بڑی زرخیز ہے مٹی
یہ درخت نجانے کتنے بادشاہوں کے طمطراق اور کتنوں کے زوال دیکھ چکا ہے۔
یہ درخت نجانے کتنے بادشاہوں کے طمطراق اور کتنوں کے زوال دیکھ چکا ہے۔ لاہور کے شاہی قلعے میں وہ توانا شاخوں سے مزین درخت بڑی شان سے آج بھی وہیں کھڑا ہے، اسے پہلی بار دیکھ کر ذہن میں یہی خیال ابھرا تھا۔ اس درخت کی جڑوں نے نجانے کہاں تک کا سفر طے کر ڈالا تھا، اس کی گھنی ٹھنڈی چھاؤں آج بھی اپنے اندر ممتا کی گود سی محبت لیے ہمک رہی ہے۔
یہ درخت کتنے مضبوط اور توانا ہوتے ہیں جو برسوں میں تیار ہو کر بڑے ہوتے ہیں اور صدیوں تک قائم رہتے ہیں، جتنا اونچا گھنیرا درخت اتنی ہی اس کی شان۔ کسی قوم کی تعمیر بھی ایک درخت کی مانند ہوتی ہے جس کی جڑیں زمین میں دور دور تک پھیلی اس کی مضبوطی میں اضافہ کرتی ہیں جب کہ اوپر سے نظر آنے والا درخت لوگوں کو تحفظ اور چھاؤں فراہم کرتا ہے۔
اس کے لیے طویل صبر آزما وقت درکار ہوتا ہے۔ آکاس بیل کی طرح آناً فاناً بڑھنا اور پھر چند مہینوں بعد اس کا سوکھ جانا ہمیں یہی سبق دیتا ہے کہ جو قوم دوسروں کی طاقت پر انحصار کرتی ہے وہ پھل پھول نہیں سکتی۔
ایک طویل عرصے سے ہمارے ملک میں حکمرانی کے حوالے سے سوالات اٹھتے رہے ہیں، مارشل لاز نے اس ملک کی جمہوریت کے پودے کو پنپنے نہ دیا لیکن پھر بھی ملک کی ترقی کو بڑھانے میں اب تک ایوب خان کے دور نے ہی اہم کردار ادا کیا، گو ان کا دور مارشل لا ہی تھا، شاید اس امر میں خلوص، لگن اور اچھی نیت کا عمل دخل ہے طرز حکمرانی چاہے کوئی بھی ہو۔
کچھ ہفتوں قبل ٹیچرز سے ان کے پڑھانے کے طرز عمل اور اس سے متعلق معلومات کہ کس طرح ایک استاد اپنے طالب علموں کو پڑھنے کے عمل میں راغب کرتا ہے، یہ صرف سرکاری اساتذہ تک محدود نہ تھا بلکہ اس کا دائرہ پرائیویٹ اسکولز کی ٹیچرز تک تھا، یہ بھی حقیقت ہے کہ نجی اسکولز میں چاہے وہ بہت بڑے نام کا ہو یا گلی محلے کا، ادارے کے مالکان اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ بچوں کا نتیجہ بہت اچھا رہے۔
اس کے لیے وہ تمام پاپڑ بیلتے ہیں، چاہے اساتذہ کو کئی ہزار دیں یا چند ہزار لیکن سختی سے نگرانی ضرور کی جاتی ہے، اساتذہ پر بھی اس بات کی ٹینشن رہتی ہے کہ کلاس کے بچے بے قابو نہ ہوں، شور نہ کریں اور اسی مشقت میں وہ صبح سے پوری دوپہر لگا دیتے ہیں، ذاتی طور پر مجھے ان اساتذہ سے ہمدردی ہے جب کہ ان کے مقابلے میں سرکاری اسکولز کے اساتذہ مالی طور پر خاصے مستحکم (تنخواہ کے حوالے سے) اور نوکری کے حوالے سے بھی یقینی ہوتے ہیں۔
وہ جانتے ہیں کہ اسکول کے ہیڈز ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، انھیں کوئی نوکری سے برخاست نہیں کر سکتا۔ بہرحال یہ بحث تو خاصی طویل ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ذہنی طور پر پرسکون اساتذہ جو سرکاری اسکولز سے منسلک ہیں ان کی کارکردگی پرائیویٹ اداروں کے اساتذہ کے مقابلے میں خاصی ابتر ہے۔ لیکن اس طرح ٹیچرز کے پڑھانے کے دلچسپ طریقے کہ جس سے طالب علم پڑھنے میں دلچسپی لیں ایک اچھی کاوش ہے۔
اس میں کس حد تک بہتری پیدا کی جا سکتی ہے یا یہ بھی خانہ پری کے لیے ہے، اس سلسلے میں اب کیا کہیں، لیکن اگر پرانے طالب علم جو اب نانا، دادا بن چکے ہیں ان سے ان کے زمانے کے اساتذہ کے بارے میں ایک سروے کیا جائے اور اس طریقہ کار کو اپلائی کیا جائے، وہ بھی کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دور میں ٹی وی اور انٹرنیٹ کلچر نہ تھا، بچوں کے پاس کھیلنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہ تھا۔
حال ہی میں وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ایک پراجیکٹ ''اڑان'' کے بارے میں دیکھا جو سرکاری شعبے اور سول سروس میں اصلاحات کے ذریعے کارکردگی کے بلند معیار کو چھونے سے متعلق تھا، بظاہر ایک اچھا قدم لگتا ہے، اس میں اسٹیک ہولڈرز جن میں عوامی نمایندے، شہری تنظیمیں، سرکاری ملازمین، ماہرین، سول سوسائٹی، ماہرین تعلیم اور میڈیا سے تجاویز اور مشورے مانگے گئے ہیں۔
ویسے تو یہ سمجھداری اور عقلمندی محسوس ہوتی ہے یعنی تنقید کاروں سے ہی پوچھا گیا کہ اب آپ ہی بتائیے کہ ہم کیا کریں اس سلسلے میں۔ یقین جانیے پڑھ کر بہت اچھا لگتا ہے لیکن حقائق کی نظر سے دیکھیے کہ اس پورے عمل میں وہ تمام تجاویز اور رائے کو اہمیت دی جائے گی جسے ہم اپنے لکھاریوں کے قلم سے نکلی تحریر کو پڑھتے ہیں، وہ بیچارے ہم سمیت لکھ لکھ کر صفحے کالے کر چکے ہیں، تصاویر کے ساتھ سب کچھ چھپ بھی جاتا ہے لیکن اس کا رزلٹ کیا نکلتا ہے۔
ہمارے ایک سینئر کالم نگار جن کے مضامین اکثر میں انٹرنیٹ پر ہی پڑھتی ہوں ان کا تعلق کوئٹہ سے ہے وہ جس باریک بینی سے مسائل کو اجاگر کرتے ہیں اور تجاویز بھی پیش کرتے رہتے ہیں اسے پڑھ کر ہم بس تعریف ہی کر سکتے ہیں لیکن بلوچستان کے اہم مسئلے کے لیے سوائے تعریف کے کچھ اور نہیں کر سکتے۔ حالانکہ اس وقت بلوچستان کے مسائل کو دیکھنا اور چھوٹے چھوٹے مسائل کو سلجھانے سے ایک بڑی گتھی سلجھ سکتی ہے، بالکل ایسے جیسے برسوں سے دھیمی دھیمی آنچ نے ایک آگ کو روشن کیا ہے، اسی طرح سمجھداری اور کھلے دل سے ایک ایک چنگاری کو بجھاتے چلنا ہے۔
مثال کے طور پر کرکٹ کو ہی لے لیجیے پچھلے چند برسوں میں کرسیوں کے چکر میں ایک تکرار چلی، اس تکرار کا کرکٹ سے کیا تعلق اور اس کی حالیہ کارکردگی سے کتنا تعلق ہے، کرکٹ ایک ایسا شعبہ بن چکا ہے جس کی سانس براہ راست عوام سے جڑی ہے، بہت کچھ کہا گیا بگ تھری کی صدائیں سنی گئیں لیکن کرکٹ ٹیم نے کیا آؤٹ پُٹ دیا، سب کے سامنے ہے۔ یہ سب بالکل ایسا عمل ہے جب ایک شریر بچے کو سدھانے کے لیے دین کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں، نماز کی پابندی کو کہا جاتا ہے، جس پر بچہ کہتا ہے کہ کل سے نماز پڑھوں گا، اور وہ کل نہیں آتا۔
دبئی ایک امیر ریاست ہے، اس سے دنیا نے اور خود دبئی کے باسیوں نے خوب کمایا۔ ایک عام شہری اگر دبئی کے اعلیٰ ترین عہدیدار سے بات کرنا چاہتا ہے شکایت کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے پرانے زمانے کی طرح ایک بڑا گھنٹہ نہیں ہے جسے بجاتے ہی سلطان سمجھ جاتا تھا کہ کوئی مجبور سوالی بن کر آیا ہے۔
آج کل کے جدید دور میں انٹرنیٹ کے ذریعے اس گھنٹے کے عمل کو سہل بنا دیا گیا، آپ بڑے آرام سے کسی بھی ادارے کے خلاف یا کرپٹ فرد واحد کی شکایت کی میل کر سکتے ہیں اس ذاتی اکاؤنٹ سے سلطان براہ راست اپنی عوام سے کنیکٹ ہوتا ہے وہ اس کا آپ کو جواب دیں نہ دیں لیکن سائل کی شنوائی ضرور ہوتی ہے۔
ایک بار ہم نے بھی پانی کی شکایت کے لیے متعلقہ ادارے کو ای میل کرنے کی کوشش کی لیکن سر میں درد ہو گیا اور میل نہ ہو سکی۔ خیر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ لیکن ہونا نہیں چاہیے۔ اور دفاتر میں فائلوں کے ڈھیر در ڈھیر نہ بنائیے کہ اس ڈھیر سے نجانے کتنا سونا برآمد ہو۔
یہ درخت کتنے مضبوط اور توانا ہوتے ہیں جو برسوں میں تیار ہو کر بڑے ہوتے ہیں اور صدیوں تک قائم رہتے ہیں، جتنا اونچا گھنیرا درخت اتنی ہی اس کی شان۔ کسی قوم کی تعمیر بھی ایک درخت کی مانند ہوتی ہے جس کی جڑیں زمین میں دور دور تک پھیلی اس کی مضبوطی میں اضافہ کرتی ہیں جب کہ اوپر سے نظر آنے والا درخت لوگوں کو تحفظ اور چھاؤں فراہم کرتا ہے۔
اس کے لیے طویل صبر آزما وقت درکار ہوتا ہے۔ آکاس بیل کی طرح آناً فاناً بڑھنا اور پھر چند مہینوں بعد اس کا سوکھ جانا ہمیں یہی سبق دیتا ہے کہ جو قوم دوسروں کی طاقت پر انحصار کرتی ہے وہ پھل پھول نہیں سکتی۔
ایک طویل عرصے سے ہمارے ملک میں حکمرانی کے حوالے سے سوالات اٹھتے رہے ہیں، مارشل لاز نے اس ملک کی جمہوریت کے پودے کو پنپنے نہ دیا لیکن پھر بھی ملک کی ترقی کو بڑھانے میں اب تک ایوب خان کے دور نے ہی اہم کردار ادا کیا، گو ان کا دور مارشل لا ہی تھا، شاید اس امر میں خلوص، لگن اور اچھی نیت کا عمل دخل ہے طرز حکمرانی چاہے کوئی بھی ہو۔
کچھ ہفتوں قبل ٹیچرز سے ان کے پڑھانے کے طرز عمل اور اس سے متعلق معلومات کہ کس طرح ایک استاد اپنے طالب علموں کو پڑھنے کے عمل میں راغب کرتا ہے، یہ صرف سرکاری اساتذہ تک محدود نہ تھا بلکہ اس کا دائرہ پرائیویٹ اسکولز کی ٹیچرز تک تھا، یہ بھی حقیقت ہے کہ نجی اسکولز میں چاہے وہ بہت بڑے نام کا ہو یا گلی محلے کا، ادارے کے مالکان اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ بچوں کا نتیجہ بہت اچھا رہے۔
اس کے لیے وہ تمام پاپڑ بیلتے ہیں، چاہے اساتذہ کو کئی ہزار دیں یا چند ہزار لیکن سختی سے نگرانی ضرور کی جاتی ہے، اساتذہ پر بھی اس بات کی ٹینشن رہتی ہے کہ کلاس کے بچے بے قابو نہ ہوں، شور نہ کریں اور اسی مشقت میں وہ صبح سے پوری دوپہر لگا دیتے ہیں، ذاتی طور پر مجھے ان اساتذہ سے ہمدردی ہے جب کہ ان کے مقابلے میں سرکاری اسکولز کے اساتذہ مالی طور پر خاصے مستحکم (تنخواہ کے حوالے سے) اور نوکری کے حوالے سے بھی یقینی ہوتے ہیں۔
وہ جانتے ہیں کہ اسکول کے ہیڈز ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، انھیں کوئی نوکری سے برخاست نہیں کر سکتا۔ بہرحال یہ بحث تو خاصی طویل ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ذہنی طور پر پرسکون اساتذہ جو سرکاری اسکولز سے منسلک ہیں ان کی کارکردگی پرائیویٹ اداروں کے اساتذہ کے مقابلے میں خاصی ابتر ہے۔ لیکن اس طرح ٹیچرز کے پڑھانے کے دلچسپ طریقے کہ جس سے طالب علم پڑھنے میں دلچسپی لیں ایک اچھی کاوش ہے۔
اس میں کس حد تک بہتری پیدا کی جا سکتی ہے یا یہ بھی خانہ پری کے لیے ہے، اس سلسلے میں اب کیا کہیں، لیکن اگر پرانے طالب علم جو اب نانا، دادا بن چکے ہیں ان سے ان کے زمانے کے اساتذہ کے بارے میں ایک سروے کیا جائے اور اس طریقہ کار کو اپلائی کیا جائے، وہ بھی کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دور میں ٹی وی اور انٹرنیٹ کلچر نہ تھا، بچوں کے پاس کھیلنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہ تھا۔
حال ہی میں وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ایک پراجیکٹ ''اڑان'' کے بارے میں دیکھا جو سرکاری شعبے اور سول سروس میں اصلاحات کے ذریعے کارکردگی کے بلند معیار کو چھونے سے متعلق تھا، بظاہر ایک اچھا قدم لگتا ہے، اس میں اسٹیک ہولڈرز جن میں عوامی نمایندے، شہری تنظیمیں، سرکاری ملازمین، ماہرین، سول سوسائٹی، ماہرین تعلیم اور میڈیا سے تجاویز اور مشورے مانگے گئے ہیں۔
ویسے تو یہ سمجھداری اور عقلمندی محسوس ہوتی ہے یعنی تنقید کاروں سے ہی پوچھا گیا کہ اب آپ ہی بتائیے کہ ہم کیا کریں اس سلسلے میں۔ یقین جانیے پڑھ کر بہت اچھا لگتا ہے لیکن حقائق کی نظر سے دیکھیے کہ اس پورے عمل میں وہ تمام تجاویز اور رائے کو اہمیت دی جائے گی جسے ہم اپنے لکھاریوں کے قلم سے نکلی تحریر کو پڑھتے ہیں، وہ بیچارے ہم سمیت لکھ لکھ کر صفحے کالے کر چکے ہیں، تصاویر کے ساتھ سب کچھ چھپ بھی جاتا ہے لیکن اس کا رزلٹ کیا نکلتا ہے۔
ہمارے ایک سینئر کالم نگار جن کے مضامین اکثر میں انٹرنیٹ پر ہی پڑھتی ہوں ان کا تعلق کوئٹہ سے ہے وہ جس باریک بینی سے مسائل کو اجاگر کرتے ہیں اور تجاویز بھی پیش کرتے رہتے ہیں اسے پڑھ کر ہم بس تعریف ہی کر سکتے ہیں لیکن بلوچستان کے اہم مسئلے کے لیے سوائے تعریف کے کچھ اور نہیں کر سکتے۔ حالانکہ اس وقت بلوچستان کے مسائل کو دیکھنا اور چھوٹے چھوٹے مسائل کو سلجھانے سے ایک بڑی گتھی سلجھ سکتی ہے، بالکل ایسے جیسے برسوں سے دھیمی دھیمی آنچ نے ایک آگ کو روشن کیا ہے، اسی طرح سمجھداری اور کھلے دل سے ایک ایک چنگاری کو بجھاتے چلنا ہے۔
مثال کے طور پر کرکٹ کو ہی لے لیجیے پچھلے چند برسوں میں کرسیوں کے چکر میں ایک تکرار چلی، اس تکرار کا کرکٹ سے کیا تعلق اور اس کی حالیہ کارکردگی سے کتنا تعلق ہے، کرکٹ ایک ایسا شعبہ بن چکا ہے جس کی سانس براہ راست عوام سے جڑی ہے، بہت کچھ کہا گیا بگ تھری کی صدائیں سنی گئیں لیکن کرکٹ ٹیم نے کیا آؤٹ پُٹ دیا، سب کے سامنے ہے۔ یہ سب بالکل ایسا عمل ہے جب ایک شریر بچے کو سدھانے کے لیے دین کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں، نماز کی پابندی کو کہا جاتا ہے، جس پر بچہ کہتا ہے کہ کل سے نماز پڑھوں گا، اور وہ کل نہیں آتا۔
دبئی ایک امیر ریاست ہے، اس سے دنیا نے اور خود دبئی کے باسیوں نے خوب کمایا۔ ایک عام شہری اگر دبئی کے اعلیٰ ترین عہدیدار سے بات کرنا چاہتا ہے شکایت کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے پرانے زمانے کی طرح ایک بڑا گھنٹہ نہیں ہے جسے بجاتے ہی سلطان سمجھ جاتا تھا کہ کوئی مجبور سوالی بن کر آیا ہے۔
آج کل کے جدید دور میں انٹرنیٹ کے ذریعے اس گھنٹے کے عمل کو سہل بنا دیا گیا، آپ بڑے آرام سے کسی بھی ادارے کے خلاف یا کرپٹ فرد واحد کی شکایت کی میل کر سکتے ہیں اس ذاتی اکاؤنٹ سے سلطان براہ راست اپنی عوام سے کنیکٹ ہوتا ہے وہ اس کا آپ کو جواب دیں نہ دیں لیکن سائل کی شنوائی ضرور ہوتی ہے۔
ایک بار ہم نے بھی پانی کی شکایت کے لیے متعلقہ ادارے کو ای میل کرنے کی کوشش کی لیکن سر میں درد ہو گیا اور میل نہ ہو سکی۔ خیر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ لیکن ہونا نہیں چاہیے۔ اور دفاتر میں فائلوں کے ڈھیر در ڈھیر نہ بنائیے کہ اس ڈھیر سے نجانے کتنا سونا برآمد ہو۔