یقین کے دیپ

ایک نوجوان پادری کی بڑی خواہش تھی کہ وہ ایک نئی طرزکا اسکول قائم کرے مگر اس کے لیے بڑا مسئلہ رقم کا حصول تھا۔

fnakvi@yahoo.com

ایک نوجوان پادری کی بڑی خواہش تھی کہ وہ ایک نئی طرزکا اسکول قائم کرے مگر اس کے لیے بڑا مسئلہ رقم کا حصول تھا۔اس سوچ و بچار میں دن گزر رہے تھے۔

آخر اس نے رقم حاصل کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس نے ایک لائحہ عمل تیار کیا اور اس کی تکمیل کے لیے اس نے اخبار میں اشتہار دیا کہ آنے والی اتوارکی صبح وہ ''میں ایک ملین ڈالر سے کیا کروں گا'' کے موضوع پر خطبہ دے گا۔ اتوار کو اس نے خطبہ دیا اور اپنے مقصد کے بارے میں بتایا اور ساتھ ساتھ آنے والی مشکلات کا تذکرہ کیا۔

خطبے کے اختتام کے بعد ایک شخص اس پادری کے پاس آیا اور کہا آپ کے خطبے کو میں نے بہت پسند کیا ہے آپ کل صبح میرے آفس میں تشریف لائیں میں آپ کے مقصد کے حصول میں معاون بنوںگا اور ایک ملین ڈالر کی رقم آپ کے سپرد کردوںگا۔ اس کے بعد نوجوان پادری نے آرمڈ اسکول آف ٹیکنالوجی کا آغاز کیا جوکہ ملک کی عظیم درسگاہوں میں سے ایک بن گیا۔ کسی بھی مقصد کا حصول جب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب یقین کی عظیم قوت ساتھ ہو۔

منفی خیالات خوف ذاتی خواہشات کے ساتھ پروان نہیں چڑھ سکتی یقین ایک ایسی ذہنی قوت کا نام ہے جو روح کے اندرکی تاروں کو چھیڑ کر ہر وہ کام کروا دیتی ہے جس کا حصول بظاہر ناممکن نظر آرہا ہوتا ہے، کوئی بھی خیال یا خواب ابتدا میں دیوانے کی بڑ نظر آتا ہے مگر جیسے جیسے یقین پختہ ہوتا جاتا ہے کام پایہ تکمیل کی طرف بڑھتا نظر آتا ہے۔

پاکستان کے حصول کی داستان بھی ایسی ہی ہے۔ ایک شخص کے خواب کو ہزاروں، لاکھوں لوگوں کے یقین نے عملی جامہ پہنایا کیوں کہ جیسا کہ ہم نے پچھلے پیرا گراف میں تذکرہ کیا کہ یقین صرف وہاں پرورش پاتا ہے جہاں منفی خیال کا گزر بھی نہ ہو۔ منفی خیالات یا منفی سوچ انسان کے عمل کو کمزور کردیتی ہے۔ یہ یقین ہی کہ جس نے بڑی بڑی ایجادوں کو ممکن بنایا۔ انسان جو کچھ سوچتا ہے اور جس چیز پر ایمان رکھتا ہے اس کا حصول یقین کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے۔

اکثر طالب علموں کو شکایت رہتی ہے کہ انھیں ان کی صلاحیتوں کے مطابق مارکس نہیں ملتے مگر اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو با آسانی علم ہوسکتا ہے کہ ایسے تمام طالب علم خود اپنی صلاحیتوں کے بارے میں مشکوک تھے انھیں اپنے اوپر بھروسہ ہی نہیں تھا کہ وہ بھی کچھ کرسکتے ہیں۔


یقین کی قوت انسان کو یہ باور کراتی ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکا ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جب اپنی خواہشات کے اہداف کا تعین کرتے ہیں تو دعا کے ذریعے یہ تصور قائم کرتے ہیں کہ ان مقاصد کو آپ حاصل کرچکے ہیں۔

حجاج بن یوسف ایک مرتبہ مکہ گیا وہاں دیکھا کہ نابینا شخص دعا مانگ رہا ہے کہ اس کی آنکھوں میں روشنی آجائے۔ حجاج نے اس سے پوچھا کہ تو کب سے یہ دعا مانگ رہا ہے اس شخص نے کہا آٹھ سال ہوگئے ہیں۔

حجاج نے کہاکہ اگر آج شام تک تیری آنکھوں میں روشنی نہیں آئی تو میں تجھے قتل کرا دوں گا۔ شام کو جب حجاج وہاں پہنچا تو اس کی آنکھوں میں نور اتر آیا تھا۔ حجاج نے کہا آٹھ سال تک تو بغیر کسی لگن کے صرف الفاظ سے کام لیتا رہا مگر آج جان کے خوف سے تیرے اندر سے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلی جو یقین کی دولت سے مالا مال تھی اس وجہ سے تو آج اپنی دعا کے حصول میں کامیاب ہوا۔ یہی صورت حال آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ اجتماعی طور پر کوئی مقصد ہمارے ذہنوں میں نہیں اور نہ ہی یہ یقین ہے کہ دشمنوں کے مقابلے میں ہمیں فتح نصیب ہوگی۔

سانحہ پشاور ہو یا کوئی اور سانحہ ہم زبانی طور پر تو کہتے ہیں کہ دشمن سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، یہ ہوگا، وہ ہوگا۔ ان الفاظ کی بازگشت ختم نہیں ہوتی کہ کوئی دوسرا سانحہ ہوجاتا ہے۔ اصل بات صرف یہ ہے کہ ہم دشمن سے خوف زدہ ہیں۔ ہم نے طے کرلیا ہے کہ ہم کمزور ہیں، ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور اس منفی سوچ نے ہمارے یقین کی دیواروں کو کمزور کردیا ہے آج ہر جگہ مسلمان زوال کا شکار ہیں۔ کیوں کہ ہم نے مغرب کی بالادستی کو ذہنی طور پر قبول کرلیا ہے اور حقیقت بھی یہی کہ جتنا علم، جتنی ریسرچ اس وقت مغربی ممالک میں ہورہی ہے مسلمانوں میں اس کا عشیر بھی نہیں ہے۔

تو پھر اہل مغرب کی بالادستی کیوں نہ قائم ہو یہ تو قانون قدرت ہے کہ اﷲ کے ہاں محنت کا اجر ضرور مل جاتا ہے۔ مگر مسلمانوں کی سوچ میں کہیں مسلمانوں کی برتری کا تصور بھی ناپید ہوچکا ہے۔ اخوت، مساوات، برادری کا جذبہ ختم ہوچکا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہم خود بے یقینی، خوف کے حالات میں زندہ ہیں۔ ہمارے اندر یقین کی قوت ختم نہیں بلکہ مدہم پڑچکی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم احساس کمتری کے خود ساختہ جال کو یقین کے تصور سے کاٹ دیں تاکہ ہماری آیندہ آنے والی نسلیں ایک خود دار، باشعور، بے خوف قوم کا روپ دھارسکیں۔

یقین کی قوت ساتھ ہو تو صدیوں کا سفر سالوں میں اور سالوں کا مہینوں میں طے ہوسکتا ہے۔ راہ میں آنے والی تمام تر ناکامیوں کو یہ کہہ کر قبول کیاجائے کہ یہ صرف ہماری کامیابی کی سیڑھیاں ہیں جن پر چڑھ کر ہی ہمارے مقاصد کا حصول ممکن ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مایوس قوم میں یقین کے دیپ جلاکر ایک نئی روح پھونکی جائے۔ دشمن کو گالیاں دینے اور کوسنے سے بہتر ہے کہ اپنے آپ کو مضبوط بنایاجائے تاکہ ہماری طرف کوئی آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھ سکے۔
Load Next Story