’’بے جوڑ نکاح‘‘
وی پی سنگھ اور ان کی جماعت زوال کا شکار بنی تو مفتی صاحب نے بھی انھیں داغِ مفارقت دے دیا
غالباً جنوری 2015ء کے آخری دنوں میں،انھی صفحات پر، ہم نے لکھا تھا کہ اگر مقبوضہ کشمیر میں پی ڈی پی کے سربراہ مفتی محمد سعید بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب ہوگئے تو وہ پاکستان کے لیے دوسرے حامد کرزئی ثابت ہوں گے۔ اب ایسا ہوتا ہوا صاف نظر آرہا ہے۔ 79سالہ مفتی محمد سعید مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ بن گئے ہیں۔ انھیں ''بی جے پی'' کو اقتدار میں غالب حصہ دیناپڑا ہے۔
مفتی محمد سعید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا کوئی سیاسی ایمان نہیں۔ اقتدار میں رہنا اور جائز و ناجائز طریقوں سے اقتدار کا حصول ہی ان کا ''ایمان''ہے۔ ابتدا میں وہ ''مسلم نیشنل کانفرنس'' سے وابستہ ہوئے جسے مقبوضہ کشمیر کی مقبول ترین پارٹی کہا جاتا تھا۔ چونکہ ان دنوں اس جماعت پر شیخ عبداللہ خاندان کی اجارہ داری اور گرفت تھی اور یہی خاندان عموماً اقتدار پر قابض رہتا تھا، اس لیے مفتی صاحب شب و روز شیخ خاندان کی تعریف و تحسین کی مالا جھپتے رہتے تھے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کابینہ کا حصہ بھی بنائے گئے مگر کچھ عرصہ بعد جب حالات نے پلٹا کھایا اور شیخ خاندان پر ادبار اور غبار چھا گیا تو مفتی جی ''نیشنل کانگریس'' میں شامل ہوگئے۔ اور چونکہ کانگریس پر نہرو خاندان قابض تھا اور وہی اقتدار کا ضامن سمجھا جاتا تھا، اس لیے مفتی محمد سعید نے اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور سونیا گاندھی کی عظمت و تقدیس کا پرچم بلند رکھنا اپنا وظیفۂ حیات بنا لیا۔ اندرا گاندھی قتل ہوگئیں تو مقبوضہ کشمیر کے یہ صاحب چھلانگ مار کر ''جنتادَل'' میں جا شامل ہوئے۔
جس کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ بھارتی دلتوں اور دیگر پسے ہوئے سماجی طبقات کے بارے میں مثبت سوچ رکھنے والی یہ پارٹی اب بھارتی اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھا ہی چاہتی ہے۔ زیادہ دیر نہیں گزری کہ وی پی سنگھ کی وزارتِ عظمیٰ اور قیادت میں یہ پارٹی برسرِ اقتدار آگئی۔ مفتی صاحب کو اس حکومت میں مرکزی وزیرِ داخلہ مقرر کیا گیا۔ بھارت کی جملہ حکومتوں میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ کسی مسلمان کو وزارتِ داخلہ کے تخت پر بٹھایا گیا۔
اس کا ایک معنی یہ بھی تھاکہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ مفتی سعید کو پوری طرح اپنے ڈھب پر لا چکی تھی اور وہ اس کے مقاصد پورے کرنے پر دل و جان سے تیار بھی تھے۔ ابھی انھیں وزیربنے صرف ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ ان کی منجھلی 23سالہ بیٹی ربیعہ سعید، جو میڈیکل ایجوکیشن کے آخری سال میں تھی، مقبوضہ کشمیر کی ایک مسلح حریت پسند مجاہد جماعت (JKLF) کے ہاتھوں اغوا ہوگئی۔
پانچ روز بعد وہ باعزت طریقے سے رہا کردی گئی لیکن اس کے بدلے پانچ اہم ترین مجاہدینِ کشمیر، جو ناجائز طور پر بھارتی جیلوں میں قید کیے گئے تھے، کو رہا کرنا پڑا۔ (رہائی کی شرائط طے کرنے کے لیے وزیرخارجہ آئی کے گجرال کو دہلی سے اور لندن سے وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کو سری نگر آنا پڑا تھا) یہ واقعہ مفتی صاحب کے لیے شرمندگی کا باعث تو تھا لیکن انھوں نے لوگوں کی ہمدردیوں میں اسے پوری طرح کیش بھی کرایا۔
وی پی سنگھ اور ان کی جماعت زوال کا شکار بنی تو مفتی صاحب نے بھی انھیں داغِ مفارقت دے دیا اور چھلانگ لگا کر پھر سے ''کانگریس'' میں شامل ہوگئے کہ اب کانگریس پھر اقتدار میں آتی نظر آرہی تھی۔ اس بار انھیں مقبوضہ کشمیر اور بھارت بھر میں ''تھالی کا بینگن'' تو ضرور کہا گیا لیکن مفتی جی نے خاموشی اختیار کیے رکھی اور اپنی دنیا میں مگن رہے۔ ان کا ضمیر غالباً انھیں ضرور کچوکے دیتا رہا ہوگا اور آئے روز کی سیاسی قلا بازیاں بھی ان کے باطن پر بوجھ بن گئی ہوں گی۔
اسی وجہ سے انھوں نے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا اور ایک روز ''پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی'' (پی ڈی پی) کی باقاعدہ بنیادیں رکھ دی گئیں۔ مفتی سعید کی تین بیٹیاں ہیں: محبوبہ مفتی، ربیعہ مفتی اور محمودہ مفتی۔ سیاسی طور پر محبوبہ مفتی سب سے زیادہ متحرک ہیں۔ اس پارٹی کی جڑیں لگانے اور اسے مقبول بنانے میں بلا شبہ محبوبہ نے اَن تَھک کام کیا ہے اور وہی آج کل اس مقتدر جماعت کا اصل محور سمجھی جاتی ہیں۔
مفتی سعید مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ تو بن گئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آیا وہ کشمیر کی الگ شناخت قائم رکھنے اور تنازعہ کشمیر کے کسی حل تک پہنچنے میں معاون ثابت ہوسکیں گے؟ اور کیا بی جے پی، جو ہمیشہ سے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کرنے کا اعلان کرتی رہی ہے، مفتی صاحب کی ساتھی اور ساجھی بن سکے گی؟ کہا جارہا ہے کہ ''بی جے پی'' اور ''پی ڈی پی'' میں سوائے ''پی'' کے کوئی شئے مشترک نہیں۔ ایسے میں چھ سال تک یہ بیل کیسے منڈھے چڑھتی رہے گی؟ مقبوضہ کشمیر میں اگست 2014ء کے تباہ کن سیلاب سے جو لاکھوں کشمیری متاثر ہو چکے ہیں۔
ان کے مہیب مسائل بھی مفتی سعید کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ بی جے پی اپنے وزیراعظم نریندر مودی اور اپنے سربراہ امیت شاہ کی سرکردگی میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370، جو مقبوضہ کشمیر کے الگ اور خصوصی اسٹیٹس کی بات کرتا ہے، کے خاتمے کا تہیہ کیے بیٹھی ہے جب کہ مفتی صاحب اس آرٹیکل کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں۔
بی جے پی مقبوضہ کشمیر میں قابض چھ سات لاکھ بھارتی افواج کے مستقل قیام پر زور دیتی اور اس کے مسلم کش ہتھکنڈوں کو قانونی حیثیت دیتی ہے جب کہ کشمیری اور خود وزیراعلیٰ مفتی صاحب اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں۔ مفتی محمد سعید یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت کو (مقبوضہ) کشمیر کے حوالے سے پاکستان سے بات کرنی چاہے۔ وہ ''اگر شمالی کوریا اور جنوبی کوریا میں مکالمہ ہوسکتا ہے تو پاکستان اور بھارت میں کیوں نہیں؟'' ایسی عجیب منطق کا سہارا بھی لیتے دکھائی دیتے ہیں لیکن بی جے پی بھارت سے کشمیر کی الگ حیثیت یا استصوابِ رائے کے پس منظر میں بات چیت کرنے کی سخت مخالف ہے۔
وہ مقبوضہ کشمیر کو بھارتی یونین کے اندر ہی کوئی حیثیت دینے کی بات تو کرتی ہے لیکن کشمیر، جنت نظیر کو ہاتھ سے جاتے نہیں دیکھ سکتی۔ یہ احساس بی جے پی کے منشور اور دستور کا جزوِ ناگزیر ہے۔ ایسے میں حریت پسند کشمیری جماعتیں اور کشمیر کو بھارتی پنجۂ استبداد سے نجات حاصل کرنے کا خواب دیکھنے والے اکثریتی کشمیری نئے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ سے کیسے کوئی مثبت توقع وابستہ کرسکتے ہیں؟ بھارت کے نامور قانون دان، دانشور اور تجزیہ نگار جناب عبدالغفور نورانی (المعروف اے جی نورانی) نے اپنے آرٹیکل میں مقبوضہ کشمیر کی تازہ سیاسی صورتحال کو ''بے جوڑ نکاح''سے تعبیر کیا ہے۔
یہ اصطلاح خاصی بلیغ بھی ہے اور گہرے پیغام کی حامل بھی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اگر کبھی امن کا کوئی پائیدار اور مستقل راستہ نکلنا ہے تو اسی مسئلہ کشمیر کے حل کے اندر سے نکلنا ہے؛ چنانچہ پاکستان کے حکام پر بھی لازم ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے اس ''بے جوڑ نکاح'' کو ہمیشہ اپنے پیشِ نگاہ رکھیں۔
مفتی محمد سعید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا کوئی سیاسی ایمان نہیں۔ اقتدار میں رہنا اور جائز و ناجائز طریقوں سے اقتدار کا حصول ہی ان کا ''ایمان''ہے۔ ابتدا میں وہ ''مسلم نیشنل کانفرنس'' سے وابستہ ہوئے جسے مقبوضہ کشمیر کی مقبول ترین پارٹی کہا جاتا تھا۔ چونکہ ان دنوں اس جماعت پر شیخ عبداللہ خاندان کی اجارہ داری اور گرفت تھی اور یہی خاندان عموماً اقتدار پر قابض رہتا تھا، اس لیے مفتی صاحب شب و روز شیخ خاندان کی تعریف و تحسین کی مالا جھپتے رہتے تھے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کابینہ کا حصہ بھی بنائے گئے مگر کچھ عرصہ بعد جب حالات نے پلٹا کھایا اور شیخ خاندان پر ادبار اور غبار چھا گیا تو مفتی جی ''نیشنل کانگریس'' میں شامل ہوگئے۔ اور چونکہ کانگریس پر نہرو خاندان قابض تھا اور وہی اقتدار کا ضامن سمجھا جاتا تھا، اس لیے مفتی محمد سعید نے اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور سونیا گاندھی کی عظمت و تقدیس کا پرچم بلند رکھنا اپنا وظیفۂ حیات بنا لیا۔ اندرا گاندھی قتل ہوگئیں تو مقبوضہ کشمیر کے یہ صاحب چھلانگ مار کر ''جنتادَل'' میں جا شامل ہوئے۔
جس کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ بھارتی دلتوں اور دیگر پسے ہوئے سماجی طبقات کے بارے میں مثبت سوچ رکھنے والی یہ پارٹی اب بھارتی اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھا ہی چاہتی ہے۔ زیادہ دیر نہیں گزری کہ وی پی سنگھ کی وزارتِ عظمیٰ اور قیادت میں یہ پارٹی برسرِ اقتدار آگئی۔ مفتی صاحب کو اس حکومت میں مرکزی وزیرِ داخلہ مقرر کیا گیا۔ بھارت کی جملہ حکومتوں میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ کسی مسلمان کو وزارتِ داخلہ کے تخت پر بٹھایا گیا۔
اس کا ایک معنی یہ بھی تھاکہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ مفتی سعید کو پوری طرح اپنے ڈھب پر لا چکی تھی اور وہ اس کے مقاصد پورے کرنے پر دل و جان سے تیار بھی تھے۔ ابھی انھیں وزیربنے صرف ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ ان کی منجھلی 23سالہ بیٹی ربیعہ سعید، جو میڈیکل ایجوکیشن کے آخری سال میں تھی، مقبوضہ کشمیر کی ایک مسلح حریت پسند مجاہد جماعت (JKLF) کے ہاتھوں اغوا ہوگئی۔
پانچ روز بعد وہ باعزت طریقے سے رہا کردی گئی لیکن اس کے بدلے پانچ اہم ترین مجاہدینِ کشمیر، جو ناجائز طور پر بھارتی جیلوں میں قید کیے گئے تھے، کو رہا کرنا پڑا۔ (رہائی کی شرائط طے کرنے کے لیے وزیرخارجہ آئی کے گجرال کو دہلی سے اور لندن سے وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کو سری نگر آنا پڑا تھا) یہ واقعہ مفتی صاحب کے لیے شرمندگی کا باعث تو تھا لیکن انھوں نے لوگوں کی ہمدردیوں میں اسے پوری طرح کیش بھی کرایا۔
وی پی سنگھ اور ان کی جماعت زوال کا شکار بنی تو مفتی صاحب نے بھی انھیں داغِ مفارقت دے دیا اور چھلانگ لگا کر پھر سے ''کانگریس'' میں شامل ہوگئے کہ اب کانگریس پھر اقتدار میں آتی نظر آرہی تھی۔ اس بار انھیں مقبوضہ کشمیر اور بھارت بھر میں ''تھالی کا بینگن'' تو ضرور کہا گیا لیکن مفتی جی نے خاموشی اختیار کیے رکھی اور اپنی دنیا میں مگن رہے۔ ان کا ضمیر غالباً انھیں ضرور کچوکے دیتا رہا ہوگا اور آئے روز کی سیاسی قلا بازیاں بھی ان کے باطن پر بوجھ بن گئی ہوں گی۔
اسی وجہ سے انھوں نے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا اور ایک روز ''پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی'' (پی ڈی پی) کی باقاعدہ بنیادیں رکھ دی گئیں۔ مفتی سعید کی تین بیٹیاں ہیں: محبوبہ مفتی، ربیعہ مفتی اور محمودہ مفتی۔ سیاسی طور پر محبوبہ مفتی سب سے زیادہ متحرک ہیں۔ اس پارٹی کی جڑیں لگانے اور اسے مقبول بنانے میں بلا شبہ محبوبہ نے اَن تَھک کام کیا ہے اور وہی آج کل اس مقتدر جماعت کا اصل محور سمجھی جاتی ہیں۔
مفتی سعید مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ تو بن گئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آیا وہ کشمیر کی الگ شناخت قائم رکھنے اور تنازعہ کشمیر کے کسی حل تک پہنچنے میں معاون ثابت ہوسکیں گے؟ اور کیا بی جے پی، جو ہمیشہ سے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کرنے کا اعلان کرتی رہی ہے، مفتی صاحب کی ساتھی اور ساجھی بن سکے گی؟ کہا جارہا ہے کہ ''بی جے پی'' اور ''پی ڈی پی'' میں سوائے ''پی'' کے کوئی شئے مشترک نہیں۔ ایسے میں چھ سال تک یہ بیل کیسے منڈھے چڑھتی رہے گی؟ مقبوضہ کشمیر میں اگست 2014ء کے تباہ کن سیلاب سے جو لاکھوں کشمیری متاثر ہو چکے ہیں۔
ان کے مہیب مسائل بھی مفتی سعید کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ بی جے پی اپنے وزیراعظم نریندر مودی اور اپنے سربراہ امیت شاہ کی سرکردگی میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370، جو مقبوضہ کشمیر کے الگ اور خصوصی اسٹیٹس کی بات کرتا ہے، کے خاتمے کا تہیہ کیے بیٹھی ہے جب کہ مفتی صاحب اس آرٹیکل کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں۔
بی جے پی مقبوضہ کشمیر میں قابض چھ سات لاکھ بھارتی افواج کے مستقل قیام پر زور دیتی اور اس کے مسلم کش ہتھکنڈوں کو قانونی حیثیت دیتی ہے جب کہ کشمیری اور خود وزیراعلیٰ مفتی صاحب اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں۔ مفتی محمد سعید یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت کو (مقبوضہ) کشمیر کے حوالے سے پاکستان سے بات کرنی چاہے۔ وہ ''اگر شمالی کوریا اور جنوبی کوریا میں مکالمہ ہوسکتا ہے تو پاکستان اور بھارت میں کیوں نہیں؟'' ایسی عجیب منطق کا سہارا بھی لیتے دکھائی دیتے ہیں لیکن بی جے پی بھارت سے کشمیر کی الگ حیثیت یا استصوابِ رائے کے پس منظر میں بات چیت کرنے کی سخت مخالف ہے۔
وہ مقبوضہ کشمیر کو بھارتی یونین کے اندر ہی کوئی حیثیت دینے کی بات تو کرتی ہے لیکن کشمیر، جنت نظیر کو ہاتھ سے جاتے نہیں دیکھ سکتی۔ یہ احساس بی جے پی کے منشور اور دستور کا جزوِ ناگزیر ہے۔ ایسے میں حریت پسند کشمیری جماعتیں اور کشمیر کو بھارتی پنجۂ استبداد سے نجات حاصل کرنے کا خواب دیکھنے والے اکثریتی کشمیری نئے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ سے کیسے کوئی مثبت توقع وابستہ کرسکتے ہیں؟ بھارت کے نامور قانون دان، دانشور اور تجزیہ نگار جناب عبدالغفور نورانی (المعروف اے جی نورانی) نے اپنے آرٹیکل میں مقبوضہ کشمیر کی تازہ سیاسی صورتحال کو ''بے جوڑ نکاح''سے تعبیر کیا ہے۔
یہ اصطلاح خاصی بلیغ بھی ہے اور گہرے پیغام کی حامل بھی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اگر کبھی امن کا کوئی پائیدار اور مستقل راستہ نکلنا ہے تو اسی مسئلہ کشمیر کے حل کے اندر سے نکلنا ہے؛ چنانچہ پاکستان کے حکام پر بھی لازم ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے اس ''بے جوڑ نکاح'' کو ہمیشہ اپنے پیشِ نگاہ رکھیں۔