یہ توکرکٹ نہیں

پاکستان میں خواہ کرکٹ ہو یا سیاست میرٹ کا کم ہی خیال رکھا جاتا ہے۔

پاکستان میں خواہ کرکٹ ہو یا سیاست میرٹ کا کم ہی خیال رکھا جاتا ہے۔ آئی سی سی ورلڈ کپ سے کچھ ہی پہلے ہمارے ریگولر اوپنر محمد حفیظ کو انجری ہو گئی' وہ جلد ہی اچھے ہو کر کھیل سکتے تھے لیکن انھیں سرے سے ہی ڈراپ کر دیا گیا تا کہ ناصر جمشید کو ان کے متبادل کے طور پر بھجوایا جا سکے حالانکہ ان کے آخری ٹیسٹ کا اسکور صرف 15 تھا اور میدان میں لڑکھڑاتے ہوئے انھوں نے چند کیچ بھی چھوڑ دیے جس قسم کی فیلڈنگ کا انھوں نے مظاہرہ کیا اس کی بنیاد پر تو انھیں کسی اچھے اسکول کی کرکٹ ٹیم میں بھی شامل نہیں کیا جا سکتا تھا۔

وقار یونس کی اس بنا پر مذمت کرنا کہ انھوں نے سرفراز کو ذاتی وجوہ کی بنا پر ٹیم سے باہر رکھا درست نہیں لیکن جب مصباح سے پوچھا گیا کہ سرفراز کو کیوں اوپنر کے طور پر استعمال نہیں کیا جا رہا تو ان کا جواب بھی تلخی آمیز تھا اس کے علاوہ حفیظ کو گھر واپس بھیج دیا گیا اور ان کی جگہ عمر اکمل کو بلایا گیا جن کا اضافی کام وکٹ کیپنگ بھی تھا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ بعض آسان کیچ بھی نہ پکڑ سکے۔ سعید اجمل کو آئی سی سی نے باؤلنگ پر اعتراض کی بنا پر بین کر دیا۔

اس پابندی کو ختم کرانے کے لیے سعید اجمل نے بھرپور جدوجہد کی اور تین ماہ میں 12ہزار ڈلیوریاں کیں جو کہ پانچ سال میں ان کے باؤلنگ کی تعداد سے بھی زیادہ تھیں۔ جب یہ ڈلیوری کا معاملہ صاف ہو گیا تب بھی انھیں میچ میں شامل نہیں کیا گیا اس بنا پر کہ وہ میچ کی پریکٹس میں نہیں۔ آفریدی بھی اس دباؤ کا شکار ہے کہ وہ زیادہ وکٹیں حاصل کرے۔

پاکستانی کھلاڑیوں نے 2013ء اور 2014ء میں سب سے زیادہ رنز بنائے تھے۔ فواد عالم بائیں بازو سے باؤلنگ کراتے ہوئے جو اسپن دیتا تھا اس نے ٹیم کو اضافی فائدہ دیا لیکن لگتا ہے جب سے وقار یونس نے کوچ کا منصب سنبھالا تو اس کو فارغ کر دیا گیا۔ کیا اس میں وقار یونس کی ٹیم کے سابق کوچ انتخاب عالم کے ساتھ کسی تلخی کا دخل تو نہیں جو فواد کے والد ہیں۔

دوسری طرف اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وقار یونس نے ٹیم کی حملہ آور قوت کو فیصلہ کن بنا دیا ہے جس کا مظاہرہ ہم نے زمبابوے اور جنوبی افریقہ کے خلاف میچوں میں دیکھا۔ تصور کریں اگر محمد عامر اور جنید خان کا متبادل بھی ہمیں حاصل ہوتا تو ہماری ٹیم کس قدر مضبوط ہو جاتی۔ سمیع عالم اور بابر زمان مصباح کی جگہ لے سکتے ہیں جو کہ 40 سال سے تجاوز کر چکے ہیں۔ یونس خان 35 سے متجاوز ہیں تو اس صورت میں کیا مصباح پاکستانی ٹیم کو جیت سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔

مصباح کو عام طور پر پیار سے ٹک ٹک کا نام دیا جاتا ہے۔ وہ ایسے موقعوں پر بھی ٹک ٹک کا مظاہرہ کرتے ہیں جب ٹیم کو تیز رفتاری سے رنز کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر آپ کو یاد ہو تو گزشتہ ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف ہمارے میچ کا تصور ذہن میں لائیں اس موقع پر مصباح ایک ہیرو کی طرح محسوس ہوئے تھے جنہوں نے پاکستان کی ٹیم کو شکست سے بچا لیا۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے یہ کپتان اگلے ورلڈ کپ کے بعد ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیں۔ سرفراز نے ان لوگوں کو مناسب جواب دیا ہے جنہوں نے ان کی بیٹنگ پر اعتراض کیے اور یہ کہا کہ کیا وہ اوپننگ کھلاڑی کے طور پر کھیل سکتا ہے تاہم انھوں نے ورلڈ کپ میں کیچز لینے کا ایک ریکارڈ قائم کر دیا ہے حالانکہ اس سے قبل سرفراز کی حوصلہ شکنی کی جا رہی تھی۔

پاکستانی اور غیر ملکی کرکٹر جن میں گواسکر' میک گراتھ' چیپل' ہیڈلی' بائیکاٹ' رمیز راجہ اور میاں داد وغیرہ شامل ہیں پوچھ رہے تھے کہ اس کو اوریجنل لائن اپ میں شامل کیوں نہیں کیا گیا۔ جن لوگوں نے برسرعام اس کی مخالفت کی تھی وہ یقیناً اب اسے اپنی غلطی تسلیم کر رہے ہوں گے۔


ہر کرکٹ ٹیم کو ایک توازن کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جو ہو گیا وہ ہو گیا ہم یہ الزام نہیں لگا سکتے کہ بہترین ٹیم کو کیوں نہیں بھیجا گیا، آنے والے میچوں کے لیے درست توازن قائم رکھنے کی خاطر ہمیں اپنے باصلاحیت نوجوان صہیب مقصود کو چھوڑنا پڑ سکتا ہے جنہوں نے ابھی تک ورلڈ کپ میں کسی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور شاید وہ یاسر شاہ کے ساتھ کھیل کر بالآخر آفریدی کا جوڑ بننا چاہتے ہیں۔ مصباح اینکر کو چھوڑ سکتے ہیں لیکن یہ کام انھیں بیٹنگ ٹیم کے نیچے کی طرف سے کرنا ہو گا۔

ہمارے پاس صلاحیت کی کمی نہیں جیسا کہ ہم نے زمبابوے اور جنوبی افریقہ کے خلاف میچوں میں دکھایا ہے۔ سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ کو بھی خود پر اعتماد ہونا چاہیے اور ذاتی پسند و نا پسند سے قطع نظر میرٹ کا خیال رکھا جانا چاہیے لیکن جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ پاکستان ایسی جگہ ہے جہاں پر میرٹ کو کوئی خاص وقعت نہیں دی جاتی۔

میرٹ کی اس حیثیت کا اندازہ سینیٹ کے انتخابات سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی اسمبلی کی نشستوں کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر ہے اس کے باوجود زرداری صاحب نے بڑی ہوشیاری سے رضا ربانی کو سینیٹ کے چیئرمین کے انتہائی اہم منصب پر منتخب کرا دیا ہے۔

گو کہ ان پر کرپشن کا الزام بھی لگتا ہے لیکن انھوں نے اپنی دولت کو اس قدر ذہانت کے ساتھ استعمال کیا ہے کہ ان کے لیے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں پاکستان کے ایک بہت سینئر اور محترم وکیل کہتے ہیں کہ زیادہ تر پاکستانی اس بات کو سچ مانتے ہیں کہ پاکستان میں رائج جمہوریت کی زیادہ اچھے لفظوں میں تعریف نہیں کی جا سکتی۔

پیپلز پارٹی کی طرف سے رضا ربانی کی نامزدگی ایک خوشگوار حیرت تھی کیونکہ اس سے پہلے اس ضمن میں رحمان ملک صاحب کا نام لیا جا رہا تھا لیکن زرداری صاحب کو احساس تھا کہ رحمان ملک کی نامزدگی سے بعض اتحادی پارٹیاں کھل کر عدم اتفاق کریں گی جب کہ رضا ربانی کو جائز طور پر آزاد خیال سمجھا جا رہا ہے اور یہ بات بھی قابل حیرت ہے کہ وہ اتنا طویل عرصہ تک پارٹی میں کس طور شامل رہے۔

رضا ربانی اصولوں کے آدمی ہیں لہٰذا انھیں پانچ مارچ کو ہونے والے سینیٹ کے الیکشن پر عاید کیے گئے الزامات کے بارے میں مکمل چھان بین کرنی چاہیے باالخصوص اس بات پر کہ کے پی کے میں انتخاب کی اجازت کیوں نہیں دی گئی۔ اس طرح ایک ادارے کی حیثیت سے سینیٹ کا تقدس بحال ہو جائے گا۔

پاکستان میں اہلیت صلاحیت اور مہارت کی کوئی کمی نہیں خواہ یہ کرکٹ ہو یا سیاست لیکن افسوس کی بات ہی ہے کہ یہ ساری خوبیاں صرف ذاتی حیثیت کو مدنظر رکھ کر استعمال کی جاتی ہیں۔ سیاستدان اپنی طاقت کو زیادہ سے زیادہ امیر ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں خواہ یہ سیاست ہو یا کرکٹ ہم میرٹ کا زیادہ خیال نہیں رکھتے۔

اقربا پروری بھی ہمارے اصولوں کی زد میں آ جاتی ہے۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں وزیراعظم میاں نواز شریف کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ جنہوں نے پی سی بی کے چیئرمین کو ہدایت کی کہ وکٹ کیپر سرفراز کو کھلایا جائے اب سرفراز پر منحصر ہے کہ وہ پاکستانی ٹیم کی فتح میں اپنا کیا کردار ادا کرتا ہے۔
Load Next Story