داعش کےخلاف حمایت کی سعودی درخواست پر پاکستان کا محتاط رویہ

سعودی حکومت نے فوجی حمایت کے بدلے اسلام آباد کو اقتصادی پیکیج اور موخر ادائیگیوں پر تیل فراہمی کی پیشکش کی ہے

معاملہ وزیر اعظم نواز شریف کے دورے میں ایجنڈے میں سرفہرست رہا، حکومت مضمرات کے خوف سے خاموش ہے، عہدیدار فوٹو: فائل

لاہور:
سعودی عرب کی جانب سے مملکت میں داعش کی ممکنہ فوجی مداخلت سے بچاؤ کےلئے پیشگی حمایت کی درخواست منظور کرنے میں اسلام آباد مخمصے کا شکار ہے۔

ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ معاملہ وزیراعظم نوازشریف کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران ایجنڈے میں سرفہرست رہا جہاں نئے سعودی فرمانرواشاہ سلمان کی جانب سے انکا بے مثال اور غیر معمولی استقبال کیا گیا۔ شاہ سلمان اپنے قریبی دوست ممالک پاکستان،مصر اورترکی سے ملکرسعودی سرحدوں کو داعش سے محفوظ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں وزیراعظم نواز شریف کے دورے کے بعد وزارت خارجہ کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک کا دہشت گردی کیخلاف مشترکہ کوششیں کرنے سمیت تمام اہم معاملات پر ایک ہی نکتہ نظر ہے۔


حکومتی عہدیدار نے تصدیق کی کہ دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سیکیورٹی تعاون بڑھانے پر گفتگو کی۔ اگرچہ حکومتی عہدیدار نے اسکی تفصیل نہیں بتائی تاہم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ریاض چاہتا ہے کہ دولت اسلامیہ کیخلاف لڑائی کے لئےاسلام آباد اپنے فوجی دستے مملکت میں بھیجے۔ایک دوسرے حکومتی اہلکار نے بتایا کہ جواب میں سعودی حکومت نے پاکستان کو اقتصادی پیکیج کی پیشکش کی ہے جس میں تیل کی موخر ادئیگیوں پر ترسیل بھی شامل ہے تاہم وزیراعظم نوازشریف نے اس درخواست پر سعودی عرب کوکوئی واضح یقین دہانی نہیں کرائی۔

حکومت ایک نئے تنازعے میں الجھنے میں بہت محتاط ہے کیونکہ اس سے پاکستان پر دور رس مضمرات ہوسکتے ہیں۔گزشتہ سال سعودی عرب،امریکا ودیگر خلیجی ممالک نے داعش کےخلاف ایک اتحاد تشکیل دیا تھا تاہم پاکستان اسکے منفی اثرات کی وجہ سے اس اتحاد میں شامل نہیں ہوا تھا۔ سیکریٹری خارجہ اعزازاحمد چوہدری نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امورکو بتایا تھاکہ پاکستان آئی ایس آئی ایس کیخلاف کسی عالمی اتحاد میں شامل نہیں ہوگا۔

پاکستان صرف اقوام متحدہ کے تحت داعش کےخلاف ہونیوالی کارروائی کی حمایت کرے گا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی داعش کے بارے پالیسی احتیاط پر مبنی ہے۔ یہ محتاط نکتہ نظر اس حقیقت پر مبنی ہے کہ داعش کےخلاف عالمی اتحاد کا حصہ بننے سے پاکستان مزید مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس میں ایک اور عنصر ایران ہے، حکومت کے سعودی شاہی خاندان کیساتھ مضبوط تعلقات ہیں تاہم حکومت نہیں چاہتی کہ وہ سعودی عرب سے بہت زیادہ منسلک نظرآئے۔ حکومتی عہدیدار نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تبدیل ہوتی علاقائی اورعالمی صورتحال پاکستان کی خارجہ پالیسی کےلئے چیلنجزلارہی ہے۔
Load Next Story