چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ۔۔۔۔۔ن لیگ کی مجبوری یا اسمارٹ چال
آئین کی بالادستی نے اپنی جڑیں پکڑنی شروع کی ہیں لیکن کچھ قوتیں موجودہ نظام کو تباہ کرنے کے درپے ہیں
پاکستان کے حالیہ سینیٹ انتخابات کی بساط جس طرح پھیلائی گئی اور جس شاہانہ اور شاطرانہ انداز میں پیادوں، فیلوں اور سواروں کو چلایا جا رہا تھا اور ایک دوسرے کو شہ مات دینے کی کوششیں کی جا رہی تھیں، انہیں دیکھ دیکھ کر ماہرینِ فن مسکراتے تھے اور کئی دن پہلے ہی سے نہایت وثوق کے ساتھ پیش گوئی کر رہے تھے۔
وہ جان اور مان گئے تھے کہ حکم ران اس فن میں ابھی اتنے تاک نہیں، جتنا وہ خود پر گمان رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہ دیا تھا حکم رانوں کی چالیں کسی گہرائی اور گیرائی کی غماز نہیں ہیں لہٰذا وہ بالیقین خسارے میں رہیں گے۔ سو ایسا ہی ہوا، سب نے دیکھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنی چُوک چال میں آگئے، ان کا حال اس کیڑے کا سا ہوا، جو اپنے ہی بنے ہوئے ریشم کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ حکم راں ایسی منصوبہ سازی کے لئےکہ انہیں انتخابی مراحل کے دوران میں اپنے اتحادیوں کی حمایت سے محروم ہونا پڑا، انہیں اپوزیشن کے مشترکہ امیدواروں کے مدمقابل اپنے امیدوار نہ لانے کا فیصلہ بھی کرنا پڑا، حال آں کہ وفاقی وزیر اطلاعات کو انتخاب سے پہلے یہ ٹاسک سونپا گیا تھا کہ وہ متوقع لیگی چیئرمین کی راہ کے کانٹے چنیں لیکن دو دن قبل ہی چیئرمین سینیٹ کے لیے حکومتی امیدوار کی کام یابی کے امکانات معدوم ہو چکے تھے۔
بلوچستان اسمبلی، جہاں اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے' پہلے ہی مسلم لیگ (ن) سینیٹ کی ایک یقینی سیٹ سے محروم ہو گئی اور فاٹا ارکان کے حوالے سے جب صدارتی آرڈی نینس جاری ہوا تو اس فیصلے سے حکومت مزید مشکلات سے دوچار ہو ئی ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی جب اس آرڈی نینس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا اور کالعدم قرار دے دیا تو اس موقع پر ایک سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن نے تو برملا یہ بھی کہ دیا تھا کہ اب میاں نوازشریف، حکومت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ صرف یہ ہی نہیں، سینیٹ انتخابات کے حوالے سے مجوزہ 22 ویں آئینی ترمیم بھی حکم ران مسلم لیگ (ن) کے گلے پڑ گئی، جسے لانے کی سوچ، بادی النظر میں سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر ہارس ٹریڈنگ کے عمل کو روکنا تھا مگر اس مجوزہ ترمیم پر حکومت کو اپنی سیاسی سہولت کار پیپلزپارٹی کے علاوہ اپنی اتحادی جے یو آئی (ف) اور اے این پی کی طرف سے بھی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
اتحادیوں نے کہا کہ یہ ترمیم اپنے ہی ارکان کو مشکوک بنانے اور ان پر عدم اعتماد کرنے کے مترادف ہے۔ اس مزاحمت کے باعث حکومت کو 22 ویں آئینی ترمیم لانے کے ارادے کو ترک کرنا پڑا مگر اس کے بارے میں یہ رائے اور بھی پختہ ہوئی کہ حکم ران جماعت کو ایوان بالا میں عام آدمی کی نمائندگی سے کوئی سروکار نہیں اور وہ اس مجوزہ ترمیم کے ذریعے کروڑوں روپے کے پارٹی فنڈز کے عوض اشرافیہ سے لائے گئے اپنے امیدواروں کو دراصل ہارس ٹریڈنگ سے بچانا چاہتی تھی۔ اس آرڈی نینس نے پیپلزپارٹی، اے این پی اور جے یو آئی (ف) کی قیادتوں کو حکومت کی پالیسیوں کے لتّے لینے کا مزید موقع فراہم کر دیا چنانچہ یوں سینیٹ کے فورم پر حکم ران مسلم لیگ (ن) کے خلاف پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، جے یو آئی، مسلم لیگ (ق) اور اے این پی کے مابین ایکا نظر آیا، یوں پیپلزپارٹی کے لیے اپنے امیدوار کو چیئرمین سینیٹ منتخب کرانے کی راہ ہم وار ہوتی چلی گئی۔
اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے، ماضی کی سیاسی غلطیوں اور اپنے اقتدار کو عمران خان اور طاہرالقادری کی دھرنا تحریکوں سے لگنے والے جھٹکوں سے کوئی سبق حاصل کیا ہوتا تو آج شاید صورت حال یک سر مختلف ہوتی۔ غیر جانب دار تجزیہ نگار تو اب یہ بھی کہ رہے ہیں کہ (ن) لیگ کے مزاج میں یہ چیز شامل ہی نہیں کہ ماضی کی غلطیوں سے کچھ سیکھے، وہ ہر بار اپنے لیے نئی پے چیدگیاں اور نئے بکھیڑے کھڑے کرتی ہے اور نئی طرح سے کھپتی رہتی ہے۔ سو اس بار بھی ''پورے وثوق'' سے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات کے حوالے سے سرزد ہونے والی اپنی سیاسی غلطیوں سے بھی کوئی سبق سیکھنے کی نہیں۔ تاریخ بھی شاید اسی لیے یہ کہتی ہے کہ قیادتوں کے ایسے ہی آمرانہ رویے سلطانیٔ جمہور کا مردہ خراب کرنے پر منتج ہوتے ہیں اور یہ کہ تاریخ سے وہ ہی سیکھ سکتا ہے جو تاریخ سے سیکھنا چاہے، تاریخ کے پاس سبق تو ہوتا ہے، ڈنڈا نہیں ہوتا۔
حکم رانوں کو علم تھا کہ ان کی پانچ اتحادی جماعتوں کے پاس سینیٹ میں مجموعی طور پر 51 نشستیں ہیں اور وہ شطرنج کی بساط پر شہ مات دینے کی استطاعت رکھتی ہیں۔ پھر یہ بات بھی سب کو معلوم تھی کہ چھے آزاد اراکین اور فاٹا کے انتخابات کے بعد چار مزید اراکین حکم ران مسلم لیگ (ن) کی مخالف جماعتوں کے ساتھ مل کر سینیٹ میں پیپلزپارٹی کے لیے چیئرمین شپ کی راہ آسان بنا دے گی، اس کے باوجود میں نہ مانوں کا جاپ آخری وقت تک کیا جاتا رہا۔
جب 10 مارچ کو وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایوان بالا میں اپوزیشن اتحاد کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے لیے نام زد کیے گئے امیدوار سینیٹر رضا ربانی کی حمایت کی، تو حکومتی زعماء نے اس کو دور اندیشی سے تعبیر کیا لیکن اصل کہانی بچہ بچہ جان چکا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف نے پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کو کھانے پر بلایا تھا، جہاں سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اس اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفت گو میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حکومت نے اکثر فیصلے سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے کیے، ماضی میں بہت ٹھوکریں کھا چکے، ان سے پاکستان کو بہت نقصان ہوا، اس لیے اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ ڈپٹی چیئرمین کے لیے بھی مسلم لیگ (ن) اپنا امیدوار نام زد نہیں کرے گی۔
میاں صاحب کا کہنا ہے کہ ماضی کی ناپسندیدہ روایات کو ترک کرتے ہوئے پیسے کا کھیل ختم کیا جائے گا۔ یہ بھی انہوں نے کہا کہ سب چاہتے ہیں کہ الیکشن کا عمل صاف شفاف ہو، ''میں سمجھتا ہوں'' کہ رضا ربانی ایک اچھے آدمی اور پارلیمینٹیریئن ہیں اور ان کے کندھوں پر اگر یہ ذمہ داری ڈالی جائے گی تو ہم سب انہیں بہت خوشی کے ساتھ قبول کریں گے۔ وزیراعظم کی جانب سے حمایت کے اس اعلان کے بعد سینیٹر رضا ربانی نے بھی میڈیا سے خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں اور جمہوری اداروں کو مضبوط کریں ''میری کوشش یہ ہوگی کہ جمہوری اداروں کو مضبوط کروں، جمہوری قدروں کو آگے لے کر چلوں اور پارلیمان کے استحکام اور بالادستی کا دفاع بہت شد و مد سے کروں''۔
اس سے پہلے میاں نوازشریف سے جمعیت علمائِ اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن اور عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی کی ون آن ون ملاقات ہوئی تھی۔ اجلاس کے بعد وزیرِ اعظم نے میاں رضا ربانی کو ٹیلی فون کرکے اپنی حمایت کی اطلاع بھی دی۔ اس صورت حال میں گو کہ یہ فیصلہ مدبرانہ کے بجائے مجبوری دکھائی دیتا ہے مگر اس کو ایک دوسرے تناظر میں بھی دیکھا جارہا ہے۔
وہ پس منظر یہ ہے کہ سینیٹ کے نئے چیئرمین وہی ہوں گے جو ملٹری کورٹس کے لیے آئین میں کی جانے والی اکیسویں ترمیم کے بعد میڈیا کیمروں کے سامنے اس لیے پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے کہ یہ ترمیم آئین کی روح کے خلاف ہے، بعض ناقدین اسی لیے میاں رضا ربانی کی حمایت کومسلم لیگ کی اسمارٹ چال کہ رہے ہیں کہ کل کلاں کو جب اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کسی مسئلے پر دباؤ بڑھے گا تو میاں صاحب معصومیت کے ساتھ کہ دیں گے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں، رضا ربانی صاحب کو راضی کرنے کے لیے زرداری صاحب سے بات کرلیں اور یوں بال زرداری کی کورٹ میں ڈال دینے کی سہولت حاصل ہو جا ئے گی، جب کہ بہت اندر کی خبر رکھنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں رضا ربانی کا انتخاب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرضی سے ہی ہوا ہے، نکتہ بیچ اس رضامندی کے یہ ہے کہ (انتہائی معصومیت کے ساتھ) اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ایک نظر نہ آنے والی دیوار کھڑی کی جا سکے۔
یہ ناقدین ان انتخابات کو خارجہ پالیسی کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ اسی تناظر میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورۂ امریکا کو بھی دیکھا جا رہا ہے جس میں ان کا ''ریڈ کارپٹ'' استقبال کیا گیا اور دوسری طرف میاں نواز شریف کا حالیہ دورۂ سعودی عرب ہے، اس میں میاں صاحب کی آمد پر انتہائی گرم جوشی کا اظہار کیا گیا۔ ان دونوں استقبالوں کا تقابلی جائزہ بھی لیا جارہا ہے، ان استقبالوں سے مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے نتائج پر بحث ہو نے لگی ہے۔ اگر ان متوقع تجزیوں کو درست سمجھ لیا جائے تو تب بھی ایک دل چسپ پہلو اپنی جگہ قائم رہے گا، وہ یہ کہ مستقبل قریب میںاگر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت مخالف قوتیں ایک صفحے پر اکٹھی ہو گئیں اور رواں سال متوقع بلدیاتی انتخابات سے پہلے ہی اس کا عملی مظاہرہ بھی کر دیا گیا تو حکومت کی یہ چال بھی اُلٹی پڑ جائے گی لیکن ایک فائدہ مسلم لیگ کو یہ ضرور ہوگا کہ اُسے اپنی سیاسی شہادت سستے داموں مل جائے گی۔
رضا ربانی اپنے بیانات کے آئینے میں
٭...جتنا شرمندہ آج ہوں پہلے کبھی نہیں ہوا، رضا ربانی
رواں سال کے شروع میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے آرمی ایکٹ اور 21 ویں آئینی ترمیم کے حق میں اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دیا۔بعد ازاں21ویں ترمیم کی قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے منظوری کے بعد سینیٹ میں بھی ان ترامیم کو منظور کر لیا گیا تھا اور قومی اسمبلی میں ان ترامیم کے حق میں 248 جب کہ سینیٹ میں 78 اراکین نے ووٹ دیا جب کہ ان کے خلاف کوئی بھی ووٹ نہیں دیا گیا تھا۔ اُس موقع پر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ووٹ ان کی پارٹی کی امانت تھا اس لیے انہوں نے بل کے حق میں رائے دی،لیکن جتنا شرمندہ میں آج ہوں، اس سے قبل شاید کبھی نہیں ہوا، یہ ہی وہ موقع تھا جب رضا ربانی ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے تھے۔
٭...مسلم لیگ (ن) کی حکومت آتی ہے تو فوجی عدالتیں بنتی ہیں
یہ بات بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے کہی تھی کہ جب بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت آتی ہے تو فوجی عدالتیں بن جاتی ہیں اس لیے حکومت کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے، دو وزرائے اعظم کو مارشل لا کے ذریعے ہٹایا گیا، اب بھی سول عدالتیں موجود ہیں اس لیے ان کے نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور موجودہ عدالتوں کی موجودگی میں فوجی عدالتوں کے ذریعے دہشت گردی ختم نہیں کی جاسکتی۔ آئین میں ملٹری کورٹس نظر نہیں آتیں، آرٹیکل 245 کا نفاذ ہو اوراس پر فوجی عدالتیں قائم کردی جائیں تو پارلیمنٹ کا جواز نہیں بنتا اس لیے اراکین پارلیمنٹ کو استعفے دے دینے چاہیں۔
٭... خلافت ہو یا آمریت ،ملکی بقاء کے لیے خطرہ ہے
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے یہ بھی کہا تھا کہ خلافت یا آمریت کے برسر اقتدار آنے سے ملکی بقا خطرے میں پڑ جائے گی، ملک کی موجودہ سیاسی ملک کو 1973 کے آئین کے تحت صرف پارلیمانی نظام حکومت کے تحت چلایا جا سکتا ہے جو ملکی بقا کی واحد صورت ہے، کچھ سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور سرمایہ دار نے ماضی میں پاکستان کی قومی سلامتی کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جب کہ کچھ قوتیں موجودہ جمہوری نظام کو پٹڑی سے اتارنا چاہتی ہیں حالانکہ ایسی کوششوں کے نتائج ملک کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ آئین کی بالادستی نے اپنی جڑیں پکڑنی شروع کی ہیں لیکن کچھ قوتیں موجودہ نظام کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔
وہ جان اور مان گئے تھے کہ حکم ران اس فن میں ابھی اتنے تاک نہیں، جتنا وہ خود پر گمان رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہ دیا تھا حکم رانوں کی چالیں کسی گہرائی اور گیرائی کی غماز نہیں ہیں لہٰذا وہ بالیقین خسارے میں رہیں گے۔ سو ایسا ہی ہوا، سب نے دیکھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنی چُوک چال میں آگئے، ان کا حال اس کیڑے کا سا ہوا، جو اپنے ہی بنے ہوئے ریشم کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ حکم راں ایسی منصوبہ سازی کے لئےکہ انہیں انتخابی مراحل کے دوران میں اپنے اتحادیوں کی حمایت سے محروم ہونا پڑا، انہیں اپوزیشن کے مشترکہ امیدواروں کے مدمقابل اپنے امیدوار نہ لانے کا فیصلہ بھی کرنا پڑا، حال آں کہ وفاقی وزیر اطلاعات کو انتخاب سے پہلے یہ ٹاسک سونپا گیا تھا کہ وہ متوقع لیگی چیئرمین کی راہ کے کانٹے چنیں لیکن دو دن قبل ہی چیئرمین سینیٹ کے لیے حکومتی امیدوار کی کام یابی کے امکانات معدوم ہو چکے تھے۔
بلوچستان اسمبلی، جہاں اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے' پہلے ہی مسلم لیگ (ن) سینیٹ کی ایک یقینی سیٹ سے محروم ہو گئی اور فاٹا ارکان کے حوالے سے جب صدارتی آرڈی نینس جاری ہوا تو اس فیصلے سے حکومت مزید مشکلات سے دوچار ہو ئی ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی جب اس آرڈی نینس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا اور کالعدم قرار دے دیا تو اس موقع پر ایک سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن نے تو برملا یہ بھی کہ دیا تھا کہ اب میاں نوازشریف، حکومت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ صرف یہ ہی نہیں، سینیٹ انتخابات کے حوالے سے مجوزہ 22 ویں آئینی ترمیم بھی حکم ران مسلم لیگ (ن) کے گلے پڑ گئی، جسے لانے کی سوچ، بادی النظر میں سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر ہارس ٹریڈنگ کے عمل کو روکنا تھا مگر اس مجوزہ ترمیم پر حکومت کو اپنی سیاسی سہولت کار پیپلزپارٹی کے علاوہ اپنی اتحادی جے یو آئی (ف) اور اے این پی کی طرف سے بھی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
اتحادیوں نے کہا کہ یہ ترمیم اپنے ہی ارکان کو مشکوک بنانے اور ان پر عدم اعتماد کرنے کے مترادف ہے۔ اس مزاحمت کے باعث حکومت کو 22 ویں آئینی ترمیم لانے کے ارادے کو ترک کرنا پڑا مگر اس کے بارے میں یہ رائے اور بھی پختہ ہوئی کہ حکم ران جماعت کو ایوان بالا میں عام آدمی کی نمائندگی سے کوئی سروکار نہیں اور وہ اس مجوزہ ترمیم کے ذریعے کروڑوں روپے کے پارٹی فنڈز کے عوض اشرافیہ سے لائے گئے اپنے امیدواروں کو دراصل ہارس ٹریڈنگ سے بچانا چاہتی تھی۔ اس آرڈی نینس نے پیپلزپارٹی، اے این پی اور جے یو آئی (ف) کی قیادتوں کو حکومت کی پالیسیوں کے لتّے لینے کا مزید موقع فراہم کر دیا چنانچہ یوں سینیٹ کے فورم پر حکم ران مسلم لیگ (ن) کے خلاف پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، جے یو آئی، مسلم لیگ (ق) اور اے این پی کے مابین ایکا نظر آیا، یوں پیپلزپارٹی کے لیے اپنے امیدوار کو چیئرمین سینیٹ منتخب کرانے کی راہ ہم وار ہوتی چلی گئی۔
اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے، ماضی کی سیاسی غلطیوں اور اپنے اقتدار کو عمران خان اور طاہرالقادری کی دھرنا تحریکوں سے لگنے والے جھٹکوں سے کوئی سبق حاصل کیا ہوتا تو آج شاید صورت حال یک سر مختلف ہوتی۔ غیر جانب دار تجزیہ نگار تو اب یہ بھی کہ رہے ہیں کہ (ن) لیگ کے مزاج میں یہ چیز شامل ہی نہیں کہ ماضی کی غلطیوں سے کچھ سیکھے، وہ ہر بار اپنے لیے نئی پے چیدگیاں اور نئے بکھیڑے کھڑے کرتی ہے اور نئی طرح سے کھپتی رہتی ہے۔ سو اس بار بھی ''پورے وثوق'' سے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات کے حوالے سے سرزد ہونے والی اپنی سیاسی غلطیوں سے بھی کوئی سبق سیکھنے کی نہیں۔ تاریخ بھی شاید اسی لیے یہ کہتی ہے کہ قیادتوں کے ایسے ہی آمرانہ رویے سلطانیٔ جمہور کا مردہ خراب کرنے پر منتج ہوتے ہیں اور یہ کہ تاریخ سے وہ ہی سیکھ سکتا ہے جو تاریخ سے سیکھنا چاہے، تاریخ کے پاس سبق تو ہوتا ہے، ڈنڈا نہیں ہوتا۔
حکم رانوں کو علم تھا کہ ان کی پانچ اتحادی جماعتوں کے پاس سینیٹ میں مجموعی طور پر 51 نشستیں ہیں اور وہ شطرنج کی بساط پر شہ مات دینے کی استطاعت رکھتی ہیں۔ پھر یہ بات بھی سب کو معلوم تھی کہ چھے آزاد اراکین اور فاٹا کے انتخابات کے بعد چار مزید اراکین حکم ران مسلم لیگ (ن) کی مخالف جماعتوں کے ساتھ مل کر سینیٹ میں پیپلزپارٹی کے لیے چیئرمین شپ کی راہ آسان بنا دے گی، اس کے باوجود میں نہ مانوں کا جاپ آخری وقت تک کیا جاتا رہا۔
جب 10 مارچ کو وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایوان بالا میں اپوزیشن اتحاد کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے لیے نام زد کیے گئے امیدوار سینیٹر رضا ربانی کی حمایت کی، تو حکومتی زعماء نے اس کو دور اندیشی سے تعبیر کیا لیکن اصل کہانی بچہ بچہ جان چکا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف نے پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کو کھانے پر بلایا تھا، جہاں سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اس اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفت گو میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حکومت نے اکثر فیصلے سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے کیے، ماضی میں بہت ٹھوکریں کھا چکے، ان سے پاکستان کو بہت نقصان ہوا، اس لیے اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ ڈپٹی چیئرمین کے لیے بھی مسلم لیگ (ن) اپنا امیدوار نام زد نہیں کرے گی۔
میاں صاحب کا کہنا ہے کہ ماضی کی ناپسندیدہ روایات کو ترک کرتے ہوئے پیسے کا کھیل ختم کیا جائے گا۔ یہ بھی انہوں نے کہا کہ سب چاہتے ہیں کہ الیکشن کا عمل صاف شفاف ہو، ''میں سمجھتا ہوں'' کہ رضا ربانی ایک اچھے آدمی اور پارلیمینٹیریئن ہیں اور ان کے کندھوں پر اگر یہ ذمہ داری ڈالی جائے گی تو ہم سب انہیں بہت خوشی کے ساتھ قبول کریں گے۔ وزیراعظم کی جانب سے حمایت کے اس اعلان کے بعد سینیٹر رضا ربانی نے بھی میڈیا سے خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں اور جمہوری اداروں کو مضبوط کریں ''میری کوشش یہ ہوگی کہ جمہوری اداروں کو مضبوط کروں، جمہوری قدروں کو آگے لے کر چلوں اور پارلیمان کے استحکام اور بالادستی کا دفاع بہت شد و مد سے کروں''۔
اس سے پہلے میاں نوازشریف سے جمعیت علمائِ اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن اور عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی کی ون آن ون ملاقات ہوئی تھی۔ اجلاس کے بعد وزیرِ اعظم نے میاں رضا ربانی کو ٹیلی فون کرکے اپنی حمایت کی اطلاع بھی دی۔ اس صورت حال میں گو کہ یہ فیصلہ مدبرانہ کے بجائے مجبوری دکھائی دیتا ہے مگر اس کو ایک دوسرے تناظر میں بھی دیکھا جارہا ہے۔
وہ پس منظر یہ ہے کہ سینیٹ کے نئے چیئرمین وہی ہوں گے جو ملٹری کورٹس کے لیے آئین میں کی جانے والی اکیسویں ترمیم کے بعد میڈیا کیمروں کے سامنے اس لیے پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے کہ یہ ترمیم آئین کی روح کے خلاف ہے، بعض ناقدین اسی لیے میاں رضا ربانی کی حمایت کومسلم لیگ کی اسمارٹ چال کہ رہے ہیں کہ کل کلاں کو جب اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کسی مسئلے پر دباؤ بڑھے گا تو میاں صاحب معصومیت کے ساتھ کہ دیں گے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں، رضا ربانی صاحب کو راضی کرنے کے لیے زرداری صاحب سے بات کرلیں اور یوں بال زرداری کی کورٹ میں ڈال دینے کی سہولت حاصل ہو جا ئے گی، جب کہ بہت اندر کی خبر رکھنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں رضا ربانی کا انتخاب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرضی سے ہی ہوا ہے، نکتہ بیچ اس رضامندی کے یہ ہے کہ (انتہائی معصومیت کے ساتھ) اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ایک نظر نہ آنے والی دیوار کھڑی کی جا سکے۔
یہ ناقدین ان انتخابات کو خارجہ پالیسی کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ اسی تناظر میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورۂ امریکا کو بھی دیکھا جا رہا ہے جس میں ان کا ''ریڈ کارپٹ'' استقبال کیا گیا اور دوسری طرف میاں نواز شریف کا حالیہ دورۂ سعودی عرب ہے، اس میں میاں صاحب کی آمد پر انتہائی گرم جوشی کا اظہار کیا گیا۔ ان دونوں استقبالوں کا تقابلی جائزہ بھی لیا جارہا ہے، ان استقبالوں سے مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے نتائج پر بحث ہو نے لگی ہے۔ اگر ان متوقع تجزیوں کو درست سمجھ لیا جائے تو تب بھی ایک دل چسپ پہلو اپنی جگہ قائم رہے گا، وہ یہ کہ مستقبل قریب میںاگر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت مخالف قوتیں ایک صفحے پر اکٹھی ہو گئیں اور رواں سال متوقع بلدیاتی انتخابات سے پہلے ہی اس کا عملی مظاہرہ بھی کر دیا گیا تو حکومت کی یہ چال بھی اُلٹی پڑ جائے گی لیکن ایک فائدہ مسلم لیگ کو یہ ضرور ہوگا کہ اُسے اپنی سیاسی شہادت سستے داموں مل جائے گی۔
رضا ربانی اپنے بیانات کے آئینے میں
٭...جتنا شرمندہ آج ہوں پہلے کبھی نہیں ہوا، رضا ربانی
رواں سال کے شروع میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے آرمی ایکٹ اور 21 ویں آئینی ترمیم کے حق میں اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دیا۔بعد ازاں21ویں ترمیم کی قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے منظوری کے بعد سینیٹ میں بھی ان ترامیم کو منظور کر لیا گیا تھا اور قومی اسمبلی میں ان ترامیم کے حق میں 248 جب کہ سینیٹ میں 78 اراکین نے ووٹ دیا جب کہ ان کے خلاف کوئی بھی ووٹ نہیں دیا گیا تھا۔ اُس موقع پر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ووٹ ان کی پارٹی کی امانت تھا اس لیے انہوں نے بل کے حق میں رائے دی،لیکن جتنا شرمندہ میں آج ہوں، اس سے قبل شاید کبھی نہیں ہوا، یہ ہی وہ موقع تھا جب رضا ربانی ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے تھے۔
٭...مسلم لیگ (ن) کی حکومت آتی ہے تو فوجی عدالتیں بنتی ہیں
یہ بات بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے کہی تھی کہ جب بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت آتی ہے تو فوجی عدالتیں بن جاتی ہیں اس لیے حکومت کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے، دو وزرائے اعظم کو مارشل لا کے ذریعے ہٹایا گیا، اب بھی سول عدالتیں موجود ہیں اس لیے ان کے نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور موجودہ عدالتوں کی موجودگی میں فوجی عدالتوں کے ذریعے دہشت گردی ختم نہیں کی جاسکتی۔ آئین میں ملٹری کورٹس نظر نہیں آتیں، آرٹیکل 245 کا نفاذ ہو اوراس پر فوجی عدالتیں قائم کردی جائیں تو پارلیمنٹ کا جواز نہیں بنتا اس لیے اراکین پارلیمنٹ کو استعفے دے دینے چاہیں۔
٭... خلافت ہو یا آمریت ،ملکی بقاء کے لیے خطرہ ہے
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے یہ بھی کہا تھا کہ خلافت یا آمریت کے برسر اقتدار آنے سے ملکی بقا خطرے میں پڑ جائے گی، ملک کی موجودہ سیاسی ملک کو 1973 کے آئین کے تحت صرف پارلیمانی نظام حکومت کے تحت چلایا جا سکتا ہے جو ملکی بقا کی واحد صورت ہے، کچھ سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور سرمایہ دار نے ماضی میں پاکستان کی قومی سلامتی کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جب کہ کچھ قوتیں موجودہ جمہوری نظام کو پٹڑی سے اتارنا چاہتی ہیں حالانکہ ایسی کوششوں کے نتائج ملک کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ آئین کی بالادستی نے اپنی جڑیں پکڑنی شروع کی ہیں لیکن کچھ قوتیں موجودہ نظام کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔
میاں رضا ربانی لاہور میں 23 جولائی 1953 کو، فیصل آباد کے معروف میاں خاندان میں پیدا ہوئے۔ بعد میں یہ خاندان کراچی منتقل ہو گیا، جہاں مختلف تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے انہوں نے جامعۂ کراچی سے قانون اور لبرل آرٹس کی ڈگری حاصل کی۔ کالج کے دوران ہی سیاست میں حصہ لینے لگے۔ انہوں نے پروگریسو طلبہ کی قومی تنظیم سازی میں ہراول کردار ادا کیا۔ بعد میں پیپلز پارٹی کے طلبہ شعبے پی ایس ایف کے مسند نشیں ہوئے۔ 1988 میں انہوں نے کراچی یونی ورسٹی سے اکنامکس میں بی اے آنرز کیا اور سول لاء میں ڈگری حاصل کی۔ ان کے والد گروپ کیپٹن میاں عطاء ربانی صاحب کو قائداعظم محمد علی جناح کے پہلے اے ڈی سی ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ میاں صاحب نظریاتی طور پر بائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں۔ سوشلزم اور کیمونزم کے حق میں انہوں نے بہت لکھا۔ 2003 میں ان کی تصنیف LFO: A Fraud on the constitution شائع ہوئی تھی جس میں اس وقت کے صدر پرویز مشرف پر شدید تنقید کی گئی تھی۔ A biography of Pakistani federalism بھی ان کی تصنیف ہے۔1981 میں ان کی ''ناپسندیدہ سرگرمیوں'' پر آمر ضیاء الحق کے دور میں میاں صاحب کو کراچی یونی ورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ حقوق انسانی کے لیے آواز اٹھانے پر انہیں فوجی عہد حکومت میں قید بھی کیا گیا۔ عملی زندگی کا آغاز انہوں نے وکالت ہی سے کیا تھا۔ 1988 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر عام انتخابات میں کام یاب ہوئے اور پھر قومی سیاسی دھارے میں شامل رہے۔ ان کی راست گوئی کے باعث ان کے مخالفین بھی ان کا احترام کرتے ہیں۔