آؤ پڑھاؤ ہم کسی سے کم نہیں
تمام محرومیوں کے باوجود سرکاری اسکولوں سے فارغ التحصیل طلباء نے ملک اور قوم کے لیے نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں.
ہم سرکاری اسکولوں کے اساتذہ محنتی اور باصلاحیت ہیں۔ مستقل مزاجی، لگن اور دیانت داری ہمارے ہتھیار ہیں، ہم ان کی بدولت ملک بھر میں علم کی روشنی پھیلانے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ ہمارے طلباء کے اندر پڑھنے لکھنے اور سیکھنے کی جستجو ہے، آگے بڑھنے کا جذبہ ہے، لیکن اپنی تمام تر محنت اور کوششوں کے باوجود ہم تعلیمی میدان میں بھرپور نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ آخر اِس کی وجہ کیا ہے، تو ہمارے نذدیک اِس کی وجہ سرکاری نظامِ تعلیم کی چند خامیاں اور اسکولوں میں پُرسکون ماحول کی عدم فراہمی ہے۔ یہ حکومت اور متعلقہ اداروں کا فرض ہے کہ اسکولوں کی حالت بہتر بنائیں اور طالبعلموں و اساتذہ کی بنیادی ضروریات پوری کریں۔
بدقسمتی سے سرکاری اسکولز کے تعلیمی معیار کی خامیوں کی نشاندہی کے باوجود کوئی اس میں بہتری کے لیے آگے نہیں آرہا۔ دوسری طرف سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی کارکردگی اور طلبہ و طالبات کی قابلیت کے بارے میں غلط تصور جڑ پکڑ چکا ہے۔ ہر ادارے اور نظام میں ایسے ملازمین ہوتے ہیں جو اہلیت اور قابلیت نہیں رکھتے یا اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نہیں نبھاتے، لیکن سب کو اس قطار میں نہیں کھڑا کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح کچھ بچے کند ذہن یا پڑھائی میں کمزور ہوتے ہیں۔ تاہم ان سے محبت اور شفقت کا سلوک کرکے ان کی صلاحیتوں کو ابھارا جاسکتا ہے۔ ایک ٹیچر کی حیثیت سے میں اور میرے دیگر ساتھی اپنے اسکول میں مختلف تعلیمی موضوعات پر بات کرتے ہیں اور سکھانے کے لیے نئے اور جدید طریقوں کی انٹرنیٹ اور مختلف کتابوں سے معلومات حاصل کرکے اپنے پیارے طلباء پر آزماتے ہیں۔
ہم اپنا معیارِ تعلیم بلند کرنے کے لیے سینئر اساتذہ اور ہیڈماسٹر کے ساتھ مل کر مختلف امور پر غور کرتے ہیں اور اسکول میں چھوٹے پیمانے پر معلوماتی اور تفریحی پروگرامز کا انعقاد بھی کرتے ہیں۔ تاہم ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر حکومت اور متعلقہ ادارے اسکولز اور اساتذہ کو ان کا جائز حق دیں اور تمام سہولیات فراہم کریں تو یہ قوم تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرسکتی ہے۔ سرکاری اسکولوں کے باشعور اور محنتی اساتذہ کے دل میں قوم کا درد ہے اور وہ تعلیم و تربیت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں، لیکن وہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی تعلیم و آگاہی کے سلسلے میں عدم توجہی اور عدم دلچسپی سے مایوس ہیں۔
یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ کئی سرکاری اسکولوں پر قبضہ ہوچکا ہے جب کہ کئی اسکول حکومت اور محکمۂ تعلیم کی غفلت اور کوتاہیوں کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔ سرکاری اسکولوں پر قبضے کی دو مثالیں کراچی جیسے بڑے شہر سے لی جاسکتی ہیں۔ جی ہاں، یہ سندھ کے کسی پسماندہ اور دیہی علاقے کے اسکول کا نہیں بلکہ میٹروپولیٹن کا درجہ رکھنے والے لاکھوں پڑھے لکھے اور باشعور شہریوں کے مسکن کا ذکر ہے جہاں شاہ فیصل کالونی میں واقع سرکاری اسکول کے طلباء اور اساتذہ موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد لوٹے تو ان کے اسکول کی جگہ ملبے کا ڈھیر اور جانوروں کا باڑہ موجود تھا۔ اُن کے احتجاج پر سب کی توجہ اِس طرف مبذول ہوئی اور یہ معاملہ گورنر سندھ تک پہنچا۔ اُنہوں نے فوری طور پر قبضہ چھڑایا اور متعلقہ افسران کو دوبارہ اسکول تعمیر کرنے کی ہدایات کیں۔ دوسری جانب وزیر تعلیم کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اِس اسکول پر پہلے بھی قبضہ کیا گیا تھا جس کے ملزمان کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی تھی اور یہ قبضہ گروپ کی دوسری کوشش تھی۔
اسی شہر کراچی میں قبضہ مافیا کی دیدہ دلیری اور من مانی کا اندازہ وائی ایم سی اے سیکنڈری اسکول پر قبضے سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ اسکول گورنر ہاؤس کے سامنے واقع ہے، جسے شادی ہال میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ طلباء اور اساتذہ کے احتجاج پر گورنر سندھ نے اس کا نوٹس لیا۔ کراچی سے باہر نکلیں تو سندھ کے مختلف شہروں اور دیہات میں ایسے واقعات عام ہیں۔ سندھ کے علاقے شہداد کوٹ کے ایک گاؤں میں اسکول کی عمارت پر بااثر وڈیرے کے قبضے کے بعد مقامی سطح پر اساتذہ تنظیم کے احتجاج کی خبر آپ نے بھی شاید پڑھی ہو۔اسی طرح سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں قصابوں نے پرائمری اسکول پر قبضہ کرلیا تھا۔ یہ چند مثالیں تعلیم دشمن رویے اور مفاد پرستی کی بھیانک عکاسی کرتی ہیں اور یہ سب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
دوسری جانب کافی تعداد میں اسکولز کے اندر بغیر چھت اور چار دیواری کے ہم اساتذہ بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ دیواروں میں دراڑیں پڑی ہوئی ہیں۔ عمارتیں انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں۔ بعض علاقوں میں تو کھلے آسمان اور درختوں کے سائے میں ہمارے نونہال علم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال بھی سب پر واضح ہے، لیکن ہم اسے بہتر بنانے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ کوئی اس سلسلے میں آواز اُٹھا رہا ہے؟
مجھے سرکاری اسکول کا ٹیچر ہونے پر فخر ہے کیونکہ ہم نہ صرف طلباء کو نصاب پڑھاتے ہیں بلکہ ان کی کردار سازی بھی کرتے ہیں۔ ہم اپنی روایات اور اخلاقیات کی پاسداری پر زور دیتے ہیں۔ انگریزی، جدید سائنس اور دیگر تمام علوم بھی پڑھاتے ہیں، لیکن نجی اسکولز کے مقابلے میں فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے پاس بچوں کو جسمانی سرگرمیوں اور کھیل کود کے لیے اسکول کے احاطے میں میدان میسر نہیں۔ اگر میدان ہیں تو ان میں تفریح کا سامان نہیں۔ پینے کا صاف پانی، ٹوائلٹس کی سہولت میسر نہیں۔ اسپورٹس کا شعبہ تو ہے، لیکن کھیلوں کا سامان دستیاب نہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں کے طلباء کو مختلف ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں نہیں کراسکتے جو کہ ان کی ذہنی سطح بلند کرنے اور تفریح کے ساتھ کچھ نیا سیکھنے میں مدد دے۔ ہم انہیں سیر گاہ نہیں لے جاسکتے اور اسی طرح کوئی مطالعاتی دورہ نہیں کراتے کیونکہ ہمارے پاس اتنے مالی وسائل نہیں۔ کہنے کو تو حکومت اس حوالے سے بجٹ بھی دیتی ہے، لیکن وہ ہم تک نہیں پہنچتا۔ محکمۂ تعلیم کے اعلیٰ عہدیداران کی سستی اور غفلت کی وجہ سے تعلیم کا ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ یکساں تعلیمی پالیسی کے نظام سے بھی ہم محروم ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ان تمام محرومیوں کے باوجود سرکاری اسکولوں سے فارغ التحصیل طلباء نے ملک اور قوم کے لیے نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں اور آج بھی گورنمنٹ اسکولز کے طلباء کسی بھی طرح نجی اسکولز اور یونیورسٹیز کے طالبعلموں سے پیچھے نہیں ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں دری پر بیٹھ کر بھی پڑھنے والوں نے بڑی بڑی ترقیاں حاصل کیں اورمختلف شعبوں میں ملک کا نام روشن کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں سرکاری اسکولوں نے بہترین کارکردگی دکھائی اور اساتذہ نے اپنے طالبعلموں کی مناسب رہنمائی اور تربیت کی، لیکن پچھلے چند سال کے دوران دنیا اور حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ جدید دور کی تعلیمی ضروریات کے پیش نظر ہمیں اپنا طرز تدریس بہتر بنانا ہوگا کیونکہ سرکاری اسکول کے طلباء اور اساتذہ بھی کسی سے کم نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ آخر اِس کی وجہ کیا ہے، تو ہمارے نذدیک اِس کی وجہ سرکاری نظامِ تعلیم کی چند خامیاں اور اسکولوں میں پُرسکون ماحول کی عدم فراہمی ہے۔ یہ حکومت اور متعلقہ اداروں کا فرض ہے کہ اسکولوں کی حالت بہتر بنائیں اور طالبعلموں و اساتذہ کی بنیادی ضروریات پوری کریں۔
بدقسمتی سے سرکاری اسکولز کے تعلیمی معیار کی خامیوں کی نشاندہی کے باوجود کوئی اس میں بہتری کے لیے آگے نہیں آرہا۔ دوسری طرف سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی کارکردگی اور طلبہ و طالبات کی قابلیت کے بارے میں غلط تصور جڑ پکڑ چکا ہے۔ ہر ادارے اور نظام میں ایسے ملازمین ہوتے ہیں جو اہلیت اور قابلیت نہیں رکھتے یا اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نہیں نبھاتے، لیکن سب کو اس قطار میں نہیں کھڑا کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح کچھ بچے کند ذہن یا پڑھائی میں کمزور ہوتے ہیں۔ تاہم ان سے محبت اور شفقت کا سلوک کرکے ان کی صلاحیتوں کو ابھارا جاسکتا ہے۔ ایک ٹیچر کی حیثیت سے میں اور میرے دیگر ساتھی اپنے اسکول میں مختلف تعلیمی موضوعات پر بات کرتے ہیں اور سکھانے کے لیے نئے اور جدید طریقوں کی انٹرنیٹ اور مختلف کتابوں سے معلومات حاصل کرکے اپنے پیارے طلباء پر آزماتے ہیں۔
ہم اپنا معیارِ تعلیم بلند کرنے کے لیے سینئر اساتذہ اور ہیڈماسٹر کے ساتھ مل کر مختلف امور پر غور کرتے ہیں اور اسکول میں چھوٹے پیمانے پر معلوماتی اور تفریحی پروگرامز کا انعقاد بھی کرتے ہیں۔ تاہم ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر حکومت اور متعلقہ ادارے اسکولز اور اساتذہ کو ان کا جائز حق دیں اور تمام سہولیات فراہم کریں تو یہ قوم تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرسکتی ہے۔ سرکاری اسکولوں کے باشعور اور محنتی اساتذہ کے دل میں قوم کا درد ہے اور وہ تعلیم و تربیت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں، لیکن وہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی تعلیم و آگاہی کے سلسلے میں عدم توجہی اور عدم دلچسپی سے مایوس ہیں۔
یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ کئی سرکاری اسکولوں پر قبضہ ہوچکا ہے جب کہ کئی اسکول حکومت اور محکمۂ تعلیم کی غفلت اور کوتاہیوں کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔ سرکاری اسکولوں پر قبضے کی دو مثالیں کراچی جیسے بڑے شہر سے لی جاسکتی ہیں۔ جی ہاں، یہ سندھ کے کسی پسماندہ اور دیہی علاقے کے اسکول کا نہیں بلکہ میٹروپولیٹن کا درجہ رکھنے والے لاکھوں پڑھے لکھے اور باشعور شہریوں کے مسکن کا ذکر ہے جہاں شاہ فیصل کالونی میں واقع سرکاری اسکول کے طلباء اور اساتذہ موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد لوٹے تو ان کے اسکول کی جگہ ملبے کا ڈھیر اور جانوروں کا باڑہ موجود تھا۔ اُن کے احتجاج پر سب کی توجہ اِس طرف مبذول ہوئی اور یہ معاملہ گورنر سندھ تک پہنچا۔ اُنہوں نے فوری طور پر قبضہ چھڑایا اور متعلقہ افسران کو دوبارہ اسکول تعمیر کرنے کی ہدایات کیں۔ دوسری جانب وزیر تعلیم کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اِس اسکول پر پہلے بھی قبضہ کیا گیا تھا جس کے ملزمان کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی تھی اور یہ قبضہ گروپ کی دوسری کوشش تھی۔
اسی شہر کراچی میں قبضہ مافیا کی دیدہ دلیری اور من مانی کا اندازہ وائی ایم سی اے سیکنڈری اسکول پر قبضے سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ اسکول گورنر ہاؤس کے سامنے واقع ہے، جسے شادی ہال میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ طلباء اور اساتذہ کے احتجاج پر گورنر سندھ نے اس کا نوٹس لیا۔ کراچی سے باہر نکلیں تو سندھ کے مختلف شہروں اور دیہات میں ایسے واقعات عام ہیں۔ سندھ کے علاقے شہداد کوٹ کے ایک گاؤں میں اسکول کی عمارت پر بااثر وڈیرے کے قبضے کے بعد مقامی سطح پر اساتذہ تنظیم کے احتجاج کی خبر آپ نے بھی شاید پڑھی ہو۔اسی طرح سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں قصابوں نے پرائمری اسکول پر قبضہ کرلیا تھا۔ یہ چند مثالیں تعلیم دشمن رویے اور مفاد پرستی کی بھیانک عکاسی کرتی ہیں اور یہ سب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
دوسری جانب کافی تعداد میں اسکولز کے اندر بغیر چھت اور چار دیواری کے ہم اساتذہ بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ دیواروں میں دراڑیں پڑی ہوئی ہیں۔ عمارتیں انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں۔ بعض علاقوں میں تو کھلے آسمان اور درختوں کے سائے میں ہمارے نونہال علم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال بھی سب پر واضح ہے، لیکن ہم اسے بہتر بنانے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ کوئی اس سلسلے میں آواز اُٹھا رہا ہے؟
مجھے سرکاری اسکول کا ٹیچر ہونے پر فخر ہے کیونکہ ہم نہ صرف طلباء کو نصاب پڑھاتے ہیں بلکہ ان کی کردار سازی بھی کرتے ہیں۔ ہم اپنی روایات اور اخلاقیات کی پاسداری پر زور دیتے ہیں۔ انگریزی، جدید سائنس اور دیگر تمام علوم بھی پڑھاتے ہیں، لیکن نجی اسکولز کے مقابلے میں فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے پاس بچوں کو جسمانی سرگرمیوں اور کھیل کود کے لیے اسکول کے احاطے میں میدان میسر نہیں۔ اگر میدان ہیں تو ان میں تفریح کا سامان نہیں۔ پینے کا صاف پانی، ٹوائلٹس کی سہولت میسر نہیں۔ اسپورٹس کا شعبہ تو ہے، لیکن کھیلوں کا سامان دستیاب نہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں کے طلباء کو مختلف ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں نہیں کراسکتے جو کہ ان کی ذہنی سطح بلند کرنے اور تفریح کے ساتھ کچھ نیا سیکھنے میں مدد دے۔ ہم انہیں سیر گاہ نہیں لے جاسکتے اور اسی طرح کوئی مطالعاتی دورہ نہیں کراتے کیونکہ ہمارے پاس اتنے مالی وسائل نہیں۔ کہنے کو تو حکومت اس حوالے سے بجٹ بھی دیتی ہے، لیکن وہ ہم تک نہیں پہنچتا۔ محکمۂ تعلیم کے اعلیٰ عہدیداران کی سستی اور غفلت کی وجہ سے تعلیم کا ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ یکساں تعلیمی پالیسی کے نظام سے بھی ہم محروم ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ان تمام محرومیوں کے باوجود سرکاری اسکولوں سے فارغ التحصیل طلباء نے ملک اور قوم کے لیے نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں اور آج بھی گورنمنٹ اسکولز کے طلباء کسی بھی طرح نجی اسکولز اور یونیورسٹیز کے طالبعلموں سے پیچھے نہیں ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں دری پر بیٹھ کر بھی پڑھنے والوں نے بڑی بڑی ترقیاں حاصل کیں اورمختلف شعبوں میں ملک کا نام روشن کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں سرکاری اسکولوں نے بہترین کارکردگی دکھائی اور اساتذہ نے اپنے طالبعلموں کی مناسب رہنمائی اور تربیت کی، لیکن پچھلے چند سال کے دوران دنیا اور حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ جدید دور کی تعلیمی ضروریات کے پیش نظر ہمیں اپنا طرز تدریس بہتر بنانا ہوگا کیونکہ سرکاری اسکول کے طلباء اور اساتذہ بھی کسی سے کم نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔