مسلم کریمیائی تاتاری کا ہولوکاسٹ
دوم غیر کریمیائی لوگوں کو بھاری تعداد میں کریمیا میں بسایا گیا جس کے لیے کئی طریقے استعمال کیے گئے
سورگون (معنی ''جلاوطنی'' بزبان کریمیائی تاتاری اور ترکی) 1944 میں کریمیا کے تاتاریوں کی موجودہ ازبکستان کی جانب ہجرت اور قتل عام کو کہا جاتا ہے۔
سوویت اتحاد میں جوزف اسٹالن کے عہد میں 17 مئی 1944 کو تمام کریمیائی باشندوں کو اس وقت کی ازبک سوویت اشتراکی جمہوریہ میں جبراً منتقل کردیا گیا تھا، اسٹالن عہد میں ملک کے خلاف مبینہ غداری کی سزا اجتماعی طور پر پوری قوموں کو دینے کی روش اپنائی گئی، جس کا نشانہ کریمیا کے تاتاری باشندے بھی بنے۔ جن پر الزام تھا کہ انھوں نے نازی جرمنوں کا ساتھ دے کر روس کے خلاف غداری کا ثبوت دیا ہے۔
اس جبری بے دخلی میں روس کے خفیہ ادارے NKVD کے 32 ہزار اہلکاروں نے حصہ لیا اور ایک لاکھ 93 ہزار 865 کریمیائی تاتاری باشندوں کو ازبک و قازق اور دیگر علاقوں میں جبراً بے دخل کیا گیا۔ اس جبری ہجرت کے دوران مئی سے نومبر کے مہینے میں دس ہزار 105 تاتاری بھوک و موسم کی شدت سے جاں بحق ہوئے جو ازبک علاقوں کی جانب منتقل کیے گئے کل باشندوں کا سات فیصد بنتا ہے۔ خفیہ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق ایک سال کے اندر اندر قریباً 30 ہزار تاتاری (کل مہاجرین کا 20 فیصد) اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جب کہ کریمیائی تاتاریوں کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ یہ تعداد 46 فیصد تھی۔
اسٹالن کے عہد میں سزا کے طور پر جبری مشقت کا نظام گولاگ Gulag)) قائم کیا گیا تھا اور سوویت دستاویز ثابت کرتی ہیں کہ کئی کریمیائی باشندوں کو اس نظام کے تحت جبری مشقت پر بھی لگایا گیا۔
جبری مشقت کے اسی نظام کے تحت کریمیا کے تاتاری اور کئی دیگر قوموں کے باشندوں کو سائبیریا بھی بھیجا گیا، کریمیا کے تاتاریوں کا مطالبہ ہے کہ سرگون کو منظم قتل عام قرار دیا جائے۔
کریمیا کے تاتاریوں کی جبری وطن بدری کی کہانی صدیوں پر محیط ہے۔ 1944 اس جبری وطن بدری کا تسلسل ہے، یہ سلسلہ 1983 سے شروع ہوا، جب روس نے کریمیا پر قبضہ کرلیا تو اس قتل عام اور جبری وطن بدری کی پردہ پوشی کی جاتی رہی مگر موجودہ دور میں روس کے ٹوٹنے کے بعد سوویت عہد کے خفیہ ادارے 'کے جی بی' کی دستاویزات سامنے آنے سے ظلم سے کچھ پردہ ہٹا، خصوصاً 1944 اور اس کے بعد کے مظالم سامنے آگئے۔
برائن گلن ولیمز کے مطابق روسی استعمار کے ظلم سے جو 1983 میں شروع ہوا تاتاری اپنے ہی وطن میں ناپید ہونے لگے۔ تاتاریوں نے دو قسم کی ہجرت کی، ایک ہجرت کریمیا سے ان علاقوں کی طرف جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کے حصہ تھے، دوسری ہجرت پچھلی صدی میں روس کی باقی ریاستوں کی طرف ہوئی، یہاں تک تاتاریوں کو جبری طور پر روس کے دیگر علاقوں کو بھیجا گیا، جن کی اکثریت کو جبری مشقت کے لیے سائبیریا لے جایا گیا۔
دوم غیر کریمیائی لوگوں کو بھاری تعداد میں کریمیا میں بسایا گیا جس کے لیے کئی طریقے استعمال کیے گئے، کریمیا سے نکالے جانے والے لوگ مسلمان تھے اور بسائے جانے والے تمام کے تمام غیر مسلم تھے۔ دراصل اس تمہید کا مقصد مسلمانوں کے اس طبقے کی جانب توجہ ممکن کرانا ہے جس سے ہمارے اٹھانوے فیصد مسلمان ناواقف ہیں۔
''جزیرہ نما کریمیا'' ازمنہ وسطیٰ (Middle ages) سے مئی 1944 تک کریمیائی تاتاری باشندوں کا وطن رہا ہے، کریمیائی مسلمان کا تعلق ترک اقوام کے اس گروہ سے تھا جو 13 ویں صدی میں باتو خان کے لشکر زریں (Golden Horde) کا حصہ تھے اور پھر انھوں نے کریمیا کو اپنا وطن بنایا۔ کریمیا کے یہ تاتاری سنی مسلمان ہیں اور ترکی زبان کا ایک لہجہ ''قچ چاق ترک'' بولتے ہیں۔
15 ویں صدی کے وسط میں یہاں کے مسلمان ایک زبردست قوت کے طور پر ابھرے اور 1428 میں انھوں نے ایک ایسی ریاست قائم کی جو ریاست خانان کریمیا کہلاتی ہے، اسے انگریزی میں خانیت کریمیا (crimean Khanatae) کہتے ہیں، یہ ریاست 1478 میں سلطنت عثمانیہ کے زیر نگین آگئی اور 1772 میں روسی قبضے کی زیر سیادت رہی۔
کیونکہ تاتاری تعلیمات ان تاتاری مسلمانوں کی زندگیوں میں اچھی طرح راسخ نہیں تھی، اس لیے وہ اپنی قوت کا غلط استعمال بھی کرتے تھے، غلاموں کے حصول کے لیے پولینڈ پر حملے اور ان کی فروخت ایک کریہہ باب ہے، تجارت کے عوض غلاموں کی واپسی کے لیے روس اور پولینڈ کی ریاستوں سے تاوان بھی وصول کیا جاتا تھا، یعنی غلاموں کی تجارت اور تاوان کی وصولی کو باقاعدہ معیشت کا درجہ بنایا ہوا تھا۔
بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ تاتاری کو سلطنت عثمانیہ کی سیادت میں جانے کے باوجود کریمیائی تاتاریوں کی ریاست باج گزار کی نہیں تھے، تعلقات بابا عالی اور خانان کے درمیان بہت خوش گوار تھے، منتخب سلطان کو قسطنطنیہ سے منظوری تو لینا پڑتی تھی تاہم وہ عثمانیوں کا مقرر کردہ نہیں ہوتا تھا۔ خانان کو اپنا سکہ چلانے اور جمعے کے خطبے میں اپنا نام شامل کرنے کی بھی اجازت تھی جو ان کی خود مختاری کی علامت سمجھی جاتی تھی۔
عثمانی عہد خانانِ کریمیا کا زرین دور تھا، خصوصاً عسکری قوت طرز پر کوئی قوت ان کا سامنا نہیں کرسکتی تھی، کریمیائی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے وہ پانچ لاکھ فوجیوں کا لشکر بھی میدان میں اتارنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ ریاست بلاشبہ اٹھارویں صدی تک مشرقی یورپ کی بڑی قوتوں میں سے ایک تھی۔
تاتاری مسلمانوں کا زوال شروع ہوا، روس نے قبضہ کیا، انھیں تارکین وطن کیا، ان کی زمینوں پر قبضہ کیا، ہزاروں مزاحمت کاروں کو ہلاک کردیا، محض چھ سال میں تاتاری مسلم علاقوں کی جانب ہجرت پر مجبور ہوئے، ہجرت کرنے والوں کی تعداد بیس لاکھ بتائی جاتی ہے۔
ان ہجرتوں کے نتیجے میں کریمیا اور ملحقہ تمام علاقہ جہاں 18 ویں صدی تک مسلمانوں کی حکومت تھی وہاں زار غالب آگئے اور مسلمان اقلیت میں آگئے، باقی آبادی جو رہ گئی جنگ عظیم دوم میں جوزف اسٹالن کے دور میں مکمل طور پر کریمیا سے بے دخل کردی گئی۔ اس مسلم آبادی کو کسی طور سقوط غرناطہ سے کم قرار نہیں دیا جاسکتا، ہاں البتہ دونوں سانحات میں فرق یہ ہے کہ کریمیا کے تاتاری مسلمانوں کے بارے میں ہم بہت کم واقف ہیں۔
آخری حربے کے طور پر عیسائیوں، غیر مقامی باشندے یعنی سلافی نسل کے عیسائیوں کو آباد کرنا شروع کردیا اور اس پر طرہ یہ کہ مقامی زمینیں ان نوآبادکاروں کو دے کر زبررستی مسلمان بنانے کی کوشش کی گئی اور درحقیقت کریمیائی مسلمانوں کو جبری ہجرت پر مجبور کرنا اسی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔
روس انقلاب میں کریمیا کے مسلمانوں نے مساوات اور مزدور دوستی کے خوشگوار نعروں سے متاثر انقلابیوں کا ساتھ دیا تھا، بعد از انقلاب مسلمانوں کو اقلیت ہونے کے باوجود کریمیا میں مراعات ملیں، حتیٰ کہ موروثیا کے عہد (Nativiation) میں انھیں جزیرہ نما کریمیا کے اصل باشندے تک قرار دے دیا گیا۔
کریمیائی تاتاری مسلمانوں پر مظالم کی تفصیلات بہت طویل ہیں لیکن موضوع سمیٹتے ہوئے اتنا کہنا چاہوں گی کہ آج ایک اندازے کے مطابق کریمیائی باشندوں کی تعداد 250,000 ہے، معروف رہنماؤں میں کریمیائی رہنما مصطفیٰ عبدالجمیل قم اوغلو (مصطفیٰ جمیلوف) کہلائے جاتے ہیں۔
Crimean Tatar National Movement Organization کے تحت کریمیائی تاتاریوں کی آبائی سرزمین پر واپسی کے لیے ایک دستخطی مہم بھی چلائی گئی تھی جس میں تیس لاکھ افراد نے دستخط کیے، یوکرین حکومت نے سوویت جرائم کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی یونٹ تشکیل دیا تھا جو قومی سلامتی کے ادارے کے ماتحت قرار دیا ہے، حالانکہ کسی کو سزا دینے کا کوئی امکان نہیں، لیکن مصطفیٰ عبدالجمیل کے مطابق اس جرم کی مکمل تصویر عوام کے سامنے لانے کے لیے تحقیقات ضروری ہے۔
کریمیا کے تاتاری ہر سال 19 مئی کو جبری ہجرت کی یاد میں دن مناتے ہیں، اس موقع پر دنیا بھر میں مقیم کریمیائی تاتاریوں کی پرامن ریلیاں منعقد ہوتی ہیں، کریمیائی تاتاریوں کا اس قتل عام کو مرگ انبوہ (ہولو کاسٹ) قرار دینے کے علاوہ یہ بھی مطالبہ ہے کہ روس سرگون کے اس قتل عام و جبری ہجرت پر معافی مانگے۔
سوویت اتحاد میں جوزف اسٹالن کے عہد میں 17 مئی 1944 کو تمام کریمیائی باشندوں کو اس وقت کی ازبک سوویت اشتراکی جمہوریہ میں جبراً منتقل کردیا گیا تھا، اسٹالن عہد میں ملک کے خلاف مبینہ غداری کی سزا اجتماعی طور پر پوری قوموں کو دینے کی روش اپنائی گئی، جس کا نشانہ کریمیا کے تاتاری باشندے بھی بنے۔ جن پر الزام تھا کہ انھوں نے نازی جرمنوں کا ساتھ دے کر روس کے خلاف غداری کا ثبوت دیا ہے۔
اس جبری بے دخلی میں روس کے خفیہ ادارے NKVD کے 32 ہزار اہلکاروں نے حصہ لیا اور ایک لاکھ 93 ہزار 865 کریمیائی تاتاری باشندوں کو ازبک و قازق اور دیگر علاقوں میں جبراً بے دخل کیا گیا۔ اس جبری ہجرت کے دوران مئی سے نومبر کے مہینے میں دس ہزار 105 تاتاری بھوک و موسم کی شدت سے جاں بحق ہوئے جو ازبک علاقوں کی جانب منتقل کیے گئے کل باشندوں کا سات فیصد بنتا ہے۔ خفیہ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق ایک سال کے اندر اندر قریباً 30 ہزار تاتاری (کل مہاجرین کا 20 فیصد) اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جب کہ کریمیائی تاتاریوں کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ یہ تعداد 46 فیصد تھی۔
اسٹالن کے عہد میں سزا کے طور پر جبری مشقت کا نظام گولاگ Gulag)) قائم کیا گیا تھا اور سوویت دستاویز ثابت کرتی ہیں کہ کئی کریمیائی باشندوں کو اس نظام کے تحت جبری مشقت پر بھی لگایا گیا۔
جبری مشقت کے اسی نظام کے تحت کریمیا کے تاتاری اور کئی دیگر قوموں کے باشندوں کو سائبیریا بھی بھیجا گیا، کریمیا کے تاتاریوں کا مطالبہ ہے کہ سرگون کو منظم قتل عام قرار دیا جائے۔
کریمیا کے تاتاریوں کی جبری وطن بدری کی کہانی صدیوں پر محیط ہے۔ 1944 اس جبری وطن بدری کا تسلسل ہے، یہ سلسلہ 1983 سے شروع ہوا، جب روس نے کریمیا پر قبضہ کرلیا تو اس قتل عام اور جبری وطن بدری کی پردہ پوشی کی جاتی رہی مگر موجودہ دور میں روس کے ٹوٹنے کے بعد سوویت عہد کے خفیہ ادارے 'کے جی بی' کی دستاویزات سامنے آنے سے ظلم سے کچھ پردہ ہٹا، خصوصاً 1944 اور اس کے بعد کے مظالم سامنے آگئے۔
برائن گلن ولیمز کے مطابق روسی استعمار کے ظلم سے جو 1983 میں شروع ہوا تاتاری اپنے ہی وطن میں ناپید ہونے لگے۔ تاتاریوں نے دو قسم کی ہجرت کی، ایک ہجرت کریمیا سے ان علاقوں کی طرف جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کے حصہ تھے، دوسری ہجرت پچھلی صدی میں روس کی باقی ریاستوں کی طرف ہوئی، یہاں تک تاتاریوں کو جبری طور پر روس کے دیگر علاقوں کو بھیجا گیا، جن کی اکثریت کو جبری مشقت کے لیے سائبیریا لے جایا گیا۔
دوم غیر کریمیائی لوگوں کو بھاری تعداد میں کریمیا میں بسایا گیا جس کے لیے کئی طریقے استعمال کیے گئے، کریمیا سے نکالے جانے والے لوگ مسلمان تھے اور بسائے جانے والے تمام کے تمام غیر مسلم تھے۔ دراصل اس تمہید کا مقصد مسلمانوں کے اس طبقے کی جانب توجہ ممکن کرانا ہے جس سے ہمارے اٹھانوے فیصد مسلمان ناواقف ہیں۔
''جزیرہ نما کریمیا'' ازمنہ وسطیٰ (Middle ages) سے مئی 1944 تک کریمیائی تاتاری باشندوں کا وطن رہا ہے، کریمیائی مسلمان کا تعلق ترک اقوام کے اس گروہ سے تھا جو 13 ویں صدی میں باتو خان کے لشکر زریں (Golden Horde) کا حصہ تھے اور پھر انھوں نے کریمیا کو اپنا وطن بنایا۔ کریمیا کے یہ تاتاری سنی مسلمان ہیں اور ترکی زبان کا ایک لہجہ ''قچ چاق ترک'' بولتے ہیں۔
15 ویں صدی کے وسط میں یہاں کے مسلمان ایک زبردست قوت کے طور پر ابھرے اور 1428 میں انھوں نے ایک ایسی ریاست قائم کی جو ریاست خانان کریمیا کہلاتی ہے، اسے انگریزی میں خانیت کریمیا (crimean Khanatae) کہتے ہیں، یہ ریاست 1478 میں سلطنت عثمانیہ کے زیر نگین آگئی اور 1772 میں روسی قبضے کی زیر سیادت رہی۔
کیونکہ تاتاری تعلیمات ان تاتاری مسلمانوں کی زندگیوں میں اچھی طرح راسخ نہیں تھی، اس لیے وہ اپنی قوت کا غلط استعمال بھی کرتے تھے، غلاموں کے حصول کے لیے پولینڈ پر حملے اور ان کی فروخت ایک کریہہ باب ہے، تجارت کے عوض غلاموں کی واپسی کے لیے روس اور پولینڈ کی ریاستوں سے تاوان بھی وصول کیا جاتا تھا، یعنی غلاموں کی تجارت اور تاوان کی وصولی کو باقاعدہ معیشت کا درجہ بنایا ہوا تھا۔
بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ تاتاری کو سلطنت عثمانیہ کی سیادت میں جانے کے باوجود کریمیائی تاتاریوں کی ریاست باج گزار کی نہیں تھے، تعلقات بابا عالی اور خانان کے درمیان بہت خوش گوار تھے، منتخب سلطان کو قسطنطنیہ سے منظوری تو لینا پڑتی تھی تاہم وہ عثمانیوں کا مقرر کردہ نہیں ہوتا تھا۔ خانان کو اپنا سکہ چلانے اور جمعے کے خطبے میں اپنا نام شامل کرنے کی بھی اجازت تھی جو ان کی خود مختاری کی علامت سمجھی جاتی تھی۔
عثمانی عہد خانانِ کریمیا کا زرین دور تھا، خصوصاً عسکری قوت طرز پر کوئی قوت ان کا سامنا نہیں کرسکتی تھی، کریمیائی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے وہ پانچ لاکھ فوجیوں کا لشکر بھی میدان میں اتارنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ ریاست بلاشبہ اٹھارویں صدی تک مشرقی یورپ کی بڑی قوتوں میں سے ایک تھی۔
تاتاری مسلمانوں کا زوال شروع ہوا، روس نے قبضہ کیا، انھیں تارکین وطن کیا، ان کی زمینوں پر قبضہ کیا، ہزاروں مزاحمت کاروں کو ہلاک کردیا، محض چھ سال میں تاتاری مسلم علاقوں کی جانب ہجرت پر مجبور ہوئے، ہجرت کرنے والوں کی تعداد بیس لاکھ بتائی جاتی ہے۔
ان ہجرتوں کے نتیجے میں کریمیا اور ملحقہ تمام علاقہ جہاں 18 ویں صدی تک مسلمانوں کی حکومت تھی وہاں زار غالب آگئے اور مسلمان اقلیت میں آگئے، باقی آبادی جو رہ گئی جنگ عظیم دوم میں جوزف اسٹالن کے دور میں مکمل طور پر کریمیا سے بے دخل کردی گئی۔ اس مسلم آبادی کو کسی طور سقوط غرناطہ سے کم قرار نہیں دیا جاسکتا، ہاں البتہ دونوں سانحات میں فرق یہ ہے کہ کریمیا کے تاتاری مسلمانوں کے بارے میں ہم بہت کم واقف ہیں۔
آخری حربے کے طور پر عیسائیوں، غیر مقامی باشندے یعنی سلافی نسل کے عیسائیوں کو آباد کرنا شروع کردیا اور اس پر طرہ یہ کہ مقامی زمینیں ان نوآبادکاروں کو دے کر زبررستی مسلمان بنانے کی کوشش کی گئی اور درحقیقت کریمیائی مسلمانوں کو جبری ہجرت پر مجبور کرنا اسی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔
روس انقلاب میں کریمیا کے مسلمانوں نے مساوات اور مزدور دوستی کے خوشگوار نعروں سے متاثر انقلابیوں کا ساتھ دیا تھا، بعد از انقلاب مسلمانوں کو اقلیت ہونے کے باوجود کریمیا میں مراعات ملیں، حتیٰ کہ موروثیا کے عہد (Nativiation) میں انھیں جزیرہ نما کریمیا کے اصل باشندے تک قرار دے دیا گیا۔
کریمیائی تاتاری مسلمانوں پر مظالم کی تفصیلات بہت طویل ہیں لیکن موضوع سمیٹتے ہوئے اتنا کہنا چاہوں گی کہ آج ایک اندازے کے مطابق کریمیائی باشندوں کی تعداد 250,000 ہے، معروف رہنماؤں میں کریمیائی رہنما مصطفیٰ عبدالجمیل قم اوغلو (مصطفیٰ جمیلوف) کہلائے جاتے ہیں۔
Crimean Tatar National Movement Organization کے تحت کریمیائی تاتاریوں کی آبائی سرزمین پر واپسی کے لیے ایک دستخطی مہم بھی چلائی گئی تھی جس میں تیس لاکھ افراد نے دستخط کیے، یوکرین حکومت نے سوویت جرائم کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی یونٹ تشکیل دیا تھا جو قومی سلامتی کے ادارے کے ماتحت قرار دیا ہے، حالانکہ کسی کو سزا دینے کا کوئی امکان نہیں، لیکن مصطفیٰ عبدالجمیل کے مطابق اس جرم کی مکمل تصویر عوام کے سامنے لانے کے لیے تحقیقات ضروری ہے۔
کریمیا کے تاتاری ہر سال 19 مئی کو جبری ہجرت کی یاد میں دن مناتے ہیں، اس موقع پر دنیا بھر میں مقیم کریمیائی تاتاریوں کی پرامن ریلیاں منعقد ہوتی ہیں، کریمیائی تاتاریوں کا اس قتل عام کو مرگ انبوہ (ہولو کاسٹ) قرار دینے کے علاوہ یہ بھی مطالبہ ہے کہ روس سرگون کے اس قتل عام و جبری ہجرت پر معافی مانگے۔