آئین و قانون کی پابندی لازم ہے
سپریم کورٹ نے سندھ پولیس کے لیے ایک ارب 23 کروڑ روپے مالیت کی بکتر بند گاڑیوں کی خریداری کا معاہدہ کالعدم کر دیا
سپریم کورٹ نے سندھ پولیس کے لیے ایک ارب 23 کروڑ روپے مالیت کی بکتر بند گاڑیوں کی خریداری کا معاہدہ کالعدم کر دیا جب کہ ہیلی کاپٹر اور فائر ٹینڈرز کی خریداری کے منصوبوں کا ازخود نوٹس لے لیا اور سندھ حکومت کو رقم کی ادائیگی سے روک دیا نیز آئی جی سندھ کو 26 مارچ کو طلب کر لیا ہے کہ وضاحت کریں کہ مجاز اتھارٹی کے بغیر یہ معاہدہ کیسے کیا اور آئین، قانون اور قواعد کو کیوں پامال کیا گیا۔
یاد رہے جب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ سب سے زیادہ کرپشن محکمہ پولیس میں ہے تو اس انکشاف پر بڑی کھلبلی مچی تھی اور ملک میں ادارہ جاتی بدعنوانیوں کا پینڈورا بکس کھلنے لگا تھا، تاہم عدالت عظمیٰ نے سندھ حکومت کے مذکورہ فیصلوں کو کالعدم قرار دینے اور روکنے کا جو استدلال پیش کیا ہے اور جن کی طرف عدالت نے ارباب اختیار کو توجہ دلائی ہے وہ چشم کشا ہے، جسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں فل بینچ نے قرار دیا کہ ایک ارب 23 کروڑ روپے کا یہ منصوبہ آئین، قانون اور قواعد و ضوابط کے خلاف ہے۔
آئین کے تحت گورنر یا ان کا مقرر کردہ نمایندہ معاہدے کرنے کے مجاز ہیں اور معاہدے پر متعلقہ محکمے کے سیکریٹری کے دستخط ہونا لازمی ہے لیکن زیر غور معاہدہ سندھ پولیس کی طرف سے کیا گیا۔ یہاں آئین و قانون کے تحت اختیارات کے استعمال اور مالیاتی فیصلوں میں شفافیت کا مسئلہ زیر بحث لایا گیا ہے جسے عدلیہ جمہوری اور فالٹ فری حکمرانی کے طریقہ پر عملدرآمد ہوتے دیکھنے کی خواہاں ہے، یہ درست ہے کہ سندھ کو دیگر صوبوں کی طرح دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے مگر وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ آج کشمور سے لے کر کراچی تک اغواء برائے تاوان کا کوئی کیس نہیں، اگر ایسی شفاف صورتحال ہے تو سوا ارب کی بکتر بند گاڑیوں کی ماورائے قانون خریداری کیا معنی رکھتی ہے۔
عدالت کا یہ کہنا کہ ایک چیز اپنے ملک میں موجود ہے، اپنے ادارے بنا رہے ہیں، کم نرخوں کے باوجود انھیںنہیں، باہر سے خریدا گیا ایک سوالیہ نشان ہے۔ کراچی کی صورتحال بلاشبہ مخدوش ہے تاہم سندھ پولیس کے حکام و اہلکاروں کی نقل و حمل اور ان کی سیکیورٹی کے پیش نظر جدید ترین سہولتوں اور سربیا سے بکتر بند گاڑیوں کی خریداری کے معاملات کو ہر قسم کے مالیاتی شکوک و شبہات سے بالاتر ہونا چاہیے۔
نوکر شاہی ادراک کرے کہ بدعنوانی انتظامی اداروں کی رگوں میں رچ بس گئی ہے، جسے عدالتی فعالیت کے ذریعے نکالنے اور اس کا مکمل خاتمہ عدلیہ کے لیے بڑا چیلنج ہے، اس لیے سندھ حکومت سمیت تمام اہل اقتدار اور حکومتی اداروں کو آئین سے ماورا کام کرنے سے اجتناب کر تے ہوئے عدالت کو اپنی پروکیور پالیسی پر مطمئن کرنا چاہیے تا کہ تمام فیصلے اور اقدامات قانون کے مطابق اور شفاف طریقے سے انجام پزیر ہوں۔ ایک دانا کا قول ہے ایک غلط فیصلہ کے خطرہ پر یہ بات قابل ترجیح ہے کہ سرے سے کوئی فیصلہ ہی نہ کیا جائے۔
یاد رہے جب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ سب سے زیادہ کرپشن محکمہ پولیس میں ہے تو اس انکشاف پر بڑی کھلبلی مچی تھی اور ملک میں ادارہ جاتی بدعنوانیوں کا پینڈورا بکس کھلنے لگا تھا، تاہم عدالت عظمیٰ نے سندھ حکومت کے مذکورہ فیصلوں کو کالعدم قرار دینے اور روکنے کا جو استدلال پیش کیا ہے اور جن کی طرف عدالت نے ارباب اختیار کو توجہ دلائی ہے وہ چشم کشا ہے، جسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں فل بینچ نے قرار دیا کہ ایک ارب 23 کروڑ روپے کا یہ منصوبہ آئین، قانون اور قواعد و ضوابط کے خلاف ہے۔
آئین کے تحت گورنر یا ان کا مقرر کردہ نمایندہ معاہدے کرنے کے مجاز ہیں اور معاہدے پر متعلقہ محکمے کے سیکریٹری کے دستخط ہونا لازمی ہے لیکن زیر غور معاہدہ سندھ پولیس کی طرف سے کیا گیا۔ یہاں آئین و قانون کے تحت اختیارات کے استعمال اور مالیاتی فیصلوں میں شفافیت کا مسئلہ زیر بحث لایا گیا ہے جسے عدلیہ جمہوری اور فالٹ فری حکمرانی کے طریقہ پر عملدرآمد ہوتے دیکھنے کی خواہاں ہے، یہ درست ہے کہ سندھ کو دیگر صوبوں کی طرح دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے مگر وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ آج کشمور سے لے کر کراچی تک اغواء برائے تاوان کا کوئی کیس نہیں، اگر ایسی شفاف صورتحال ہے تو سوا ارب کی بکتر بند گاڑیوں کی ماورائے قانون خریداری کیا معنی رکھتی ہے۔
عدالت کا یہ کہنا کہ ایک چیز اپنے ملک میں موجود ہے، اپنے ادارے بنا رہے ہیں، کم نرخوں کے باوجود انھیںنہیں، باہر سے خریدا گیا ایک سوالیہ نشان ہے۔ کراچی کی صورتحال بلاشبہ مخدوش ہے تاہم سندھ پولیس کے حکام و اہلکاروں کی نقل و حمل اور ان کی سیکیورٹی کے پیش نظر جدید ترین سہولتوں اور سربیا سے بکتر بند گاڑیوں کی خریداری کے معاملات کو ہر قسم کے مالیاتی شکوک و شبہات سے بالاتر ہونا چاہیے۔
نوکر شاہی ادراک کرے کہ بدعنوانی انتظامی اداروں کی رگوں میں رچ بس گئی ہے، جسے عدالتی فعالیت کے ذریعے نکالنے اور اس کا مکمل خاتمہ عدلیہ کے لیے بڑا چیلنج ہے، اس لیے سندھ حکومت سمیت تمام اہل اقتدار اور حکومتی اداروں کو آئین سے ماورا کام کرنے سے اجتناب کر تے ہوئے عدالت کو اپنی پروکیور پالیسی پر مطمئن کرنا چاہیے تا کہ تمام فیصلے اور اقدامات قانون کے مطابق اور شفاف طریقے سے انجام پزیر ہوں۔ ایک دانا کا قول ہے ایک غلط فیصلہ کے خطرہ پر یہ بات قابل ترجیح ہے کہ سرے سے کوئی فیصلہ ہی نہ کیا جائے۔