جادو گھر میں بینڈ باجا
خواتین کے حقوق کے حوالے سے ملک کے باشعور اور منصف مزاج مردوں کو آئی آئی سی سے شکایات ہیں۔
مرحوم بھٹو میں بہت خوبیاں تھیں مگر ان کے مزاج میں ایک ہلکا پن بھی تھا۔ سکندر مرزا نے ان کو وزیر بنا لیا تو اس کی تعریف پر اتر آئے اور یہاں تک کہ اسے قائداعظم سے بھی بڑا لیڈر قرار دے دیا اور اس بارے میں ان کو ایک خط کے ذریعے اطلاع بھی دے دی۔ ایوب خان کو انھیں وزیر بنانے کے بعد نہ جانے کیا کچھ کہہ دیا۔
ڈیڈی تک بھی کہہ دیا تو اور کیا کہتے۔ وہ انقلابی بننے اور کہلانے کے ہمیشہ متمنی رہے اور چین کے لیڈر ماؤزے تنگ کے لباس سے ملتا جلتا لباس بھی اختیار کیا اور اس کے کالر بازوؤں اور پتلون پر متوازی پٹی لگوا دی۔ انھوں نے نہ صرف خود یہ لباس اختیار کیا بلکہ یہ پارٹی کا سرکاری لباس بھی بن گیا۔ یہ لباس اگرچہ ہم پاکستانیوں کے لیے اجنبی تھا لیکن اس کی تراش خراش اور اس پر بنی ہوئی رنگدار پٹیوں نے اسے ایک تماشا بنا دیا۔
عام پاکستانی کو ایسا دکھائی دیتا تھا جیسے یہ وزیراعظم کا نہیں کسی بینڈ ماسٹر کا لباس ہے چنانچہ میں نے ''بینڈ ماسٹر'' کے عنوان سے ایک کالم لکھ دیا۔ مرحوم خالد حسن ان کے پریس سیکریٹری تھے۔ انھوں نے صبح صبح کالم پڑھ کر صاحب کو اس سے باخبر کر دیا تو انھوں نے کالم نگار پر ناراض ہونے کی بجائے فوراً ہی پتلون سے یہ پٹی اتروا دی۔ بھٹو صاحب کو اپنے لباس کا بہت خیال رہتا تھا۔ وہ اپنی شخصیت کو بنا سنوار کر رکھتے تھے۔
یہ بینڈ ماسٹر والا واقعہ مجھے ایک تازہ خبر سے یاد آیا۔ پولیس کے پاس بھی ایک بینڈ ہوتا ہے۔ اس بینڈ کا انچارج جسے بینڈ ماسٹر کہنا زیادہ موزوں ہو گا اسے پولیس کے اس منصب سے ہٹا کر ہمارے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کے دفتر واقع 90 مال روڈ کا سیکیورٹی انچارج بنا دیا گیا ہے۔
اس نے 36 برس تک پولیس کا بینڈ بجایا۔ یہ اسی بینڈ میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہوا اور 36 سال تک بینڈ بجاتے بجاتے انسپکٹر کے عہدے تک ترقی پا گیا لیکن معلوم ہوا کہ کچھ پہلے بعض افسر کسی بات پر اس سے خفا ہو گئے اور اسے لائن حاضر کر دیا۔ وہ دو ماہ تک لائن حاضر رہا اور اب اسے لائن سے نکال کر وزیراعلیٰ کا محافظ لگا دیا گیا۔ جس شخص نے کبھی پولیس کی ڈیوٹی نہیں کی صرف بینڈ ہی بجایا وہ وزیراعلیٰ کی کیا سیکیورٹی کرے گا۔ اس کا اندازہ پولیس افسروں کو سب سے زیادہ ہونا چاہیے۔
ادھر ان دنوں خبریں دی جا رہی ہیں کہ وزیراعلیٰ کو ان دنوں زیادہ سخت سیکیورٹی کی ضرورت ہے لیکن اس کا جواب یہ دیا گیا کہ ایک اناڑی کو ان کی سیکیورٹی کا انچارج بنا دیا گیا۔ اب یہ کسی خطرے کی صورت میں بینڈ ہی بجا سکتا ہے۔ پولیس افسروں کو چاہیے کہ اس کی پسند کا کوئی بلند آہنگ بینڈ منگوایا جائے اور اس کے ساتھ ڈرم وغیرہ بجانے کے لیے خصوصی اسٹاف بھی دیا جائے کہ جب کوئی خطرہ درپیش ہو تو یہ اس قدر زور زور سے بینڈ بجائیں کہ دہشت گرد ان آوازوں سے گھبرا کر دوڑ جائیں۔
دہشت گردوں کو اسلحہ وغیرہ کا سامنا تو رہتا ہی ہے اور وہ اس سے دفاع کی تربیت بھی رکھتے ہیں لیکن جب ان کو بینڈ کی گوناگوں کرخت آوازوں کا سامنا کرنا پڑے گا تو اس ناگہانی آفت سے وہ گھبرا کر راہ فرار اختیار کریں گے۔ بینڈ کی ان آوازوں سے خود وزیراعلیٰ بھی کسی خطرے سے باخبر ہو جائیں گے اور ان کا عملہ بھی فوراً دفاعی پوزیشن اختیار کر لے گا۔ 90 شاہراہ قائداعظم جہاں واقع ہے وہ مال روڈ کا ایک معروف چوک ہے۔ اس طرف خطرے کی گھنٹی بلکہ بینڈ کی گھن گرج دور دور تک سنائی دے گی اور پورا شہر ہی باخبر ہو جائے گا۔
یہ عمارت ایک نیم یہودی خفیہ قسم کی تنظیم کا دفتر تھی بلکہ اسی تنظیم کے دفتر کے لیے بنائی گئی تھی مگر اس قدر چپ چاپ بے آباد اور خاموش سی رہتی تھی کہ یہاں کوئی آتا جاتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ایک بڑی اور بارعب عمارت کی یہ خاموشی ایسی عجیب لگتی تھی کہ اسے جادو گھر کہا جانے لگا اور یہ اسی نام سے معروف بھی ہو گئی۔
ویسے اس کا نام فری میسن ہال تھا جو اپنی مسلسل خاموشی اور بظاہر ویرانی کی حد تک غیرآباد ہونے پر اسے لاہوریوں نے جادوگھر کا نام دے دیا تھا۔ اب یہ وزیراعلیٰ پنجاب کے متعدد دفاتر میں سے ایک بڑا دفتر ہے اور بہت معروف۔ ہم عام لوگوں کے لیے یہ ایک ممنوع علاقہ اور عمارت تھی لیکن اسے سرکاری دفتر بننے کے بعد ہم لوگوں نے بھی پہلی بار اسے اندر سے دیکھ لیا اور اس کے پیچ در پیچ راستوں اور اوپر تلے کمروں تک رسائی حاصل کر لی۔
اندر سے یہ واقعی ایک جادوگھر قسم کی پراسرار اور خفیہ عمارت دکھائی دیتی ہے۔ سنا ہے یہاں اجلاس بھی بہت خاموش اور خفیہ قسم کے ہوا کرتے تھے۔ بظاہر یہ ایک رفاہی ادارہ تھی لیکن اصل میں اس کے مقاصد رفاہی نہیں کچھ جاسوسی اور سیاسی قسم کے تھے۔ بہرحال اب یہ صرف سیاسی ہے اور صوبے کے سیاست دانوں کا دفتر ہے لیکن پرانے لوگ اب بھی اسے جادوگھر ہی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ صرف 90 شاہراہ قائداعظم کہیں تو پتہ نہیں چلتا کہ یہ کہاں واقع ہے۔
تعجب ہے کہ پولیس نے اس عمارت کو غیرسیاسی سمجھا ہے اور اس کی حفاظت ایک بینڈ ماسٹر کے حوالے کر دی ہے جو اس کی حفاظت کے لیے بینڈ ہی بجا سکتا ہے بندوق نہیں چلا سکتا اور بینڈ کے ذریعہ اس کی برسوں پرانی خاموشی اور اسراریت توڑ سکتا ہے۔ جناب میاں شہباز بہت زیادہ مصروف رہتے ہیں یہاں تک کہ تھک کر بیمار بھی ہو جاتے ہیں۔
انھیں اب تھکاوٹ دور کرنے کے لیے موسیقی کا سہارا مل سکتا ہے اور ہاں ایک بات زیادہ اہم یہ ہے کہ اس سیاسی بینڈ کو اس موسیقی کے ساتھ شعر و شاعری بھی اعلیٰ درجے کی مل سکتی ہے۔ ان کے عملے میں شعر و شاعری والے بھی ہیں۔ وہ آخر کب تک صرف دھنیں ہی سن سکتے ہیں۔ ان دھنوں کو شعر سے سجانے کا کام بھی کریں گے اور یوں پنجاب کی سیاست ایک نئے دور میں داخل ہو گی۔ جناب میاں صاحب کو یہ نیا گنگناتا اور گاتا بجاتا دور مبارک ہو۔
ڈیڈی تک بھی کہہ دیا تو اور کیا کہتے۔ وہ انقلابی بننے اور کہلانے کے ہمیشہ متمنی رہے اور چین کے لیڈر ماؤزے تنگ کے لباس سے ملتا جلتا لباس بھی اختیار کیا اور اس کے کالر بازوؤں اور پتلون پر متوازی پٹی لگوا دی۔ انھوں نے نہ صرف خود یہ لباس اختیار کیا بلکہ یہ پارٹی کا سرکاری لباس بھی بن گیا۔ یہ لباس اگرچہ ہم پاکستانیوں کے لیے اجنبی تھا لیکن اس کی تراش خراش اور اس پر بنی ہوئی رنگدار پٹیوں نے اسے ایک تماشا بنا دیا۔
عام پاکستانی کو ایسا دکھائی دیتا تھا جیسے یہ وزیراعظم کا نہیں کسی بینڈ ماسٹر کا لباس ہے چنانچہ میں نے ''بینڈ ماسٹر'' کے عنوان سے ایک کالم لکھ دیا۔ مرحوم خالد حسن ان کے پریس سیکریٹری تھے۔ انھوں نے صبح صبح کالم پڑھ کر صاحب کو اس سے باخبر کر دیا تو انھوں نے کالم نگار پر ناراض ہونے کی بجائے فوراً ہی پتلون سے یہ پٹی اتروا دی۔ بھٹو صاحب کو اپنے لباس کا بہت خیال رہتا تھا۔ وہ اپنی شخصیت کو بنا سنوار کر رکھتے تھے۔
یہ بینڈ ماسٹر والا واقعہ مجھے ایک تازہ خبر سے یاد آیا۔ پولیس کے پاس بھی ایک بینڈ ہوتا ہے۔ اس بینڈ کا انچارج جسے بینڈ ماسٹر کہنا زیادہ موزوں ہو گا اسے پولیس کے اس منصب سے ہٹا کر ہمارے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کے دفتر واقع 90 مال روڈ کا سیکیورٹی انچارج بنا دیا گیا ہے۔
اس نے 36 برس تک پولیس کا بینڈ بجایا۔ یہ اسی بینڈ میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہوا اور 36 سال تک بینڈ بجاتے بجاتے انسپکٹر کے عہدے تک ترقی پا گیا لیکن معلوم ہوا کہ کچھ پہلے بعض افسر کسی بات پر اس سے خفا ہو گئے اور اسے لائن حاضر کر دیا۔ وہ دو ماہ تک لائن حاضر رہا اور اب اسے لائن سے نکال کر وزیراعلیٰ کا محافظ لگا دیا گیا۔ جس شخص نے کبھی پولیس کی ڈیوٹی نہیں کی صرف بینڈ ہی بجایا وہ وزیراعلیٰ کی کیا سیکیورٹی کرے گا۔ اس کا اندازہ پولیس افسروں کو سب سے زیادہ ہونا چاہیے۔
ادھر ان دنوں خبریں دی جا رہی ہیں کہ وزیراعلیٰ کو ان دنوں زیادہ سخت سیکیورٹی کی ضرورت ہے لیکن اس کا جواب یہ دیا گیا کہ ایک اناڑی کو ان کی سیکیورٹی کا انچارج بنا دیا گیا۔ اب یہ کسی خطرے کی صورت میں بینڈ ہی بجا سکتا ہے۔ پولیس افسروں کو چاہیے کہ اس کی پسند کا کوئی بلند آہنگ بینڈ منگوایا جائے اور اس کے ساتھ ڈرم وغیرہ بجانے کے لیے خصوصی اسٹاف بھی دیا جائے کہ جب کوئی خطرہ درپیش ہو تو یہ اس قدر زور زور سے بینڈ بجائیں کہ دہشت گرد ان آوازوں سے گھبرا کر دوڑ جائیں۔
دہشت گردوں کو اسلحہ وغیرہ کا سامنا تو رہتا ہی ہے اور وہ اس سے دفاع کی تربیت بھی رکھتے ہیں لیکن جب ان کو بینڈ کی گوناگوں کرخت آوازوں کا سامنا کرنا پڑے گا تو اس ناگہانی آفت سے وہ گھبرا کر راہ فرار اختیار کریں گے۔ بینڈ کی ان آوازوں سے خود وزیراعلیٰ بھی کسی خطرے سے باخبر ہو جائیں گے اور ان کا عملہ بھی فوراً دفاعی پوزیشن اختیار کر لے گا۔ 90 شاہراہ قائداعظم جہاں واقع ہے وہ مال روڈ کا ایک معروف چوک ہے۔ اس طرف خطرے کی گھنٹی بلکہ بینڈ کی گھن گرج دور دور تک سنائی دے گی اور پورا شہر ہی باخبر ہو جائے گا۔
یہ عمارت ایک نیم یہودی خفیہ قسم کی تنظیم کا دفتر تھی بلکہ اسی تنظیم کے دفتر کے لیے بنائی گئی تھی مگر اس قدر چپ چاپ بے آباد اور خاموش سی رہتی تھی کہ یہاں کوئی آتا جاتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ایک بڑی اور بارعب عمارت کی یہ خاموشی ایسی عجیب لگتی تھی کہ اسے جادو گھر کہا جانے لگا اور یہ اسی نام سے معروف بھی ہو گئی۔
ویسے اس کا نام فری میسن ہال تھا جو اپنی مسلسل خاموشی اور بظاہر ویرانی کی حد تک غیرآباد ہونے پر اسے لاہوریوں نے جادوگھر کا نام دے دیا تھا۔ اب یہ وزیراعلیٰ پنجاب کے متعدد دفاتر میں سے ایک بڑا دفتر ہے اور بہت معروف۔ ہم عام لوگوں کے لیے یہ ایک ممنوع علاقہ اور عمارت تھی لیکن اسے سرکاری دفتر بننے کے بعد ہم لوگوں نے بھی پہلی بار اسے اندر سے دیکھ لیا اور اس کے پیچ در پیچ راستوں اور اوپر تلے کمروں تک رسائی حاصل کر لی۔
اندر سے یہ واقعی ایک جادوگھر قسم کی پراسرار اور خفیہ عمارت دکھائی دیتی ہے۔ سنا ہے یہاں اجلاس بھی بہت خاموش اور خفیہ قسم کے ہوا کرتے تھے۔ بظاہر یہ ایک رفاہی ادارہ تھی لیکن اصل میں اس کے مقاصد رفاہی نہیں کچھ جاسوسی اور سیاسی قسم کے تھے۔ بہرحال اب یہ صرف سیاسی ہے اور صوبے کے سیاست دانوں کا دفتر ہے لیکن پرانے لوگ اب بھی اسے جادوگھر ہی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ صرف 90 شاہراہ قائداعظم کہیں تو پتہ نہیں چلتا کہ یہ کہاں واقع ہے۔
تعجب ہے کہ پولیس نے اس عمارت کو غیرسیاسی سمجھا ہے اور اس کی حفاظت ایک بینڈ ماسٹر کے حوالے کر دی ہے جو اس کی حفاظت کے لیے بینڈ ہی بجا سکتا ہے بندوق نہیں چلا سکتا اور بینڈ کے ذریعہ اس کی برسوں پرانی خاموشی اور اسراریت توڑ سکتا ہے۔ جناب میاں شہباز بہت زیادہ مصروف رہتے ہیں یہاں تک کہ تھک کر بیمار بھی ہو جاتے ہیں۔
انھیں اب تھکاوٹ دور کرنے کے لیے موسیقی کا سہارا مل سکتا ہے اور ہاں ایک بات زیادہ اہم یہ ہے کہ اس سیاسی بینڈ کو اس موسیقی کے ساتھ شعر و شاعری بھی اعلیٰ درجے کی مل سکتی ہے۔ ان کے عملے میں شعر و شاعری والے بھی ہیں۔ وہ آخر کب تک صرف دھنیں ہی سن سکتے ہیں۔ ان دھنوں کو شعر سے سجانے کا کام بھی کریں گے اور یوں پنجاب کی سیاست ایک نئے دور میں داخل ہو گی۔ جناب میاں صاحب کو یہ نیا گنگناتا اور گاتا بجاتا دور مبارک ہو۔