حکومت بے بس ہے بیٹے کی گرفتاری پر ایوان صدر چھوڑ دیا یوسف گیلانی
میں ایوان صدر میں رہتے ہوئے کچھ نہ کرسکا، صدر کے استثنیٰ کے بغیر خط لکھنا بغاوت کے مترادف ہوگا، صحافیوں سے گفتگو
سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے وائس چیئرمین یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ اگر صدر کے استثنیٰ کے بغیر سوئس حکام کو خط لکھا گیا تو یہ بغاوت کے مترادف ہوگا۔
ایوان صدر میں موجود تھا تو بیٹے کو گرفتارکیا گیا اور حکومت بے بس دکھائی دی ، اسی وقت سے ایوان صدر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور اس حوالے سے صدر سے رابطہ نہیں کیا، لاہور میں اپنی رہائشگاہ پرصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان میں بنگلہ دیش ماڈل چل رہا ہے اور پارلیمنٹ کی بجائے عدلیہ فیصلے کررہی ہے،صدر کے خلاف سوئس حکام کو خط نہ لکھ کر اپنے ضمیر، پارٹی اور حکومت کے مئوقف کے مطابق عمل کیا ، یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ اپنے اس مئوقف پر آج بھی قائم ہوں کہ آئین میں صدر کے عہدے کو استثنیٰ حاصل ہے ۔
اگر صدر کے استثنیٰ کے بغیر سوئس حکام کو خط لکھا گیا تو میں اس کی مخالفت کروں گا۔ انھوںنے کہا کہ میرے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا لیکن میں جب ایوان صدر میں تھا تو اس وقت میرے بیٹے کو سیاسی قیدی بنایا گیا ، اس وقت حکومت بے بس دکھائی دی جس کے بعد ایوان صدر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ آج پھر کہتا ہوں کہ تین ماہ تک ایوان صدر میں مہمان نوازی پر صدرکا شکرگزار ہوں۔ میں چار سال تک ملک کا وزیراعظم اور 3ماہ تک ایوان صدر میں مہمان رہا ہوں مگر جس وقت ایوان صدر سے نکلتے ہوئے میرا بیٹا گرفتار ہوا اور میں ایوان صدر میں رہتے ہوئے کچھ نہ کرسکا اسی وقت فیصلہ کرلیا تھا کہ میں یہاں نہیں رہوں گا۔
اب فیملی کو وقت دے رہا ہوں اور ایوان صدر سے کوئی رابطہ نہیں ہے،جب معاملات برداشت سے باہر ہوگئے تو ایوانِ صدر چھوڑ آیا۔ ایک ٹی وی چینل کے مطابق گیلانی نے کہاکہ پیپلزپارٹی بے بس نہیں لیکن حکومت بے بس ہوگئی ہے۔ اگر اے این ایف نے میرے بیٹے علی موسیٰ گیلانی کے کیس میں مجھے شامل تفتیش کیا تو مخدوم شہاب الدین اور علی موسیٰ بے قصور ہوں گے اور میں جرم قبول کرلوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت آنے پر وہ اتھارٹی بھی سامنے آجائے گی جس کی وجہ سے حکومت بے بس ہے۔
ایوان صدر میں موجود تھا تو بیٹے کو گرفتارکیا گیا اور حکومت بے بس دکھائی دی ، اسی وقت سے ایوان صدر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور اس حوالے سے صدر سے رابطہ نہیں کیا، لاہور میں اپنی رہائشگاہ پرصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان میں بنگلہ دیش ماڈل چل رہا ہے اور پارلیمنٹ کی بجائے عدلیہ فیصلے کررہی ہے،صدر کے خلاف سوئس حکام کو خط نہ لکھ کر اپنے ضمیر، پارٹی اور حکومت کے مئوقف کے مطابق عمل کیا ، یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ اپنے اس مئوقف پر آج بھی قائم ہوں کہ آئین میں صدر کے عہدے کو استثنیٰ حاصل ہے ۔
اگر صدر کے استثنیٰ کے بغیر سوئس حکام کو خط لکھا گیا تو میں اس کی مخالفت کروں گا۔ انھوںنے کہا کہ میرے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا لیکن میں جب ایوان صدر میں تھا تو اس وقت میرے بیٹے کو سیاسی قیدی بنایا گیا ، اس وقت حکومت بے بس دکھائی دی جس کے بعد ایوان صدر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ آج پھر کہتا ہوں کہ تین ماہ تک ایوان صدر میں مہمان نوازی پر صدرکا شکرگزار ہوں۔ میں چار سال تک ملک کا وزیراعظم اور 3ماہ تک ایوان صدر میں مہمان رہا ہوں مگر جس وقت ایوان صدر سے نکلتے ہوئے میرا بیٹا گرفتار ہوا اور میں ایوان صدر میں رہتے ہوئے کچھ نہ کرسکا اسی وقت فیصلہ کرلیا تھا کہ میں یہاں نہیں رہوں گا۔
اب فیملی کو وقت دے رہا ہوں اور ایوان صدر سے کوئی رابطہ نہیں ہے،جب معاملات برداشت سے باہر ہوگئے تو ایوانِ صدر چھوڑ آیا۔ ایک ٹی وی چینل کے مطابق گیلانی نے کہاکہ پیپلزپارٹی بے بس نہیں لیکن حکومت بے بس ہوگئی ہے۔ اگر اے این ایف نے میرے بیٹے علی موسیٰ گیلانی کے کیس میں مجھے شامل تفتیش کیا تو مخدوم شہاب الدین اور علی موسیٰ بے قصور ہوں گے اور میں جرم قبول کرلوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت آنے پر وہ اتھارٹی بھی سامنے آجائے گی جس کی وجہ سے حکومت بے بس ہے۔