بھارت سے دوستی کے رنگین غبارے اورحقائق
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی یہ قومی پالیسی ہے کہ وہ پاکستان کو جنوبی ایشیا میں باجگزارریاست توبرداشت کرسکتے ہیں
ہمارے سنجیدہ اور تجربہ کار مشیرخارجہ جناب سرتاج عزیز فرماتے ہیں کہ اٹل بہاری واجپائی کے دورہ پاکستان کے بعد پاک بھارت مذاکرات آگے بڑھ رہے تھے کہ کارگل کا سانحہ ہوگیا جس کے بعد پاکستان میں مشرف کا مارشل لاآگیا اوربات چیت کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ اسی طرح من موہن سنگھ پاکستان آنا چاہتے تھے کہ ممبئی حملوں اور اجمل قصاب کے واقعے کی وجہ یہ سلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔ پاک بھارت مذاکرات منقطع ہونے کی جو وجوہات سرتاج عزیز نے بیان کی ہیں' بھارتی سرکار کا موقف بھی کم وبیش ایسا ہی رہا ہے حالانکہ حقائق کچھ اور ہیں۔
پاک بھارت تعلقات کی المناک کہانی ایسی سادہ نہیں کہ آسانی سے سمجھ آسکے جس میں قیام پاکستان کے بعد سے ایسے نازک مقامات آئے کہ بھارتی نیتاؤں کی بدنیتی کھل کر سامنے آجاتی ہے ۔ جواہرلعل نہروجیسے روشن خیال اورترقی پسند رہنما نے تو گاندھی جی کو بھی برداشت نہیں کیا تھا جو اثاثوں کی تقسیم کے معاملے پر پاکستان کی حق تلفی کوبرداشت نہیں کر سکا تھا۔
پاکستان کے لیے مرن بھرت رکھنے پر مہاتما گاندھی کو قتل کرادیا گیا اور بعض حلقے یہ رائے بھی رکھتے ہیں کہ یہ قتل جواہر لعل نہرو کی آشیرباد سے ہوا تھا۔ یہ وہی نہروتھے جو غیر جانبدار تحریک کے بانی مبانی اور سوشلسٹ نظریات کے حامل گردانے جاتے تھے لیکن چین سے فوجی شکست کاصدمہ برداشت نہ کرسکے اور اسی صدمے سے ان کی صحت گرتی چلی گئی اور وہ انتقال کر گئے۔ یہ باتیں کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نام نہاد روشن خیال کانگریسی قیادت ہویا پھر بی جے پی کی اعلانیہ انتہا پسند رام راج اور ہندوتوا کے پرچارک نیتا پاکستان کے بارے میں ان کی حکمت عملی اور رویوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
جناب سرتاج عزیز نے یہ بھی فرمایا کہ پاک فوج اورمنتخب جمہوری حکومت میں چین، افغانستان اور بھارت سے تعلقات کے حوالے سے مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے جب کہ وفاقی کابینہ میں خارجہ تعلقات کے حوالے سے ہم آہنگی اور اتفاق رائے کایہ عالم ہے کہ ہمارے وزیر دفاع خواجہ آصف پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کے دستاویزی ثبوتوں کی موجودگی کا ذکرکرچکے ہیں۔ وہ بلوچستان میں جاری بغاوت میں بھارتی پشت پناہی اور سرمایہ کاری کی کہانیاں بھی کھل کربیان کررہے ہیں۔
ادھرہمارے ایک وفاقی وزیر جناب ریاض حسین پیرزادہ نے وطن عزیز میںجاری فرقہ وارانہ کشیدگی کے حوالے سے پاکستان کے ایک خیرخواہ ملک کا نام لیا ہے' سنا ہے کہ اس سے حکمرانوں کو بھی پریشانی ہوئی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب دوستی کا دعویٰ کرنے والے اپنا مفاد سامنے رکھتے ہیں تو پھر بھارت کیسے پاکستان کا دوست بن جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی یہ قومی پالیسی ہے کہ وہ پاکستان کو جنوبی ایشیا میں باجگزارریاست توبرداشت کرسکتے ہیں لیکن برابری کی سطح پر کسی کوبھی گواراکرنا ممکن نہیں ۔ پاکستان سے تو انھیں خصوصی تعلق خاطرہے جسے وہ بھارت ماتا کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں اور اکھنڈ بھارت کی منزل کا حصول ان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی پتھر ہے۔ یہ امن کی باتیں، یہ تجارت کے خوبصورت اوررنگین غبارے ،یہ دوستی کے دعوے سب دھوکا اور فریب نظر سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
جہلم کے فرزند، اندرکمار گجرال، کھلے ڈلے پنجابی فلاسفر ،جو مختصر وقفے کے لیے بھارت کے وزیراعظم بنے جناب وزیراعظم نواز شریف سے ان کے قریبی تعلقات استوار ہوگئے۔وزارت عظمی سے فراغت کے بعد تنگ نظر اور متعصب بھارتی اسٹیبلشمنٹ کاذکر کرتے ہوئے انھوں نے انٹرویو میں انکشاف کیاتھا کہ ''را''ان کے فون ٹیپ کرواتی تھی اور اسلام آباد سے آنے والی طویل ٹیلی فون کالوں کی وجہ سے مجھے یہ خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ کہیں مجھے گرفتارنہ کرلیا جائے۔
بھارت کو جب بھی موقع ملے گا وہ پاکستان سے اپنا 'حساب کتاب'چکانے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرے گا۔ اس لیے زیادہ خوش فہمی کی ضرورت نہیں ،رہا کشمیر، پانی کا تنازعہ اور سیاچن آپ بخوشی لایعنی اور بے معنی مذاکرات ،مذاکرات کھیلتے رہیں بھارت کو آپ سے صرف براستہ کابل وسط ایشیا تک زمینی رسائی چاہیے' وہ اس یک نکاتی ایجنڈے پر کامیابی سے آگے بڑھ رہاہے کہ آج پاکستان میں دانشوروں اور حکمران کی اکثریت بھارت سے نفسیاتی شکست تسلیم کر چکی ہے۔
ہم انھیں دونوں ہاتھوں سے راہداری کی سہولتیں دینے پر آمادہ اور تیار ہیں کہ لاہور ،اسلام آباد اور پشاور موٹروے توہم نے بنائی ہی اس مقصد کے لیے تھی۔وہ توبھلا ہو قومی سلامتی کے نگہبان اداروں کا جوان خواہشوں کے سامنے سیسہ پلائی دیواربنے ہوئے ہیںورنہ پاکستان بھی کب کا بھوٹان ،نیپال یا پھر مالدیپ بن چکا ہوتا۔
خواب اورخواہشیں' جینے کا حوصلہ دیتے ہیں آگے بڑھنے کی تمنا کو زندہ وبیدار رکھتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم پسپا ہوکر دیوار سے لگ جائیں اور دشمن کے بے بنیاد الزامات کو حقائق مان کر دہرانا شروع کردیں۔ سچی بات ہے' مجھے بڑا دکھ ہوا کہ کارگل ،ممبئی حملوں، سرحد پار سے دراندازی جیسی بار بار دہرائی جانے والی اوٹ پٹانگ کہانیوں کوآج ہم خود اسلام آباد میں دہرا رہے ہیں۔
حرف آخر یہ کہ آزاد خود مختارپاکستان بھارتی نیتاؤں کو گوارا نہیں اس میں روشن خیال کانگریس اورانتہا پسند بی جے پی میں کو ئی استثنیٰ نہیںفیصلہ اب ہم نے کرنا ہے کہ ہم برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں یاپھرخدانخواستہ باج گزاربننے کو آمادہ ہوچکے ہیں۔ آج پاکستان دوراہے پر کھڑا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری وزارت خارجہ کے کھلاڑی پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کیا کرتے ہیں۔ بھارتی بہت کایاں ہیں، ان سے جیتنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
پاک بھارت تعلقات کی المناک کہانی ایسی سادہ نہیں کہ آسانی سے سمجھ آسکے جس میں قیام پاکستان کے بعد سے ایسے نازک مقامات آئے کہ بھارتی نیتاؤں کی بدنیتی کھل کر سامنے آجاتی ہے ۔ جواہرلعل نہروجیسے روشن خیال اورترقی پسند رہنما نے تو گاندھی جی کو بھی برداشت نہیں کیا تھا جو اثاثوں کی تقسیم کے معاملے پر پاکستان کی حق تلفی کوبرداشت نہیں کر سکا تھا۔
پاکستان کے لیے مرن بھرت رکھنے پر مہاتما گاندھی کو قتل کرادیا گیا اور بعض حلقے یہ رائے بھی رکھتے ہیں کہ یہ قتل جواہر لعل نہرو کی آشیرباد سے ہوا تھا۔ یہ وہی نہروتھے جو غیر جانبدار تحریک کے بانی مبانی اور سوشلسٹ نظریات کے حامل گردانے جاتے تھے لیکن چین سے فوجی شکست کاصدمہ برداشت نہ کرسکے اور اسی صدمے سے ان کی صحت گرتی چلی گئی اور وہ انتقال کر گئے۔ یہ باتیں کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نام نہاد روشن خیال کانگریسی قیادت ہویا پھر بی جے پی کی اعلانیہ انتہا پسند رام راج اور ہندوتوا کے پرچارک نیتا پاکستان کے بارے میں ان کی حکمت عملی اور رویوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
جناب سرتاج عزیز نے یہ بھی فرمایا کہ پاک فوج اورمنتخب جمہوری حکومت میں چین، افغانستان اور بھارت سے تعلقات کے حوالے سے مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے جب کہ وفاقی کابینہ میں خارجہ تعلقات کے حوالے سے ہم آہنگی اور اتفاق رائے کایہ عالم ہے کہ ہمارے وزیر دفاع خواجہ آصف پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کے دستاویزی ثبوتوں کی موجودگی کا ذکرکرچکے ہیں۔ وہ بلوچستان میں جاری بغاوت میں بھارتی پشت پناہی اور سرمایہ کاری کی کہانیاں بھی کھل کربیان کررہے ہیں۔
ادھرہمارے ایک وفاقی وزیر جناب ریاض حسین پیرزادہ نے وطن عزیز میںجاری فرقہ وارانہ کشیدگی کے حوالے سے پاکستان کے ایک خیرخواہ ملک کا نام لیا ہے' سنا ہے کہ اس سے حکمرانوں کو بھی پریشانی ہوئی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب دوستی کا دعویٰ کرنے والے اپنا مفاد سامنے رکھتے ہیں تو پھر بھارت کیسے پاکستان کا دوست بن جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی یہ قومی پالیسی ہے کہ وہ پاکستان کو جنوبی ایشیا میں باجگزارریاست توبرداشت کرسکتے ہیں لیکن برابری کی سطح پر کسی کوبھی گواراکرنا ممکن نہیں ۔ پاکستان سے تو انھیں خصوصی تعلق خاطرہے جسے وہ بھارت ماتا کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں اور اکھنڈ بھارت کی منزل کا حصول ان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی پتھر ہے۔ یہ امن کی باتیں، یہ تجارت کے خوبصورت اوررنگین غبارے ،یہ دوستی کے دعوے سب دھوکا اور فریب نظر سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
جہلم کے فرزند، اندرکمار گجرال، کھلے ڈلے پنجابی فلاسفر ،جو مختصر وقفے کے لیے بھارت کے وزیراعظم بنے جناب وزیراعظم نواز شریف سے ان کے قریبی تعلقات استوار ہوگئے۔وزارت عظمی سے فراغت کے بعد تنگ نظر اور متعصب بھارتی اسٹیبلشمنٹ کاذکر کرتے ہوئے انھوں نے انٹرویو میں انکشاف کیاتھا کہ ''را''ان کے فون ٹیپ کرواتی تھی اور اسلام آباد سے آنے والی طویل ٹیلی فون کالوں کی وجہ سے مجھے یہ خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ کہیں مجھے گرفتارنہ کرلیا جائے۔
بھارت کو جب بھی موقع ملے گا وہ پاکستان سے اپنا 'حساب کتاب'چکانے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرے گا۔ اس لیے زیادہ خوش فہمی کی ضرورت نہیں ،رہا کشمیر، پانی کا تنازعہ اور سیاچن آپ بخوشی لایعنی اور بے معنی مذاکرات ،مذاکرات کھیلتے رہیں بھارت کو آپ سے صرف براستہ کابل وسط ایشیا تک زمینی رسائی چاہیے' وہ اس یک نکاتی ایجنڈے پر کامیابی سے آگے بڑھ رہاہے کہ آج پاکستان میں دانشوروں اور حکمران کی اکثریت بھارت سے نفسیاتی شکست تسلیم کر چکی ہے۔
ہم انھیں دونوں ہاتھوں سے راہداری کی سہولتیں دینے پر آمادہ اور تیار ہیں کہ لاہور ،اسلام آباد اور پشاور موٹروے توہم نے بنائی ہی اس مقصد کے لیے تھی۔وہ توبھلا ہو قومی سلامتی کے نگہبان اداروں کا جوان خواہشوں کے سامنے سیسہ پلائی دیواربنے ہوئے ہیںورنہ پاکستان بھی کب کا بھوٹان ،نیپال یا پھر مالدیپ بن چکا ہوتا۔
خواب اورخواہشیں' جینے کا حوصلہ دیتے ہیں آگے بڑھنے کی تمنا کو زندہ وبیدار رکھتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم پسپا ہوکر دیوار سے لگ جائیں اور دشمن کے بے بنیاد الزامات کو حقائق مان کر دہرانا شروع کردیں۔ سچی بات ہے' مجھے بڑا دکھ ہوا کہ کارگل ،ممبئی حملوں، سرحد پار سے دراندازی جیسی بار بار دہرائی جانے والی اوٹ پٹانگ کہانیوں کوآج ہم خود اسلام آباد میں دہرا رہے ہیں۔
حرف آخر یہ کہ آزاد خود مختارپاکستان بھارتی نیتاؤں کو گوارا نہیں اس میں روشن خیال کانگریس اورانتہا پسند بی جے پی میں کو ئی استثنیٰ نہیںفیصلہ اب ہم نے کرنا ہے کہ ہم برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں یاپھرخدانخواستہ باج گزاربننے کو آمادہ ہوچکے ہیں۔ آج پاکستان دوراہے پر کھڑا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری وزارت خارجہ کے کھلاڑی پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کیا کرتے ہیں۔ بھارتی بہت کایاں ہیں، ان سے جیتنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔