ہم نے مسکرانا نہیں چھوڑا

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مذہب کی آڑ میں طاقت حاصل کرنے والے جنونی ہوتے ہیں۔

خلیل جبران نے کہا تھا قابل رحم ہے وہ قوم جس کی آواز ماتمی جلوس کے سوا کبھی سنائی نہ دے جو اپنے کھنڈروں پر فخر کرتی ہو اور صرف اس وقت سنبھلنے اور ابھر نے کی کوشش کرے جب اس کا سر تن سے جدا کرنے کے لیے تلوار اور لکڑی کے درمیان رکھا جا چکا ہو۔

ٹولاوز میں جین کا لاز نامی ایک پرو ٹسٹنٹ اپنے کنبے کے ساتھ رہتا تھا اس کی ایک دکان تھی ایک دن کالاز کا بیٹا مایوسی کے عالم میں دکان گیا اور چھت سے رسہ باندھ کر خودکشی کر لی گھر والوں کو جب پتہ چلا تو انھوں نے اسے فوراً نیچے اتارا اور ڈاکٹر کو بلایا ڈاکٹر کے آنے سے پہلے ہی لڑکا ختم ہو چکا تھا اس وقت خود کشی کرنے والوں کے لیے فرانس کا قانون بہت سخت تھا۔

خودکشی کر نے والے کی لاش کو ننگا کر کے گلیوں میں گھسیٹا جاتا تھا اور آخر میں لاش کو پھانسی دے دی جاتی تھی اس لیے بیٹے کی لا ش کو بے حر متی سے بچانے کے لیے جین کا لاز نے اس کو قدرتی موت بتا کر دفنانے کی کوشش کی لیکن معاملہ کھل گیا اور پولیس پہنچ گئی۔ کسی کیتھولک نے یہ افوہ پھیلا دی کہ لڑکا کیتھولک عقیدہ قبول کر چکا تھا لہذا اسے اس کے پروٹسٹنٹ گھرانے نے قتل کر دیا بغیر سوچے سمجھے سچائی کو جانے بغیر جین کالاز اور اس کے اہل خانہ کو گرفتار کر لیا گیا اور ان پر مقدمہ چلایا گیا اور اس کے بیٹے کو کیتھولک سمجھتے ہوئے نہایت عزت و احترام کے ساتھ دفنایا گیا۔

عدالت کے لیے کالاز کا پروٹسٹنٹ ہونا ہی کافی تھا۔ سارے گھرانے کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اپیل کی گئی جس میں باقی گھر والوں کو معافی دے دی گئی اور صرف جین کالاز کی پھانسی کی سزا برقرار رکھی گئی لیکن مکمل ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے یہ حکم دیا گیا کہ تشدد کے ذریعے کالاز سے اقبال جرم کرایا جائے۔ کالاز پر انسانیت سوز بھیانک تشدد کیا گیا اس کے بازوؤں اور ٹانگوں میں رسے باندھ کر اس قدر کھینچا گیا کہ ہڈیوں کے سارے جوڑ ٹوٹ گئے پھر پانی کا مشکیزہ زبردستی اس کے حلق میں اتارا گیا کالاز یہ مسلسل کہتا رہا کہ وہ بے قصور ہے لیکن اسے عوام کے سامنے گرجا گھر کے آگے صلیب پر چڑھا دیا گیا اور اس کے ہر ہر جوڑ میں لوہے کی میخیں ٹھونکی گئیں۔

کالاز حضرت عیسیٰ کو پکارتا رہا اور عدالت کے نمایندے مسلسل قہقہے لگا تے رہے پھر اس کی لاش کو پھانسی دی گئی اور آخر میں اس کی لاش کو جلا دیا گیا۔ کالاز کی جملہ جائیداد ضبط کر لی گئی اس کا خاندان منتشر ہو گیا لیکن کالاز کی ایک بیٹی کسی طرح والیٹر تک پہنچ گئی۔

سارا واقعہ سننے کے بعد والیٹر تڑپ اٹھا اس کی ساری ظرافت ہوا بن کے اڑ گئی۔ اس نے مسکرانا بھی چھوڑ دیا مذہب کی آڑ میں بربریت کی انتہا اور لوگوں کی خاموشی تماش بینی دیکھ کر پختہ تہیہ کر لیا کہ وہ یورپ کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگائے گا اور کالازکو بے گنا ہ قرار دلوائے گا وہ اپنے قلم کی ساری توانائیاں استعمال کرتے ہوئے پمفلٹ لکھنے لگا اور تمام با ضمیر لکھاریوں سے اپیل کی کہ وہ اس کا ساتھ دیں پوری دنیا سے چندے کی اپیل بھی کی۔


جس کا اسے بھر پور رد عمل ملا انگلستان کی ملکہ روس کی شہزادی اور پولینڈ کے بادشاہ نے بھی چندہ بھیجا اور بڑے بڑے وکیل بلا معاوضہ والیٹر کا ساتھ دینے لگے۔ والیٹر کے پمفلٹ آج بھی انسانی آزادی اور رواداری کی بہترین دستاویز ہیں اور وہ سب محفوظ ہیں اس نے لکھا تھا ''ہر انسان کو حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنی عقل کے مطابق زندگی گزارے اور عقل کے مطابق ایمان اختیار کر ے اگر آپ اقلیتی فرقے اور مذہب کو غلط سمجھ کر مٹا دینا چاہتے ہیں تو پھر آپ اپنے آباؤاجداد اور ابتدائی عیسائیوں کی بے حرمتی کرتے ہیں کیونکہ اس وقت یہ عیسائی بھی اقلیت میں تھے۔

مذہبی تعصب ایک جرم ہے اور اس کا علاج رواداری ہے'' تین سال کی مسلسل اور ان تھک جدوجہد کے بعد اعلیٰ عدالت نے کالاز کو بے گنا ہ قرار دے دیا اور اس کی جائیداد لوٹا دی، والٹیئر اس دن خو شی سے رو دیا۔ یہ تھا والٹیئر جس نے مذہبی بربریت اور وحشیانہ عمل کے خلاف مسکرانا چھوڑ دیا تھا۔ اور ایک ہم ہیں کہ ہمارے سیکڑوں معصوم بچوں کو وحشیانہ طریقوں سے قتل کر دیا گیا لیکن ہم نے مسکرانا نہیں چھوڑا، مسجدوں، امام بارگاہوں، مندروں، گر جا گھروں کو انسانی خون سے رنگین کر دیا گیا لیکن ہم نے پھر بھی مسکرانا نہیں چھوڑا، جنازوں پر خو د کش حملے کیے گئے مزاروں کو مسمار کر دیا گیا بازاروں اور سٹرکوں کو خون سے لال کر دیا گیا اس کے باوجود ہم نے مسکرانا نہیں چھوڑا۔

ہماری بہادر مسلح افواج کے بہادر سپاہیوں کو شہید کر کے ان کی بے حرمتی کی گئی لیکن ہم نے مسکرانا نہیں چھوڑا معصوم اور بے گناہ ہزاروں ہم وطنوں کو مذہب کے نام پر قتل کر دیا گیا لیکن ہم نے مسکرانا نہیں چھوڑا، آپ ہی بتائیں اسے کیا کہا جائے آیا بے حسی کہا جائے یا بے ضمیری۔

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے رویے جانوروں سے بھی زیادہ بدتر ہو چکے ہیں کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم صرف چلتی پھرتی زندہ لاشیں بن چکے ہیں کیا جو کچھ جین کالاز کے ساتھ ہوا وہ ہی سب کچھ کیا آج ہمارے سماج میں نہیں ہو رہا ہے کیا جھوٹی افواہوں کے ذریعے بستیاں کی بستیاں نہیں جلائی جا رہی ہیں کیا معصوم اور بے گناہ انسانوں کو مذہب کی آڑ میں جلایا نہیں جا رہا ہے کیا دوسرا عقیدہ رکھنا ہمارے سماج میں جرم نہیں بن کے رہ گیا ہے، کیا مخصوص عقیدہ رکھنے والے دوسرے تمام عقیدے رکھنے والوں کوکافر قرار نہیں دے رہے ہیں، کیا ان کی زندگیاں دوزخ نہیں بنا دی گئی ہیں۔

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مذہب کی آڑ میں طاقت حاصل کرنے والے جنونی ہوتے ہیں۔ یاد رکھو اگر آپ مذہبی جنونیوں کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہوئے تو اگلا نمبر آپ ہی کا ہو گا۔ اگر آپ اپنے موجودہ حالات کے ساتھ سمجھوتا کر چکے ہیں تو خوش رہیے اگر نہیں تو پھر اٹھیں ان کے خلاف جنہوں نے آپ کی زندگی جہنم بنا کے رکھ دی ہے۔

یاد رہے کہ صرف آپ کے اٹھنے کی دیر ہے پھر دیکھیں کس طرح آپ کی زندگی میں آزادی، خوشحالی، ترقی، مسرت اور خوشیاں چپکے سے آ جائیں گی کیونکہ مذہبی تعصب ایک جرم ہے اور اس کا علاج رواداری ہے۔
Load Next Story