پروفیسر آفاق صدیقی کی شخصیت کا احاطہ کرنامشکل ہے مقررین
وہ بلند پایہ ادیب اورماہر لسانیات تھے، اردو اور سندھی زبان کے درمیان عظیم الشان پل تھے
آرٹس کونسل کراچی میں معروف ماہر تعلیم و لسانیات، شاعروادیب، محقق، نقاد، مترجم اور 40سے زائد کتابوں کے مصنف پروفیسر آفاق صدیقی (مرحوم) کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں مقررین نے مرحوم کو زبر دست انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔
ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اکادبیات پاکستان کے چیئر مین عبدالحمید نے کہاکہ میرا ارادہ ہے کہ آفاق صدیقی کے نام سے اپنے ادارے میں ایک کارنر منسوب کروں جہاں ان کے کاموں کو رکھا جائے، اس موقع پر حمایت علی، پروفیسر سحر انصاری، محمود احمد خان، نقاش کاظمی، عنبرین حسیب عنبر، ضیا شہزاد، پروفیسر کرم دین، تاج بلوچ، ڈاکٹر مبین مرزا، ممتاز مہر، انوار حیدر، تسنیم صدیقی، ڈاکٹر الطاف وسیم، سید مظہر الحق، خواجہ اظہار الحسن اور پروفیسر اعجاز فاروقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آفاق احمد صدیقی کی بے پایہ شخصیت کا احاطہ کرنا بڑا مشکل ہے، وہ ایک عظیم شاعر، بلند پایہ ادیب، اعلیٰ درجے کے محقق اور اس سے بڑھ کر وہ ایک معروف ماہرتعلیم اور بے مثل ماہر لسانیات تھے، اردو اور فارسی کے علاوہ انھیں ہندی اور سندھی پر بھی بڑا عبور حاصل تھا، درحقیقت وہ اردو اور سندھی کے درمیان ایک عظیم الشان پل تھے، انھوں نے ''شاہ جو رسالو'' کا خوبصورت اور رواں ترجمہ کر کے اردو والوں کو شاہ بھٹائی کے فلسفے سے روشناس کرایا۔
ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اکادبیات پاکستان کے چیئر مین عبدالحمید نے کہاکہ میرا ارادہ ہے کہ آفاق صدیقی کے نام سے اپنے ادارے میں ایک کارنر منسوب کروں جہاں ان کے کاموں کو رکھا جائے، اس موقع پر حمایت علی، پروفیسر سحر انصاری، محمود احمد خان، نقاش کاظمی، عنبرین حسیب عنبر، ضیا شہزاد، پروفیسر کرم دین، تاج بلوچ، ڈاکٹر مبین مرزا، ممتاز مہر، انوار حیدر، تسنیم صدیقی، ڈاکٹر الطاف وسیم، سید مظہر الحق، خواجہ اظہار الحسن اور پروفیسر اعجاز فاروقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آفاق احمد صدیقی کی بے پایہ شخصیت کا احاطہ کرنا بڑا مشکل ہے، وہ ایک عظیم شاعر، بلند پایہ ادیب، اعلیٰ درجے کے محقق اور اس سے بڑھ کر وہ ایک معروف ماہرتعلیم اور بے مثل ماہر لسانیات تھے، اردو اور فارسی کے علاوہ انھیں ہندی اور سندھی پر بھی بڑا عبور حاصل تھا، درحقیقت وہ اردو اور سندھی کے درمیان ایک عظیم الشان پل تھے، انھوں نے ''شاہ جو رسالو'' کا خوبصورت اور رواں ترجمہ کر کے اردو والوں کو شاہ بھٹائی کے فلسفے سے روشناس کرایا۔