واٹرگولڈ مافیا
غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے ایسے تنازعات بھی منظر عام پر آئے جن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اہم رہنماؤں کو قتل کیا گیا۔
لاہور:
ایم ڈی واٹر بورڈ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران کہا کہ 8 سے 9 افراد غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی مافیا چلا رہے ہیں اور واٹر بورڈ کے متوازی نظام بالخصوص سائٹ ایریا میں قائم ہیں۔ ان کا یہ بھی موقف تھا کہ منگھوپیر، موچکو، سائٹ، لانڈھی، کورنگی اور ملیر میں سب سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔
اس سے قبل سندھ کی حکمراں جماعت کے سابق وزیر بلدیات سید اویس مظفر نے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کی تو واٹر گولڈ مافیا کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہوا۔ اکتوبر 2013 میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف آپریشن کے دوران ان کے قافلے پر شرافی گوٹھ کے علاقے میں فائرنگ کی گئی۔
تاہم وزیر بلدیات اور ان کے محافظ محفوظ رہے، سابق وزیر بلدیات نے آپریشن کے دوران مختلف علاقوں سے 20 سے زائد غیر قانونی ہائیڈرنٹس کو اپنی نگرانی میں مسمار کرایا، بھاری مشنری تحویل میں لی اور انھوں نے اعلان کیا کہ اگر یہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس دوبارہ قائم ہوئے تو سرکاری افسر یا اہلکار کو ملازمت سے برطرف کردیا جائے گا، واٹر گولڈ مافیا اور ان کے سرپرستوں کے خلاف کارروائی تو ممکن نہیں ہوسکی بلکہ اویس مظفر کو اپنی وزرات سے ہی ہاتھ دھونے پڑے۔
المیہ یہی ہے کہ دکھاوا کرنے میں ارباب اختیار کا کوئی ثانی نہیں ہے، موجودہ وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن نے بھی غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف جارحانہ بیانات دیے ہیں کہ جہاں بھی غیر قانونی ہائیڈرنٹ مسمار کیے گئے، اگر وہاں دوبارہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس تعمیر ہوئے تو اس کا ذمے دار بھی متعلقہ چیف انجینئر ہوگا اور وہ اپنے عہدے پر نہیں رہے گا۔ موصوف نے 28 نومبر 2013 کو یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے محکمہ بلدیات کا چارج سنبھالنے کے بعد سے اب تک 22 غیر قانونی ہائیڈرنٹس کو مسمار کرایا ہے اور بقیہ 40 کو بھی آئندہ ایک ہفتہ میں مسمار کردیا جائے گا۔
اس وقت ان کے دعوے کے مطابق کراچی شہر میں 62 غیر قانونی ہائیڈرنٹس تھے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس قائم ہورہے تھے تو حکومت اور ان کے ذمے دارے کہاں سو رہے تھے اور یہ کوئی ایک دن میں قائم ہونے والے غیر قانونی ہائیڈرنٹس تو تھے نہیں، یقینی طور پر اس میں واٹر بورڈ کے عملے کا بھرپور تعاون حاصل رہا ہے، جس کی بدولت کراچی کے عوام جہاں مہنگا پانی خریدنے پر مجبور ہوئے تو دوسری جانب کم بارشوں کی وجہ سے دستیاب آبی ذخائر سے کراچی کے تمام علاقے شدید متاثر ہوئے۔
ذرائع کے مطابق واٹر بورڈ کی اجازت سے قائم 13 قانونی ہائیڈرنٹس ہیں، ان ہائیڈرنٹس سے ادارے کو ماہانہ تین کروڑ جب کہ سالانہ 36 کروڑ روپے سے زائد کی آمدنی ہوتی ہے۔ لیکن غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے قیام سے واٹر بورڈ کی آمدنی دس بارہ کروڑ روپے تک محدود ہوگئی، واٹر بورڈ کے زیر انتظام ایک ہائیڈرنٹ سے روزانہ 300 ٹینکرز ایک ہزار گیلن پانی لے کر نکلتے ہوں تو یہ ماہانہ تقریباً ایک لاکھ چوالیس ہزار بنتے ہیں۔
واٹر کے کم از کم ریٹ 187 روپے گیلن کے حساب سے ماہانہ دو کروڑ ستر لاکھ روپے کی رقم بنتی ہے لیکن واٹر بورڈ کا ماہانہ ریونیو اوسطاً صرف پچاس سے باون لاکھ روپے ہے جب کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی آمدنی سالانہ 50 ارب کا پانی فروخت کرتی ہے۔ سابق وزیر بلدیات پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس بند کرانے کی آڑ میں انھوں نے قانونی ہائیڈرنٹس بھی بظاہر بند کرائے لیکن یہ ہائیڈرنٹ باقاعدہ چلتے رہے اور ادارے کروڑوں روپوں کی آمدنی سے محروم ہوئے۔
واٹر ٹینکرز اونرز ایسوسی ایشن کی جانب سے شارع فیصل روڈ بلاک کردی گئی، واٹر ٹینکر اونرز ویلفیئر ایسوسی ایشن نے پریس کانفرنس کرکے قانونی ہائیڈرنٹس کھلوانے کا مطالبہ کیا اور پھر شارع فیصل بلاک کردی۔ ان ہائیڈرنٹ میں مسلم آباد میں قائم ہائیڈرنٹ بھی تھا جسے بند کیا گیا تھا۔ زبانی حکم پر تمام بند کیے گئے ہائیڈرنٹ میں سے اس ہڑتال کو جواز بنا کر من پسند افراد کے زیر کنٹرول چھ ہائیڈرنٹس دوبارہ کھول دیے گئے، جن میں گلشن اقبال میں نیپا چورنگی، لانڈھی میں فیوچر کالونی، گارڈن، نارتھ ناظم آباد میں سخی حسن، بلدیہ ٹاؤن اور لانڈھی نمبر 2 میں واقع ہائیڈرنٹ شامل تھے۔
بااثر غیر قانونی ہائیڈرنٹس میں کورنگی چکرا گوٹھ، کے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی سرپرستی لسانی تنظیم کے افراد کرتے ہیں۔ سائٹ، صفورا گوٹھ، نیو کراچی صبا سنیما، لانڈھی، بھینس کالونی، منگھوپیر، اورنگی ٹاؤن، سائٹ نمبر 2، ہائی کورٹ لاجز اور چکرا گوٹھ کورنگی کے غیر قانونی ہائیڈرنٹس شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق واٹر بورڈ کی جانب سے 100 سے زائد ایف آئی آر کا اندراج کرایا گیا لیکن ایک ملزم بھی جیل نہیں گیا۔ موجودہ قوانین کے تحت پانی چوری کے نامزد ملزم کو شخصی ضمانت پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے ایسے تنازعات بھی منظر عام پر آئے جن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اہم رہنماؤں کو قتل کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق صرف منگھوپیر میں 15 سے زائد غیر قانونی ہائیڈرنٹس قائم تھے، جن کی سرپرستی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کرتے تھے، جنھیں گزشتہ دنوں رینجرز نے مسمار کیا۔ سائٹ کے علاقے موچکو، بلدیہ، لانڈھی بھینس کالونی ہائیڈرنٹ میں قائم غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی سرپرستی قوم پرست جماعت کے اہم مرکزی عہدے داران کرتے ہیں۔
ہائیڈرنٹس قانونی ہوں یا غیر قانونی ایک بڑا منظم مافیا کاروبار ہے، قانونی ہائیڈرنٹ سے غیر قانونی ہائیڈرنٹس بند ہونے کے بعد بلیک میں مہنگے داموں پانی فروخت ہونے لگا، ایک ہزار گیلن پانی کے ٹینکر کی سرکاری قیمت 1200 روپے، دو ہزار گیلن کی 1800 اور تین ہزار گیلن کی 2400 روپے مقرر ہے لیکن پانی کی کمیابی کو جواز بنا کر پانچ سے دس ہزار روپے تک ٹینکرز سے پانی فروخت کیا گیا۔ واٹر بورڈ کے حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ شہر میں دو ہزار واٹر ٹینکرز متبادل نظام کے طور پر شہریوں کو پانی فراہم کرتے ہیں۔
کراچی میں ہائیڈرنٹ اور ٹینکرز مافیا کے ساتھ منظم واٹر مافیا کی منصوبہ بندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، سائٹ میں واٹر گولڈ مافیا کے بیس پمپنگ اسٹیشن ہیں جہاں سے تین اور آٹھ انچ کے پائپس کے ذریعے پانی فیکٹریوں کو کمرشل ریٹس پر دیا جاتا ہے، بجلی جانے پر بھی ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور بلاناغہ ہیوی جنریٹر لگا کر 30 سے 100 ہارس پاور کے پمپس پانی چوری اور سپلائی جاری رکھتے ہیں۔
جیسے بنارس، ناظم آباد کے 66 اور 48 انچ قطر کے لائنوں سے پانی فراہم کیا جاتا تھا، حالیہ دنوں رینجرز نے کارروائی کرکے ان پائپ لائنوں کو اکھاڑا اور ٹرکوں میں بھر کرلے گئے۔ نجی چینل کی رپورٹ کے مطابق حیران کن بات یہ ہے کہ سائٹ ایسوسی ایشن کے بعض ذمے دار اس واٹر مافیا کا حصہ ہیں اور ان ہی کی ملی بھگت سے سائٹ کی فیکڑیوں سے ماہانہ کئی کروڑ روپے وصول کیے جاتے اور یہ وصولیاں بھی خفیہ نہیں بلکہ واٹر بلوں کی مد میں بینک اکاؤنٹس یا کراس چیکس سے وصولیاں ہوتی ہیں۔
رینجرز کے جانب سے اس بیان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی آمدنی کالعدم جماعتوں کی فنڈنگ کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے، کیونکہ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی آڑ لے کر منظم واٹر گولڈ مافیا پر ماضی میں نہ ہاتھ ڈالا جاسکا اور نہ اب بھی کسی کو جیل میں ڈالنے میں حکومت کامیاب ہوسکی ہے۔
جب سالانہ پچاس ارب روپے کی آمدنی ہورہی ہو اور سرکاری اہلکاروں کو ان کا حصہ برابر پہنچ رہا ہو تو جتنی بار بھی ہائیڈرنٹ مسمار کیے جائیں گے، اس سے زیادہ تعداد میں مزید قائم ہوجائیں گے۔
ایم ڈی واٹر بورڈ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران کہا کہ 8 سے 9 افراد غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی مافیا چلا رہے ہیں اور واٹر بورڈ کے متوازی نظام بالخصوص سائٹ ایریا میں قائم ہیں۔ ان کا یہ بھی موقف تھا کہ منگھوپیر، موچکو، سائٹ، لانڈھی، کورنگی اور ملیر میں سب سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔
اس سے قبل سندھ کی حکمراں جماعت کے سابق وزیر بلدیات سید اویس مظفر نے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کی تو واٹر گولڈ مافیا کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہوا۔ اکتوبر 2013 میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف آپریشن کے دوران ان کے قافلے پر شرافی گوٹھ کے علاقے میں فائرنگ کی گئی۔
تاہم وزیر بلدیات اور ان کے محافظ محفوظ رہے، سابق وزیر بلدیات نے آپریشن کے دوران مختلف علاقوں سے 20 سے زائد غیر قانونی ہائیڈرنٹس کو اپنی نگرانی میں مسمار کرایا، بھاری مشنری تحویل میں لی اور انھوں نے اعلان کیا کہ اگر یہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس دوبارہ قائم ہوئے تو سرکاری افسر یا اہلکار کو ملازمت سے برطرف کردیا جائے گا، واٹر گولڈ مافیا اور ان کے سرپرستوں کے خلاف کارروائی تو ممکن نہیں ہوسکی بلکہ اویس مظفر کو اپنی وزرات سے ہی ہاتھ دھونے پڑے۔
المیہ یہی ہے کہ دکھاوا کرنے میں ارباب اختیار کا کوئی ثانی نہیں ہے، موجودہ وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن نے بھی غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف جارحانہ بیانات دیے ہیں کہ جہاں بھی غیر قانونی ہائیڈرنٹ مسمار کیے گئے، اگر وہاں دوبارہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس تعمیر ہوئے تو اس کا ذمے دار بھی متعلقہ چیف انجینئر ہوگا اور وہ اپنے عہدے پر نہیں رہے گا۔ موصوف نے 28 نومبر 2013 کو یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے محکمہ بلدیات کا چارج سنبھالنے کے بعد سے اب تک 22 غیر قانونی ہائیڈرنٹس کو مسمار کرایا ہے اور بقیہ 40 کو بھی آئندہ ایک ہفتہ میں مسمار کردیا جائے گا۔
اس وقت ان کے دعوے کے مطابق کراچی شہر میں 62 غیر قانونی ہائیڈرنٹس تھے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس قائم ہورہے تھے تو حکومت اور ان کے ذمے دارے کہاں سو رہے تھے اور یہ کوئی ایک دن میں قائم ہونے والے غیر قانونی ہائیڈرنٹس تو تھے نہیں، یقینی طور پر اس میں واٹر بورڈ کے عملے کا بھرپور تعاون حاصل رہا ہے، جس کی بدولت کراچی کے عوام جہاں مہنگا پانی خریدنے پر مجبور ہوئے تو دوسری جانب کم بارشوں کی وجہ سے دستیاب آبی ذخائر سے کراچی کے تمام علاقے شدید متاثر ہوئے۔
ذرائع کے مطابق واٹر بورڈ کی اجازت سے قائم 13 قانونی ہائیڈرنٹس ہیں، ان ہائیڈرنٹس سے ادارے کو ماہانہ تین کروڑ جب کہ سالانہ 36 کروڑ روپے سے زائد کی آمدنی ہوتی ہے۔ لیکن غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے قیام سے واٹر بورڈ کی آمدنی دس بارہ کروڑ روپے تک محدود ہوگئی، واٹر بورڈ کے زیر انتظام ایک ہائیڈرنٹ سے روزانہ 300 ٹینکرز ایک ہزار گیلن پانی لے کر نکلتے ہوں تو یہ ماہانہ تقریباً ایک لاکھ چوالیس ہزار بنتے ہیں۔
واٹر کے کم از کم ریٹ 187 روپے گیلن کے حساب سے ماہانہ دو کروڑ ستر لاکھ روپے کی رقم بنتی ہے لیکن واٹر بورڈ کا ماہانہ ریونیو اوسطاً صرف پچاس سے باون لاکھ روپے ہے جب کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی آمدنی سالانہ 50 ارب کا پانی فروخت کرتی ہے۔ سابق وزیر بلدیات پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس بند کرانے کی آڑ میں انھوں نے قانونی ہائیڈرنٹس بھی بظاہر بند کرائے لیکن یہ ہائیڈرنٹ باقاعدہ چلتے رہے اور ادارے کروڑوں روپوں کی آمدنی سے محروم ہوئے۔
واٹر ٹینکرز اونرز ایسوسی ایشن کی جانب سے شارع فیصل روڈ بلاک کردی گئی، واٹر ٹینکر اونرز ویلفیئر ایسوسی ایشن نے پریس کانفرنس کرکے قانونی ہائیڈرنٹس کھلوانے کا مطالبہ کیا اور پھر شارع فیصل بلاک کردی۔ ان ہائیڈرنٹ میں مسلم آباد میں قائم ہائیڈرنٹ بھی تھا جسے بند کیا گیا تھا۔ زبانی حکم پر تمام بند کیے گئے ہائیڈرنٹ میں سے اس ہڑتال کو جواز بنا کر من پسند افراد کے زیر کنٹرول چھ ہائیڈرنٹس دوبارہ کھول دیے گئے، جن میں گلشن اقبال میں نیپا چورنگی، لانڈھی میں فیوچر کالونی، گارڈن، نارتھ ناظم آباد میں سخی حسن، بلدیہ ٹاؤن اور لانڈھی نمبر 2 میں واقع ہائیڈرنٹ شامل تھے۔
بااثر غیر قانونی ہائیڈرنٹس میں کورنگی چکرا گوٹھ، کے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی سرپرستی لسانی تنظیم کے افراد کرتے ہیں۔ سائٹ، صفورا گوٹھ، نیو کراچی صبا سنیما، لانڈھی، بھینس کالونی، منگھوپیر، اورنگی ٹاؤن، سائٹ نمبر 2، ہائی کورٹ لاجز اور چکرا گوٹھ کورنگی کے غیر قانونی ہائیڈرنٹس شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق واٹر بورڈ کی جانب سے 100 سے زائد ایف آئی آر کا اندراج کرایا گیا لیکن ایک ملزم بھی جیل نہیں گیا۔ موجودہ قوانین کے تحت پانی چوری کے نامزد ملزم کو شخصی ضمانت پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے ایسے تنازعات بھی منظر عام پر آئے جن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اہم رہنماؤں کو قتل کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق صرف منگھوپیر میں 15 سے زائد غیر قانونی ہائیڈرنٹس قائم تھے، جن کی سرپرستی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کرتے تھے، جنھیں گزشتہ دنوں رینجرز نے مسمار کیا۔ سائٹ کے علاقے موچکو، بلدیہ، لانڈھی بھینس کالونی ہائیڈرنٹ میں قائم غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی سرپرستی قوم پرست جماعت کے اہم مرکزی عہدے داران کرتے ہیں۔
ہائیڈرنٹس قانونی ہوں یا غیر قانونی ایک بڑا منظم مافیا کاروبار ہے، قانونی ہائیڈرنٹ سے غیر قانونی ہائیڈرنٹس بند ہونے کے بعد بلیک میں مہنگے داموں پانی فروخت ہونے لگا، ایک ہزار گیلن پانی کے ٹینکر کی سرکاری قیمت 1200 روپے، دو ہزار گیلن کی 1800 اور تین ہزار گیلن کی 2400 روپے مقرر ہے لیکن پانی کی کمیابی کو جواز بنا کر پانچ سے دس ہزار روپے تک ٹینکرز سے پانی فروخت کیا گیا۔ واٹر بورڈ کے حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ شہر میں دو ہزار واٹر ٹینکرز متبادل نظام کے طور پر شہریوں کو پانی فراہم کرتے ہیں۔
کراچی میں ہائیڈرنٹ اور ٹینکرز مافیا کے ساتھ منظم واٹر مافیا کی منصوبہ بندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، سائٹ میں واٹر گولڈ مافیا کے بیس پمپنگ اسٹیشن ہیں جہاں سے تین اور آٹھ انچ کے پائپس کے ذریعے پانی فیکٹریوں کو کمرشل ریٹس پر دیا جاتا ہے، بجلی جانے پر بھی ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور بلاناغہ ہیوی جنریٹر لگا کر 30 سے 100 ہارس پاور کے پمپس پانی چوری اور سپلائی جاری رکھتے ہیں۔
جیسے بنارس، ناظم آباد کے 66 اور 48 انچ قطر کے لائنوں سے پانی فراہم کیا جاتا تھا، حالیہ دنوں رینجرز نے کارروائی کرکے ان پائپ لائنوں کو اکھاڑا اور ٹرکوں میں بھر کرلے گئے۔ نجی چینل کی رپورٹ کے مطابق حیران کن بات یہ ہے کہ سائٹ ایسوسی ایشن کے بعض ذمے دار اس واٹر مافیا کا حصہ ہیں اور ان ہی کی ملی بھگت سے سائٹ کی فیکڑیوں سے ماہانہ کئی کروڑ روپے وصول کیے جاتے اور یہ وصولیاں بھی خفیہ نہیں بلکہ واٹر بلوں کی مد میں بینک اکاؤنٹس یا کراس چیکس سے وصولیاں ہوتی ہیں۔
رینجرز کے جانب سے اس بیان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی آمدنی کالعدم جماعتوں کی فنڈنگ کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے، کیونکہ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی آڑ لے کر منظم واٹر گولڈ مافیا پر ماضی میں نہ ہاتھ ڈالا جاسکا اور نہ اب بھی کسی کو جیل میں ڈالنے میں حکومت کامیاب ہوسکی ہے۔
جب سالانہ پچاس ارب روپے کی آمدنی ہورہی ہو اور سرکاری اہلکاروں کو ان کا حصہ برابر پہنچ رہا ہو تو جتنی بار بھی ہائیڈرنٹ مسمار کیے جائیں گے، اس سے زیادہ تعداد میں مزید قائم ہوجائیں گے۔