زخمی شیروں نے آمد کا اعلان کردیا

جب کوئی کل سیدھی نہ ہو پھر بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے تو اسے پاکستان کرکٹ کہتے ہیں۔

گزشتہ 6 سالوں سے اپنے ہی ملک میں، اپنے ہی میدانوں پر کھیلنے سے محروم، دو بہترین باؤلرز سٹے بازی کی نذر ہوں اور دو بہترین اسپنرز پر پابندی لگ جائے، ذرائع ابلاغ تنازعات کریدنے میں سرگرداں تو بورڈ کے کرتا دھرتا باہمی کھینچا تانیوں میں مصروف، جب کوئی کل سیدھی نہ ہو پھر بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے تو اسے پاکستان کرکٹ کہتے ہیں۔

شائقین پچھلے چند ہفتوں سے پاکستان کے ہر مقابلے میں صبح تڑکے اٹھتے، پھر پاکستان کی مایوس کن کارکردگی دیکھنے کے بعد منہ لٹکائے اپنے تعلیمی اداروں، دفتروں اور کاموں کے لیے روانہ ہوجاتے۔

بھارت کے خلاف مقابلے سے پہلے جتنا جوش تھا، اس کے بعد اتنی ہی ٹھنڈ پڑ گئی۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شکست نے پوری کردی۔ زمبابوے اور متحدہ عرب امارات جیسے معمولی حریفوں کے خلاف فتوحات سے بھی شائقین تو کجا خود ٹیم کا اعتماد بھی بحال نہیں ہوا ہوگا۔

عالمی کپ جیسے بڑے ٹورنامنٹ میں اس کے لیے کوئی بڑا مقابلہ جیتنا ضروری تھا اور پاکستان کو یہ موقع کسی اور کے خلاف نہیں جنوبی افریقہ جیسے سخت ترین حریف کے مقابلے میں ملا۔

ایسی ٹیم جو ابھی پچھلے دونوں مقابلوں میں 400 سے زیادہ رنز بنا کر مقابل ٹیموں کو چت کر چکی ہے اس کے خلاف پاکستان کے لیے ضروری تھا کہ اس کے کھلاڑی لڑتے ہوئے نظر آئیں، جھپٹیں، پلٹیں اور پلٹ کر جھپٹیں۔ پھر آکلینڈ میں وہی ہوا جس پر یقین کرنے کے لیے آنکھوں کو مسلنا ضروری تھا۔ پاکستان نے صرف 232 رنز کا کامیابی سے دفاع کیا اور یوں اپنے کوارٹر فائنل میں پہنچنے کے مراحل کو آسان بنایا۔ جی ہاں! پاکستان اب بھی کوارٹر فائنل میں پہنچا نہیں ہے۔


عالمی کپ کے گروپ 'بی' میں اب تک یہ شرف صرف بھارت کو حاصل ہوا ہے، جس نے اپنے ابتدائی چاروں مقابلے جیت کر ناک آؤٹ مرحلے میں جگہ پائی ہے جب کہ جنوبی افریقہ، پاکستان، ویسٹ انڈیز اور آئرلینڈ ابھی بھی لٹکے ہوئے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ جنوبی افریقہ اور پاکستان نے پانچ، پانچ مقابلے کھیلے ہیں اور ان کے 6، 6 پوائنٹس ہیں۔

جنوبی افریقہ کا نیٹ رن ریٹ بہتر ہے اس لیے وہ بھارت کے بعد دوسرے نمبر پر ہے جب کہ پاکستان کا نمبر تیسرا ہے۔ جنوبی افریقہ کا آخری مقابلہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہے جس کے خلاف فتح پاتے ہی وہ کوارٹر فائنل میں پہنچ جائے گا یعنی پاکستان کے ہاتھوں شکست نے اس کے اعتماد کو ضرور نقصان پہنچایا ہے لیکن امکانات کو نہیں۔

البتہ پاکستان کے لیے حالات مختلف ہیں اور کسی حد تک مشکل بھی، کیونکہ اس کا صرف ایک میچ باقی ہے اور وہ بھی آئرلینڈ کے خلاف۔ وہی ٹیم جس نے 2007ء میں پاکستان کو شکست دے کر عالمی کپ سے باہر کیا تھا اور جاری ٹورنامنٹ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اپ سیٹ بھی کرچکی ہے۔ یوں پاکستان کے لیے بہتری اسی میں ہے کہ وہ آئرلینڈ کے خلاف مقابلہ جیتے اور باآسانی کوارٹر فائنل تک جائے کیونکہ، خدانخواستہ، آئرلینڈ کے خلاف شکست اسے عالمی کپ کی دوڑ سے باہر بھی کرسکتی ہے۔

وجہ؟ ویسٹ انڈیز کا آخری مقابلہ بھی متحدہ عرب امارات سے ہے جب کہ آئرلینڈ بھی زمبابوے کو شکست دے کر اِس وقت 6 پوائٹس کے ساتھ ٹیبل پر موجود ہے اب اگر آئرلینڈ ان میں سے اگر ایک کو شکست دینے میں کامیاب ہوگیا تو باآسانی کوارٹر فائنل میں پہنچ جائے گا اور اگر ایک کو بھی ہرایا، تو امکانات زندہ رہیں گے۔

پھر ویسٹ انڈیز کا آخری مقابلہ بھی متحدہ عرب امارات کے خلاف ہے جہاں وہ اچھے مارجن کے ساتھ جیت کر اپنے نیٹ رن ریٹ کو بہتر بناسکتا ہے اور یوں پاکستان کے لیے مشکل کھڑی ہوسکتی ہے۔

اس لیے سب سے محفوظ اور بہتر راستہ یہی ہے کہ پاکستان آئرش طوفان پر قابو پائے۔ آپ بھی دل تھام کر بیٹھیں اور ایڈیلیڈ میں پاک-آئرلینڈ معرکے کی تیاری پکڑیں، ٹیم پاکستان کو سراہیں، اس کی حمایت کریں، صرف جیت کی صورت میں نہیں بلکہ ہارنے پر بھی انھیں سہارا دیں۔ اس سے کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھتا ہے اور آئندہ بہتر کارکردگی کی امنگ پیدا ہوتی ہے۔
Load Next Story