جشن کا دن کب آئے گا

خواتین کے حقوق کے حوالے سے ملک کے باشعور اور منصف مزاج مردوں کو آئی آئی سی سے شکایات ہیں۔

zahedahina@gmail.com

آج 8 مارچ ہے، خواتین کا عالمی دن جو دنیا کے بہت سے ملکوں میں اور کچھ عرصے سے ہمارے یہاں بھی منایا جاتا ہے۔ اس روز کی نسبت سے دیکھیں تو ہماری عام خواتین مسائل اور مصائب کے جس گرداب میں پھنسی ہوئی ہیں، اس کا ہلکا سا اندازہ ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم ملک کے ایک ذمے دار ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ یہ رپورٹ ہمیں بتا تی ہے کہ تشدد، امتیازی سلوک، عدم مساوات، معاشی حقوق اور اپنے جسم و جاں پر اختیار کے فقدان جیسے متعدد مسائل اس وقت بھی خواتین کو در پیش ہیں۔

خواتین کے حقوق کے حوالے سے ملک کے باشعور اور منصف مزاج مردوں کو آئی آئی سی سے شکایات ہیں۔ اس کونسل نے 23 ستمبر2013ء کو فر مان جاری کیا کہ ڈی این اے ٹیسٹ جنسی زیادتی کے واقعات کی تحقیقات میں مدد گار ثابت تو ہو سکتے ہیں لیکن یہ جنسی زیادتی کا ارتکاب کرنے والوں کی شناخت کے حوالے سے اولین شہادت تصور نہیں کیے جا سکتے۔

کونسل کا اصرار رہا کہ اولین شہادت چار مرد گواہوں کے بیانات ہونے چاہئیں جو اس جرم کے چشم دید گواہ ہوں۔ کونسل نے تحفظ نسواں ایکٹ2006ء کو بھی یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ اس کی دفعات اسلامی احکامات کے خلاف ہیں۔ کونسل کا کہنا تھا کہ حدود قوانین خواتین کے خلاف ہونے والے تمام جرائم کا احاطہ کرتے ہیں اس لیے ایک علیحدہ قانون کی کوئی ضرورت نہیں۔ سول سوسائٹی کے متعدد کارکنوں اور قانون سازوں کی طرف سے ان رجعت پسندانہ احکامات جاری کرنے پر کونسل کو تحلیل کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

گزشتہ برسوں کے دوران خواتین کے خلاف تشدد اور جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ 2013ء میں 56 خواتین کو محض اس لیے قتل کر دیا گیا کہ ان کے یہاں شوہر کی مرضی کے خلاف لڑکے کی بجائے لڑکی پیدا ہوتی تھی۔ اخباری خبروں سے یہ بات مصدقہ طور پر سامنے آئی کہ 150 خواتین پر تیزاب پھینک کر انھیں جسمانی طور سے معذور بنا دیا گیا۔

اس کے علاوہ وہ گیس کے اخراج اور چولہا پھٹنے کے واقعات میں جھلس گئیں۔ جھلسنے والیوں میں سے 40 کی موت واقع ہو گئی۔ میڈیا کے مطابق گھریلو تشدد کے تقریباً 389 واقعات پیش آئے یہ وہ واقعات ہیں جن میں وہ جان سے گزر گئیں۔ ان کے قاتل عام طور پر ان کے شوہر تھے۔2013ء میں 800 سے زیادہ خواتین نے خود کشی کی جس کی اہم وجہ گھریلو تنازعات تھے۔

اس بارے میں دو رائے نہیں پائی جاتی کہ خواتین کو اسی وقت حقوق مل سکیں گے اور ان کے مسائل میں کمی آئے گی جب وہ سارے ملک میں ہونے والے ضلعی، بلدیاتی، صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں باقاعدہ حصہ لیں گی۔ انتخابات جس طرح ہاری کو پٹواری کی گرفت سے نجات دلاتے ہیں، اسی طرح انتخابات کے ذریعے مرکزی سیاسی دھارے میں شامل ہونے والی عورتیں بھی اپنے حقوق کے حصول میں سر گرم ہو سکتی ہیں۔

اسی طرح تمام قومی اور صوبوں کی سطح پر موجود بڑی اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کے لیے خواتین کے ووٹ کی اہمیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ وہ صورت حال ہے جسے نا پسند کرنے کے باوجود بعض سیاسی جماعتوں کو خواتین کے لیے بھی اپنے اندر گنجائش پیدا کرنی پڑتی ہے۔ 2013ء میں خواتین ووٹ ڈالنے کے لیے بہت سر گرم تھیں اور ان کے سیاسی سطح پر متحرک ہونے کی وجہ سے بہت سے دیہی علاقوں میں خواتین ووٹروں کو پہلی بار ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں پر جانے کی اجازت دی گئی لیکن بہت سے دیہی علاقوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کے حق سے منظم طریقے سے روکنے کی مصدقہ اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔

ان علاقوں میں امیدواروں/ انتخاب میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کے درمیان معاہدے بھی ہوئے جن میں یہ طے پایا کہ پولنگ والے دن خواتین ووٹروں کو گھروں سے ہی نہیں نکلنے دیا جائے گا اور یہ کام پولنگ والے دن سے بہت پہلے کیا گیا۔ حکام کے بس میں نہیں تھا کہ وہ خواتین کے خلاف ایسی منفی سیاسی سرگرمیوں کی روک تھام کر سکیں۔

اگرچہ سول سوسائٹی کی تنظیموں نے بہت دباؤ ڈالا کہ الیکشن کمیشن خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کے جرم کے خلاف عملی اقدامات کرے لیکن اس برائی کو روکنا تقریباً نا ممکن رہا۔ خواتین کے حق رائے دہی کے جمہوری حق میں بد ترین رکاوٹ وہ فتویٰ تھا جو سندھ میں ضلع تھر پارکر کے ایک مذہبی مدرسے نے جاری کیا۔ اس فتویٰ میں کہا گیا تھا کہ انتخابات میں خواتین کی شرکت اسلامی احکامات کے خلاف ہے۔


دوسری طرف یہ بھی ہوا کہ بلوچستان میں 12 خواتین، بطور رکن اسمبلی سامنے آئیں، لیکن صوبے کی مخلوط حکومت نے 14 رکنی کابینہ میں خواتین یا اقلیتی گروہوں کو سرے سے نمائندگی نہ دی۔ خواتین اراکین پارلیمنٹ نے اسے صنفی امتیاز قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبوں کو اختیارات منتقل کرنے کا مقصد حکومت کو عوام کی ضروریات کے حوالے سے جوابدہ بنانا تھا لیکن خواتین اور اقلیتی گروہوں کو نظر انداز کرنے سے یہ مقصد ختم ہو جا تا ہے۔

خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کا یہ رویہ بھی نظر آیا کہ28 اکتوبر2013ء کو خیبر پختونخوا حکومت نے ہر مرد قانون ساز کے لیے ایک کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈ جاری کیے اور بعد ازاں ان سب کو مزید2,2 کروڑ روپے دیے جانے کا اعلان ہوا لیکن خواتین قانون سازوں کے حلقۂ انتخاب کے لے کسی قسم کے ترقیاتی فنڈ جاری نہ کیے گئے۔

سرکاری سطح پر حق تلفی اور نظر انداز کیے جانے کا رویہ صرف خواتین سے ہی مخصوص نہیں ہے۔ اس کا شکار ہماری اقلیتیں بھی ہوتی ہیں۔ ان کی کسی نہ کسی حد تک اشک شوئی ہو جاتی ہے لیکن ہماری سرکار کا رویہ خواجہ سراؤں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے زمرے میں آتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد پانچ لاکھ ہے۔ انھیں عموماً تقریبات میں رقص کے ذریعے لوگوں کو محظوظ کرنے والے اداکاروں یا بھکاریوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

2011ء میں سپریم کورٹ کے ایک حکم سے انھیں بالآخر مرد یا خاتون کے بجائے تیسری جنس کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ اس کی بدولت انھیں تیسری جنس کے طور پر شناختی کارڈ کے حصول کا موقع ملا۔ مئی2013ء کے انتخابات میں تیسری جنس کو پہلی مرتبہ ووٹر اور امیدوار کے طور پر شرکت کا موقع ملا۔ اس جنس سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد نے انتخابات میں حصہ لیا۔ ان میں لبنیٰ لال بھی شامل تھیں جن کا تعلق جہلم سے تھا۔

اسی طرح بندیا رانی نے کراچی میں صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب لڑا۔ وہ ایک سماجی کارکن ہیں اور جنسی زیادتی کے متاثرین اور بیروزگار افراد کی مدد کرتی ہیں۔ یہ دونوں انتخابات میں کامیابی حاصل تو نہ کر سکیں لیکن انھوں نے اعلیٰ انسانی اقدار کی مثال قائم کی جب کہ مرد ہوں یا خواتین یا سرکار سب ہی نے تیسری جنس سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے میں کوئی کمی نہیں کی۔

پاکستان کے قیام کو 68 برس گزر چکے' ابتدائی دنوں میں عورتوں اور اقلیتوں کے ساتھ ریاست نے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے گئے۔ ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی کہ کوئی عورت پاکستان میں صدر نہیں بن سکتی، بالکل اسی طرح جس طرح اقلیتوں سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد پاکستان کا صدر نہیں بن سکتا۔

پاکستانی عورت کے ساتھ سب سے زیادہ نا انصافیاں جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوئیں جنھوں نے چند ایسے آرڈیننس نافذ کر دیے جنھوں نے عورتوں کے حقوق کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس وقت سے آج تک خواتین کے علاوہ سول سوسائٹی کے کئی عناصر ان امتیازی قوانین کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں لیکن اب تک ان قوانین سے نجات نہیں مل سکی ہے۔ آج 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن مناتے ہوئے پاکستانی خواتین یہ نہیں بھُلا سکتیں کہ انھیں بہت گنجائش بے نظیر بھٹو کے دور میں ملی۔

بے نظیر دو مرتبہ وزیر اعظم ہوئیں اور دونوں مرتبہ انھوں نے پیپلز پارٹی میں ذہین، فعال اور سیاسی شعور رکھنے والی خواتین کو آگے آنے کا موقع دیا۔ اس وقت بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور چند دنوں پہلے سندھ کی صوبائی حکومت نے خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنانے کا بل پیش کیا ہے جسے سندھ کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن بل 2015ء کا نام دیا ہے۔

یہ کمیشن آزاد اور مالیاتی طور پر خود مختار ہو گا۔ یہ اس بات کی نگرانی کرے گا کہ خواتین کے بارے میں صوبائی اور قومی حکومتوں نے جن انٹر نیشنل کنونشن پر دستخط کیے ہیں، ان پر کس حد تک عمل ہو رہا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ آج سے ایک برس بعد جب یہ دن آئے گا تو قومی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے خواتین، اقلیتوں اور تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگیوں میں انصاف کے بہت سے راستے کھلیں گے اور 8 مارچ نالہ و فریاد کی بجائے جشن کا دن ہو گا۔
Load Next Story