ذکر تین کتابوں کا
بہرحال بات ہو رہی تھی راشد اشرف کی چراغ حسن حسرت مرحوم پر لکھی کتاب کی۔
اس وقت میرے سامنے تین کتابیں ہیں۔ تینوں اپنے متنوع موضوعات کے اعتبار سے اہم اور فکر انگیز ہیں۔ پہلی کتاب راشد اشرف کی مرتب کردہ ''چراغ حسن حسرت، ہم تم کو نہیں بھولے'' ہے۔ یہ کتاب عادل حسن کے توسط سے مجھے گزشتہ برس دسمبر میں اس روز ملی جب میرے بیٹے کی شادی کی رسم مہندی ہو رہی تھی۔
دوسری کتاب چارلس ڈارون کی شہرہ آفاق تصنیف The Descent of Man کا اردو ترجمہ ''شجرہ انسانی'' ہے، جو اعجاز احمد نے کیا ہے۔ اعجاز احمد میرے انتہائی محترم سیاسی اتالیق ڈاکٹر منظور احمد مرحوم (نیشنل عوامی پارٹی والے) کے بھتیجے اور لائق صد احترام دوستوں ڈاکٹر حمید نیر اور بصیر نوید کے کزن ہیں۔ تیسری کتاب سگمنڈ فرائڈ کے حالات زندگی، نظریات اور نفسیات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب میرے دوست آصف حسن نے مرتب کی ہے، جو پبلشر ہونے کے ساتھ ایک صاحب قلم دانشور بھی ہیں۔
راشد اشرف سے میری کبھی بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی۔ ان سے فیس بک پر تعارف جیتے جاگتے انسائیکلوپیڈیا یعنی عقیل عباس جعفری کے توسط سے ہوا۔ لیکن ان سے دلی وابستگی اس وقت پیدا ہوئی، جب انھوں نے ابن صفی مرحوم پر کتاب تحریر کی۔ میں ان صفحات پر شاید ایک سے زائد مرتبہ تحریر کر چکا ہوں کہ مجھ میں پڑھنے کا شوق دو وجہ سے پیدا ہوا، ایک ٹارزن کی کہانیاں اور دوسرے ابن صفی کے ناولوں کا چسکا۔ جب میں تیسری جماعت میں آیا تو میرے والد مرحوم نے اخبار ہاتھ میں تھما کر فرمایا کہ مجھے ٹارزن کی کہانی پڑھ کر سناؤ۔ مقصد یہ تھا کہ میرے تلفظ اور زبان و بیاں کو درست کیا جا سکے۔ ٹارزن کی کہانیوں کے سبب اخبار بینی کی عادت پڑی، جو آگے چل کر سیاست میں دلچسپی کا باعث بنی۔
میٹرک کا امتحان دینے کے بعد ڈھائی ماہ کی فراغت میں ایک طرف ٹائپنگ سیکھی تو دوسری طرف محلے کی ''چونی لائبریری'' سے ابن صفی کے جاسوسی ناول پڑھنے کا چسکا لگا، جو ان کے انتقال تک جاری رہا۔ سیاسیات، سماجیات اور فلسفہ پر کتب کا مطالعہ طلبہ سیاست اور خاص طور پر ان کے زیر اہتمام ہونے والے اسٹڈی سرکلز میں شرکت کا نتیجہ ہے۔ جب کہ اردو، انگریزی اور سندھی ادب سے شغف ابن صفی کی وجہ سے ہوا، جنھوں نے ادب پڑھنے کی دلچسپی پیدا کی۔ میں یہ بات دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اردو ادب سے تعلق رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا تخلیق کار یا قاری ہو جو وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکے کہ اس نے ابن صفی کو قطعی نہیں پڑھا۔ ابن صفی سے میری عقیدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے انتقال کے بعد جاسوسی ناول ہی پڑھنا چھوڑ دیے۔
بہرحال بات ہو رہی تھی راشد اشرف کی چراغ حسن حسرت مرحوم پر لکھی کتاب کی۔ چراغ حسن حسرت برصغیر کے ان چند نادر و نایاب نگینوں میں سے ایک ہیں، جنھوں نے اردو صحافت کو ایک نیا انداز اور منفرد اسلوب سے نوازا۔ انھوں نے رپورٹنگ سے وقوع نگاری تک اظہاریہ نویسی سے فکاہیہ کالم نگاری تک صحافت کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں طبع آزمائی نہ کی ہو اور اسے ایک نئی جہت نہ دی ہو۔ پھر طبیعت میں موجود پارہ صفت اور شاعری کا شوق انھیں اپنے کئی ہم عصروں پر فوقیت دیتا ہے۔ احمد بشیر مرحوم کی ان کے ساتھ دوستی اور عقیدت کا اپنا انداز ہے۔ یہی سبب ہے کہ حسرت مرحوم پر جتنی خوبصورت تحریریں احمد بشیر مرحوم کی ہیں، شاید دوسرا کوئی فرد اس مقام تک نہیں پہنچ سکا۔
جہاں تک اس کتاب کی تیاری کا معاملہ ہے، تو راشد اشرف اس کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں کہ ''چراغ حسن حسرت پر اس کتاب کی تیاری ایک دیرینہ خواب تھا۔ چند کرم فرماؤں کے بے مثال تعاون کی وجہ سے یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا''۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ''چراغ حسن حسرت، ہم تم کو نہیں بھولے، مولانا حسرت سے متعلق ایسی تحریروں کا مجموعہ ہے، جن میں حسرت کی زندگی کے مختلف ادوار کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔ اس کتاب میں آپ کی ملاقات ہر دور کے حسرت سے ہو گی۔ ان میں کشمیر کے حسرت، کلکتہ کے حسرت، دلی کے حسرت، لاہور کے حسرت، کراچی کے حسرت، ملایا کے حسرت سبھی شامل ہیں۔ مولانا حسرت ایک رنگارنگ شخصیت کے حامل تھے اور سچ تو یہ ہے کہ لکھنے والوں نے ان پر سیر ہو کر لکھا۔ ان کی تحریروں میں عقیدت کا رنگ بھی نمایاں نظر آتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ حسرت کی پہلودار شخصیت بھی نہایت عمدگی سے ابھر سامنے آتی ہے''۔
اس کتاب میں چراغ حسن حسرت پر کوئی 61 مضامین شامل ہیں۔ تین حصوں میں مضامین اور چوتھا حصہ چند نادر تصاویر پر مشتمل ہے۔ جن اہل قلم کے مضامین شامل کیے گئے ہیں، ان کی طویل فہرست ہے، مگر سب نادر روزگار ہستیاں۔ حسرت پر لکھے گئے مضامین میں یکسانیت نہیں ہے بلکہ ہر مضمون ایک نیا انداز لیے ہوئے ہے، یعنی یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد چراغ حسن حسرت کی زندگی کے مختلف پہلو کھل کر سامنے آتے ہیں۔
دوسری کتاب شجرہ انسانی، جیسا کہ ابتدائیہ میں بیان کیا گیا ہے، ڈارون کی شہرہ آفاق تصنیف The Descent of Man کا ترجمہ اور تلخیص ہے۔ ڈارون کی اس تخلیق نے اشاعت کے ساتھ ہی علمی و ادبی حلقوں کے علاوہ عوامی توجہ بھی حاصل کر لی تھی۔ لیکن ساتھ ہی خاصی متنازعہ بھی ہو گئی، کیونکہ مغرب سمیت دنیا کے مختلف مذہبی حلقوں نے اس میں پیش کیے گئے انسان کی ابتدا یا Origin کے تصور کو رد کر دیا۔ آج بھی دنیا کے بیشتر ممالک میں اس کتاب کی تدریس پر پابندیاں عائد ہیں۔
خود امریکا کی بعض ریاستوں میں بھی اس کی تدریس پر پابندی عائد ہے۔ لیکن دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ چارلس ڈارون نے جو نظریہ انیسویں صدی میں پیش کیا، معروف صوفی شاعر مولانا رومی 13 ویں صدی میں انسانی ارتقا کے بارے میں تقریباً اسی نوعیت کا تصور اپنی مشہور مثنوی مولوی معنوی میں پیش کر چکے ہیں۔ جس کا اظہار خود اعجاز احمد نے کتاب کے پہلے باب میں کیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں انسانی ارتقا اور ڈارون کے نظریہ کے بارے میں معلومات کا ماخذ انگریزی دان طبقہ رہا ہے۔ جس نے جو تفہیم کی وہی عام آدمی کی سوچ بنانے کا سبب بنی۔ اب اعجاز احمد نے عرق ریزی کر کے ڈارون کے نظریہ کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس لیے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ عام آدمی کی روایتی سوچ میں تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔
تیسری کتاب معروف ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ کی زندگی، حالات، نظریات اور نفسیات پر آصف حسن کی مرتب کردہ ہے، جس میں فرائڈ کی حیات و نظریات پر 19 مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔ ان میں فرائڈ اور ادب، لاشعور کی دریافت اور ارتقا، جبلت مرگ، فرائڈ کا نظریہ تہذیب، تحلیل نفسی، فرائڈ کا نظریہ شخصیت، خواب اور ابتدائی منظر، سراب کا مستقبل، تجزیہ نفس وغیرہ شامل ہیں۔ اس کتاب کے بارے میں مرتب آصف حسن لکھتے ہیں کہ ''سگمنڈ فرائڈ کو میں نے بہت پڑھا ہے، اس کے بارے میں جہاں بھی کچھ ملتا، پڑھنے بیٹھ جاتا۔
شہزاد احمد، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر شیر محمد اختر اور اسی طرح دوسرے احباب کی کتابوں کو پڑھ ڈالا۔ پھر خیال آیا، کیوں نہ ان کتابوں کے مضامین، جو مجھے پسند ہیں، یکجا کر کے کتاب میں جمع کر دوں۔ مگر یہ اتنا آسان کام نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس کام میں لگ گیا اور آہستہ آہستہ مضامین جمع کرا کے انھیں کمپوز کراتا رہا''۔ اس میں شک نہیں کہ کتاب میں مضامین کا انتخاب انتہائی محنت کے ساتھ کیا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ مضامین کا تنوع برقرا رہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سگمنڈ فرائڈ کی زندگی، نظریات اور فکر و فلسفہ کے تقریباً تمام پہلو قاری کے سامنے آ جاتے ہیں ۔
ان تین کتابوں کا تذکرہ کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں کتب بینی کا کلچر تیزی کے ساتھ روبہ زوال ہے، جس کی وجہ سے فکری بالیدگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ پورا معاشرہ جہل آمادگی اور تنگ نظری کے شکنجوں میں جکڑتا چلا جا رہا ہے، جس کے مظاہر جابجا نظر آتے رہتے ہیں۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات اس صورتحال کی واضح مثال ہیں، جو سیاسی جماعتوں کے فکری دیوالیہ پن اور سیاسی بے بصیرتی کی بدترین شکل کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ سینیٹ جو اہل علم و دانش، سیاسی مدبرین، تعلیمی ماہرین کی مجلس تصور کی جاتی ہے، آج دولت مندوں کی چوپال بن گئی ہے۔ جو صوبوں کے حقوق کی ضامن تصور کی جاتی تھی، اسے سیاسی جماعتوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔
ایسی صورت میں اہل وطن بالخصوص نوجوان نسل شدید مایوسی کا شکار ہو چکی ہے۔ لہٰذا اس منظرنامہ کو تبدیل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ لوگ اپنے مطالعہ کو بڑھا کر اپنی فکر، نظریاتی بنیادوں اور تصور حیات کو وسیع تر بنائیں اور ایسے فیصلے کریں جن پر انھیں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اگر ہم فطری علوم کے ساتھ سماجی علوم پر بھی توجہ دیں اور کسبی تربیت کے ساتھ سماجی تربیت کو بھی زندگی میں شامل کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک روشن خیال اور ترقی دوست قوم کے طور پر اس کرہ ارض پر اپنی شناخت پیدا نہ کر سکیں۔
دوسری کتاب چارلس ڈارون کی شہرہ آفاق تصنیف The Descent of Man کا اردو ترجمہ ''شجرہ انسانی'' ہے، جو اعجاز احمد نے کیا ہے۔ اعجاز احمد میرے انتہائی محترم سیاسی اتالیق ڈاکٹر منظور احمد مرحوم (نیشنل عوامی پارٹی والے) کے بھتیجے اور لائق صد احترام دوستوں ڈاکٹر حمید نیر اور بصیر نوید کے کزن ہیں۔ تیسری کتاب سگمنڈ فرائڈ کے حالات زندگی، نظریات اور نفسیات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب میرے دوست آصف حسن نے مرتب کی ہے، جو پبلشر ہونے کے ساتھ ایک صاحب قلم دانشور بھی ہیں۔
راشد اشرف سے میری کبھی بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی۔ ان سے فیس بک پر تعارف جیتے جاگتے انسائیکلوپیڈیا یعنی عقیل عباس جعفری کے توسط سے ہوا۔ لیکن ان سے دلی وابستگی اس وقت پیدا ہوئی، جب انھوں نے ابن صفی مرحوم پر کتاب تحریر کی۔ میں ان صفحات پر شاید ایک سے زائد مرتبہ تحریر کر چکا ہوں کہ مجھ میں پڑھنے کا شوق دو وجہ سے پیدا ہوا، ایک ٹارزن کی کہانیاں اور دوسرے ابن صفی کے ناولوں کا چسکا۔ جب میں تیسری جماعت میں آیا تو میرے والد مرحوم نے اخبار ہاتھ میں تھما کر فرمایا کہ مجھے ٹارزن کی کہانی پڑھ کر سناؤ۔ مقصد یہ تھا کہ میرے تلفظ اور زبان و بیاں کو درست کیا جا سکے۔ ٹارزن کی کہانیوں کے سبب اخبار بینی کی عادت پڑی، جو آگے چل کر سیاست میں دلچسپی کا باعث بنی۔
میٹرک کا امتحان دینے کے بعد ڈھائی ماہ کی فراغت میں ایک طرف ٹائپنگ سیکھی تو دوسری طرف محلے کی ''چونی لائبریری'' سے ابن صفی کے جاسوسی ناول پڑھنے کا چسکا لگا، جو ان کے انتقال تک جاری رہا۔ سیاسیات، سماجیات اور فلسفہ پر کتب کا مطالعہ طلبہ سیاست اور خاص طور پر ان کے زیر اہتمام ہونے والے اسٹڈی سرکلز میں شرکت کا نتیجہ ہے۔ جب کہ اردو، انگریزی اور سندھی ادب سے شغف ابن صفی کی وجہ سے ہوا، جنھوں نے ادب پڑھنے کی دلچسپی پیدا کی۔ میں یہ بات دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اردو ادب سے تعلق رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا تخلیق کار یا قاری ہو جو وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکے کہ اس نے ابن صفی کو قطعی نہیں پڑھا۔ ابن صفی سے میری عقیدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے انتقال کے بعد جاسوسی ناول ہی پڑھنا چھوڑ دیے۔
بہرحال بات ہو رہی تھی راشد اشرف کی چراغ حسن حسرت مرحوم پر لکھی کتاب کی۔ چراغ حسن حسرت برصغیر کے ان چند نادر و نایاب نگینوں میں سے ایک ہیں، جنھوں نے اردو صحافت کو ایک نیا انداز اور منفرد اسلوب سے نوازا۔ انھوں نے رپورٹنگ سے وقوع نگاری تک اظہاریہ نویسی سے فکاہیہ کالم نگاری تک صحافت کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں طبع آزمائی نہ کی ہو اور اسے ایک نئی جہت نہ دی ہو۔ پھر طبیعت میں موجود پارہ صفت اور شاعری کا شوق انھیں اپنے کئی ہم عصروں پر فوقیت دیتا ہے۔ احمد بشیر مرحوم کی ان کے ساتھ دوستی اور عقیدت کا اپنا انداز ہے۔ یہی سبب ہے کہ حسرت مرحوم پر جتنی خوبصورت تحریریں احمد بشیر مرحوم کی ہیں، شاید دوسرا کوئی فرد اس مقام تک نہیں پہنچ سکا۔
جہاں تک اس کتاب کی تیاری کا معاملہ ہے، تو راشد اشرف اس کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں کہ ''چراغ حسن حسرت پر اس کتاب کی تیاری ایک دیرینہ خواب تھا۔ چند کرم فرماؤں کے بے مثال تعاون کی وجہ سے یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا''۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ''چراغ حسن حسرت، ہم تم کو نہیں بھولے، مولانا حسرت سے متعلق ایسی تحریروں کا مجموعہ ہے، جن میں حسرت کی زندگی کے مختلف ادوار کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔ اس کتاب میں آپ کی ملاقات ہر دور کے حسرت سے ہو گی۔ ان میں کشمیر کے حسرت، کلکتہ کے حسرت، دلی کے حسرت، لاہور کے حسرت، کراچی کے حسرت، ملایا کے حسرت سبھی شامل ہیں۔ مولانا حسرت ایک رنگارنگ شخصیت کے حامل تھے اور سچ تو یہ ہے کہ لکھنے والوں نے ان پر سیر ہو کر لکھا۔ ان کی تحریروں میں عقیدت کا رنگ بھی نمایاں نظر آتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ حسرت کی پہلودار شخصیت بھی نہایت عمدگی سے ابھر سامنے آتی ہے''۔
اس کتاب میں چراغ حسن حسرت پر کوئی 61 مضامین شامل ہیں۔ تین حصوں میں مضامین اور چوتھا حصہ چند نادر تصاویر پر مشتمل ہے۔ جن اہل قلم کے مضامین شامل کیے گئے ہیں، ان کی طویل فہرست ہے، مگر سب نادر روزگار ہستیاں۔ حسرت پر لکھے گئے مضامین میں یکسانیت نہیں ہے بلکہ ہر مضمون ایک نیا انداز لیے ہوئے ہے، یعنی یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد چراغ حسن حسرت کی زندگی کے مختلف پہلو کھل کر سامنے آتے ہیں۔
دوسری کتاب شجرہ انسانی، جیسا کہ ابتدائیہ میں بیان کیا گیا ہے، ڈارون کی شہرہ آفاق تصنیف The Descent of Man کا ترجمہ اور تلخیص ہے۔ ڈارون کی اس تخلیق نے اشاعت کے ساتھ ہی علمی و ادبی حلقوں کے علاوہ عوامی توجہ بھی حاصل کر لی تھی۔ لیکن ساتھ ہی خاصی متنازعہ بھی ہو گئی، کیونکہ مغرب سمیت دنیا کے مختلف مذہبی حلقوں نے اس میں پیش کیے گئے انسان کی ابتدا یا Origin کے تصور کو رد کر دیا۔ آج بھی دنیا کے بیشتر ممالک میں اس کتاب کی تدریس پر پابندیاں عائد ہیں۔
خود امریکا کی بعض ریاستوں میں بھی اس کی تدریس پر پابندی عائد ہے۔ لیکن دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ چارلس ڈارون نے جو نظریہ انیسویں صدی میں پیش کیا، معروف صوفی شاعر مولانا رومی 13 ویں صدی میں انسانی ارتقا کے بارے میں تقریباً اسی نوعیت کا تصور اپنی مشہور مثنوی مولوی معنوی میں پیش کر چکے ہیں۔ جس کا اظہار خود اعجاز احمد نے کتاب کے پہلے باب میں کیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں انسانی ارتقا اور ڈارون کے نظریہ کے بارے میں معلومات کا ماخذ انگریزی دان طبقہ رہا ہے۔ جس نے جو تفہیم کی وہی عام آدمی کی سوچ بنانے کا سبب بنی۔ اب اعجاز احمد نے عرق ریزی کر کے ڈارون کے نظریہ کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس لیے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ عام آدمی کی روایتی سوچ میں تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔
تیسری کتاب معروف ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ کی زندگی، حالات، نظریات اور نفسیات پر آصف حسن کی مرتب کردہ ہے، جس میں فرائڈ کی حیات و نظریات پر 19 مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔ ان میں فرائڈ اور ادب، لاشعور کی دریافت اور ارتقا، جبلت مرگ، فرائڈ کا نظریہ تہذیب، تحلیل نفسی، فرائڈ کا نظریہ شخصیت، خواب اور ابتدائی منظر، سراب کا مستقبل، تجزیہ نفس وغیرہ شامل ہیں۔ اس کتاب کے بارے میں مرتب آصف حسن لکھتے ہیں کہ ''سگمنڈ فرائڈ کو میں نے بہت پڑھا ہے، اس کے بارے میں جہاں بھی کچھ ملتا، پڑھنے بیٹھ جاتا۔
شہزاد احمد، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر شیر محمد اختر اور اسی طرح دوسرے احباب کی کتابوں کو پڑھ ڈالا۔ پھر خیال آیا، کیوں نہ ان کتابوں کے مضامین، جو مجھے پسند ہیں، یکجا کر کے کتاب میں جمع کر دوں۔ مگر یہ اتنا آسان کام نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس کام میں لگ گیا اور آہستہ آہستہ مضامین جمع کرا کے انھیں کمپوز کراتا رہا''۔ اس میں شک نہیں کہ کتاب میں مضامین کا انتخاب انتہائی محنت کے ساتھ کیا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ مضامین کا تنوع برقرا رہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سگمنڈ فرائڈ کی زندگی، نظریات اور فکر و فلسفہ کے تقریباً تمام پہلو قاری کے سامنے آ جاتے ہیں ۔
ان تین کتابوں کا تذکرہ کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں کتب بینی کا کلچر تیزی کے ساتھ روبہ زوال ہے، جس کی وجہ سے فکری بالیدگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ پورا معاشرہ جہل آمادگی اور تنگ نظری کے شکنجوں میں جکڑتا چلا جا رہا ہے، جس کے مظاہر جابجا نظر آتے رہتے ہیں۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات اس صورتحال کی واضح مثال ہیں، جو سیاسی جماعتوں کے فکری دیوالیہ پن اور سیاسی بے بصیرتی کی بدترین شکل کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ سینیٹ جو اہل علم و دانش، سیاسی مدبرین، تعلیمی ماہرین کی مجلس تصور کی جاتی ہے، آج دولت مندوں کی چوپال بن گئی ہے۔ جو صوبوں کے حقوق کی ضامن تصور کی جاتی تھی، اسے سیاسی جماعتوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔
ایسی صورت میں اہل وطن بالخصوص نوجوان نسل شدید مایوسی کا شکار ہو چکی ہے۔ لہٰذا اس منظرنامہ کو تبدیل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ لوگ اپنے مطالعہ کو بڑھا کر اپنی فکر، نظریاتی بنیادوں اور تصور حیات کو وسیع تر بنائیں اور ایسے فیصلے کریں جن پر انھیں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اگر ہم فطری علوم کے ساتھ سماجی علوم پر بھی توجہ دیں اور کسبی تربیت کے ساتھ سماجی تربیت کو بھی زندگی میں شامل کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک روشن خیال اور ترقی دوست قوم کے طور پر اس کرہ ارض پر اپنی شناخت پیدا نہ کر سکیں۔