پاک بھارت تعلقات اہم موڑ پر
جب تک کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیں دیا جاتا اور جب تک مذاکرات میں کشمیریوں کو شامل نہیں کیا جاتا۔
جنوبی ایشیائی امور کے 2 امریکی ماہرین جارج پرکوچر اور ایشلے ٹیلس نے سینیٹ کے پینل کو بریفنگ کے دوران بتایا کہ کئی اجلاسوں میں صورت حال کا جائزہ لیا جا چکا ہے، بھارت نے پاکستان پر چڑھائی کی تو دنیا کے انتہائی گنجان آباد خطے میں ایٹمی جنگ چِھڑ سکتی ہے، امریکا علاقے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے کردار ادا کرے۔
ماہرین نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور تھنک ٹینک کے ماہرین پر زور دیا ہے کہ وہ بھی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اقدامات کریں، ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کے کسی بھی حملے کے جواب میں بھارت کی طرف سے بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی شروع کرنے سے پاکستان جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
جنوبی ایشیا وہ خطہ ہے جہاں کسی بھی وقت ایٹمی ہتھیار استعمال ہو سکتے ہیں کیوں کہ دونوں ملکوں کے درمیان غیر معمولی دوڑ جاری ہے۔ 3 جون 2013ء کو سوئیڈن میں اسٹاک ہولم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق ایشیا میں خطرناک حالات کے باعث اسلحے کی دوڑ تشویشناک ہے۔
چین، پاکستان اور بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان اور بھارت نے گزشتہ سال (2012ء) میں 10، 10 وار ہیڈ بنائے، پاکستان کے پاس 100 جوہری وار ہیڈز ہیں، چین نے گزشتہ سال 10 وار ہیڈ بنائے اور یوں چین کے وار ہیڈز کی تعداد 240 سے بڑھ کر 250 ہو گئی ہے۔
2008ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھی جب کہ چین، جاپان، شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان بھی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ روس 10 ہزار وار ہیڈز سے کم کر کے ساڑھے 8 ہزار وار ہیڈز کا مالک ہے۔ اسرائیل 80 وار ہیڈز کے ساتھ 8 ویں نمبر پر ہے۔ جوہری ہتھیار بین الاقوامی طور پر طاقت اور عزت کی علامت ہیں اور یہ ہتھیار رکھنے والا کوئی بھی ملک انھیں ترک کرنے میں سنجیدہ نہیں۔
بھارت کی مودی سرکار نے جنگی جنون کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور خطے میں چین کے مقابلے کے لیے اپنے دفاعی بجٹ میں 11 فیصد سے زائد اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پارلیمنٹ میں 280 ارب ڈالر حجم کا مودی حکومت کا پہلا مکمل بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کہا کہ ملکی دفاعی اخراجات میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 4 ارب ڈالر کا اضافہ کیا گیا ہے۔
دفاع کے لیے اب 41 ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ یہ رقم رواں مالی سال کے مقابلے میں 11 فیصد ہو گیا ہے۔ ادھر بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارت نے 2011ء سے 2014ء کے دوران فوجی ساز و سامان کی خریداری پر 83858 کروڑ روپے خرچ کیے، فرانس سے 10 ارب ڈالر کے 124 رافیل لڑاکا طیاروں کی بات چل رہی ہے۔ 6 اسکارپین آبدوزیں تیاری کے مرحلے میں ہیں۔
''اگر پاکستان ممبئی پر 15 کلو ٹن وزنی ایٹم بم گرائے گا تو اس سے فوری طور پر 23 لاکھ بھارتی باشندے مارے جائیں گے اور اگر بھارت کراچی ریلوے اسٹیشن پر 50 کلو ٹن وزنی بم گرائے گا تو اس سے 18 لاکھ پاکستانی باشندے فوری طور پر مارے جائیں گے اور یہ نقصان ناقابل تلافی ہو گا جس کو پورا کرنا دونوں ملکوں کے لیے ناممکن ہے۔''
(ممبئی میں قائم تحقیقاتی ادارہ ''انٹرنیشنل سینٹر فار پیس انسٹیٹیوٹ'' کی رپورٹ اگست 2004ء سے اقتباس) خیال رہے کہ اس رپورٹ کو تیار کرنے والوں میں پاکستان کے سابق سفیر اور دانشور نیاز اے نائیک، ڈاکٹر ایس اکبر زیدی جب کہ بھارت کی طرف سے فوج کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل بی ایس ملک کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس رپورٹ میں دونوں ملکوں پاکستان و بھارت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تنازعات حل نہ ہونے سے ہونے والے نقصانات اور تنازعات حل نہ ہونے اور دوستی کو فروغ دینے سے حاصل ہونے والے فوائد پر آیندہ غور کریں۔
زیر نظر تحریر پڑھتے ہوئے بھارتی سیکریٹری خارجہ سبرا منیم جے شنکر 3 اور 4 مارچ کو دورہ پاکستان اور اس دوران ہونے والے مذاکرات سے با خبر ہوئے ہوں گے۔ قبل ازیں ماہرین ان خیالات کا اظہار کر چکے تھے کہ اس مذاکرات کے نتیجے میں کسی بڑے ''بریک تھرو'' کی توقع نہیں کر رہے تھے مگر اس سے منسوخ شدہ پاک بھارت باضابطہ ڈائیلاگ کی بحالی ہو سکتی ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے مابین جاری ''بیک چینل سفارت کاری'' کے علاوہ بھارت میں ہونے والے حالیہ چند اہم واقعات نے بھی بھارت کو پاکستان کی جانب بات چیت کی نیت سے رجوع کرنے پر مجبور کیا۔ ان واقعات میں نئی دہلی کے حالیہ انتخابات میں حکمران جماعت بے جی پی کی شکست اور عام آدمی پارٹی کی بھاری اکثریت سے جیت، امریکا کی جانب سے بھارت پر پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے اثر و رسوخ کا استعمال اور امریکی صدر بارک اوباما کا اس سلسلے میں کلیدی کردار اور مقبوضہ کشمیر میں مفتی سعید کی جماعت کا بی جے پی کے ساتھ اتحاد بھی شامل ہے۔
مفتی سعید نے جن کو اب تک بی جے پی ''علیحدگی پسند'' قرار دیتی آئی ہے بھارتی حکمران جماعت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں حکومت سازی کے اتحاد کے لیے پاکستان کے ساتھ کشمیر پر بات چیت کی بحالی کی شرط بھی رکھی ہے۔ اگر دورے میں مذاکرات کی بحالی کا اعلان بھی کیا گیا تو اس حوالے سے مثبت اور ٹھوس پیش رفت ہو سکتی ہے۔
جب تک کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیں دیا جاتا اور جب تک مذاکرات میں کشمیریوں کو شامل نہیں کیا جاتا اور انھیں اپنی مرضی کے فیصلے نہیں کرنے دیے جاتے اس وقت تک خطہ خوشحال نہیں ہو گا۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔
بھارت 1948ء میں کشمیر کا مسئلہ خود سلامتی کونسل لے کر گیا تھا لیکن 66 سال گزرنے کے باوجود بھارت نہرو کے وعدے کو پورا نہیں کر رہا اور 7 لاکھ فوج کشمیریوں پر مسلط کر رکھی ہے، ہزاروں کشمیریوں کو شہید اور ہزاروں عورتوں کو بے آبرو کیا گیا، بھارت نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے بنگلہ دیش بنوایا اور ہمیشہ سے سازشیں کیں، پاکستان کا پانی روکنے کے لیے اس نے 63 ڈیمز بنا رکھے ہیں، پاکستان سمیت او آئی سی اور اقوام متحدہ کو کشمیریوں کی آزادی کے لیے بھارت پر دباؤ بڑھانا ہو گا، کشمیریوں کا یہی مطالبہ ہے۔ اس جانب توجہ دینا ہو گی۔
ماہرین نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور تھنک ٹینک کے ماہرین پر زور دیا ہے کہ وہ بھی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اقدامات کریں، ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کے کسی بھی حملے کے جواب میں بھارت کی طرف سے بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی شروع کرنے سے پاکستان جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
جنوبی ایشیا وہ خطہ ہے جہاں کسی بھی وقت ایٹمی ہتھیار استعمال ہو سکتے ہیں کیوں کہ دونوں ملکوں کے درمیان غیر معمولی دوڑ جاری ہے۔ 3 جون 2013ء کو سوئیڈن میں اسٹاک ہولم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق ایشیا میں خطرناک حالات کے باعث اسلحے کی دوڑ تشویشناک ہے۔
چین، پاکستان اور بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان اور بھارت نے گزشتہ سال (2012ء) میں 10، 10 وار ہیڈ بنائے، پاکستان کے پاس 100 جوہری وار ہیڈز ہیں، چین نے گزشتہ سال 10 وار ہیڈ بنائے اور یوں چین کے وار ہیڈز کی تعداد 240 سے بڑھ کر 250 ہو گئی ہے۔
2008ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھی جب کہ چین، جاپان، شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان بھی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ روس 10 ہزار وار ہیڈز سے کم کر کے ساڑھے 8 ہزار وار ہیڈز کا مالک ہے۔ اسرائیل 80 وار ہیڈز کے ساتھ 8 ویں نمبر پر ہے۔ جوہری ہتھیار بین الاقوامی طور پر طاقت اور عزت کی علامت ہیں اور یہ ہتھیار رکھنے والا کوئی بھی ملک انھیں ترک کرنے میں سنجیدہ نہیں۔
بھارت کی مودی سرکار نے جنگی جنون کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور خطے میں چین کے مقابلے کے لیے اپنے دفاعی بجٹ میں 11 فیصد سے زائد اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پارلیمنٹ میں 280 ارب ڈالر حجم کا مودی حکومت کا پہلا مکمل بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کہا کہ ملکی دفاعی اخراجات میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 4 ارب ڈالر کا اضافہ کیا گیا ہے۔
دفاع کے لیے اب 41 ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ یہ رقم رواں مالی سال کے مقابلے میں 11 فیصد ہو گیا ہے۔ ادھر بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارت نے 2011ء سے 2014ء کے دوران فوجی ساز و سامان کی خریداری پر 83858 کروڑ روپے خرچ کیے، فرانس سے 10 ارب ڈالر کے 124 رافیل لڑاکا طیاروں کی بات چل رہی ہے۔ 6 اسکارپین آبدوزیں تیاری کے مرحلے میں ہیں۔
''اگر پاکستان ممبئی پر 15 کلو ٹن وزنی ایٹم بم گرائے گا تو اس سے فوری طور پر 23 لاکھ بھارتی باشندے مارے جائیں گے اور اگر بھارت کراچی ریلوے اسٹیشن پر 50 کلو ٹن وزنی بم گرائے گا تو اس سے 18 لاکھ پاکستانی باشندے فوری طور پر مارے جائیں گے اور یہ نقصان ناقابل تلافی ہو گا جس کو پورا کرنا دونوں ملکوں کے لیے ناممکن ہے۔''
(ممبئی میں قائم تحقیقاتی ادارہ ''انٹرنیشنل سینٹر فار پیس انسٹیٹیوٹ'' کی رپورٹ اگست 2004ء سے اقتباس) خیال رہے کہ اس رپورٹ کو تیار کرنے والوں میں پاکستان کے سابق سفیر اور دانشور نیاز اے نائیک، ڈاکٹر ایس اکبر زیدی جب کہ بھارت کی طرف سے فوج کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل بی ایس ملک کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس رپورٹ میں دونوں ملکوں پاکستان و بھارت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تنازعات حل نہ ہونے سے ہونے والے نقصانات اور تنازعات حل نہ ہونے اور دوستی کو فروغ دینے سے حاصل ہونے والے فوائد پر آیندہ غور کریں۔
زیر نظر تحریر پڑھتے ہوئے بھارتی سیکریٹری خارجہ سبرا منیم جے شنکر 3 اور 4 مارچ کو دورہ پاکستان اور اس دوران ہونے والے مذاکرات سے با خبر ہوئے ہوں گے۔ قبل ازیں ماہرین ان خیالات کا اظہار کر چکے تھے کہ اس مذاکرات کے نتیجے میں کسی بڑے ''بریک تھرو'' کی توقع نہیں کر رہے تھے مگر اس سے منسوخ شدہ پاک بھارت باضابطہ ڈائیلاگ کی بحالی ہو سکتی ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے مابین جاری ''بیک چینل سفارت کاری'' کے علاوہ بھارت میں ہونے والے حالیہ چند اہم واقعات نے بھی بھارت کو پاکستان کی جانب بات چیت کی نیت سے رجوع کرنے پر مجبور کیا۔ ان واقعات میں نئی دہلی کے حالیہ انتخابات میں حکمران جماعت بے جی پی کی شکست اور عام آدمی پارٹی کی بھاری اکثریت سے جیت، امریکا کی جانب سے بھارت پر پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے اثر و رسوخ کا استعمال اور امریکی صدر بارک اوباما کا اس سلسلے میں کلیدی کردار اور مقبوضہ کشمیر میں مفتی سعید کی جماعت کا بی جے پی کے ساتھ اتحاد بھی شامل ہے۔
مفتی سعید نے جن کو اب تک بی جے پی ''علیحدگی پسند'' قرار دیتی آئی ہے بھارتی حکمران جماعت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں حکومت سازی کے اتحاد کے لیے پاکستان کے ساتھ کشمیر پر بات چیت کی بحالی کی شرط بھی رکھی ہے۔ اگر دورے میں مذاکرات کی بحالی کا اعلان بھی کیا گیا تو اس حوالے سے مثبت اور ٹھوس پیش رفت ہو سکتی ہے۔
جب تک کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیں دیا جاتا اور جب تک مذاکرات میں کشمیریوں کو شامل نہیں کیا جاتا اور انھیں اپنی مرضی کے فیصلے نہیں کرنے دیے جاتے اس وقت تک خطہ خوشحال نہیں ہو گا۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔
بھارت 1948ء میں کشمیر کا مسئلہ خود سلامتی کونسل لے کر گیا تھا لیکن 66 سال گزرنے کے باوجود بھارت نہرو کے وعدے کو پورا نہیں کر رہا اور 7 لاکھ فوج کشمیریوں پر مسلط کر رکھی ہے، ہزاروں کشمیریوں کو شہید اور ہزاروں عورتوں کو بے آبرو کیا گیا، بھارت نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے بنگلہ دیش بنوایا اور ہمیشہ سے سازشیں کیں، پاکستان کا پانی روکنے کے لیے اس نے 63 ڈیمز بنا رکھے ہیں، پاکستان سمیت او آئی سی اور اقوام متحدہ کو کشمیریوں کی آزادی کے لیے بھارت پر دباؤ بڑھانا ہو گا، کشمیریوں کا یہی مطالبہ ہے۔ اس جانب توجہ دینا ہو گی۔