رنی کوٹ سے سبق
’’رنی کوٹ‘‘ روئے زمین پر موجود سب سے بڑا قلعہ جسے ورلڈ ہیریٹیج نے شامل کر لیا ہے
''ہُو'' کے لفظ میں کچھ ایسی تاثیر ہے کہ یہ ہر اس جگہ جلوہ دکھاتا ہے جہاں خدا کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ جہاں کوئی اور شے اتنی ظاہر نہیں ہوتی جتنی ذات پروردگار کا جلوہ اور حسن و محبت نظر آتی ہے خصوصاً جب آپ دشوار گزار علاقوں میں سفر کر رہے ہوں تو ہر گزرتے ہوئے Frame میں یہ جلوہ محسوس ہوتا ہے جنوری کی سردی اور زندگی کی یہ سر مہری جہاں ہم ہیں دونوں مشکل میں مگر کیا کریں کہ مشکل پسند فطرت قدرت نے عطا فرمائی ہے لہٰذا فیصلہ ہوا کہ ''رنی کوٹ'' کو سفر کریں گے اور دیکھیں گے کہ وہاں قدرت نے کیا جلوہ فرمائیاں کر رکھی ہیں۔
''رنی کوٹ'' روئے زمین پر موجود سب سے بڑا قلعہ جسے ورلڈ ہیریٹیج نے شامل کر لیا ہے مگر ہم نے اس کی اہمیت نہیں مانی۔ ''رنی کوٹ'' قلعہ کے اور بھی کئی نام ہیں جیسے ''مومن کوٹ'' لیکن اس کا اصل نام کیا ہے اور کس نے اسے تعمیر کروایا یہ اب تک ایک سربستہ راز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے سائرس اعظم نے تعمیر کروایا۔
تعمیرات کو دیکھ کر اندازہ یہی ہوتا ہے کہ اسے کسی بہت جلیل القدر شہنشاہ نے تعمیر کروایا ہو گا۔ اس قلعے کے بارے میں جو دراصل فصیل کی صورت میں باقی ہے، مختلف اونچے اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں سے لے کر ان کے درمیان دیواریں تعمیر کی گئی ہیں پتھر کی، دیوار چین کی طرح۔ اس کی تعمیر میں اس زمانے کا مصالحہ شنگرف ٹاٹ، اور دال وغیرہ استعمال کی گئی جو آج صدیاں گزرنے کے بعد بھی موسم کے گرم و سرد کے سامنے عزم کے ساتھ پتھروں کو جوڑے موجود ہے (ایک ایسا ہی مصالحہ کاش ہماری قوم کو بھی مل جاتا آپس میں جوڑے کو)۔
بلند پہاڑوں کی چوٹیوں کے درمیان 37 کلومیٹر کے چورس علاقے میں یہ دیواریں پھیلی ہوئی ہیں اور انھوں نے اس سنگلاخ ماحول میں حیرت کا ایسا تاثر پیدا کر رکھا ہے کہ جسے دیکھ کر بے ساختہ زبان سے ''اللہ ہو'' نکل جاتا ہے۔ حیدرآباد سے 138 کلومیٹر سن کی جانب اور سن سے بالکل سامنے سن شہر کے سڑک کے اس پار کیرتھر کی پہاڑیوں میں 32 کلومیٹر دور یہ عجوبہ موجود ہے، جسے World Heritage نے قبول کر لیا ہے اب یہ دنیا کا ورثہ ہے۔
کہتے ہیں کہ اسے مختلف ادوار میں بڑھایا گیا ہے اور پھر اچانک ختم ہو گیا کام۔ ہم اس علاقے میں ایک عام کار میں گئے تھے لہٰذا دشواریاں زیادہ ہی تھیں، محکمہ آثار قدیمہ کے ایک ملازم ہمارے ساتھ رہنمائی کے لیے موجود تھے۔ مناسب ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہم بہت زیادہ علاقہ تو نہیں دیکھ سکے یہاں ہمیشہ اونچی گاڑی 4-Wheeler میں جانا چاہیے۔
میں ریڈیو کی ٹیم کے ساتھ تھا جنھوں نے وہاں ایک پروگرام ریکارڈ کرنا تھا، محمد عارف پروڈیوسر اور سمیع جمالی ساتھ تھے۔ ان دیواروں یا فصیل کی چوڑائی چھ فٹ اور اونچائی 3 فٹ ہے جو بہرحال دیوار چین جتنی نہ چوڑائی ہے نہ گہرائی نہ لمبائی۔ دیواروں کے اوپری حصے کو سیڑھیوں کی شکل میں بنایا گیا ہے تا کہ اوپر جانے کا راستہ برقرار رہے۔
نشیب و فراز کا ایک دلچسپ کھیل سا اس وادی میں پھیلا ہوا ہے۔ اس وادی میں جو برسات میں یقیناً ہری بھری ہو جاتی ہو گی کیونکہ ہم نے یہاں بھیڑ بکریوں کے نشانات دیکھے جو وہاں کم تعداد میں رہنے والے پالتے ہیں۔ اس منظر میں یہ دیواریں جو دیوار پاکستان اور دیوار سندھ بھی کہلاتی ہیں ایک عجیب حیرت کا مقام پیدا کرتی ہیں۔ اس علاقے میں بے انتہا پراسراریت ہے جیسے کوئی ابھی ابھی کام کرتے کرتے اٹھ کر چلا گیا ہو؟ دنیا کو سرائے فانی یوں ہی تو نہیں کہا گیا۔ احساس یہاں قدم قدم پر موجود ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم زیادہ علاقہ نہیں دیکھ سکے پر جو دیکھا وہ مدتوں ذہن سے محو نہ ہو گا۔
جیسے جیسے آگے بڑھتے جائیں پتھروں کا رنگ تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ چٹانوں اور پہاڑوں کی ساخت بدل جاتی ہے کہیں یوں لگتا ہے کہ ابھی ابھی اس پہاڑ سے ایک ٹکڑا الگ ہوا ہے، کہیں فاسلز موجود ہیں، درخت جو اب پتھروں میں تبدیل ہو گئے۔ کوئی چٹان لگتا ہے کبھی کوئی سمندری مخلوق رہی ہو گی۔
ہم اوپر بھی گئے، مین گیٹ سے داخل ہو کر جہاں ریسٹ ہاؤس تعمیر کیا گیا ہے۔ راستہ سخت دشوار گزار تھا کیونکہ اس راستے پر دو پل پہاڑیوں کے درمیان تعمیر کیے گئے ہیں۔ ایک نامکمل ہے اس پر صرف Slabs بچھانے ہیں کسی سابقہ وزیراعلیٰ کے دور میں تعمیر ہوئے۔ ٹھیکیدار کا حصہ عملہ ہضم کر گیا۔ Payment نہیں ہوئی وہ Slab بھی اٹھا کر لے گیا۔
ڈھانچہ فریادی ہے کوئی سننے والا دیکھنے والا نہیں ہے۔ اس وجہ سے کہا تھا کہ World Heritage نے تو ہمیں قبول کر لیا، تم خود اپنی چیز کی قدر نہیں کر رہے شاید کسی کو خیال آ جائے کہ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ سندھ میں ہے۔ یہ سندھ کی ناموری ہے، پاکستان کی ناموری ہے۔ یہاں حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں، کوئی عملہ نہیں تو دنیا کے سیاح یہاں آ کر کیا کرینگے؟ کوئی سمجھے تو یہ ہمارا تاج محل ہے۔
سنا ہے کہ پہلے تو یہ سڑک بھی نہیں تھی، جو اب بھی سڑک نام پر محض ایک ''کالی لکیر'' ہے۔ پوری وادی میں ایسا سکوت ہے جیسے ہر شے آنیوالوں کو دیکھ کر تھم گئی ہے۔ جس گیٹ سے ہم داخل ہوئے وہ سن گیٹ ہے، چاروں طرف تین اور ایسے گیٹ ہیں جن کے نام آمری گیٹ، موہن گیٹ اور شاہ پیر گیٹ ہیں۔ یہ دراصل مشرق، مغرب، شمال، جنوب کی طرف سے یہاں داخل ہونے کے راستے ہیں۔
دنیا بھر کے اسکالر یہاں آئے اور سیمینار ہوئے مگر یہ نہ طے ہو سکا کہ یہ قلعہ کس دور میں کس نے تعمیر کروایا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ عام طور پر دو ہی وجوہات ہوتی ہیں جو تعمیرات کرواتی ہیں محبت یا نفرت۔ کہتے ہیں کہ محبت نے تاج محل تعمیر کروایا اور نفرت نے شاید دیواریں تعمیر کروائیں، نفرت ہمیشہ دیواریں تعمیر کرواتی ہے، یہاں اونچے اونچے پہاڑوں کے قدموں میں پڑے پتھروں میں قدرت کے انمول راز اور خزانے پوشیدہ ہیں۔ یہاں پر ''پریوں کا تالاب'' نامی ایک خوبصورت جگہ ہے جہاں پراسراریت اپنے کمال پر موجود ہے۔
رنی کوٹ دیواروں کا ایک حصار ہے جس نے انسانوں کو انسانوں سے شاید درندوں سے بھی محفوظ رکھا ہو گا۔ اوپر ایک قلعہ ''شیرگڑھ'' کے نام سے تھا جو نظر آ رہا تھا سب سے بلند پراسرار۔ وہاں کا صرف پیدل دشوار گزار راستہ تھا، پانی ساتھ لے جانا بھول گئے تھے وہاں جانے کا Risk نہیں لیا۔''رنی کوٹ'' تمام تر خوبصورتی کے باوجود ایک ''جائے عبرت'' بھی ہے۔ یہ سندھ کے ''اہرام'' ہیں۔ ان کی قدر کرنی چاہیے۔ سبق لینا چاہیے ان سے کہ انسان کتنا طاقتور اور کتنا کمزور ہے۔
''رنی کوٹ'' روئے زمین پر موجود سب سے بڑا قلعہ جسے ورلڈ ہیریٹیج نے شامل کر لیا ہے مگر ہم نے اس کی اہمیت نہیں مانی۔ ''رنی کوٹ'' قلعہ کے اور بھی کئی نام ہیں جیسے ''مومن کوٹ'' لیکن اس کا اصل نام کیا ہے اور کس نے اسے تعمیر کروایا یہ اب تک ایک سربستہ راز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے سائرس اعظم نے تعمیر کروایا۔
تعمیرات کو دیکھ کر اندازہ یہی ہوتا ہے کہ اسے کسی بہت جلیل القدر شہنشاہ نے تعمیر کروایا ہو گا۔ اس قلعے کے بارے میں جو دراصل فصیل کی صورت میں باقی ہے، مختلف اونچے اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں سے لے کر ان کے درمیان دیواریں تعمیر کی گئی ہیں پتھر کی، دیوار چین کی طرح۔ اس کی تعمیر میں اس زمانے کا مصالحہ شنگرف ٹاٹ، اور دال وغیرہ استعمال کی گئی جو آج صدیاں گزرنے کے بعد بھی موسم کے گرم و سرد کے سامنے عزم کے ساتھ پتھروں کو جوڑے موجود ہے (ایک ایسا ہی مصالحہ کاش ہماری قوم کو بھی مل جاتا آپس میں جوڑے کو)۔
بلند پہاڑوں کی چوٹیوں کے درمیان 37 کلومیٹر کے چورس علاقے میں یہ دیواریں پھیلی ہوئی ہیں اور انھوں نے اس سنگلاخ ماحول میں حیرت کا ایسا تاثر پیدا کر رکھا ہے کہ جسے دیکھ کر بے ساختہ زبان سے ''اللہ ہو'' نکل جاتا ہے۔ حیدرآباد سے 138 کلومیٹر سن کی جانب اور سن سے بالکل سامنے سن شہر کے سڑک کے اس پار کیرتھر کی پہاڑیوں میں 32 کلومیٹر دور یہ عجوبہ موجود ہے، جسے World Heritage نے قبول کر لیا ہے اب یہ دنیا کا ورثہ ہے۔
کہتے ہیں کہ اسے مختلف ادوار میں بڑھایا گیا ہے اور پھر اچانک ختم ہو گیا کام۔ ہم اس علاقے میں ایک عام کار میں گئے تھے لہٰذا دشواریاں زیادہ ہی تھیں، محکمہ آثار قدیمہ کے ایک ملازم ہمارے ساتھ رہنمائی کے لیے موجود تھے۔ مناسب ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہم بہت زیادہ علاقہ تو نہیں دیکھ سکے یہاں ہمیشہ اونچی گاڑی 4-Wheeler میں جانا چاہیے۔
میں ریڈیو کی ٹیم کے ساتھ تھا جنھوں نے وہاں ایک پروگرام ریکارڈ کرنا تھا، محمد عارف پروڈیوسر اور سمیع جمالی ساتھ تھے۔ ان دیواروں یا فصیل کی چوڑائی چھ فٹ اور اونچائی 3 فٹ ہے جو بہرحال دیوار چین جتنی نہ چوڑائی ہے نہ گہرائی نہ لمبائی۔ دیواروں کے اوپری حصے کو سیڑھیوں کی شکل میں بنایا گیا ہے تا کہ اوپر جانے کا راستہ برقرار رہے۔
نشیب و فراز کا ایک دلچسپ کھیل سا اس وادی میں پھیلا ہوا ہے۔ اس وادی میں جو برسات میں یقیناً ہری بھری ہو جاتی ہو گی کیونکہ ہم نے یہاں بھیڑ بکریوں کے نشانات دیکھے جو وہاں کم تعداد میں رہنے والے پالتے ہیں۔ اس منظر میں یہ دیواریں جو دیوار پاکستان اور دیوار سندھ بھی کہلاتی ہیں ایک عجیب حیرت کا مقام پیدا کرتی ہیں۔ اس علاقے میں بے انتہا پراسراریت ہے جیسے کوئی ابھی ابھی کام کرتے کرتے اٹھ کر چلا گیا ہو؟ دنیا کو سرائے فانی یوں ہی تو نہیں کہا گیا۔ احساس یہاں قدم قدم پر موجود ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم زیادہ علاقہ نہیں دیکھ سکے پر جو دیکھا وہ مدتوں ذہن سے محو نہ ہو گا۔
جیسے جیسے آگے بڑھتے جائیں پتھروں کا رنگ تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ چٹانوں اور پہاڑوں کی ساخت بدل جاتی ہے کہیں یوں لگتا ہے کہ ابھی ابھی اس پہاڑ سے ایک ٹکڑا الگ ہوا ہے، کہیں فاسلز موجود ہیں، درخت جو اب پتھروں میں تبدیل ہو گئے۔ کوئی چٹان لگتا ہے کبھی کوئی سمندری مخلوق رہی ہو گی۔
ہم اوپر بھی گئے، مین گیٹ سے داخل ہو کر جہاں ریسٹ ہاؤس تعمیر کیا گیا ہے۔ راستہ سخت دشوار گزار تھا کیونکہ اس راستے پر دو پل پہاڑیوں کے درمیان تعمیر کیے گئے ہیں۔ ایک نامکمل ہے اس پر صرف Slabs بچھانے ہیں کسی سابقہ وزیراعلیٰ کے دور میں تعمیر ہوئے۔ ٹھیکیدار کا حصہ عملہ ہضم کر گیا۔ Payment نہیں ہوئی وہ Slab بھی اٹھا کر لے گیا۔
ڈھانچہ فریادی ہے کوئی سننے والا دیکھنے والا نہیں ہے۔ اس وجہ سے کہا تھا کہ World Heritage نے تو ہمیں قبول کر لیا، تم خود اپنی چیز کی قدر نہیں کر رہے شاید کسی کو خیال آ جائے کہ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ سندھ میں ہے۔ یہ سندھ کی ناموری ہے، پاکستان کی ناموری ہے۔ یہاں حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں، کوئی عملہ نہیں تو دنیا کے سیاح یہاں آ کر کیا کرینگے؟ کوئی سمجھے تو یہ ہمارا تاج محل ہے۔
سنا ہے کہ پہلے تو یہ سڑک بھی نہیں تھی، جو اب بھی سڑک نام پر محض ایک ''کالی لکیر'' ہے۔ پوری وادی میں ایسا سکوت ہے جیسے ہر شے آنیوالوں کو دیکھ کر تھم گئی ہے۔ جس گیٹ سے ہم داخل ہوئے وہ سن گیٹ ہے، چاروں طرف تین اور ایسے گیٹ ہیں جن کے نام آمری گیٹ، موہن گیٹ اور شاہ پیر گیٹ ہیں۔ یہ دراصل مشرق، مغرب، شمال، جنوب کی طرف سے یہاں داخل ہونے کے راستے ہیں۔
دنیا بھر کے اسکالر یہاں آئے اور سیمینار ہوئے مگر یہ نہ طے ہو سکا کہ یہ قلعہ کس دور میں کس نے تعمیر کروایا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ عام طور پر دو ہی وجوہات ہوتی ہیں جو تعمیرات کرواتی ہیں محبت یا نفرت۔ کہتے ہیں کہ محبت نے تاج محل تعمیر کروایا اور نفرت نے شاید دیواریں تعمیر کروائیں، نفرت ہمیشہ دیواریں تعمیر کرواتی ہے، یہاں اونچے اونچے پہاڑوں کے قدموں میں پڑے پتھروں میں قدرت کے انمول راز اور خزانے پوشیدہ ہیں۔ یہاں پر ''پریوں کا تالاب'' نامی ایک خوبصورت جگہ ہے جہاں پراسراریت اپنے کمال پر موجود ہے۔
رنی کوٹ دیواروں کا ایک حصار ہے جس نے انسانوں کو انسانوں سے شاید درندوں سے بھی محفوظ رکھا ہو گا۔ اوپر ایک قلعہ ''شیرگڑھ'' کے نام سے تھا جو نظر آ رہا تھا سب سے بلند پراسرار۔ وہاں کا صرف پیدل دشوار گزار راستہ تھا، پانی ساتھ لے جانا بھول گئے تھے وہاں جانے کا Risk نہیں لیا۔''رنی کوٹ'' تمام تر خوبصورتی کے باوجود ایک ''جائے عبرت'' بھی ہے۔ یہ سندھ کے ''اہرام'' ہیں۔ ان کی قدر کرنی چاہیے۔ سبق لینا چاہیے ان سے کہ انسان کتنا طاقتور اور کتنا کمزور ہے۔