موسم سرما کی آخری مسکراہٹ
مگر زندگی جینے کی جستجو کا نام ہے۔ ہمیں ہر حال میں جینا ہوتا ہے۔
محبت اور مطالعے کا موسم اب ہم سے جدا ہورہا ہے۔ اب بوریت اور بیزاری کے سات ماہ ہمارے منتظر ہیں۔ مگر یہ مہربان موسم جاتے ہوئے بھی ایسے انداز دکھا رہا ہے گویا یہ جانا نہیں چاہتا!
احمد فراز نے ایسا کیوں لکھا تھا کہ:
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انسان جاناں
مگر چند دن قبل جب کراچی میں پنکھے چلنا شروع ہوئے تھے اس دوراں اچانک ٹھنڈے جھونکوں کا پھر سے آجانا ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی محبوب الوداع کرنے کے بعد کچھ دیر دور جانے کے بعد واپس لوٹ آئے۔ اس لیے ہمیں احمد فراز سے صرف یہ شکوہ ہے کہ وہ محبت جو ہمیں اپنا اسیر بنا کر چلی گئی وہ اس موسم کی طرح لوٹ کیوں نہیں آتی؟
اگر محبوب موسم جیسا مزاج رکھتا ہے تو پھر اس اچھی آنکھوں والی کو لوٹ آنا چاہیے جس کی یاد کو ہم نے اپنے جیون کا سرمایہ سمجھا ہے اور یہ ہی ہماری مایا ہے۔ اس لیے وہ اخبار جس کے بارے میں میڈیا کے اساتذہ فرماتے ہیں کہ اس کا کام صرف دنیا کو دنیا کی معلومات دینا ہے اس کے ان قیمتی صفحات میں ہم اگر دل کی باتیں کرسکتے ہیں تو اپنے دوست طاہر نجمی کی مہربانی سے! کیوں کہ یہ صاحب سمجھتے ہیں کہ انسان صرف دماغ نہیں ایک دل بھی ہے۔
دماغ کی دنیا میں جو لوگ دل کو اہمیت دیتے ہیں وہ موسم سے متاثر نہ ہوں؟ یہ ممکن ہی نہیں! اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ موسم کیا ہے؟ تو میرے پاس اس سوال کا یہ ہی جواب ہوگا کہ ''یہ فطرت کا رویہ ہے'' اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جب فطرت کی انسانوں سے ناراضگی موسم گرما اور فطرت کا انسانوں کا مہربان ہونا موسم سرما ہے!
موسم سرما ہم لوگوں کے لیے موسم بہار ہے۔ کیوں کہ ضروری نہیں کہ پھول شاخوں پر کھلیں وہ ہماری بانہوں پر بھی کھل سکتے ہیں اور جہاں تک موسم سرما کا تعلق ہے تو اس کے ساتھ آنے والے موسم خزاں میں جو خوبصورتی ہوا کرتی ہے اس کو دیکھنے کے لیے ہمیں ان گھنے جنگلوں کی طرف جانا چاہیے جہاں بہار کے موسم سے زیادہ خزاں کا موسم حسین ہوا کرتا ہے!
وہ موسم جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع فراہم کرتا ہے، وہ موسم جو ہمیں اپنے وجود کو سمیٹنے کی صورتحال پیدا کرتا ہے، وہ موسم جو دل کے دروازے پر آہستہ سے دستک دیتا ہے اور وہ موسم جو تنہائی کا عذاب اس قدر بڑھا دیتا ہے کہ انسان اپنے ساتھی کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ وہ موسم جس میں انسان لحافوں میں اپنے آپ کو لپیٹ کر اگر انسانوں سے نہیں تو کتابوں سے دل کی باتیں سنتا ہے۔ اس موسم کے جانے کا دکھ کیسے نہ ہوگا؟ مگر انسان فطرت کی قوانین کے آگے بے بس ہے۔ اس لیے اسے وہ سب کچھ قبول کرنا پڑتا ہے جو کچھ اس کے لیے عام حالات میں قبول کرنا دشوار ہوتا ہے۔ اس مجبوری میں جب محبت کا موسم جاتے ہوئے لوٹ آئے تو انسان کی کیفیت کس قدر بہتر ہوجاتی ہے؟
ہم سب جانتے ہیں موسم سرما کا چند لمحات کے لیے پھر سے لوٹ آنا صرف اپنی جدائی کی شدت کو بڑھانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں مگر محبوب موسم کا اس طرح لوٹ آنا اچھا لگا!
اور ویسے بھی ہمیں موجودہ دور میں جو چیزیں دل سے اچھی لگتی ہیں وہ بہت کم ہیں۔ یا ان کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔ جب انسان کا دل ویراں ہورہا ہو اس عرصہ میں دل کو تھوڑی دیر کے لیے آباد کرنا بہت بڑی بات ہوا کرتی ہے۔ اس لیے میں موسم سرما کے لوٹ آنے کو معمولی نہیں سمجھتا۔ کیوں کہ یہ موسم محبت ہے۔ اس لیے اس کا صرف مسکرانا بھی بڑی بات ہے اور میں موسم کے اس انداز کا ممنون ہوں کہ یہ آیا اور اس نے جاتے جاتے ہوئے ایک مسکراہٹ کا تحفہ عطا کیا۔
اب ہمیں معلوم ہے کہ ہم کو آنے والے موسم گرما میں بہت کچھ برداشت کرنا ہے۔ میں موسم گرما میں متوقع لوڈشیڈنگ کا تذکرہ کرکے اس رومانوی موڈ کو خراب کرنا نہیں چاہتا، مگر اس جلتی دھوپ میں ہمیں جیون تو بتانا ہے۔ بقول ایاز:
''سر پر آگ برستی دیکھو...بوند بوند کو میری دھرتی... اک مدت سے ترستی دیکھو...دور بہت منزل ہے ساتھی... میں نے کب انکار کیا ہے... میرا بھی اک دل ہے ساتھی ...پاؤں بڑھاؤ ساتھی ہم کو ... چلنا بھی ہے جلنا بھی... اس جیون کے لمبے دن کو... چلتے چلتے ڈھلنا بھی ہے''
صرف اس امید پر ہم موسم گرما کو صبر کے ساتھ برداشت کرپاتے ہیں۔ ورنہ بہت مشکل ہوتا ہے سورج کی کماں سے نکلتے ہوئے تیروں کے زخم سہنا!
اور خاص طور پر جب آپ کا دل برفاب وادیوں میں بسنے والی کسی حسینہ کے عشق کا اسیر ہو تو آپ پر موسم گرما کا ایک ایک پل عذاب کی طرح اترتا ہے۔
مگر زندگی جینے کی جستجو کا نام ہے۔ ہمیں ہر حال میں جینا ہوتا ہے۔ خواہ ہم مسکرائیں یا آنسو بہائیں!! جب حالات اس قدر کٹھن ہوں کہ آپ ان حالات میں رہنے کے عادی ہوجائیں تو پھر ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کو محبت کا سہارا تو ہر صورت میں چاہیے اور محبت کے اس سہارے کو حاصل کرنے کے لیے آپ کو فطرت کا وہ ماحول چاہیے جو صرف موسم سرما میں میسر ہوتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ جو لوگ پہاڑوں پر بستے ہیں اور جہاں موسم سرما میں زندگی منجمد ہوجاتی ہے ان کے لیے یہ کالم اس خوبصورتی کا باعث نہ ہوگا مگر ہم ان میدانی علاقوں کا تذکرہ کر رہے ہیں جہاں اس وطن کی اکثریت بسا کرتی ہے اور اس کے لیے موسم سرما ایک مہرباں موسم ہوا کرتا ہے۔ کیوں کہ موسم گرما میں تو وہ دن کو زندہ جلتے ہیں اور رات کو سلگتے ہیں۔
کیا یہ بات بہت تکلیف دہ نہیں کہ آپ اس موسم کا سامنا کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہے ہیں جس موسم میں کوئی ناول پڑھنا تو دور اخبار کا مطالعہ بھی ایک تکلیف کی طرح برداشت کرنا پڑتا ہے۔ میں نے موسم گرما میں لوگوں کو اخبار پڑھتے کم اور اخبار کو پنکھا بنا کر پسینہ خشک کرتے ہوئے زیادہ دیکھا ہے۔ اس لیے وہ موسم جو ابھی آیا نہیں مگر بہت جلد آنے والا ہے اس کی عجلت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے موسم سرما کے ٹھنڈے جھونکوں کا ایک بار پھر سے آجانا محبت کی مسکراہٹ ہے۔ وہ جدائی کے لمحات میں ایک ایسی مسکراہٹ ہے جس میں ایک وعدہ ہوتا ہے کہ میں لوٹ آؤں گا۔ جو موسم اپنے مخالف موسم کی مزاحمت کرتے ہوئے چند لمحات کے لیے بھی لوٹ آئے اس کے انتظار میں ہم موسم گرما کے ساتھ ماہ بسر کرسکتے ہیں۔
وہ مسکراہٹ جو مدھم سی روشنی کی طرح موسم سرما کے لبوں سے پھوٹی ہے اس مسکراہٹ کے سہارے ہم سات ماہ کی سورج سے برستی ہوئی آگ کو برداشت کرلیں گے۔
اور جب وہ موسم لوٹ آئے گا اور جب پھر سے لپٹنے کا ماحول پیدا ہوجائے گا تب ہم اس جدائی کے زخموں کو محبت کی مرہم سے بھریں گے اور کہیں گے کہ ''اگر محبت میں جدائی کے لمحات نہ آتے تو عشق کا سفر کس قدر کٹھن ہوجاتا''۔
احمد فراز نے ایسا کیوں لکھا تھا کہ:
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انسان جاناں
مگر چند دن قبل جب کراچی میں پنکھے چلنا شروع ہوئے تھے اس دوراں اچانک ٹھنڈے جھونکوں کا پھر سے آجانا ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی محبوب الوداع کرنے کے بعد کچھ دیر دور جانے کے بعد واپس لوٹ آئے۔ اس لیے ہمیں احمد فراز سے صرف یہ شکوہ ہے کہ وہ محبت جو ہمیں اپنا اسیر بنا کر چلی گئی وہ اس موسم کی طرح لوٹ کیوں نہیں آتی؟
اگر محبوب موسم جیسا مزاج رکھتا ہے تو پھر اس اچھی آنکھوں والی کو لوٹ آنا چاہیے جس کی یاد کو ہم نے اپنے جیون کا سرمایہ سمجھا ہے اور یہ ہی ہماری مایا ہے۔ اس لیے وہ اخبار جس کے بارے میں میڈیا کے اساتذہ فرماتے ہیں کہ اس کا کام صرف دنیا کو دنیا کی معلومات دینا ہے اس کے ان قیمتی صفحات میں ہم اگر دل کی باتیں کرسکتے ہیں تو اپنے دوست طاہر نجمی کی مہربانی سے! کیوں کہ یہ صاحب سمجھتے ہیں کہ انسان صرف دماغ نہیں ایک دل بھی ہے۔
دماغ کی دنیا میں جو لوگ دل کو اہمیت دیتے ہیں وہ موسم سے متاثر نہ ہوں؟ یہ ممکن ہی نہیں! اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ موسم کیا ہے؟ تو میرے پاس اس سوال کا یہ ہی جواب ہوگا کہ ''یہ فطرت کا رویہ ہے'' اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جب فطرت کی انسانوں سے ناراضگی موسم گرما اور فطرت کا انسانوں کا مہربان ہونا موسم سرما ہے!
موسم سرما ہم لوگوں کے لیے موسم بہار ہے۔ کیوں کہ ضروری نہیں کہ پھول شاخوں پر کھلیں وہ ہماری بانہوں پر بھی کھل سکتے ہیں اور جہاں تک موسم سرما کا تعلق ہے تو اس کے ساتھ آنے والے موسم خزاں میں جو خوبصورتی ہوا کرتی ہے اس کو دیکھنے کے لیے ہمیں ان گھنے جنگلوں کی طرف جانا چاہیے جہاں بہار کے موسم سے زیادہ خزاں کا موسم حسین ہوا کرتا ہے!
وہ موسم جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع فراہم کرتا ہے، وہ موسم جو ہمیں اپنے وجود کو سمیٹنے کی صورتحال پیدا کرتا ہے، وہ موسم جو دل کے دروازے پر آہستہ سے دستک دیتا ہے اور وہ موسم جو تنہائی کا عذاب اس قدر بڑھا دیتا ہے کہ انسان اپنے ساتھی کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ وہ موسم جس میں انسان لحافوں میں اپنے آپ کو لپیٹ کر اگر انسانوں سے نہیں تو کتابوں سے دل کی باتیں سنتا ہے۔ اس موسم کے جانے کا دکھ کیسے نہ ہوگا؟ مگر انسان فطرت کی قوانین کے آگے بے بس ہے۔ اس لیے اسے وہ سب کچھ قبول کرنا پڑتا ہے جو کچھ اس کے لیے عام حالات میں قبول کرنا دشوار ہوتا ہے۔ اس مجبوری میں جب محبت کا موسم جاتے ہوئے لوٹ آئے تو انسان کی کیفیت کس قدر بہتر ہوجاتی ہے؟
ہم سب جانتے ہیں موسم سرما کا چند لمحات کے لیے پھر سے لوٹ آنا صرف اپنی جدائی کی شدت کو بڑھانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں مگر محبوب موسم کا اس طرح لوٹ آنا اچھا لگا!
اور ویسے بھی ہمیں موجودہ دور میں جو چیزیں دل سے اچھی لگتی ہیں وہ بہت کم ہیں۔ یا ان کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔ جب انسان کا دل ویراں ہورہا ہو اس عرصہ میں دل کو تھوڑی دیر کے لیے آباد کرنا بہت بڑی بات ہوا کرتی ہے۔ اس لیے میں موسم سرما کے لوٹ آنے کو معمولی نہیں سمجھتا۔ کیوں کہ یہ موسم محبت ہے۔ اس لیے اس کا صرف مسکرانا بھی بڑی بات ہے اور میں موسم کے اس انداز کا ممنون ہوں کہ یہ آیا اور اس نے جاتے جاتے ہوئے ایک مسکراہٹ کا تحفہ عطا کیا۔
اب ہمیں معلوم ہے کہ ہم کو آنے والے موسم گرما میں بہت کچھ برداشت کرنا ہے۔ میں موسم گرما میں متوقع لوڈشیڈنگ کا تذکرہ کرکے اس رومانوی موڈ کو خراب کرنا نہیں چاہتا، مگر اس جلتی دھوپ میں ہمیں جیون تو بتانا ہے۔ بقول ایاز:
''سر پر آگ برستی دیکھو...بوند بوند کو میری دھرتی... اک مدت سے ترستی دیکھو...دور بہت منزل ہے ساتھی... میں نے کب انکار کیا ہے... میرا بھی اک دل ہے ساتھی ...پاؤں بڑھاؤ ساتھی ہم کو ... چلنا بھی ہے جلنا بھی... اس جیون کے لمبے دن کو... چلتے چلتے ڈھلنا بھی ہے''
صرف اس امید پر ہم موسم گرما کو صبر کے ساتھ برداشت کرپاتے ہیں۔ ورنہ بہت مشکل ہوتا ہے سورج کی کماں سے نکلتے ہوئے تیروں کے زخم سہنا!
اور خاص طور پر جب آپ کا دل برفاب وادیوں میں بسنے والی کسی حسینہ کے عشق کا اسیر ہو تو آپ پر موسم گرما کا ایک ایک پل عذاب کی طرح اترتا ہے۔
مگر زندگی جینے کی جستجو کا نام ہے۔ ہمیں ہر حال میں جینا ہوتا ہے۔ خواہ ہم مسکرائیں یا آنسو بہائیں!! جب حالات اس قدر کٹھن ہوں کہ آپ ان حالات میں رہنے کے عادی ہوجائیں تو پھر ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کو محبت کا سہارا تو ہر صورت میں چاہیے اور محبت کے اس سہارے کو حاصل کرنے کے لیے آپ کو فطرت کا وہ ماحول چاہیے جو صرف موسم سرما میں میسر ہوتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ جو لوگ پہاڑوں پر بستے ہیں اور جہاں موسم سرما میں زندگی منجمد ہوجاتی ہے ان کے لیے یہ کالم اس خوبصورتی کا باعث نہ ہوگا مگر ہم ان میدانی علاقوں کا تذکرہ کر رہے ہیں جہاں اس وطن کی اکثریت بسا کرتی ہے اور اس کے لیے موسم سرما ایک مہرباں موسم ہوا کرتا ہے۔ کیوں کہ موسم گرما میں تو وہ دن کو زندہ جلتے ہیں اور رات کو سلگتے ہیں۔
کیا یہ بات بہت تکلیف دہ نہیں کہ آپ اس موسم کا سامنا کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہے ہیں جس موسم میں کوئی ناول پڑھنا تو دور اخبار کا مطالعہ بھی ایک تکلیف کی طرح برداشت کرنا پڑتا ہے۔ میں نے موسم گرما میں لوگوں کو اخبار پڑھتے کم اور اخبار کو پنکھا بنا کر پسینہ خشک کرتے ہوئے زیادہ دیکھا ہے۔ اس لیے وہ موسم جو ابھی آیا نہیں مگر بہت جلد آنے والا ہے اس کی عجلت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے موسم سرما کے ٹھنڈے جھونکوں کا ایک بار پھر سے آجانا محبت کی مسکراہٹ ہے۔ وہ جدائی کے لمحات میں ایک ایسی مسکراہٹ ہے جس میں ایک وعدہ ہوتا ہے کہ میں لوٹ آؤں گا۔ جو موسم اپنے مخالف موسم کی مزاحمت کرتے ہوئے چند لمحات کے لیے بھی لوٹ آئے اس کے انتظار میں ہم موسم گرما کے ساتھ ماہ بسر کرسکتے ہیں۔
وہ مسکراہٹ جو مدھم سی روشنی کی طرح موسم سرما کے لبوں سے پھوٹی ہے اس مسکراہٹ کے سہارے ہم سات ماہ کی سورج سے برستی ہوئی آگ کو برداشت کرلیں گے۔
اور جب وہ موسم لوٹ آئے گا اور جب پھر سے لپٹنے کا ماحول پیدا ہوجائے گا تب ہم اس جدائی کے زخموں کو محبت کی مرہم سے بھریں گے اور کہیں گے کہ ''اگر محبت میں جدائی کے لمحات نہ آتے تو عشق کا سفر کس قدر کٹھن ہوجاتا''۔