آئرلینڈ کو ہلکا نہ لینا

2007 کے ورلڈ کپ میں بھی بڑے بڑے ناموں کے باوجود ہماری ٹیم 132 رنز پر ڈھیر ہو گئی تھی

skhaliq@express.com.pk

موبائل فون کی گھنٹی بجی، اسکرین پر ویسٹ انڈیز میں ٹیم کے ساتھ موجود قریبی دوست کا نام سامنے آنے پر میں نے چہک کر کہا '' جی بھائی جان کیا حال ہے'' ایسے میں دوسری جانب سے دبے دبے سے الفاظ میں کہا گیا ''یار باب کو نجانے کیا ہو گیا بے ہوش لگ رہا ہے،اﷲ خیر کرے'' میں نے اس وقت سوچا کہ شاید آئرلینڈ جیسی معمولی ٹیم سے شکست کوچ نے دل پر لے لی اور طبعیت خراب ہوگئی، مجھے معاملے کی سنگینی کا علم نہ تھا، اچانک دوبارہ اسی دوست کا فون آیا اور اس نے تقریباً روتے ہوئے کہا ''یار باب تو مرگیا''۔

اس وقت میں بھی حیرت سے دنگ رہ گیا، میں نے فوری طور پر اس وقت کے ڈائریکٹر ایکسپریس کو فون پر یہ بات بتائی، انھوں نے جواب دیا کہ ٹی وی پر تو ایسی کوئی خبر نہیں ہے، میں نے ان سے کہا ''آپ ٹائم نوٹ کر لیں پھر دیکھیے گا کتنی دیر میں یہ نیوز بریک ہوتی ہے، اس وقت تک ایکسپریس نیوز نہیں آیا تھا لہذا میں نے ان سے کہا کہ ''سر اگر ہمارا چینل آ چکا ہوتا تو سب سے پہلے ہم ہی یہ خبر بریک کرتے، چند گھنٹوں بعد باب وولمر کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کے جیسے پھیل گئی، پھر جو ہوا وہ سب جانتے ہیں، اب پھر وہی ورلڈکپ جاری اور آئرش ٹیم ہمارے سامنے آنے والی ہے تو یہ سب باتیں اچانک ذہن میں آ گئیں،

حریف سائیڈ نہ اس وقت کمزور تھی نہ اب ہے،17مارچ 2007کو عمران نذیر، حفیظ، یونس، یوسف، انضمام، شعیب ملک،کامران اکمل اور اظہر محمود جیسے بیٹسمینوں کی موجودگی میں ہماری ٹیم132رنز پر ڈھیر ہوگئی، وہ بچے بولرز جن کے اپنے ملک میں لوگ انھیں نہیں جانتے تھے بڑے بڑے بیٹسمین ان کی گیندیں نہ کھیل پائے، بعد میں امید تھی کہ شاید بولرز کچھ کر دکھائیں مگر ایسا نہ ہوا، ٹیم سے مخلص وولمر یہ صدمہ نہ جھیل سکے اور جان کی بازی ہار گئے، وہ میچ پاکستان کیوں ہارا شاید یہ بھی گمشدہ ملائیشین طیارے کی طرح ہمیشہ ایک راز ہی رہے گا، مگر ماضی اپنے آپ کو نہ دہرائے ہمیں اس کیلیے مکمل تیاری کرنی چاہیے۔


حالیہ ٹورنامنٹ میں ویسٹ انڈیز نے آئرلینڈ کیخلاف 304رنز بنا کر ہی خود کو فاتح سمجھ لیا، نتیجہ4 وکٹ کی شکست سے برداشت کرنا پڑا،25بالز قبل ہی ہدف عبور ہو گیا، یو اے ای کیخلاف آئرلینڈ نے 279رنز کا ٹارگٹ حاصل کیا،گوکہ اسے جنوبی افریقہ اور بھارت نے آؤٹ کلاس کیا مگر ان میچز میں بھی ٹیم نے 210 اور259رنز بنائے،زمبابوے کیخلاف تو331 رنز اسکور کرلیے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ آئرش بیٹنگ بیحد مضبوط اور پال اسٹرلنگ، ایڈ جوائس ، نیل اوبرائن، گیری ولسن، کیون اوبرائن، اینڈی بیلبرنی و ولیم پورٹر فیلڈ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں، البتہ بولنگ کمزور ہے لہذا پاکستان کو اسی پر اٹیک کرنا ہوگا، پہلے بیٹنگ کی صورت میں بڑا مجموعہ تشکیل دے کر حریف کو دباؤ کا شکار کیا جاسکتا ہے۔

ہدف کے تعاقب کی صورت میں یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ ہمارے بیٹسمین چاہے کیسی بھی بولنگ ہو250 سے زائد رنز بناتے ہوئے گھبرا جاتے ہیں، لہذا آئرلینڈ کو کم سے کم اسکور پر ہی آؤٹ کرنا پڑے گا، ایڈیلیڈ میں بنگلہ دیش نے انگلینڈ کو 276رنز کا ٹارگٹ عبور نہیں کرنے دیا، ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا، ویسے جنوبی افریقہ کی مضبوط بیٹنگ لائن کا جو ہمارے بولرز نے حال کیا وہ خاصا حوصلہ افزا ہے،خاص طور پر محمد عرفان اب اچھی فارم میں دکھائی دے رہے ہیں، البتہ میں انھیں مشورہ دینا چاہوں گا کہ ''آؤ مجھے اٹیک کرو'' جیسے بیانات سے گریز کریں، ان سے تکبر جھلکتا ہے، اپنے قدم جتنے زمین پر رکھیں گے اتنی ہی کامیابیاں ملیں گی۔

راحت علی کے اسکواڈ میں انتخاب پر خاصی تنقید ہوئی تھی مگر وہ بھی اب اچھی بولنگ کر رہے ہیں،اسی طرح وہاب ریاض کی کارکردگی بھی معیاری ہے،البتہ شائقین کا انتظار تھوڑا طویل ہو گیا اور وہ آفریدی سے اب میچ وننگ کارکردگی کی توقع کر رہے ہیں۔ سرفراز احمد کی شمولیت سے بیٹنگ لائن میں استحکام نظر آنے لگا ہے، ایسے میں ہمیں معین خان کو فراموش نہیں کرنا چاہیے، وکٹ کیپر کو انھوں نے ہمیشہ بیحد سپورٹ کیا، کیسینو تنازع کے بعد چیف سلیکٹر کو بورڈ چیئرمین نے پیشکش کی تھی کہ اگلا میچ زمبابوے سے ہے وہ جیت کر خود واپس آ جائیں مگر وہ نہ مانے جس پر مجبوراً بلانا پڑا، اب وہ گوشہ نشیی اختیار کیے ہوئے ہیں مگر غلطی کی معافی مانگ چکے لہذا دوبارہ آزادی سے جینے دینا چاہیے،آخر میں کوچ وقار یونس کا کچھ تذکرہ ہو جائے۔

پروٹیز سے میچ میں فتح کے بعد رمیز راجہ نے جب مین آف دی میچ سرفراز احمد کا انٹرویو کیا تو اس میں سوائے بولنگ کوچ مشتاق احمد کے انھوں نے کسی کا نام نہ لیا، البتہ اگلے دن جب پریس کانفرنس کی تو وقار وغیرہ کی تعریف میں زمین و آسمان ایک کر دیے، شائقین بچے نہیں ہیں کہ نہ سمجھیں سرفراز نے کس کے کہنے پر یہ باتیں کی تھیں، ویسے بھی کوچ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ایک صحافی کے سوال کو ''اسٹوپڈ'' کہنے سے کچھ نہیں ہوگا، انھیں چاہیے کہ میدان میں پلیئرز سے ایسی پرفارمنس لیں کہ سب ان کی تعریفیں کرنے پر مجبور ہو جائیں، پھر کسی کے کان میں چپکے سے یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ '' شاباش میرا نام لینا کہ میری حوصلہ افزائی سے کارکردگی بہتر ہوئی ہے''۔
Load Next Story