مفاہمت اور جمہوریت
سیاسی پارٹیوں کا باہمی اتحاد دراصل عوام کے خلاف متحدہ محاذ ہے، ان کو خوف ہے کہ جرائم اس قدر بڑھ گئے ہیں
جمہوریت خود تصادم سے بچنے کا ایک ذریعہ ہے۔ کیونکہ مختلف الخیال لوگ اپنے معاملات کا حل اور منزل کا تعین اسی کے راستے سے کرتے ہیں۔ مگر خیالات کے تیر پہلے میدان میں چھوڑے جاتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کس زاویہ نگاہ سے چھوڑے جانے والے تیر نے کس ہدف کو بہتر طریقے سے نشانہ بنایا اور کس زاویے سے لگایا جانے والا نشانہ قابل ستائش نہ تھا۔
مگر اہداف پر نشانہ لگائے بغیر یہ فیصلہ کر لینا کہ آؤ تیر چلائے بغیر ہی یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم دونوں یکساں موثر ہیں اور ان کے نتائج بھی مساوی ہیں۔ جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک نشانہ باز کا ہر نشانہ اتنا پختہ نہیں ہوتا جس قدر وہ ازخود توقع کرتا ہے اور ہر نشانہ ہدف پر صد فیصد موثر نہیں ہوتا چہ جائیکہ دو نشانہ بازوں کے عمل کو یکساں قرار دینا اور اس کو مفاہمت اور افہام و تفہیم قرار دینا مفادات کا اشتراک ہے اور اگر ایسی راہ اپنائی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے مفادات بھی یکساں ہیں اور منزل بھی ایک ہے۔
گزشتہ انتخابات درحقیقت کسی نظریے کے عکاس نہ تھے اور نہ عوام کے لیے کوئی ایجنڈا رکھتے تھے بلکہ ہر پارٹی محدود مخصوص لوگوں کے مفادات کے حصول کے لیے ایجنڈا رکھتی ہے۔ اور عوام کے لیے کوئی ایجنڈا نہیں رکھتی۔ صرف عوام کے لیے غربت افلاس اور بے روزگاری میں وسعت کا ایجنڈا ہے۔
ایسی حکومت جو عوام سے دور ہو اور عوام کے مسائل کو بڑھاوا دے عوامی نمایندوں کا بازار ہے، ابھی سینیٹ کے انتخابات نے ہارس اینڈ کیٹل شو (Horse & Cattle Show)کا سماں پیش کیا تھا۔ عوام کو ان انتخابات کی حقیقت سامنے نظر آئی وہ اپنی قیادت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، یہ بات سامنے نظر آئی ایوان زیریں اور ایوان بالا اپنی حقیقت کھوتے جا رہے ہیں اور ہر روز عوام کی نظروں میں لیڈروں کا وقار گرتا جا رہا ہے۔ اور فوج کا وقار بڑھتا جا رہا ہے۔
گوکہ کسی مہذب ملک میں فوجی حکومت کا کوئی تصور نہیں ہوتا مگر پاکستان میں بار بار فوجی حکومت منطقی صورتحال کا تقاضا ہے۔ ویسے تو ملک میں نوکریوں کا فقدان ہے ملکی آمدنی کے اضافے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ ایکسپورٹ نہ صرف ایک مقام پر کھڑی ہے بلکہ روبہ زوال بلکہ ملکی ایکسپورٹ سمندر پار پاکستانیوں کی رقوم جو زرمبادلہ کی شکل میں آتی ہیں ان سے بھی کم ہیں۔ ملک میں کوئی صنعت ترقی پذیر نہیں ماسوائے اس کے کہ سمندر پار پاکستانیوں کی رقوم سے زمین اور مکان کا کاروبار زور و شور سے جاری ہے۔
جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کی قوت خرید شدید بحران کا شکار ہے اور وہ زمینوں کی خرید کی قوت مکان کی قوت خرید اور کرایہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اسمبلی کے ممبران کو اس سمت توجہ دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کو عوام سے کوئی تعلق نہیں اور نہ وہ عوامی مفادات میں کوئی بل اسمبلی میں پیش کرتے ہیں اور نہ ہی ان کو کوئی ضرورت ہے کہ ایسے بل پیش کریں۔
بلکہ پاکستان جمہوریت پسند ممالک میں واحد ملک ہے جہاں سینیٹ میں حزب اقتدار اور حزب مخالف کا تصور بھی جاتا رہا اور علامہ طاہر القادری نے ڈی چوک اسلام آباد پر جو محاذ آرائی کی تھی اور عمران خان بھی عوامی مطالبات کے لیے احتجاج کر رہے تھے وہ بھی بس مزدوروں، کسانوں اور عام لوگوں کے مطالبات چھوڑ کر اپنے ووٹوں تک آن پہنچے۔ جس کے بعد ایک مفاہمتی گروپ سے بغل گیر ہو رہے ہیں یا حکمراں فکر سے قریب تر ہو رہے ہیں۔
جمہوریت کی خو بو تو راستوں کے انتخاب پر منحصر ہے اور ہر پارٹی کا منزل تک پہنچنے تک کا الگ راستہ ہے اور تفصیل جس کو ہم منشور کہتے ہیں مگر پاکستان میں انتخابات منشور پر نہیں لڑے جاتے، قوم پرستی تو بڑا لفظ ہے یہ نسل پرستی پر ہی لڑے جاتے ہیں۔ اس لیے ملک میں عوام ایک دوسرے سے قریب نہیں آسکتے بلکہ اب تو فرقہ پرستی تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
یہ سب لیڈروں کی دین ہیں کہ ہم بحیثیت قوم اب تک ایک ہار کے بجائے بکھرے ہوئے موتی ہیں جب کہ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک ہم سے بہتر معاشی حالات میں ہیں۔ کثیر آبادی والا چین ہمارا مددگار اور ہم سے آزاد ہونے والا بنگلہ دیش نے اپنے ٹکہ (روپیہ) کی قدر و قیمت ہم سے زیادہ بنالی ہے۔
یہ سب ہماری لیڈرشپ کا کرشمہ ہے جو بہ یک وقت تاجر بھی ہیں اور حاکم بھی اور سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اکثر سیاسی جماعتوں کے خفیہ طور پر نیم عسکری بازو ہیں جس سے ملک میں قتل و غارت کی سیاست کے ساتھ رہزنی، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور زمینوں پر قبضہ بعض سیاسی جماعتوں کا وطیرہ بن گیا ہے۔
ایسی صورت میں ملکی صورتحال میں بدامنی کا کلچر فروغ پا رہا ہے اور اردو زبان کی مثل خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، ملک بھر میں یہ بیماری وبائی مرض کی صورت اختیار کر رہی ہے۔ لیڈروں کو عوام کے مسائل سے کوئی غرض نہیں، ملازمتوں کے دروازے عوام پر بند ہیں اور اگر اکا دکا نوکری ملتی بھی ہے تو وہ بھی سیاسی پارٹیوں کے لیٹر ہیڈ پر، جس پارٹی میں جتنا زور ہے اس کے پاس اتنی اسامیاں ہیں، سفارش یا برائے فروخت۔ چونکہ سیاسی ابتری پھیلتی جا رہی ہے اس لیے ملکی وحدت داؤ پر لگ چکی ہے۔
پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اس لیے یہ خلفشار زیادہ عرصے تک اگر جاری رہا تو ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ دنیا کے بعض ممالک کو پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا عالمی پیمانے پر پسند نہیں۔ اس لیے پاکستان کا واحد ادارہ فوج ہے جو دہشت گردی کے خلاف سرگرم ہے اور ملکی سلامتی کا دارومدار فوج کے ذمے ہے اسی لیے فوج سیاسی عمل پر اور بدامنی کے محاذ پر بھی سرگرم ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ سویلین حکومت کے دور میں اکثر بدنظمی رہی ہے مگر گزشتہ 7/8 برسوں میں جو صورت حال سامنے رہی ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں اور اب یہ کہنا پڑتا ہے کہ علامہ طاہر القادری نے ریاست اور سیاست کی جو باتیں کی تھیں وہ حقیقت بن کر سامنے آرہی ہیں کہ ملک اور عام آدمی کے معاش کا کسی لیڈر کو خیال نہیں۔
پی پی اور (ن) لیگ دونوں ہی جانب سیاسی چالوں کے جال بچھائے گئے اور زرداری صاحب نے جو مہرا آگے بڑھایا وہ تھے رضا ربانی جو مکتب پی پی پی کے نظری اور فکری ادارے کے فارغ التحصیل ہیں جو خود کو مارکسی فلسفے کا داعی سمجھتے تھے اور کسی حد تک انھوں نے پی پی پی کو اس منزل سے قریب تر رکھا۔ ظاہر ہے عوام کو دھوکا دینے کے لیے اس سے بہتر کوئی دوسرا امیدوار نہ ہوگا۔ مانا کہ ان کا کوئی خود حلقہ انتخاب نہیں ہے نہ کوئی جاگیردار، سردار اور وڈیرے ہیں۔
مگر وہ اس قدر جری نہیں کہ مسٹر زرداری یا نواز شریف کی آرا کے خلاف جانے کی ہمت کرسکیں، مگر انھوں نے عمر بھر اپنی عزت کی پاسداری کی لیکن آنے والا وقت اس وقت سے کہیں زیادہ نازک ہے۔
فوج کو علم ہے کہ سرحدی محاذ اور شہری محاذ پر یکساں مشکلات ہیں اور ان سے نمٹنا ہے، بھارت نے ایک موقع تھا کہ وہ کراچی کی جانب متوجہ تھا کہ کشمیر کا دباؤ کراچی سے خارج کرے گا، مگر اس کا یہ خواب پورا نہ ہوا۔ مانا کہ یہاں بھارت سے آئے ہوئے لوگ آباد ہوئے مگر یہ نظری اور فکری طور پر پاکستانی در پاکستانی ہیں اور بھارت سے بعض ثقافتی کڑیاں ملنے اور اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑنے کے باوجود وہ ہر صورت پاکستانی ہیں، لہٰذا یہاں کوئی عوامی بغاوت کے امکانات تھے اور نہ ہیں اور نہ ہی مستقبل میں ایسی توقع کی جاسکتی ہے۔
اور اگر کراچی میں توقع ہے تو کسی عوامی تحریک کی مگر موجودہ صورتحال میں عوامی تحریک کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ طلبا کی کوئی آزاد پارٹی نہیں، طلبا کی تنظیمیں سیاسی پارٹیوں کے سایے میں پروان چڑھ رہی ہیں، ان کا اپنا کوئی تعلیمی مشن نہیں اور نہ طلبا کے مہنگے تعلیمی مراکز پر ان کی کوئی تنقید ہے، وہ آپس میں ہی دست و گریباں ہیں، سب پارٹیوں کے اپنے مقاصد ہیں عام لوگ بھیڑ اور بکریاں ہیں، ہر روز دس بارہ انسانوں کی بلی چڑھائی جاتی ہے۔
سیاسی پارٹیوں کا باہمی اتحاد دراصل عوام کے خلاف متحدہ محاذ ہے، ان کو خوف ہے کہ جرائم اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ لوگوں میں حکومت کے خلاف نفرت پھیل رہی ہے، عوام کا الیکشن سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ فوج مکمل طور پر کنٹرول سنبھال لے، اس لیے مفاہمت کی سیاست کا بیڑا بنایا جائے تاکہ اپنا بیڑا پار ہوجائے۔ اگر صورتحال یوں ہی رہی تو آیندہ چند ماہ میں مہنگائی کا ایک اور طوفان آنے کو ہے جس سے سیاست دانوں کو زرکثیر حاصل ہوگا اور عوام کو راہ فقیر حاصل ہوگی۔
مگر اہداف پر نشانہ لگائے بغیر یہ فیصلہ کر لینا کہ آؤ تیر چلائے بغیر ہی یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم دونوں یکساں موثر ہیں اور ان کے نتائج بھی مساوی ہیں۔ جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک نشانہ باز کا ہر نشانہ اتنا پختہ نہیں ہوتا جس قدر وہ ازخود توقع کرتا ہے اور ہر نشانہ ہدف پر صد فیصد موثر نہیں ہوتا چہ جائیکہ دو نشانہ بازوں کے عمل کو یکساں قرار دینا اور اس کو مفاہمت اور افہام و تفہیم قرار دینا مفادات کا اشتراک ہے اور اگر ایسی راہ اپنائی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے مفادات بھی یکساں ہیں اور منزل بھی ایک ہے۔
گزشتہ انتخابات درحقیقت کسی نظریے کے عکاس نہ تھے اور نہ عوام کے لیے کوئی ایجنڈا رکھتے تھے بلکہ ہر پارٹی محدود مخصوص لوگوں کے مفادات کے حصول کے لیے ایجنڈا رکھتی ہے۔ اور عوام کے لیے کوئی ایجنڈا نہیں رکھتی۔ صرف عوام کے لیے غربت افلاس اور بے روزگاری میں وسعت کا ایجنڈا ہے۔
ایسی حکومت جو عوام سے دور ہو اور عوام کے مسائل کو بڑھاوا دے عوامی نمایندوں کا بازار ہے، ابھی سینیٹ کے انتخابات نے ہارس اینڈ کیٹل شو (Horse & Cattle Show)کا سماں پیش کیا تھا۔ عوام کو ان انتخابات کی حقیقت سامنے نظر آئی وہ اپنی قیادت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، یہ بات سامنے نظر آئی ایوان زیریں اور ایوان بالا اپنی حقیقت کھوتے جا رہے ہیں اور ہر روز عوام کی نظروں میں لیڈروں کا وقار گرتا جا رہا ہے۔ اور فوج کا وقار بڑھتا جا رہا ہے۔
گوکہ کسی مہذب ملک میں فوجی حکومت کا کوئی تصور نہیں ہوتا مگر پاکستان میں بار بار فوجی حکومت منطقی صورتحال کا تقاضا ہے۔ ویسے تو ملک میں نوکریوں کا فقدان ہے ملکی آمدنی کے اضافے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ ایکسپورٹ نہ صرف ایک مقام پر کھڑی ہے بلکہ روبہ زوال بلکہ ملکی ایکسپورٹ سمندر پار پاکستانیوں کی رقوم جو زرمبادلہ کی شکل میں آتی ہیں ان سے بھی کم ہیں۔ ملک میں کوئی صنعت ترقی پذیر نہیں ماسوائے اس کے کہ سمندر پار پاکستانیوں کی رقوم سے زمین اور مکان کا کاروبار زور و شور سے جاری ہے۔
جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کی قوت خرید شدید بحران کا شکار ہے اور وہ زمینوں کی خرید کی قوت مکان کی قوت خرید اور کرایہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اسمبلی کے ممبران کو اس سمت توجہ دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کو عوام سے کوئی تعلق نہیں اور نہ وہ عوامی مفادات میں کوئی بل اسمبلی میں پیش کرتے ہیں اور نہ ہی ان کو کوئی ضرورت ہے کہ ایسے بل پیش کریں۔
بلکہ پاکستان جمہوریت پسند ممالک میں واحد ملک ہے جہاں سینیٹ میں حزب اقتدار اور حزب مخالف کا تصور بھی جاتا رہا اور علامہ طاہر القادری نے ڈی چوک اسلام آباد پر جو محاذ آرائی کی تھی اور عمران خان بھی عوامی مطالبات کے لیے احتجاج کر رہے تھے وہ بھی بس مزدوروں، کسانوں اور عام لوگوں کے مطالبات چھوڑ کر اپنے ووٹوں تک آن پہنچے۔ جس کے بعد ایک مفاہمتی گروپ سے بغل گیر ہو رہے ہیں یا حکمراں فکر سے قریب تر ہو رہے ہیں۔
جمہوریت کی خو بو تو راستوں کے انتخاب پر منحصر ہے اور ہر پارٹی کا منزل تک پہنچنے تک کا الگ راستہ ہے اور تفصیل جس کو ہم منشور کہتے ہیں مگر پاکستان میں انتخابات منشور پر نہیں لڑے جاتے، قوم پرستی تو بڑا لفظ ہے یہ نسل پرستی پر ہی لڑے جاتے ہیں۔ اس لیے ملک میں عوام ایک دوسرے سے قریب نہیں آسکتے بلکہ اب تو فرقہ پرستی تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
یہ سب لیڈروں کی دین ہیں کہ ہم بحیثیت قوم اب تک ایک ہار کے بجائے بکھرے ہوئے موتی ہیں جب کہ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک ہم سے بہتر معاشی حالات میں ہیں۔ کثیر آبادی والا چین ہمارا مددگار اور ہم سے آزاد ہونے والا بنگلہ دیش نے اپنے ٹکہ (روپیہ) کی قدر و قیمت ہم سے زیادہ بنالی ہے۔
یہ سب ہماری لیڈرشپ کا کرشمہ ہے جو بہ یک وقت تاجر بھی ہیں اور حاکم بھی اور سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اکثر سیاسی جماعتوں کے خفیہ طور پر نیم عسکری بازو ہیں جس سے ملک میں قتل و غارت کی سیاست کے ساتھ رہزنی، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور زمینوں پر قبضہ بعض سیاسی جماعتوں کا وطیرہ بن گیا ہے۔
ایسی صورت میں ملکی صورتحال میں بدامنی کا کلچر فروغ پا رہا ہے اور اردو زبان کی مثل خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، ملک بھر میں یہ بیماری وبائی مرض کی صورت اختیار کر رہی ہے۔ لیڈروں کو عوام کے مسائل سے کوئی غرض نہیں، ملازمتوں کے دروازے عوام پر بند ہیں اور اگر اکا دکا نوکری ملتی بھی ہے تو وہ بھی سیاسی پارٹیوں کے لیٹر ہیڈ پر، جس پارٹی میں جتنا زور ہے اس کے پاس اتنی اسامیاں ہیں، سفارش یا برائے فروخت۔ چونکہ سیاسی ابتری پھیلتی جا رہی ہے اس لیے ملکی وحدت داؤ پر لگ چکی ہے۔
پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اس لیے یہ خلفشار زیادہ عرصے تک اگر جاری رہا تو ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ دنیا کے بعض ممالک کو پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا عالمی پیمانے پر پسند نہیں۔ اس لیے پاکستان کا واحد ادارہ فوج ہے جو دہشت گردی کے خلاف سرگرم ہے اور ملکی سلامتی کا دارومدار فوج کے ذمے ہے اسی لیے فوج سیاسی عمل پر اور بدامنی کے محاذ پر بھی سرگرم ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ سویلین حکومت کے دور میں اکثر بدنظمی رہی ہے مگر گزشتہ 7/8 برسوں میں جو صورت حال سامنے رہی ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں اور اب یہ کہنا پڑتا ہے کہ علامہ طاہر القادری نے ریاست اور سیاست کی جو باتیں کی تھیں وہ حقیقت بن کر سامنے آرہی ہیں کہ ملک اور عام آدمی کے معاش کا کسی لیڈر کو خیال نہیں۔
پی پی اور (ن) لیگ دونوں ہی جانب سیاسی چالوں کے جال بچھائے گئے اور زرداری صاحب نے جو مہرا آگے بڑھایا وہ تھے رضا ربانی جو مکتب پی پی پی کے نظری اور فکری ادارے کے فارغ التحصیل ہیں جو خود کو مارکسی فلسفے کا داعی سمجھتے تھے اور کسی حد تک انھوں نے پی پی پی کو اس منزل سے قریب تر رکھا۔ ظاہر ہے عوام کو دھوکا دینے کے لیے اس سے بہتر کوئی دوسرا امیدوار نہ ہوگا۔ مانا کہ ان کا کوئی خود حلقہ انتخاب نہیں ہے نہ کوئی جاگیردار، سردار اور وڈیرے ہیں۔
مگر وہ اس قدر جری نہیں کہ مسٹر زرداری یا نواز شریف کی آرا کے خلاف جانے کی ہمت کرسکیں، مگر انھوں نے عمر بھر اپنی عزت کی پاسداری کی لیکن آنے والا وقت اس وقت سے کہیں زیادہ نازک ہے۔
فوج کو علم ہے کہ سرحدی محاذ اور شہری محاذ پر یکساں مشکلات ہیں اور ان سے نمٹنا ہے، بھارت نے ایک موقع تھا کہ وہ کراچی کی جانب متوجہ تھا کہ کشمیر کا دباؤ کراچی سے خارج کرے گا، مگر اس کا یہ خواب پورا نہ ہوا۔ مانا کہ یہاں بھارت سے آئے ہوئے لوگ آباد ہوئے مگر یہ نظری اور فکری طور پر پاکستانی در پاکستانی ہیں اور بھارت سے بعض ثقافتی کڑیاں ملنے اور اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑنے کے باوجود وہ ہر صورت پاکستانی ہیں، لہٰذا یہاں کوئی عوامی بغاوت کے امکانات تھے اور نہ ہیں اور نہ ہی مستقبل میں ایسی توقع کی جاسکتی ہے۔
اور اگر کراچی میں توقع ہے تو کسی عوامی تحریک کی مگر موجودہ صورتحال میں عوامی تحریک کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ طلبا کی کوئی آزاد پارٹی نہیں، طلبا کی تنظیمیں سیاسی پارٹیوں کے سایے میں پروان چڑھ رہی ہیں، ان کا اپنا کوئی تعلیمی مشن نہیں اور نہ طلبا کے مہنگے تعلیمی مراکز پر ان کی کوئی تنقید ہے، وہ آپس میں ہی دست و گریباں ہیں، سب پارٹیوں کے اپنے مقاصد ہیں عام لوگ بھیڑ اور بکریاں ہیں، ہر روز دس بارہ انسانوں کی بلی چڑھائی جاتی ہے۔
سیاسی پارٹیوں کا باہمی اتحاد دراصل عوام کے خلاف متحدہ محاذ ہے، ان کو خوف ہے کہ جرائم اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ لوگوں میں حکومت کے خلاف نفرت پھیل رہی ہے، عوام کا الیکشن سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ فوج مکمل طور پر کنٹرول سنبھال لے، اس لیے مفاہمت کی سیاست کا بیڑا بنایا جائے تاکہ اپنا بیڑا پار ہوجائے۔ اگر صورتحال یوں ہی رہی تو آیندہ چند ماہ میں مہنگائی کا ایک اور طوفان آنے کو ہے جس سے سیاست دانوں کو زرکثیر حاصل ہوگا اور عوام کو راہ فقیر حاصل ہوگی۔