چینی عورت اور ہماری کفِ پائے فکر میں زنجیر
یہ ایک حقیقت ہے کہ جس جس سماج نے ترقی کی ہے وہاں وہاں پہلے خواتین کو بحیثیت انسان شناخت دی گئی ہے
یہ ایک حقیقت ہے کہ جس جس سماج نے ترقی کی ہے وہاں وہاں پہلے خواتین کو بحیثیت انسان شناخت دی گئی ہے۔ ترقی یافتہ ریاستوں کی ترقی کے رازوں کی خوشبو ہواؤں کے ساتھ بہتی ہوئی نسائی موسموں کی ثمر آور داستان گھر گھر پھیلا چکی ہے۔ مغربی و یورپی ریاستوں کے یہ ترقی یافتہ سماج چین کی ترقی کو اس طرح حسرت سے دیکھتے ہیں، جیسے ترقی پزیر ممالک مغربی ریاستوں کو دیکھتے ہیں۔
چین کی اس کی بڑھتی ہوئی ترقی اور طاقت نے ان کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، جب چین کی نسل تنگ و تاریک گلیوں میں افیون اور نشے میں خود سے بے خبر پڑی ہوتی تھی۔ چین کی گلیوں، کوچہ و بازاروں میں منظم افراد نہیں بلکہ غیر منظم ہجوم نظر آتے تھے بالکل ویسے ہی جیسے آج ہمارے گلیوں و بازاروں میں لوگوں کے بے سمت ہجوم نظر آتے ہیں۔
چین کا تمسخر اُڑانے کے لیے مغربی و امریکی صحافیوں اور تنقید نگاروں کے لیے سب سے بڑا سامان چینی عورت کے پاؤں ہوا کرتے تھے۔ جو تین انچ لمبے اور ایک انگوٹھے کے مساوی چوڑے ہوتے۔ جو چین کی قدیم قومی روایت اور خاندانی عزت کے قوانین کے تحت بچپن ہی سے اکثر بچیوں کو چار برس کی عمر سے لوہے اور چمڑے کے ایسے جوتے پہنا کر باندھ دیے جاتے تھے، جو ان کے پاؤں کی انگلیوں کی افزائش کو ہمیشہ کے لیے روک دیتے۔ اس رسم کے آغاز کے متعلق تحریری شواہد متنازعہ ہیں۔
اس رسم کا ذکر آٹھویں صدی کے ایک شاعر بادشاہ لی یوکی نظموں سے ملتے ہیں ۔ جدید تاریخ داں ہاورڈ اس شاعر کے متن کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ عورت کے پاؤں باندھ کر رکھنے کی ابتدا ایک بادشاہ کی خواہش پر اس وقت ہوئی جب اس نے ایک رقاصہ کے پاؤں کو سفید رنگ کے ریشم کے کپڑے میں باندھ کر ایسے اسٹیج پر رقص کرنے کو کہا جو اُڑتے ہوئے بادلوں کا عکس پیش کر رہا تھا۔
س داستاں کی حقیقت کچھ بھی رہی ہو مگر وہ عورت چین کی تاریخی کہانیوں، داستانوں اور کہاوتوں میں 'سنہری للی' کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کے بعد یہی رسم ۱۷۲۱ء سے ۸۶۳۱ ء تک حکومت کرنے والے ایک منگول بادشاہ یون ڈائناسٹی سے منسوب ہے جس کی ہزاروں کی تعداد میں بیویاں تھی جن کو وہ ایک ہی شہر میں رکھتا تھا اور اس شہر کے دروازے سرِ شام بند کر دیے جاتے ۔
سیاسی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس عمل سے وہ اپنی بیویوں کی پارسائی کو یقینی بنانے کوشش کرتا، تو دوسرا مقصد خواتین کی نقل و حرکت کو محدود کرنا تھا تا کہ وہ اس کے قبضے سے نکل کر کسی دوسرے مرد سے تعلق استوار نہ کر سکیں جو ان کو بادشاہ کی نسبت بآسانی دستیا ب ہو سکتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس شہر کے وسط تک صرف انھی مردوں کو بطور ملازم رسائی ملتی تھی جن کو جنسی صلاحیتوں سے محروم کر دیا جاتا تھا۔
بادشاہ کی ان عیاشیوں اور استحصال سے متاثر ہو کر جسے وہ بیویوں کی پارسائی کے تیقن کا نام دیتا تھا، چین کے امراء نے بھی اپنے گھرانوں کی خواتین کے پاؤں باندھنے کی رسم کو اسی فیشن کے طور پر اپنایا کہ یہ عورتیں عزت دار گھرانوں کی ہیں، پھر اس کو باقاعدہ قومی معاہدہ بنا دیا گیا جو صدیوں تک بار بار نئے سرے استوار ہوتا رہا۔ آہستہ آہستہ اس معاہدے کے نتیجے میں ہونے والی خواتین کے خلاف یہ سرگرمی چین کی ثقافتی وسماجی روایات میں ڈھل کر مقتدر طبقات کے لیے عزت اور فخر کا نشان بن گئی کہ ان کی خواتین کے پاؤں ایک ریشم کے کشیدہ کاری کیے ہوئے جوتوں میں بندھے ہوں جن کو صرف تنہائی میں جوتوں سے آزاد کیا جاتا اور اس وقت ہی خواتین خود بھی اپنے پاؤں دیکھ پاتیں۔
چینی عورت کے چھوٹے پاؤں اس بات کی بھی علامت تھے کہ ان کا خاندان دولت مند ہے اور یہ خواتین کھیتوں کھلیانوں میں کام کرنے والی یا مزدور طبقات سے نہیں ہیں۔ خواتین اس سارے عمل سے جس تکلیف سے گزرتی تھیں اس کا احساس کم کرنے کے لیے عورت کے تین انچ کے پاؤں کو باقاعدہ خوبصورتی کی بنیاد ثابت کیا جاتا اور مرد کی جنسی اشتہا ء کا باعث سمجھا جاتا۔ جس خاتوں کے جتنے پاؤں چھوٹے ہوتے وہ اتنی ہی جنسی کشش کا باعث سمجھی جاتی۔
اس خوبصورتی کے حصول کے لیے خواتین خود بخوشی یہ رسم اپنی بیٹیوں، بھانجیوں وغیرہ کی پیدائش پرادا کرتیں تھیں۔ جن خواتین کے پاؤں فطری طور پر بڑھتے ان کا مذاق اُڑایا جاتا۔ بدلتے وقت کی سیاسی و سماجی ضرورتوں کے تحت کے خوبصورتی کے معیار مردوں نے اپنے مفادات کے لیے تبدیل کیے تو تمسخر کا باعث وہ پاؤں بننے لگے جن کو خوبصورتی اور اسٹیٹس کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ سولہویں صدی میں منچ حکومت نے جب منگول حکمرانوں کا تخت اُلٹ دیا تو پہلی بار اس رسم پر پابندی عائد ہونا شروع ہوئی اس کے باوجود انیسویں صدی تک بہت سے امیر گھرانوں میں یہ رسم ادا کی جاتی رہی۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خاندان کی عزت کے نام پر برسرِ اقتدار طبقات اور رئیس گھرانوں کی خواتین کا استحصال تہذیب و تمدن اور مینرز کے نام پر زیادہ ہوتا آیا ہے، بہ نسبت غریب طبقات کی خواتین کی ذاتی نقل و حرکت کے حوالے سے۔ پاؤں باندھنے کی اس رسم کے نتیجے میں چینی عورت کے پاؤں اس قدر چھوٹے رہ جاتے کہ وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی تھیں اور چین کے مقتدر طبقات کے مردوں کا مقصد بھی یہی تھا کہ ان کی عورتیں ان کے سامنے کبھی کھڑی ہونے کے قابل نہ رہیں۔
اس رسم کے خلاف پہلی بار ایک چینی مفکر کینگ نے لکھا اور اس کے نقصانات چین کی اقتصادی و سماجی ترقی پر واضح کرتے ہوئے کہا کہ یورپ اور امریکا کی ریاستوں کی مضبوطی کی وجہ ان کی مائیں ہیں جن کے پاؤں نہیں باندھے جاتے اور وہ مضبوط نسلوں کی پرورش کے قابل ہیں۔ 1898ء میں چین کی سلطنت کی طرف سے ہونے والی انقلابی اصطلاحات کی بنیاد میں کینگ کی سو دن کی وہ تحریریں ہیں جو 11 جون سے 12 ستمبر تک چینی محل میں اس وقت کے کم سن بادشاہ تک گانگ کسو کے استاد کے ذریعے پہنچتی رہیں، ان میں کینگ کا بنیادی مطالبہ تھا کہ اگر چین نے اقتصادی و سماجی سطح پر ترقی کرنی ہے تو ہمیں اپنی خواتین کے پاؤں باندھنے کی رسم کا خاتمہ کرنا ہو گا ۔
جب تک چینی عورت کے پاؤں بندھے رہے تب تک چین کے سمندروں پر جاپانی بادبان محوِ مسافت رہے۔ چینی اخلاقیات کی تاریخ میں اس رسم کا خاتمہ ایک انقلابی قدم تھا، جس نے صرف خواتین کے پاؤں، رسم و رواج کے نام پر باندھی گئی اس زنجیر سے ہی آزاد نہیں کیے تھے بلکہ چینی مردوں کی سوچ پر پڑی زنجیریں بھی کاٹی تھیں، جو جب تک خوتین کے پاؤں میں رہیں تب تک چین کے اپنے قدم قومی ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکے۔
چینی عورت کے پاؤں باندھے جاتے تھے ہمارے ہاں کی عورت کی سوچ کے پاؤں میں زنجیر ڈالی جاتی ہے اور اس سے غالب طبقات کی خواتین کو مینرز اور اسٹیٹس یا اعلیٰ خاندان کی خواتین ہونے کی وجہ سے زیادہ مغلوب کیا جاتا ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمیں ابھی یہ خبر نہیں ہو سکی کہ یہ زنجیر کہاں سے پہلے کٹنی چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ اونچے گھرانوں کی بیگمات خود کو آزاد متصور کرتے ہوئے ان غریب گھرانوں کی خواتین کو منفی آزادی کا درس دینے میں سر گرم عمل ہیں جو بنیادی طور پر تہذیب، خاندان کی عزت اور مینرز کے نام پر ان کی طرح قید ہی نہیں ہیں، بلکہ ان کے گرد تو اصل زنجیر معیشت کی ہے، جو صرف غریب، مزدور و کسان طبقات کی خواتین ہی کو نہیں بلکہ مردوں کو بھی جکڑے ہوئے ہے، ہمیں بحیثیت انسان پہلے اپنے ملک میں معیشت کی زنجیروں کو کاٹنا ہے جنہوں نے ہمارے مزدور بھائیوں کو بری طرح سے جکڑ رکھا ہے۔
اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں ہمارے کفِ پائے فکر پر پڑی زنجیروں کا کاٹنا ہو گا کہ جب تک کسی سماج میں خواتین کو سماجی سیاسی عملی سرگرمیوں میں بلاصنفی تفریق کے شامل نہیں کیا جائے گا ہماری معیشت کی زنجیریں نہیں ٹوٹیں گی۔
خواتین کے عالمی دن کا مقصد ان خواتین کے عمل سے رہنمائی لینی ہے جنھوں نے اپنے سیاسی سماجی حقوق کے لیے جدوجہد کی اور اپنے اپنے سماج کی تقدیر بدلی۔ خواتین کی آزادی کا مقصد در حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے سماج کی تعمیر میں اسی طرح اپنا کردار ادا کر سکے جس طرح وہ اپنا گھر بنانے میں ادا کرتی ہے، کسی سماج میں معیاری تبدیلی کے لیے جس جذبے اور ایثار و قربانی کی ضرورت ہوتی ہے خواتین فطری طور پر ان سے لبریز ہیں اور گھروں کے نظام چلانے کا صدیوں کا تجربہ رکھتی ہیں۔
اس لیے اپنے ملک کو بھی چلانے میں ان کے تجربے سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ان پر سیاسی، سماجی اور معاشی مراکز کے در وا کرنے ہوں گے اور مردوں کو اپنی کفِ پائے فکر پر عورت کے حوالے سے پڑی زنجیر کاٹنی ہو گی، تبھی ہماری معیشت کی زنجیریں کٹیں گی۔
چین کی اس کی بڑھتی ہوئی ترقی اور طاقت نے ان کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، جب چین کی نسل تنگ و تاریک گلیوں میں افیون اور نشے میں خود سے بے خبر پڑی ہوتی تھی۔ چین کی گلیوں، کوچہ و بازاروں میں منظم افراد نہیں بلکہ غیر منظم ہجوم نظر آتے تھے بالکل ویسے ہی جیسے آج ہمارے گلیوں و بازاروں میں لوگوں کے بے سمت ہجوم نظر آتے ہیں۔
چین کا تمسخر اُڑانے کے لیے مغربی و امریکی صحافیوں اور تنقید نگاروں کے لیے سب سے بڑا سامان چینی عورت کے پاؤں ہوا کرتے تھے۔ جو تین انچ لمبے اور ایک انگوٹھے کے مساوی چوڑے ہوتے۔ جو چین کی قدیم قومی روایت اور خاندانی عزت کے قوانین کے تحت بچپن ہی سے اکثر بچیوں کو چار برس کی عمر سے لوہے اور چمڑے کے ایسے جوتے پہنا کر باندھ دیے جاتے تھے، جو ان کے پاؤں کی انگلیوں کی افزائش کو ہمیشہ کے لیے روک دیتے۔ اس رسم کے آغاز کے متعلق تحریری شواہد متنازعہ ہیں۔
اس رسم کا ذکر آٹھویں صدی کے ایک شاعر بادشاہ لی یوکی نظموں سے ملتے ہیں ۔ جدید تاریخ داں ہاورڈ اس شاعر کے متن کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ عورت کے پاؤں باندھ کر رکھنے کی ابتدا ایک بادشاہ کی خواہش پر اس وقت ہوئی جب اس نے ایک رقاصہ کے پاؤں کو سفید رنگ کے ریشم کے کپڑے میں باندھ کر ایسے اسٹیج پر رقص کرنے کو کہا جو اُڑتے ہوئے بادلوں کا عکس پیش کر رہا تھا۔
س داستاں کی حقیقت کچھ بھی رہی ہو مگر وہ عورت چین کی تاریخی کہانیوں، داستانوں اور کہاوتوں میں 'سنہری للی' کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کے بعد یہی رسم ۱۷۲۱ء سے ۸۶۳۱ ء تک حکومت کرنے والے ایک منگول بادشاہ یون ڈائناسٹی سے منسوب ہے جس کی ہزاروں کی تعداد میں بیویاں تھی جن کو وہ ایک ہی شہر میں رکھتا تھا اور اس شہر کے دروازے سرِ شام بند کر دیے جاتے ۔
سیاسی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس عمل سے وہ اپنی بیویوں کی پارسائی کو یقینی بنانے کوشش کرتا، تو دوسرا مقصد خواتین کی نقل و حرکت کو محدود کرنا تھا تا کہ وہ اس کے قبضے سے نکل کر کسی دوسرے مرد سے تعلق استوار نہ کر سکیں جو ان کو بادشاہ کی نسبت بآسانی دستیا ب ہو سکتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس شہر کے وسط تک صرف انھی مردوں کو بطور ملازم رسائی ملتی تھی جن کو جنسی صلاحیتوں سے محروم کر دیا جاتا تھا۔
بادشاہ کی ان عیاشیوں اور استحصال سے متاثر ہو کر جسے وہ بیویوں کی پارسائی کے تیقن کا نام دیتا تھا، چین کے امراء نے بھی اپنے گھرانوں کی خواتین کے پاؤں باندھنے کی رسم کو اسی فیشن کے طور پر اپنایا کہ یہ عورتیں عزت دار گھرانوں کی ہیں، پھر اس کو باقاعدہ قومی معاہدہ بنا دیا گیا جو صدیوں تک بار بار نئے سرے استوار ہوتا رہا۔ آہستہ آہستہ اس معاہدے کے نتیجے میں ہونے والی خواتین کے خلاف یہ سرگرمی چین کی ثقافتی وسماجی روایات میں ڈھل کر مقتدر طبقات کے لیے عزت اور فخر کا نشان بن گئی کہ ان کی خواتین کے پاؤں ایک ریشم کے کشیدہ کاری کیے ہوئے جوتوں میں بندھے ہوں جن کو صرف تنہائی میں جوتوں سے آزاد کیا جاتا اور اس وقت ہی خواتین خود بھی اپنے پاؤں دیکھ پاتیں۔
چینی عورت کے چھوٹے پاؤں اس بات کی بھی علامت تھے کہ ان کا خاندان دولت مند ہے اور یہ خواتین کھیتوں کھلیانوں میں کام کرنے والی یا مزدور طبقات سے نہیں ہیں۔ خواتین اس سارے عمل سے جس تکلیف سے گزرتی تھیں اس کا احساس کم کرنے کے لیے عورت کے تین انچ کے پاؤں کو باقاعدہ خوبصورتی کی بنیاد ثابت کیا جاتا اور مرد کی جنسی اشتہا ء کا باعث سمجھا جاتا۔ جس خاتوں کے جتنے پاؤں چھوٹے ہوتے وہ اتنی ہی جنسی کشش کا باعث سمجھی جاتی۔
اس خوبصورتی کے حصول کے لیے خواتین خود بخوشی یہ رسم اپنی بیٹیوں، بھانجیوں وغیرہ کی پیدائش پرادا کرتیں تھیں۔ جن خواتین کے پاؤں فطری طور پر بڑھتے ان کا مذاق اُڑایا جاتا۔ بدلتے وقت کی سیاسی و سماجی ضرورتوں کے تحت کے خوبصورتی کے معیار مردوں نے اپنے مفادات کے لیے تبدیل کیے تو تمسخر کا باعث وہ پاؤں بننے لگے جن کو خوبصورتی اور اسٹیٹس کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ سولہویں صدی میں منچ حکومت نے جب منگول حکمرانوں کا تخت اُلٹ دیا تو پہلی بار اس رسم پر پابندی عائد ہونا شروع ہوئی اس کے باوجود انیسویں صدی تک بہت سے امیر گھرانوں میں یہ رسم ادا کی جاتی رہی۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خاندان کی عزت کے نام پر برسرِ اقتدار طبقات اور رئیس گھرانوں کی خواتین کا استحصال تہذیب و تمدن اور مینرز کے نام پر زیادہ ہوتا آیا ہے، بہ نسبت غریب طبقات کی خواتین کی ذاتی نقل و حرکت کے حوالے سے۔ پاؤں باندھنے کی اس رسم کے نتیجے میں چینی عورت کے پاؤں اس قدر چھوٹے رہ جاتے کہ وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی تھیں اور چین کے مقتدر طبقات کے مردوں کا مقصد بھی یہی تھا کہ ان کی عورتیں ان کے سامنے کبھی کھڑی ہونے کے قابل نہ رہیں۔
اس رسم کے خلاف پہلی بار ایک چینی مفکر کینگ نے لکھا اور اس کے نقصانات چین کی اقتصادی و سماجی ترقی پر واضح کرتے ہوئے کہا کہ یورپ اور امریکا کی ریاستوں کی مضبوطی کی وجہ ان کی مائیں ہیں جن کے پاؤں نہیں باندھے جاتے اور وہ مضبوط نسلوں کی پرورش کے قابل ہیں۔ 1898ء میں چین کی سلطنت کی طرف سے ہونے والی انقلابی اصطلاحات کی بنیاد میں کینگ کی سو دن کی وہ تحریریں ہیں جو 11 جون سے 12 ستمبر تک چینی محل میں اس وقت کے کم سن بادشاہ تک گانگ کسو کے استاد کے ذریعے پہنچتی رہیں، ان میں کینگ کا بنیادی مطالبہ تھا کہ اگر چین نے اقتصادی و سماجی سطح پر ترقی کرنی ہے تو ہمیں اپنی خواتین کے پاؤں باندھنے کی رسم کا خاتمہ کرنا ہو گا ۔
جب تک چینی عورت کے پاؤں بندھے رہے تب تک چین کے سمندروں پر جاپانی بادبان محوِ مسافت رہے۔ چینی اخلاقیات کی تاریخ میں اس رسم کا خاتمہ ایک انقلابی قدم تھا، جس نے صرف خواتین کے پاؤں، رسم و رواج کے نام پر باندھی گئی اس زنجیر سے ہی آزاد نہیں کیے تھے بلکہ چینی مردوں کی سوچ پر پڑی زنجیریں بھی کاٹی تھیں، جو جب تک خوتین کے پاؤں میں رہیں تب تک چین کے اپنے قدم قومی ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکے۔
چینی عورت کے پاؤں باندھے جاتے تھے ہمارے ہاں کی عورت کی سوچ کے پاؤں میں زنجیر ڈالی جاتی ہے اور اس سے غالب طبقات کی خواتین کو مینرز اور اسٹیٹس یا اعلیٰ خاندان کی خواتین ہونے کی وجہ سے زیادہ مغلوب کیا جاتا ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمیں ابھی یہ خبر نہیں ہو سکی کہ یہ زنجیر کہاں سے پہلے کٹنی چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ اونچے گھرانوں کی بیگمات خود کو آزاد متصور کرتے ہوئے ان غریب گھرانوں کی خواتین کو منفی آزادی کا درس دینے میں سر گرم عمل ہیں جو بنیادی طور پر تہذیب، خاندان کی عزت اور مینرز کے نام پر ان کی طرح قید ہی نہیں ہیں، بلکہ ان کے گرد تو اصل زنجیر معیشت کی ہے، جو صرف غریب، مزدور و کسان طبقات کی خواتین ہی کو نہیں بلکہ مردوں کو بھی جکڑے ہوئے ہے، ہمیں بحیثیت انسان پہلے اپنے ملک میں معیشت کی زنجیروں کو کاٹنا ہے جنہوں نے ہمارے مزدور بھائیوں کو بری طرح سے جکڑ رکھا ہے۔
اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں ہمارے کفِ پائے فکر پر پڑی زنجیروں کا کاٹنا ہو گا کہ جب تک کسی سماج میں خواتین کو سماجی سیاسی عملی سرگرمیوں میں بلاصنفی تفریق کے شامل نہیں کیا جائے گا ہماری معیشت کی زنجیریں نہیں ٹوٹیں گی۔
خواتین کے عالمی دن کا مقصد ان خواتین کے عمل سے رہنمائی لینی ہے جنھوں نے اپنے سیاسی سماجی حقوق کے لیے جدوجہد کی اور اپنے اپنے سماج کی تقدیر بدلی۔ خواتین کی آزادی کا مقصد در حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے سماج کی تعمیر میں اسی طرح اپنا کردار ادا کر سکے جس طرح وہ اپنا گھر بنانے میں ادا کرتی ہے، کسی سماج میں معیاری تبدیلی کے لیے جس جذبے اور ایثار و قربانی کی ضرورت ہوتی ہے خواتین فطری طور پر ان سے لبریز ہیں اور گھروں کے نظام چلانے کا صدیوں کا تجربہ رکھتی ہیں۔
اس لیے اپنے ملک کو بھی چلانے میں ان کے تجربے سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ان پر سیاسی، سماجی اور معاشی مراکز کے در وا کرنے ہوں گے اور مردوں کو اپنی کفِ پائے فکر پر عورت کے حوالے سے پڑی زنجیر کاٹنی ہو گی، تبھی ہماری معیشت کی زنجیریں کٹیں گی۔