئے 7 انڈیکیٹرز کا تعین کیا گیا ہے جس میں سے چار انڈیکیٹرز مثبت پیش رفت کی نشاندہی کر رہے ہیں جبکہ تین پر ہم آف ٹریک ہیں۔
پاکستان کی وزارت ِ منصوبہ بندی ، ترقیات و اصلاحات کی پاکستان ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز 2013 ء رپورٹ کا یہ منظر نامہ 1990-91 سے 2011-12 تک ملک کے ترقی کے اُس سفر کی عکاسی کرتا ہے جو اُس نے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کے سلسلے میںمختلف شعبہ جات میں کی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ رپورٹ اس امر کو بھی پیش کر رہی ہے کہ ابھی منزل دور ہے اور راستہ کٹھن ۔ کیونکہ اکثر ڈی ایم جیز کے ملکی اہداف کے حصول میں ہماری کارکردگی حوصلہ افزا نہیں اور بیشتر کا حصول موجودہ رفتار کے ساتھ ممکن نہیں۔
اگر ہم پاکستان ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز رپورٹ 2013 ء میں موجود انڈیکیٹرز کی پاکستان سوشل اینڈ لیوننگ اسٹینڈرڈز میئرمنٹ سروے 2012-13 ، یونیسیف کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرنز 2015، پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے2012-13 اورا نٹر پارلیمینٹری یونین کے دستیاب اعدادوشمارسے اپ ڈیٹ صورتحال مرتب کریں تو خواتین کو بااختیار کرنے اور صنفی مساوات کے فروغ اور خواتین کی تولیدی صحت کے ترقیاتی اہداف کے لئے متعین کردہ انڈیکیٹرز کی پیش رفت کی جو صورتحال سامنے آتی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ بچوں کے مقابلے میں بچیوں کے پرائمری سکول میں داخلہ کا انڈکس اعشاریہ 89 تک آچکا ہے جو 1990-91 میں اعشاریہ 73 تھا اسے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کے تحت ایک تک پہنچانا ہے۔
اسی طرح سیکنڈری سطح پر داخلوں کے انڈکس کو اعشاریہ 94 تک لانا ہے جو کہ اعشاریہ 89 پر ہے جبکہ نوجوان لڑکوں کے مقابلے میں نوجوان لڑکیوں کی خواندگی کے انڈکس کو ایک تک لانے کا ہدف مقرر ہے جو ابھی عشاریہ 82 ہے اور 1990-91 میں یہ عشاریہ 51 ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ خواتین کے اُجرتی روزگار کا تناسب 1990-91 میں 8.07 فیصد سے بڑھ کر 10.45 فیصد ہو چکا ہے اور اس کا ہدف 14 فیصد مقرر ہے۔ اسی طرح پاکستان کی قومی اسمبلی میں خواتین کی نشستوں کا تناسب 20.7 فیصد ہے۔ اس حوالے سے کوئی ہدف تو مقرر نہیں کیا گیا ہے لیکن بین الاقوامی طور پر اسے 30 فیصد تک کرنے کی بات کی جاتی ہے۔
پاکستان کی خواتین کی تولیدی صحت کے شعبے میں کارکردگی اگرچہ اہداف کے حصول کے حوالے سے مشکل ہی کامیابی سے ہمکنار ہو لیکن انڈیکیٹرزمیں واضح بہتری کی ضرور نشاندہی کر رہی ہے۔ ملک میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی شرح جو1990-91 میں 533 اموات فی لاکھ کیسز تھی کم ہوکر آدھی تعداد یعنی 250 کیسز تک آچکی ہے۔ اور اسے مزید کم کر کے 140 کے ہدف تک لانا ہے۔ اس حوالے سے ہماری کارکردگی حوصلہ افزا ہے۔ اس کے علاوہ تربیت یافتہ طبی عملے سے زچگی کے کیسز کی شرح 18 فیصد سے بڑھ کر 52 فیصد تک آچکی ہے۔ جسے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولزکے تحت 90 فیصد سے زائد کرنا ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کے استعمال کی شرح 12 فیصد کے بینچ مارک سے 35 فیصد ہو چکی ہے۔ اور اسے مزید بڑھاتے ہوئے 55 فیصد کرنا ہے۔ ملک میں فی شادی شدہ خاتون بچوں کی اوسط تعداد 5.4 سے کم ہوکر3.2 پر آچکی ہے اور اس کے لئے 2.1 کا ٹارگٹ طے کیا گیا ہے ۔ اسی طرح دوران حمل خواتین کے کم ازکم ایک بار تربیت یافتہ عملے سے چیک اپ کی شرح 15 فیصدسے بڑھ کر 73 فیصد ہو چکی ہے جسے 100 فیصد کے ہدف تک پہچانا ہے۔
ملک میں صنفی مساوات کی بہتری کا سفر جاری ہے اگرچہ اس کی رفتارمطلوبہ رفتار سے مطابقت نہیں رکھتی۔ لیکن اس جدوجہد کی بدولت بہت سے شعبوں میں صورتحال ماضی کے مقابلے میں بہتر ہوئی ہے۔ اور چند ایک ایسے امور میں بھی خواتین کی شرکت سامنے آرہی ہے جہاں ماضی میں کوئی ان کا پُر سانِ حال نہیں تھا۔ ان میں سے ایک فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی شمولیت ہے۔ ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا میں خواتین کی آج موجودگی قومی سطح کے فیصلوں میںان کی شرکت کو یقینی بنا رہی ہے تو گھر کی سطح پر فیصلوں میں خواتین کی شرکت آج ماضی کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی شرکت کے حوالے سے جامع حقائق پیش کرتا ہے۔
سروے کے مطابق ملک میں 15سے 49 سال کی عمر کی شادی شدہ خواتین کا 11.1 فیصد اپنی صحت کی دیکھ بھال کے حوالے سے ذاتی طور پر فیصلہ کرنے کی مجاز ہیں۔ جبکہ 40.8 فیصد اپنے شوہر سے باہمی مشاورت کی صورت میں مل کر کوئی بھی فیصلہ کرتی ہیں۔ اسی طرح گھر داری کے لئے مختلف اشیاء کی خریداری کے اُمور کے حوالے سے 7.8 فیصد ذاتی حیثیت میں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔ جبکہ 39.2 فیصدکوئی بھی فیصلہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر کرتی ہیں۔ علاوہ ازیںرشتہ داروں کے یہاں جانے کے حوالے سے 8.7 فیصدشادی شدہ خواتین اپنے فیصلوںمیں آزاد ہیں جبکہ 41.2 فیصد یہ فیصلہ وہ اور اُن کے شریک حیات مل کر کرتے ہیں۔ یعنی ملک میں آج خواتین کی محدود تعداد اپنے فیصلوں میں خود مختارہے۔ تو اکثریت باہمی مشاورت کے عمل کا حصہ بن رہی ہیں یعنی فیصلہ سازی کے عمل میں وہ بھی شریک ہیں۔
اس کے علاوہ خواتین آج اپنی آمدن کے استعمال کرنے کے حوالے سے ماضی کے مقابلے میں زیادہ خود مختار اور شریکِ فیصلہ ہیں۔ پی ڈی ایچ سی2012-13 کے مطابق ملک میں 15 سے 49 سال کی شادی شدہ خواتین میں برسرروزگارخواتین کا 51.7 فیصد ذاتی حیثیت میں اپنی آمدن کو خرچ کر نے کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔ جبکہ 35 فیصد یہ فیصلہ شوہر کی باہمی مشاورت سے کرتی ہیں ۔ خواتین کا جائیداد کی ملکیتی اختیار بھی ان کے حقوق میں سے ایک اہم حق ہے۔ جسے اکثر فراموش کر دیا جاتا ہے۔ اگر چہ اس حوالے سے سروے کے اعدادوشماراتنے حوصلہ افزاء نہیں لیکن یہ بارش کا پہلا قطرہ ضرور ہیں ۔ ملک کی 2 فیصد شادی شدہ خواتین گھروں کی اور2 فیصد ہی زمینوں کی ملکیت رکھتی ہیں۔
صنفی حقوق میں ماضی کے مقابلے میں آنے والی تمام تربہتری کے باوجود ملک میں خواتین اور مردوں کے درمیان حقوق کی فراہمی کے حوالے سے ایک وسیع خلیج موجود ہے۔ جس کی وجہ سے ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2014 ء کے مطابق پاکستان دنیا کے 142ممالک میں سے 141 ویں نمبر پر ہے۔ جہاں صحت ، تعلیم ، معیشت اور سیاست میں صنفی تفاوت کی وسیع خلیج موجود ہے جسے کم کرتے ہوئے ختم کرنا اقوامِ متحدہ کے پوسٹ 2015 ڈویلپمنٹ ایجنڈا میں پاکستان کے لئے یقینا ایک مشکل چیلنج ہوگا۔
صنفی مساوات کے اس سفر میں دنیا نے کافی منزلیں طے کر لی ہیں اور بہت سی منازل حصول کے قریب تر ہیں جبکہ قابلِ ذکر مزید سفر کا تقاضا کر رہی ہیں۔ خواتین کے حقوق کی جدو جہد کا ماضی، حال اور مستقبل اس بار 8 مارچ کو دنیا بھر میں منائے جانے والے خواتین کے عالمی دن کی اہمیت کو دو چند کر رہا ہے۔کیونکہ ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز 2015 ء کے دوران آنے والا یہ خواتین کا آخری عالمی دن ہے اور اگلے سال یہ دن انشاء اللہ پوسٹ 2015 ء ڈویلپمنٹ ایجنڈا کے نئے سفر کی ابتداء کے ساتھ جلوہ افروز ہو گا۔ یوں اِمسال خواتین کا عالمی دن اُس تمام جدوجہد کو سلام پیش کرنے کا دن ہے جو خواتین کے حقوق کے حوالے سے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کے اہداف کے حصول کے سلسلے میں دنیا بھر نے کی اور کر رہی ہے۔
ان آٹھ ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز پر مشتمل جدوجہد کو مانپنے کے لئے 21 ٹارگٹ اور60 اشاریئے مقرر کئے گئے ہیں۔ ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کا تیسرا اور پانچواں گول اگرچہ براہ راست خواتین سے متعلق ہے لیکن اس کے باقی تمام گولز بھی دنیا کی تقریباً آدھی تعداد پر مشتمل خواتین کی عددی حیثیت اور صنفی عدم مساوات کی وجہ سے بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ پہلا گول شدیدغربت اور بھوک کے خاتمے کے حوالے سے ہے۔ اس کا تعلق خواتین کی غربت اور بھوک کا شکار آبادی میں تخفیف سے بھی ہے۔کیونکہ تر قی پذیر ممالک میں80 فیصد خوراک خواتین پیدا کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود مردوں کی نسبت بھوک کا زیادہ شکار ہیں اور زمین کی ملکیت کے حق سے بھی محروم ہیں۔
اس کے علاوہ دنیا کے کئی ایک ممالک میں خواتین کو اُن کے کام کی اُجرت کا نہ ملنا یا پھر مردوں کی نسبت کم اُجرت ملنا اور وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ زیادہ غربت کا شکار ہیں جس کا حاصل بھوک، تعلیم سے دوری، بیماری اورموت پر منتج ہوتا ہے۔ اسی طرح سب کے لئے پرائمری تعلیم پر مبنی دوسرا ملینیئم ڈویلپمنٹ گول خواتین کے لئے اس لحاظ سے اہم ہے کہ خواتین کی تعلیم اُن کے روزگار، بہتر اُجرت، اچھی خوراک، اچھی صحت اور اپنے حقوق کے شعور سے جڑی ہوئی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کی تعلیم ، بہترصحت اور فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی شرکت کو تقویت مہیا کرتی ہے۔
ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کا تیسرا گول خواتین کو با اختیار کرنے اور صنفی مساوات کے فروغ کے حوالے سے ہے۔ جبکہ چوتھا گول بچوں کی شرح اموات میں کمی سے متعلق ہے جس کا براہ راست تعلق خواتین سے بحیثیت ماں اور بچی دونوں صورتوں میں ہے اور بچوں کی اموات کا براہ راست تعلق خواتین کی صحت ان کی فلاح وبہبود اور حق سے جڑا ہوا ہے۔ پانچواں گول خواتین کی تولیدی صحت کی بہتری کے حوالے سے ہے۔ جبکہ چھٹا گول ایچ آئی وی/ ایڈز ، ملیریا اور دیگر بیماریوں کی روک تھام کے بارے میں ہے۔کیونکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مردوں کی نسبت خواتین ایچ آئی وی سے متاثر ہونے کے زیادہ امکان کا شکار رہتی ہیں جس کے باعث یہ ملینیئم ڈویلپمنٹ گول بھی اُن کے لئے اہم ہے۔
اگلا ڈویلپمنٹ گول پائیدار ماحول کو یقینی بنانے کے حوالے سے ہے۔ دنیا میں خواتین کی اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی ہے جہاں اُن کی زندگی کا زیادہ تر دارومدارقدرتی وسائل پر ہوتا ہے۔ جبکہ پینے کے صاف پانی کی باآسانی عدم دستیابی کے باعث افریقی خواتین اور بچوں کو ہر سال 40 ارب گھنٹے پانی لانے کی مشقت پر خرچ کرنا پڑتے ہیںاور سینی ٹیشن کی سہولیات کی محرومی خواتین کے تقدس، حفاظت اورصحت کو متاثر کر تی ہے۔ یوں یہ گول بھی خواتین کے لئے اہم ہے۔ اور آخری ملینیئم ڈویلپمنٹ گول ترقی کے لئے عالمی پارٹنر شپ کی تشکیل کے حوالے سے ہے جس میں ترقی پذیر ممالک کو حاصل ہونے والی غیر ملکی ترقیاتی امداد خواتین کی محرومیوں کو دور کرنے اور اُن کے حقوق کے حوالے سے منصوبوں کے اجرا ء اور تکمیل کے لئے ضروری ہے۔
دنیا بھر میں ان ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کی انفرادی ملکی سطح پر صورتحال کہیں بہتر ہے تو کہیں حوصلہ افزاء اور کہیںابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں کہ مصداق ۔ پاکستان ان 8 ملینیئم ڈیولپمنٹ گولز کے حوالے سے 16 اہداف اور 41 اشاریوںکی منظوری دے چکا ہے جن کی روشنی میں ایم ڈی جیزکے آٹھ مقاصد پر ہونے والی پیشرفت کی پیمائش کی جاتی ہے۔ ان میں سے 33 انڈیکیٹرز کے حوالے سے دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی 9 انڈیکیٹرز میں اہداف کے حصول کے لئے پیش رفت درست سمت میں جاری ہے۔ جبکہ 24 اشاریوں پر اس کی پیش رفت صحیح ٹریک پر نہیں۔ اگر ہم ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کا ملکی سطح پر فرداً فرداً جائزہ لیں ۔ تو شدید غربت اور بھوک میں کمی کے گول کے قومی طور پر متعین کردہ تین اشاریوں میں سے صرف ایک پر ہماری رفتار درست ہے جبکہ باقی دو اشاریوں میں ہم آف ٹریک ہیں۔
اسی طرح سب کے لئے پرائمری تعلیم کے تینوں اشاریوں میں ہم درست رفتار سے آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔ جبکہ خواتین کو با اختیار بنانے اور صنفی مساوات کے فروغ کے گول کے لئے ملکی سطح پر پانچ اشاریوں کا تعین کیا گیا۔ ان میں سے پہلا پرائمری سطح کے اسکولوں میں بچوں اور بچیوں کے داخلہ کی شرح میں موجود فرق کو ختم کرنا، دوسرا سیکنڈری سطح کے داخلوں میں بھی اس فرق کو ختم کرنا،تیسرا نوجوان لڑکیوں کی شرح خواندگی کو نوجوان لڑکوں کی شرح خواندگی کے برابر لانا یعنی اس فرق کو بھی دور کرنا، چوتھا زراعت کے علاوہ دیگر اُجرتی شعبوں میں خواتین کے تناسب کو بڑھانا اور پانچواں قومی اسمبلی میں خواتین کی نشستوںکے تناسب کا حصول۔ اس حوالے سے پہلے چار انڈیکیٹرز کے لئے اہداف کا تعین کیا گیا۔ لیکن ان چاروں انڈیکیٹرز کے حوالے سے ہم آف ٹریک ہیں۔
بچوں کی اموات میں کمی کے ڈویلپمنٹ گول نمبر 4 کے چھ اشاریوں میں سے ایک کو حاصل کر لیا گیا ہے۔ جبکہ باقی ماندہ پانچ میں ہم حسب روایت آف ٹریک ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولزکا پانچواں گول خواتین کی تولیدی صحت کے بارے میں ہے جس کے لئے ملکی سطح پر زچگی کے دوران خواتین کی اموات میں کمی، تربیت یافتہ طبی عملے سے زچگی کے کیسز کرانے کی شرح میں اضافہ، خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوںکے استعمال کی شرح میں اضافہ، فی شادی شدہ خاتون بچوں کی اوسط تعداد میں کمی اور حاملہ خواتین کا دورانِ حمل کم از کم ایک بار چیک اپ کی شرح میں اضافہ جیسے انڈیکیٹرز شامل ہیں۔
ان پانچ اشاریوں میں سے صرف ایک کی جانب ہمارا سفر درست سمت میں جاری ہے جبکہ باقی ماندہ چار پر ہم آف ٹریک ہیں۔ ایچ آئی وی/ ایڈز، ملیریا اور دیگر بیماریوں کے خلاف جنگ کے چھٹے گول میں پانچ انڈیکیٹرزمیں سے ایک کو حاصل کر لیا گیا ہے۔ ایک پر ہم ٹریک پر ہیں جبکہ دیگر تین پر ہم ابھی آف ٹریک ہیں۔ ساتواں گول اس حوالے سے قابلِ ذکر ہے کہ اس کے بیشتر انڈیکیٹرز پر ہمارا سفر درست سمت میں جاری ہے۔ دیر پا ماحول کو یقینی بنانے کے اس ہدف کے لئے 7 انڈیکیٹرز کا تعین کیا گیا ہے جس میں سے چار انڈیکیٹرز مثبت پیش رفت کی نشاندہی کر رہے ہیں جبکہ تین پر ہم آف ٹریک ہیں۔
پاکستان کی وزارت ِ منصوبہ بندی ، ترقیات و اصلاحات کی پاکستان ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز 2013 ء رپورٹ کا یہ منظر نامہ 1990-91 سے 2011-12 تک ملک کے ترقی کے اُس سفر کی عکاسی کرتا ہے جو اُس نے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کے سلسلے میںمختلف شعبہ جات میں کی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ رپورٹ اس امر کو بھی پیش کر رہی ہے کہ ابھی منزل دور ہے اور راستہ کٹھن ۔ کیونکہ اکثر ڈی ایم جیز کے ملکی اہداف کے حصول میں ہماری کارکردگی حوصلہ افزا نہیں اور بیشتر کا حصول موجودہ رفتار کے ساتھ ممکن نہیں۔
اگر ہم پاکستان ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز رپورٹ 2013 ء میں موجود انڈیکیٹرز کی پاکستان سوشل اینڈ لیوننگ اسٹینڈرڈز میئرمنٹ سروے 2012-13 ، یونیسیف کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرنز 2015، پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے2012-13 اورا نٹر پارلیمینٹری یونین کے دستیاب اعدادوشمارسے اپ ڈیٹ صورتحال مرتب کریں تو خواتین کو بااختیار کرنے اور صنفی مساوات کے فروغ اور خواتین کی تولیدی صحت کے ترقیاتی اہداف کے لئے متعین کردہ انڈیکیٹرز کی پیش رفت کی جو صورتحال سامنے آتی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ بچوں کے مقابلے میں بچیوں کے پرائمری سکول میں داخلہ کا انڈکس اعشاریہ 89 تک آچکا ہے جو 1990-91 میں اعشاریہ 73 تھا اسے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کے تحت ایک تک پہنچانا ہے۔
اسی طرح سیکنڈری سطح پر داخلوں کے انڈکس کو اعشاریہ 94 تک لانا ہے جو کہ اعشاریہ 89 پر ہے جبکہ نوجوان لڑکوں کے مقابلے میں نوجوان لڑکیوں کی خواندگی کے انڈکس کو ایک تک لانے کا ہدف مقرر ہے جو ابھی عشاریہ 82 ہے اور 1990-91 میں یہ عشاریہ 51 ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ خواتین کے اُجرتی روزگار کا تناسب 1990-91 میں 8.07 فیصد سے بڑھ کر 10.45 فیصد ہو چکا ہے اور اس کا ہدف 14 فیصد مقرر ہے۔ اسی طرح پاکستان کی قومی اسمبلی میں خواتین کی نشستوں کا تناسب 20.7 فیصد ہے۔ اس حوالے سے کوئی ہدف تو مقرر نہیں کیا گیا ہے لیکن بین الاقوامی طور پر اسے 30 فیصد تک کرنے کی بات کی جاتی ہے۔
پاکستان کی خواتین کی تولیدی صحت کے شعبے میں کارکردگی اگرچہ اہداف کے حصول کے حوالے سے مشکل ہی کامیابی سے ہمکنار ہو لیکن انڈیکیٹرزمیں واضح بہتری کی ضرور نشاندہی کر رہی ہے۔ ملک میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی شرح جو1990-91 میں 533 اموات فی لاکھ کیسز تھی کم ہوکر آدھی تعداد یعنی 250 کیسز تک آچکی ہے۔ اور اسے مزید کم کر کے 140 کے ہدف تک لانا ہے۔ اس حوالے سے ہماری کارکردگی حوصلہ افزا ہے۔ اس کے علاوہ تربیت یافتہ طبی عملے سے زچگی کے کیسز کی شرح 18 فیصد سے بڑھ کر 52 فیصد تک آچکی ہے۔ جسے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولزکے تحت 90 فیصد سے زائد کرنا ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کے استعمال کی شرح 12 فیصد کے بینچ مارک سے 35 فیصد ہو چکی ہے۔ اور اسے مزید بڑھاتے ہوئے 55 فیصد کرنا ہے۔ ملک میں فی شادی شدہ خاتون بچوں کی اوسط تعداد 5.4 سے کم ہوکر3.2 پر آچکی ہے اور اس کے لئے 2.1 کا ٹارگٹ طے کیا گیا ہے ۔ اسی طرح دوران حمل خواتین کے کم ازکم ایک بار تربیت یافتہ عملے سے چیک اپ کی شرح 15 فیصدسے بڑھ کر 73 فیصد ہو چکی ہے جسے 100 فیصد کے ہدف تک پہچانا ہے۔
ملک میں صنفی مساوات کی بہتری کا سفر جاری ہے اگرچہ اس کی رفتارمطلوبہ رفتار سے مطابقت نہیں رکھتی۔ لیکن اس جدوجہد کی بدولت بہت سے شعبوں میں صورتحال ماضی کے مقابلے میں بہتر ہوئی ہے۔ اور چند ایک ایسے امور میں بھی خواتین کی شرکت سامنے آرہی ہے جہاں ماضی میں کوئی ان کا پُر سانِ حال نہیں تھا۔ ان میں سے ایک فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی شمولیت ہے۔ ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا میں خواتین کی آج موجودگی قومی سطح کے فیصلوں میںان کی شرکت کو یقینی بنا رہی ہے تو گھر کی سطح پر فیصلوں میں خواتین کی شرکت آج ماضی کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی شرکت کے حوالے سے جامع حقائق پیش کرتا ہے۔
سروے کے مطابق ملک میں 15سے 49 سال کی عمر کی شادی شدہ خواتین کا 11.1 فیصد اپنی صحت کی دیکھ بھال کے حوالے سے ذاتی طور پر فیصلہ کرنے کی مجاز ہیں۔ جبکہ 40.8 فیصد اپنے شوہر سے باہمی مشاورت کی صورت میں مل کر کوئی بھی فیصلہ کرتی ہیں۔ اسی طرح گھر داری کے لئے مختلف اشیاء کی خریداری کے اُمور کے حوالے سے 7.8 فیصد ذاتی حیثیت میں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔ جبکہ 39.2 فیصدکوئی بھی فیصلہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر کرتی ہیں۔ علاوہ ازیںرشتہ داروں کے یہاں جانے کے حوالے سے 8.7 فیصدشادی شدہ خواتین اپنے فیصلوںمیں آزاد ہیں جبکہ 41.2 فیصد یہ فیصلہ وہ اور اُن کے شریک حیات مل کر کرتے ہیں۔ یعنی ملک میں آج خواتین کی محدود تعداد اپنے فیصلوں میں خود مختارہے۔ تو اکثریت باہمی مشاورت کے عمل کا حصہ بن رہی ہیں یعنی فیصلہ سازی کے عمل میں وہ بھی شریک ہیں۔
اس کے علاوہ خواتین آج اپنی آمدن کے استعمال کرنے کے حوالے سے ماضی کے مقابلے میں زیادہ خود مختار اور شریکِ فیصلہ ہیں۔ پی ڈی ایچ سی2012-13 کے مطابق ملک میں 15 سے 49 سال کی شادی شدہ خواتین میں برسرروزگارخواتین کا 51.7 فیصد ذاتی حیثیت میں اپنی آمدن کو خرچ کر نے کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔ جبکہ 35 فیصد یہ فیصلہ شوہر کی باہمی مشاورت سے کرتی ہیں ۔ خواتین کا جائیداد کی ملکیتی اختیار بھی ان کے حقوق میں سے ایک اہم حق ہے۔ جسے اکثر فراموش کر دیا جاتا ہے۔ اگر چہ اس حوالے سے سروے کے اعدادوشماراتنے حوصلہ افزاء نہیں لیکن یہ بارش کا پہلا قطرہ ضرور ہیں ۔ ملک کی 2 فیصد شادی شدہ خواتین گھروں کی اور2 فیصد ہی زمینوں کی ملکیت رکھتی ہیں۔
صنفی حقوق میں ماضی کے مقابلے میں آنے والی تمام تربہتری کے باوجود ملک میں خواتین اور مردوں کے درمیان حقوق کی فراہمی کے حوالے سے ایک وسیع خلیج موجود ہے۔ جس کی وجہ سے ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2014 ء کے مطابق پاکستان دنیا کے 142ممالک میں سے 141 ویں نمبر پر ہے۔ جہاں صحت ، تعلیم ، معیشت اور سیاست میں صنفی تفاوت کی وسیع خلیج موجود ہے جسے کم کرتے ہوئے ختم کرنا اقوامِ متحدہ کے پوسٹ 2015 ڈویلپمنٹ ایجنڈا میں پاکستان کے لئے یقینا ایک مشکل چیلنج ہوگا۔