ماما قدیر کی جدوجہد اور انسانی حقوق

پاکستان میں خاص طور پر اور بلوچستان میں عمومی طور پر لاپتہ افراد کا معاملہ بین الاقوامی ایجنڈا میں شامل ہے۔

tauceeph@gmail.com

ماما قدیر کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ دو سال قبل ماما قدیر کے بیٹے جلیل ریکی کو نامعلوم افراد نے اغواء کیا۔ کچھ عرصے بعد اس کی لاش بلوچستان کے دور دراز کے علاقے سے برآمد ہوئی۔ ماما قدیر کا پوتا جو چھوٹا ہے دل میں سوراخ کے مرض میں مبتلا ہے۔ اس بچے کا حال ہی میں کراچی کے بچوں کے اسپتال میں دل کا آپریشن ہوا ہے۔

ماما قدیر نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے تحریک شروع کر دی۔ ماما قدیر کو لاپتہ بلوچ افراد کی آواز نامی تنظیم کی سیکریٹری جنرل فرزانہ مجید بلوچ اور ایک اور کارکن کے ہمراہ شمالی امریکا میں انسانی حقوق کی صورتحال پر منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی دعوت ملی۔ اس کانفرنس کا اہتمام سندھی اکیڈمی اینڈ کلچرل سوسائٹی شمالی امریکا نے کیا تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کراچی ائرپورٹ پہنچے تو انھیں امریکا جانے والے جہاز میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس طرح ماما قدیر اور ان کے ساتھی اس بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت سے محروم رہے۔

پاکستان میں خاص طور پر اور بلوچستان میں عمومی طور پر لاپتہ افراد کا معاملہ بین الاقوامی ایجنڈا میں شامل ہے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ اس صدی کے آغاز سے شروع ہوا تھا۔ کوئٹہ میں بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس مری نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے تو سیاسی کارکنوں کے اغواء کا سلسلہ شروع ہوا۔ مری قبیلے کے سربراہ سردار خیر بخش مری کو گرفتار کیا گیا تو کوہلو میں نامعلوم افراد نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دفاتر پر حملے کیے۔

بلوچستان کے مختلف علاقوں سے سیاسی کارکنوں کے اغواء کا سلسلہ شروع ہوا۔ اغواء ہونے والوں میں مری قبیلے کے افراد کے علاوہ طلبا، مزدور، وکیل اور ڈاکٹر وغیرہ شامل تھے۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد تو بلوچستان بھر میں دوسرے صوبوں سے آ کر آباد ہونے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی لہر آئی۔ اس لہر میں بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسرز، خواتین اساتذہ، وکلاء، ڈاکٹرز، صحافیوں، دکانداروں، پولیس افسروں اور حجاموں وغیرہ کو چن چن کر قتل کیا گیا۔

اس خوفناک صورتحال کی بناء پر ہزاروں لوگ بلوچستان سے چلے گئے، اساتذہ کی ہجرت سے تعلیمی نظام، ڈاکٹروں کی نقل مکانی سے اسپتالوں سمیت صوبے کا مجموعی طبی نظام بری طرح متاثر ہوا۔ سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنا شروع ہوئیں۔ یہ لاشیں کوئٹہ سے برآمد ہوئیں۔ لاپتہ افراد کی تنظیم اغواء ہونے والے افراد کی تعداد 8 ہزار بتاتی ہے۔

اس تنظیم کا کہنا ہے کہ ان میں سے 2 ہزار افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ اس تنظیم کی فہرست کے مطابق اغواء ہونے والوں میں ایک خاتون استاد زرینہ بلوچ کا نام بھی شامل ہے مگر انسانی حقوق کی قومی اور بین الاقوامی تنظیموں نے لاپتہ افراد اور قتل ہونے والے افراد کی اتنی بڑی تعداد کی تصدیق نہیں کی نہ زرینہ بلوچ نامی کسی استاد خاتون کی موجودگی کی تصدیق ہو سکی مگر لاپتہ افراد کا معاملہ بین الاقوامی بن گیا۔


بلوچستان کے سیاسی رہنما اور نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ 2008ء میں حالات کچھ بہتر ہوئے تھے جب وفاق اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تھی اور بہت سے لاپتہ افراد اپنے گھروں کو پہنچ گئے تھے مگر پھر کچھ عرصے بعد سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کے جنیوا میں ہونے والے سالانہ اجلاس میں پاکستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ اس کے ایجنڈے میں شامل ہوا۔

گزشتہ دورِ حکومت میں اقوامِ متحدہ کا فیکٹس فائنڈنگ مشن پاکستان آیا۔ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں اس بارے میں خوب بحث ہوئی۔ جب نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک نے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے اعلان کیا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ حل کرنا ان کی پہلی ترجیح ہو گی۔ صوبائی حکومت کی کوششوں سے خضدار کے قریب دائیں بازو کے بلوچ انتہاپسندوں کے ایک کیمپ کو خالی کرایا گیا جہاں سے کچھ مسخ شدہ لاشیں ملیں تھیں۔

مسخ شدہ لاشیں ملنے کے معاملے کی تحقیقات کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل ٹریبونل قائم ہوا، سیاسی کارکنوں کے اغواء اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کے واقعات میں کمی آئی۔ مگر اس ٹریبونل کی رپورٹ مایوس کن تھی۔ پاکستان میں قومی معاملات پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کا معاملہ بلوچستان کی قومی خودمختاری کے سوال سے منسلک ہے۔ پاکستان کے آئین میں بلوچستان کو خصوصی حیثیت دے کر ہی اس مسئلے کا جامع حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔

گزشتہ برس ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں عورتوں اور بچوں نے پہلے کوئٹہ سے لے کر کراچی تک پیدل مارچ کیا اور پھر یہ لانگ مارچ کراچی سے اسلام آباد روانہ ہوا۔ جس کی وجہ سے پورے ملک میں لاپتہ افراد کے معاملے پر خاصی بحث ہوئی۔ سپریم کورٹ کے حکم پر سینئر جج جاوید اقبال پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن قائم ہوا۔ اس ٹریبونل کی کوششوں سے لاپتہ افراد ہونے والے کچھ کارکن اپنے گھروں کو پہنچنے میں کامیاب ہوئے مگر باقی کارکن زندگی کے بدترین ٹارچر کا شکار ہوتے رہے۔

بلوچستان کی سیاسی حکومت صوبے میں جنگجو گروہوں سے بات چیت اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے مسلسل کوششیں کر رہی ہے۔

ڈاکٹر عبدالمالک نے لندن، سوئٹزرلینڈ اور یورپ سمیت کئی ممالک میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے رہنماؤں سے بات چیت کی ہے اور انھیں ملک واپس آنے پر آماد ہ کرنے اور جمہوری دھارے میں شامل کرنی کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک کی ان کوششوں کی وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت بھی حمایت کر رہی ہے۔ تاہم بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگانے والے انتہاپسند پرامن جمہوری جدوجہد میں شامل ہونے کو تیار نہیں ہیں، جس بناء پر انتہاپسندانہ رویوں کی بناء پر بلوچستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ حل نہیں ہو رہا ہے۔
Load Next Story